• 18 مئی, 2024

قرآن میں تمام سابقہ انبیاء کی اچھی باتیں جمع کردی ہیں

قرآن میں تمام سابقہ انبیاء کی اچھی باتیں جمع کردی ہیں
سرزمین کابل تو خدا کی نظر سے گر گئی ہے

سوال: (میرا نام جونئیر ہے اور میں نے اپنا مسلمان نام جنید اپنایا ہے) پیارے حضور !کئی نو مبائع ایسے ہیں جو مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ جن کا وجود ہزاروں سالوں سے ہے۔ میں سمؤان ثقافت سے تعلق رکھتا ہوں۔ ہمیں اپنے آباؤاجداد کی روایات، طور طریقے اور تہواروں کے متعلق کیا رائے رکھنی چاہئے؟ کیا ہمیں اپنے ماضی اور پچھلی تاریخ کا اعتراف کر کے اسے ماننا چاہئے یا کیا ہمیں اپنے سے پہلوں کی طرز زندگی سے دوری اختیار کر کے ممتاز رہنا چاہئے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’دیکھیں! ہم بنیادی طور پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم اور ملک میں انبیاء بھیجے اور سب ایک ہی تعلیم لے کر آئے۔یعنی یہ کہ بنی نوع انسان اپنے خالق کے آگے جھکیں اور اس کے حقوق ادا کریں۔ان انبیاء نے ہمیں اچھے اخلاق بھی سکھائے۔ یہ بات ہر مذہب میں مشترک طور پر پائی جاتی ہے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اہل کتاب کو فرماتا ہےکہ اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تو انہیں کہہ دے کہ ان باتوں کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہیں اور ان باتوں میں جو سب سے اہم بات ہے وہ واحد اور قادر مطلق خدا کی عبادت کرنا ہے۔ہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ اگرچہ دنیا میں مختلف قبائل اور قومیں ہیں لیکن ان سب کی تعلیم و تربیت ان کے انبیاء نے کی۔ہر مذہب کی اصل اور بنیادی تعلیم یہی تھی کہ وہ اپنے لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچائیں جو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ یعنی اپنے حقیقی خالق کے آگے جھکیں۔نیز اچھے اخلاق کا مظاہرہ کریں اور ایک دوسرے کی عزت و تکریم کریں۔یہ باتیں مشترک ہیں۔پھر اس کے علاوہ بعض مخصوص روایات ہیں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ تمام سابقہ انبیاء کی اچھی باتیں اس (قرآن) میں جمع کر دی گئی ہیں۔ قرآن کریم کی نئی تعلیمات کے علاوہ پرانی تعلیمات بھی موجود ہیں،جو سابقہ انبیاء لائے اور جو انہوں نے مختلف قوموں کو سکھائیں۔اب آپ کا سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنی روایات کی پیروی کریں؟ ایک بنیادی اصول آپ ضرور یاد رکھیں کہ کوئی بھی روایت جو اللہ تعالیٰ کی توحیداور غیر مطلق ہونے کا انکار کرے اسے لازماً چھوڑ دیا جائےاس کے علاوہ کچھ کلچر کی روایات ہوتی ہیں۔جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔وہ آپ کو روزانہ پنجوقتہ نمازوں کی ادائیگی سے نہیں روکتیں، نماز سے نہیں روکتیں، روزہ رکھنے سے، قرآن کریم پڑھنے سے، عمدہ اخلاق دکھانے سے نہیں روکتیں۔پس اگر وہ آپ کو ان باتوں کے کرنے سے نہیں روکتیں تو پھر اپ ان روایات پر عمل کر سکتے ہیں۔اس کے علاوہ اگر کوئی ایسی روایت ہو جو اسلامی تعلیمات سے متصادم ہو تو آپ کو اس سے رکنا ہو گا۔اسلام عالمی مذہب ہے اور دنیا بھر سے لوگوں نے اسلام قبول کیاہے۔اور اب بھی لوگ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ ہر ملک، ہر لوگ اور ہر قبیلہ کی مختلف روایات ہیں۔ وہ اپنی روایات پر عمل کر سکتے ہیں جب تک وہ اسلام کی بنیادی تعلیمات سے متصادم نہ ہوں۔ آپ ایسا کر سکتے ہیں۔ چنانچہ شادی بیاہ کے موقع پر مختلف قبائل کے مختلف رسم و رواج ہیں۔ آپ انہیں اد اکر سکتے ہیں اگر وہ اسلامی تعلیمات سے متصادم نہ ہوں، اگر وہ خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا انکار کرنے والی نہ ہوں تو پھر آپ ایسا کر سکتے ہیں۔ چنانچہ جب بھی آپ کوئی عمل کر رہے ہوں تو اللہ تعالیٰ کا تقدس ہمیشہ قائم رہنا چاہئے۔ یہ بنیادی امر ہے۔‘‘

سوال: ایک خادم نے سوال کیا کہ ’’پیارے حضور !ہم افغانستان سے یہاں آئے ہیں۔ آپ کی نظر میں افغانستان میں احمدیت کا کیا مستقبل ہے؟‘‘

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’آپ آ گئے۔ باقی بھی چھوڑ کر آ رہے ہیں، تو مستقبل کیا ہونا ہے؟ جو احمدی تھے وہ چھوڑ کر آگئے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے جو صاحبزادہ عبداللطیف شہیدؓ کی شہادت پر کہا تھا کہ ’’سر زمین کابل تو خدا کی نظر سے گِر گئی‘‘ تو وہ تو اُس وقت تک گِری رہے گی جب تک وہاں احمدی نہیں پیدا ہوتے۔ جب سارے احمدی وہاں سے چھوڑ کر آجائیں گے تو وہ اور گِر جائے گی۔ ہر قوم کے لیے جہاں ترقی ہوتی ہے وہاں زوال بھی ہوتا ہے۔ جب زوال کی ایک حد تک پہنچ جاتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ ان کی حالتوں کو بدلتا ہے۔ تو ہو سکتا ہے جب یہ لوگ زوال کی انتہا کو پہنچ جائیں، جب سارے احمدی وہاں سے نکل آئیں گے، جب تباہی کی انتہا ہوجائے گی، تو پھر ہو سکتا ہے ان میں سے کوئی ایسا شخص کھڑا ہو جو دوبارہ اس کو سنبھالنے لگے اور پھر مذہبی آزادیاں پیدا ہوں، پھر وہاں احمدیت کا نفوذ ہو، پھر آگے دوبارہ نئے سرے سے مستقبل بہتر ہو سکتا ہے۔ اس وقت تک تو کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا۔ آپ بھی یہاں بیٹھے ہیں۔ آپ دعا کرتے رہا کریں۔ آپ کو ہمدردی ہے نا؟ آپ کا ملک ہے۔‘‘

موصوف نے جواب دیا ’’جی بالکل۔‘‘

حضور انور نے فرمایا ’’بس پھر اس کے لیے آپ سے زیادہ کون دعا کر سکتا ہے؟‘‘

(روزنامہ الفضل آن لائن 15 ستمبر 2022ء)

پچھلا پڑھیں

اسلام کا فلسفہ اخلاق

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 نومبر 2022