ہر بات تیری دل میں اترتی رہی ہمیش
الفضل تیری منزلت بڑھتی رہی ہمیش
قرآن کا ہو علم کہ اُسوۂ رسول کا
ہر تربیت کی بات سے سجتی رہی ہمیش
خطبہ امامِ وقت کا، مہدی کی بات ہو
تیری جبینِ ناز سنورتی رہی ہمیش
خواتینِ خاندان کے زیور تری بِنا
محمود کے خلوص سے پھلتی رہی ہمیش
علمی حکایتیں ہیں اور دیں کی روایتیں
بس پاک صاف رستے پہ چلتی رہی ہمیش
پھونکوں سے یہ چراغ بجھیں گے نہ حشر تک
یہ شمع آندھیوں میں بھی جلتی رہی ہمیش
سالار پہلا حضرتِ فضلِ عمر ہی ہیں
جس کے قلم کی تیغ تو چلتی رہی ہمیش
دُکھ سُکھ میں احمدی کے تو ہر دم ہے پیش پیش
صبح و مسا دعا تری ملتی رہی ہمیش
حافظؔ! یہ مائدہ ہمیں سیراب کر گیا
یاں روح کی پیاس ہی بجھتی رہی ہمیش
(ابنِ کریم)
(روزنامہ الفضل جوبلی نمبر 2013ء)
(مرسلہ: ابو سدید)