• 14 مئی, 2024

آج کی دعا

رَبِّ قَدۡ اٰتَیۡتَنِیۡ مِنَ الۡمُلۡکِ وَ عَلَّمۡتَنِیۡ مِنۡ تَاۡوِیۡلِ الۡاَحَادِیۡثِ ۚ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۟ اَنۡتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ۚ تَوَفَّنِیۡ مُسۡلِمًا وَّ اَلۡحِقۡنِیۡ بِالصّٰلِحِیۡنَ

(سورۃ یوسف 102)

ترجمہ: اے میرے ربّ! تو نے مجھے امورِ سلطنت میں سے حصہ دیا اور باتوں کی اصلیّت سمجھنے کا علم بخشا۔ اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے! تُو دنیا اور آخرت میں میرا دوست ہے۔ مجھے فرمانبردار ہونے کی حالت میں وفات دے اور مجھے صالحین کے زُمرہ میں شامل کر۔
یہ حضرت یوسف ؑ کی حکومت و علم ملنے پر شکریہ اور انجام بخیر کی پیاری دعا ہے۔

ہمارے پیارےامام سیّدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایَّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’جب اللہ تعالیٰ ہم پر احسان فرماتے ہوئے اپنے انعامات سے نوازتا ہے تو اس پر متکبر ہونے کی بجائے، فخر کرنے کی بجائے اللہ کے حضور جھکنا چاہئے۔ ۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ایک نیک بندے کی مثال دیتے ہوئے ایک دعا سکھاتا ہے کہ ان چیزوں پر فخر کرنے کی بجائے اللہ کے آگے جھکو گے تو اس کے فضلوں کے وارث بنو گے۔ یہ سورۃ یوسف کی آیت ہے۔ فرمایا رَبِّ قَدۡ اٰتَیۡتَنِیۡ مِنَ الۡمُلۡکِ وَ عَلَّمۡتَنِیۡ مِنۡ تَاۡوِیۡلِ الۡاَحَادِیۡثِ ۚ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۟ اَنۡتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ۚ تَوَفَّنِیۡ مُسۡلِمًا وَّ اَلۡحِقۡنِیۡ بِالصّٰلِحِیۡنَ (یوسف:102) اے میرے رب توُ نے مجھے امور سلطنت میں سے حصہ دیا اور باتوں کی اصلیت سمجھنے کا علم بخشا۔ اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے تو دنیا و آخرت میں میرا دوست ہے، مجھے فرمانبردار ہونے کی حالت میں وفات دے اور مجھے صالحین کے زمرے میں شمار کر۔

یعنی یہ جو سب نعمتیں مجھے عطا کی ہیں تیرے اس سلوک کی آئینہ دار ہیں کہ میرے تیری طرف صدق اور سچائی سے بڑھنے کو توُ نے قبول کیا اور مجھے یہ مقام عطا فرمایا اور مَیں امید کرتا ہوں کہ جس طرح دنیا میں یہ دوستی کے نظارے دکھائے آخرت میں بھی تو میرا دوست ہو گا۔ اسلئے مَیں دعا کرتا ہوں کہ مجھے کامل فرمانبرداروں کی حالت میں وفات دینا تاکہ آخرت میں بھی میرا ان لوگوں کے ساتھ جوڑ ہو جو صالحین ہیں۔ تیرا قرب پانے والے ہیں۔ جنکے مقام ہر آن، ہر وقت، ہر لمحہ جنت میں بلند ہوتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا صرف ہمیں ایک واقعہ کی صورت میں بیان نہیں فرمائی بلکہ اسلئے بیان کی ہے کہ اس پر عمل کرنے کیلئے مومن کو ہر وقت تیار رہنا چاہئے تاکہ نیک اعمال کرکے وہ بھی صالحین کے گروہ میں شمار ہو سکے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 22؍ ستمبر 2006ء)

(مرسلہ: قدسیہ محمود سردار)

پچھلا پڑھیں

لغویات، گناہ بےلذّت ہے

اگلا پڑھیں

وہ اعمال کیا ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی جنتوں کے وارث ہو گے؟