• 14 مئی, 2025

ایڈیٹر کے نام خط

محمد عمر تیما پوری ۔ کوآڈینیٹر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑ ھ انڈیا لکھتے ہیں:
آپ کا اداریہ ’’جماعت احمدیہ کی ترقی کے لئے تکبر اور غرور کی بجائے عاجزی و انکساری اپنانے کی اہمیت‘‘ موجودہ تناظر میں اس قدر اہم اور ضروری تھا کہ بہت سوں کی آنکھیں کھل گئیں ۔جو غفلت میں تھے وہ بیدار ہوئے ۔خود ہی اپنا محاسبہ کرنے لگے ۔اپنے اداریہ میں قرآن کریم ،احادیث شریف ،اقتباسات حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ارشادات حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ کے حوالہ جات سے جو باتیں کہی ہیں وہ سیدھے دلوں میں اتر جاتی ہیں ۔انسان کو جھنجھوڑ دیتی ہیں ۔ لاریب ’’من مدحک بما لیس فیک فقد زمک‘‘

ہمارے ملک بھارت کے ایک شہر لکھنو میں جو اتر پردیش میں واقع ہے ۔یہ شیعہ فرقہ کا گڑھ مانا جاتا ہے ایک بڑے شیعہ عالم دین سے گفتگو ہوئی ۔موضوع تھا خلفائے ثلاثہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ ،حضرت عمر بن خطابؓ اور حضرت عثمان غنی ؓ برحق تھے یا نہیں ۔احمدی عالم نے کہا حضرت علیؓ نے بھی تو خلفائے ثلاثہ کی بیعت کر لی تھی ۔شیعہ عالم نے جواب میں کہا وہ صرف ظاہر میں تھا دل سے بیعت نہیں کی تھی ۔اس پر احمدی عالم نے کہا دیکھئے قرآن کریم میں صرف تین گروہوں کا ذکر ہوا ہے ۔مومن ،منافق اور کافر ۔آپ حضرت علیؓ کو کس خانہ میں شمار کرتے ہیں۔ وہ شیعہ عالم بزرگ تھے اور بہت آرام دہ کرسی پر لیٹے ہوئے تھے جھٹ اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے یہ آپ نے کیا کہا ۔احمدی عالم نے جواب دیا میں تو حضرت علی ؓ کو مومن کے خانہ میں شمار کرتا ہوں ۔اس سے ہٹ کر میں خیال بھی نہیں کرتا ۔یہ آپ جانیں کہ آپ کس خانہ میں شمار کرتے ہیں ۔اس پر اس بزرگ شیعہ عالم نے کہا ۔میں اقرار کرتا ہوں کہ آج کے بعد میں خلفائے ثلاثہ کی کبھی تکذیب نہیں کروں گا ۔ان کو مانوں یا نہ مانوں یہ الگ بات ہے لیکن مخالفت نہیں کروں گا ۔یہی صورت حال آپ کےا داریہ نے پیدا کردی ہے ۔مانیں یا نہ مانیں لیکن حقائق سے انکار اور مخالفت نہیں کر سکتے۔ ’’اب بھی نہ سمجھو گے تو سمجھائے گا خدا‘‘۔ جزاکم اللّٰہ خیرا ۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 دسمبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ