• 29 اپریل, 2024

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز

ڈائری عابد خان سے ایک ورق
اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز

ایک نو مبائع اور ان کی فیملی سے ملاقات

ایک دن میری ملاقات ایک احمدی دوست مکرم داری عبد اللہ صاحب اور ان کی اہلیہ سے ہوئی۔ مکرم داری صاحب کا تعلق دراصل کوسووو سے تھا اور عین جوانی میں اپنی والدہ کے ساتھ 1993ء میں احمدیت قبول کی تھی۔ ان کی اہلیہ مکرمہ صباح صاحبہ کا تعلق پاکستان سے تھا۔

مکرم داری صاحب نے خلافت کے بارے میں اپنے پہلے تجربہ کے بعد بتایا:
’’جب میں پندرہ سال کا تھا تو میری والدہ نے مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے ملوانے لے کر گئی تھیں۔ میں ایک نوجوان اور سیدھا سادہ لڑکا تھا اس لئے میں نے اس ملاقات کی اہمیت کو نہ سمجھا اور مجھے یاد ہے کہ اس ملاقات کےبارے میں میرا خیال تھا کہ یہ کوئی خاص ملاقات نہ تھی۔ تاہم جب حضور حمہ اللہ تعالیٰ کمرے میں داخل ہو ئے اور میں نے آپؒ کو دیکھا اور آپ کی آواز کو سنا تو میں کانپنے لگا اور مجھے ایسا لگا جیسے میں گر پڑوں گا۔ آپ کی موجودگی اور محبت کے ادراک کے حصول کے لئے کوئی چیز مجھے تیار نہ کر سکتی تھی۔ اس دن نے میری زندگی یکسر بدل ڈالی اور میری بعینہ یہی حالت آج کچھ دیر قبل اس وقت تھی جب میری ملاقات حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ہوئی۔‘‘

ان کی اہلیہ مکرمہ صباح صاحبہ نے حضور انور کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کیا ا ور اس اظہار کے دوران ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ ان کے شوہر نے ان کو تسلی دی اور ایک ٹشو پیپر ان کو تھما یا تاکہ وہ اپنے آنسو پونچھ سکیں۔

اپنے جذبات کو قابو میں نہ رکھ سکتے ہوئے انہوں نے مجھے بتایا کہ
’’میں رو رہی ہوں کیونکہ میں چاہتی ہوں کہ ہر دن ایسا ہی دن ہو اور ہر دن ہم حضور انور سے ملاقات کر سکیں۔‘‘

یہ دونوں میاں بیوی نہایت صاف گو تھے اور مختلف backgrounds سے تعلق رکھنے کی وجہ سے جن مشکلات کا سامنا انہیں ہوا ان کا بیان بھی کیا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ ان واقعات کو میں اپنی ڈائری میں درج کروں تاکہ حضور انور کی دعائیں انہیں مل سکیں۔

مکرمہ صباح صاحبہ نے مزید بتایا کہ ’’میں حضور انور سے خاص دعاؤں کی درخواست کرتی ہوں کہ میرے شوہر کا جملہ خاندان احمدیت کی سچائی کو قبول کرلے اور اللہ تعالیٰ ان کی پریشانیاں اور مشکلات ختم کرے۔‘‘

مکرم داری صاحب نے بھی حضور انور سے دعا کی درخواست کی کہ ان دونوں خاندانوں کے آپسی تعلقات میں بہتری آئے اور مختلف رسوم و رواج سے ہونے کی وجہ سے ان میں باہمی رواداری پیدا ہو سکے۔

ان کے جاتے ہی مجھے خیال آیا کہ کس طرح یہ دونوں افراد بالکل مختلف backgrounds اور قو میت سے ہیں لیکن محض خلافت اور جماعت کی محبت میں اکٹھے ہوئے ہیں۔ یہ ایک مثال تھی کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت لوگوں کو ایک دوسرے کی قریب لا رہی ہے اور خلافت کے ہاتھ پر انہیں اکٹھا کر رہی ہے۔

ایک تحفہ کے بارے میں حضور انور کی راہنمائی

ان دنوںمیں ہمارے قافلہ کے ایک دوست نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا اور ایک ٹائی بطور تحفہ پیش کی۔ میں نے ان کو عرض کی کہ اس تحفہ کی کوئی ضرورت نہیں لیکن انہوں نے مجبور کیا تو میں نے قبول کرلیا اور ان کا شکریہ ادا کیا۔ تاہم اگلے روز مجھے کافی بے چینی ہوئی کہ آیا حضور انور کے دورہ کے دوران ایسا تحفہ قبول کرنا درست ہے بھی یا نہیں۔

یہی بے چینی بڑھتی جارہی تھی تو جمعرات کے دن میں نے حضور انور کی خدمت میں اس تحفہ کی بابت عرض کیا نیز عرض کی کہ اگر حضور انور پسند فرمائیں تو میں اسے واپس کردوں۔ مجھے یہ بات پیش کرنے میں شرم محسوس ہو رہی تھی کیونکہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جلسہ سالانہ جرمنی کی تیاری فرما رہے تھے اور میں ایک معمولی ذاتی معاملے کی بابت سوال پیش کر رہا تھا۔

تاہم حضور انور کی شفقت ایسی ہے کہ آپ نے اس سوال کا برا نہ منایا اور اسلامی تعلیمات کی رو سے اس پریشانی کا ازالہ فرما دیا۔ حضور انور نے فرمایا ’’آنحضرت ﷺ نے ہمیں سکھایا ہے کہ اگر کوئی تحفہ پیش کرے تو اسے قبول کرنا چاہئے اور آپ ﷺ نے سکھایا ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق اس تحفہ کے وصول کنندہ کو ایک تحفہ جواب میں پیش بھی کرنا چاہئے‘‘ نیز فرمایا ’’کبھی بھی تحفہ لینے کی خواہش کا اظہار نہیں کرنا چاہئے یا کوئی چیز دوسروں سے نہ مانگنی چاہئے لیکن اگر کوئی اپنی خوشی سے خود تحفہ پیش کرے تو اسے اللہ کا فضل سمجھنا چاہئے۔‘‘

حضور انور کی راہنمائی نے فوری طور پر میرے ذہن کو پر سکون کر دیا اور یوں وہ ٹائی میں نے جلسہ کے پہلے دن زیب تن کی۔

ایک نہایت جذباتی ملاقات کا مشاہدہ

3؍جون بروز بدھ بعد نماز مغرب و عشاء میں نے دیکھا کہ ایک فیملی کے چند افراد مسجد کی گیلری میں کھڑے ہیں۔ جس دوران حضور انور بیت السبوح کی لفٹ کی طرف تشریف لے جا رہے تھے مکرم منیر جاوید صاحب نے آپ کو اس فیملی کا تعارف کروایا۔

ایک سیکیورٹی گارڈ نے بتایا کہ یہ ماسٹر عبد القدوس صاحب شہید کی فیملی ہے اور ان کے بعض دوسرے رشتہ دار بھی ہیں۔ آپ کی شہادت مارچ 2012 میں ہوئی تھی۔ آپ کو نا جائز طور پر گرفتار کیا گیا اور ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس بے رحمی سے مارا گیا کہ آپ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جامِ شہادت نوش کر گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

6؍اپریل 2012ء کو خطبہ جمعہ میں حضور انور نے ماسٹر قدوس صاحب شہید کی اعلیٰ قربانی کو سراہتے ہوئے فرمایا ’’اے قدوس! ہم تجھے سلام پیش کرتے ہیں کہ تو نے ہر طرح کی تکلیف اور تشدد کو برداشت کیا لیکن جماعت کی عزت اور نام پر کوئی حرف نہیں آنے دیا۔‘‘

اب مکرم ماسٹر قدوس صاحب کی شہادت کے بعد آپ کی بیوہ اور بچے پہلی مرتبہ حضور انور سے ملاقات کی سعادت حاصل کر رہے تھے۔ یہ ایک نہایت جذباتی منظر تھا جہاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے شہید کے ہر ایک رشتہ دار سے نہایت شفقت اور محبت سے ملاقات فرمائی اور ان کی احوال پرسی فرمائی۔ آپ نے مستقبل کے بارے میں ان کی راہنمائی بھی فرمائی۔

حضور انور نے مکرم منیر جاوید صاحب کو ہدایت فرمائی کہ جائزہ لیں کہ اس فیملی کی رہائش کے جملہ انتظامات مکمل ہوں۔ بعد ازاں حضور انور نے مکرم منیر جاوید صاحب سے ان کی رہائش اور سہولت کے بارے میں استفسار فرمایا نیز ہدایت فرمائی کہ جلسہ سالانہ کے بعد آپ اس فیملی کو دوبارہ ملنا پسند فرمائیں گے۔

ماسٹر قدوس احمد شہید کی فیملی کے جذبات

حضور انور کے رہائش گاہ واپس تشریف لانے کے بعد میں ماسٹر عبدالقدوس صاحب شہید کی فیملی کو ملنے کے لئے گیا۔ یہ ایک نہایت جذباتی اور ایمان افروز ملاقات ثابت ہوئی۔

مکرم ماسٹر قدوس صاحب شہید کی بیوہ (مکرمہ روبینہ قدوس صاحبہ) نے بتایا کہ
’’حضور انور کو دیکھنے سے مجھے اطمینان اور دلی تسکین ملی ہے۔ آپ کے خوبصورت الفاظ کو سننے سے مجھے اطمینان حاصل ہوا۔‘‘

میں نے ان سے محترم ماسٹر قدوس صاحب شہیدکے بارے میں ان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ
’’ہر روز میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ میرے شوہر کے جنت میں درجات بلند فرما کیونکہ جب سے ہماری شادی ہوئی انہوں نے ہمارا بہت ہی اچھے طریق پر خیال رکھا۔ یہ عجیب بات تھی لیکن اپنی زندگی میں وہ اکثر مجھے کہتے تھے کہ ان کے جانے کےبعد میں انہیں یاد کروں گی۔ یقیناً میں روز انہیں یاد کرتی ہوں۔‘‘

محترم ماسٹر قدوس صاحب کے سب سے بڑے بیٹے مکرم عبد السلام جن کی عمر 18 سال تھی، انہوں نے حضور انور کو ملنے کے بعد بتایا کہ ’’جب میں حضور انور کو ملا تو ایسا لگا کہ گزشتہ چند سالوں کی تکلیف اور غم ایک لحظہ میں ہی غائب ہو گیاہے۔ میں الفاظ میں اظہار نہیں کر سکتا کہ میرے کیا جذبات ہیں یا یہ کہ میں خود کو کتنا خوش قسمت محسوس کر رہا ہوں۔‘‘

مکرم عبد السلام صاحب نے اپنے والد کے مثالی نمونہ کے بارے میں بتایا کہ
’’میرے والد صاحب نہایت نرم خُو تھے لیکن مجھے یاد ہے کہ جب میں 13 یا 14 سال کا تھا تو میں نے اطفال کی ایک ڈیوٹی تھکاوٹ کی وجہ سے نہیں کر سکا۔ جب میرے والد کو پتا لگا تو انہیں مجھ پر بہت غصہ آیا اور کہنے لگے تمہیں کبھی بھی جماعت کی خدمت کو اضافی نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ ایک فرض سمجھ کر ادا کرنا چاہئے۔‘‘

مکرم عبد السلام صاحب نے مزید بتایا کہ
’’اگر ایک دن اللہ تعالیٰ نے مجھے میرے والد کی طرح شہادت کے لئے چن لیا اور میرا خون جماعت کی خاطر بہا تو میں خود کو بہت خوش نصیب شمار کروں گا۔ میں دعا کرتا ہوں کہ میں اپنے والد صاحب کی طرح بہادری اور جرات کا مظاہرہ کر سکوں۔‘‘

محترم ماسٹر قدوس صاحب شہید کے چھوٹے بیٹے عبد الباسط جن کی عمر 15 سال تھی، انہوں نے بھی حضور انور کے پیار کے بارے میں بتایا کہ حضور انور کے پیار نے ان کے والد صاحب شہید کی شہادت کی تکلیف کو مٹا کر خوشی سے بھر دیا ہے۔

بستروں کی کمی کی بابت حضور انور کی راہنمائی

ایک دوسرا مسئلہ جو اس شام کو در پیش تھا وہ بستروں کاتھا۔ جماعت نے گزشتہ سال سے زیادہ میٹرس کا آڈر کیا تھا لیکن جمعرات کی شام تک وہ کم پڑ گئے کیونکہ متوقع احباب کی تعداد توقع سے بہت زیادہ بڑھ گئی تھی۔

حضور انور کی خدمت میں یہ بات عرض کی گئی تو اس شام حضور انور نے اپنے جلسہ کے کارکنان سے خطاب میں اس کا تذکرہ فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا کہ خواتین اور بچوں کو پہلے بستر مہیا کئے جائیں۔ حضور انور نے یہ بھی فرمایا کہ اگر مردوں کو بغیر بستروں کے فرش پر بھی سونا پڑے تو انہیں اس کے لئے تیار رہنا چاہئے۔

آپ نے مزید فرمایا کہ آپ نے صدر صاحبہ لجنہ کو یہ ہدایت فرمائی تھی کہ اگر خواتین کی طرف بستروں کی کمی ہو تو صدر صاحبہ لجنہ اور ان کی عاملہ کی ممبرات و سب سے پہلے اپنے بستروں کو دوسروں کی خاطر قربان کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ حضور انور نے فرمایا کہ یہی ہدایات مرد احباب کے لئے بھی ہیں۔

ایمرجنسی بستروں کو کچھ انتظام کیا گیا تھا یوں کافی حد تک اس کمی کو پورا کر دیا گیا تاہم بعض خدام جمعرات کی رات کو بغیر بستروں کے سوئے تھے۔ محترم صدر صاحب خدام الاحمدیہ نے بعد میں مجھے بتایا کہ حضور انور کی ہدایات کی روشنی میں وہ اور ان کی عاملہ اس رات بغیر میٹرسز کے سوئے تھے اور حضور انور کی ہدایات پر عمل کرنا ان کے لئے بہت بڑی سعادت تھی۔ الحمد للہ اگلے روز جماعت کو مزید بستروں کا انتظام کرنے کی توفیق ملی اور جلسہ کے باقی ایام میں یہ کمی نہ ہوئی۔

بہت سے لوگ (نعوذ باللہ) اسلام پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ وہ عورتوں کی تعظیم نہیں کرتا۔ تاہم ہمارے خلیفہ نے ہدایات فرمائیں کہ اگر سب مردوں کو فرش پر بھی سونا پڑے تو پھر بھی عورتوں اور چھوٹے بچوں کو ترجیحی بنیادوں پر بستر فراہم کئے جائیں۔

مزید براں یہ کہ حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ جماعتی عہدیداران کو اگر بستروں اور اپنے آرام کے حوالہ سے قربانی بھی دینی پڑے تو انہیں صف اول میں کھڑے ہونا چاہئے۔ اس لئے اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ عہدیداران کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتاہے تو اسے حضور انور کی ہدایات پر غور کرنا چاہئے کہ آپ نے فرمایا کہ عہدیداران کو دوسرو ں کی خاطر اپنے آرام کو قربان کرد ینا چاہئے۔ پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ مجلس خدام الاحمدیہ کے عہدیداران نے خلیفہ وقت کی ہدایات پر عمل پیرا ہو نے میں فخر محسوس کیا۔

(حضور انور کا دورہ جرمنی مئی – جون 2015ء حصہ دوم از ڈائری مکرم عابد خان)

(مترجم: ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

اسلام کا فلسفہ اخلاق

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 نومبر 2022