الفضل کی اہمیت
یہ بحر علم ہے اس کی تہوں تک کون جائے گا
زمانے نے ابھی دیکھے کنارے الفضل کے ہیں
عزیزان من! کسی بھی اخبار کا قومی زندگی میں وہی کردار ہوتا ہے جو اہل علم کے ہاں علم کا کردار ہوتا ہے۔
اہل بصیرت صبح کے ناشتے سے پہلے Bed Tea کی نسبت اخبار کو دیکھنے پڑھنے اور معاشرہ اور دنیا کے حالات سے آگاہ رہنے کو ترجیح دینا پسند کرتے ہیں۔
عزیز دوستو!
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَالَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ؕ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ
(الزمر: 10)
ترجمہ: تو کہہ دے کیا علم والے لوگ اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟ نصیحت تو صرف عقل مند لوگ حاصل کیا کرتے ہیں۔
آئیے! اب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان کی طرف رخ کرتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن حارث زبیدیؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا :
جوشخص اپنے اندر تَفَقُہ فِی الدین پیدا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے تمام کاموں کا خود متکفل ہو جاتا ہے اور اس کے لئے ایسی ایسی جگہوں سے رزق کے سامان مہیا کرتا ہے جس کا اسے وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔
(مسند امام اعظم جلد1 صفحہ25)
علم کی افادیت اور اہمیت کے حوالے سے حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’انسان ہر روز علم کا محتاج ہے۔ سچائی انسان کے قلب پر علم کے ذریعہ سے ہی اثر کرتی ہے۔ پس جو علم نہیں سیکھتا اس پر جہالت آتی ہے اور دل سیاہ ہو جاتا ہے جس سے انسان اچھے اور بُرے، مُفید اور مضر، نیک اور بد حق و باطل میں تمیز نہیں کر سکتا۔‘‘
(خطبات نور صفحہ331)
؎ہر اک صفحے پہ الفت ہے، محبت ہے، عنایت ہے
ورق کتنے ہی نظروں سے گزارے الفضل کے ہیں
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’یاد رکھنا چاہئے کہ جس درخت کو پانی نہ ملتا ہے وہ خشک ہو جاتا ہے اور اس زمانہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے اخبار پانی کا رنگ رکھتے ہیں اور اس لئے ان کا مطالعہ ضروری ہے۔
(انوارالعلوم جلد16 صفحہ245)
نیز فرمایا:
’’اخبار قوم کی زندگی کی علامت ہوتا ہے۔ جو قوم زندہ رہنا چاہتی ہے اسے اخبار کو زندہ رکھنا چاہئے اور اپنے اخبار کے مُطالعہ کی عادت ڈالنی چاہئے۔
(روزنامہ الفضل دسمبر 1954ء)
پھر فرمایا:
’’ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں کی جماعت ہے مگر اخبار الفضل‘‘ کی اشاعت پندرہ سولہ سو کے درمیان رہتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہزار ہا آدمی ہماری جماعت میں ایسے ہیں جن کے کانوں تک میری آواز نہیں پہنچتی۔‘‘
(خطبات محمود جلد16 صفحہ27)
فرمایا: ’’اے میرے مولی! … لوگوں کے دلوں میں الہام کر کہ وہ الفضل سے فائدہ اٹھائیں اور اس کے فیض لاکھوں نہیں کروڑوں پر وسیع کر اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے اسے مفید بنا‘‘۔ آمین
(روزنامہ الفضل 18؍جون 1913ء)
نیز فرمایا:
’’الفضل، جسے میں نے اپنی بیوی کے زیورات فروخت کر کے حضرت ام الموٴمنین نے اپنی زمین فروخت کر کے اور برادرم مکرم نواب محمد علی خان صاحب حفظہ اللہ نے بھی کچھ نقد دے کر اور کچھ زمین فروخت کر کے ہفتہ وار جاری کیا تھا۔ ہفتہ وار سے سہ روزہ ہوا۔ سہ روزہ سے دو روزہ۔ اور اب روزنامہ شائع ہوتا ہے۔‘‘
(الفضل 8؍مارچ 1935ء)
نیز فرمایا:
’’متواتر اللہ تعالیٰ سے دعائیں کی ہیں کہ خدایا! یہ کام عبث نہ ہو۔ الفضل کے اجراء میں میرا وقت ضائع ہو نہ اسے روپیہ دے کر خریدنے والے اپنے روپے اور وقت کے قاتل ہوں کہ ہم دونوں اس سے فائدہ اٹھائیں اور مجھے امید ہے نہیں بلکہ یقین ہے کہ میری پُر درد دعائیں ضائع نہ ہوں گی۔‘‘
(الفضل 15؍اکتوبر 1913ء)
آپؓ مزید فرماتے ہیں :
’’میرے سامنے جب کوئی کہتا ہے کہ ’’الفضل‘‘ میں کوئی ایسی بات نہیں ہوتی جس کی وجہ سے اسے خریدا جائے تو میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ مجھے تو اس میں کئی باتیں نظر آجاتی ہیں آپ کا علم چونکہ مجھ سے زیادہ وسیع ہے اس لئے ممکن ہے کہ آپ کو اس میں کوئی بات نظر نہ آتی ہو۔‘‘
(انوار العلوم جلد14 صفحہ546)
؎بہت ہیرے، بہت موتی، بہت یاقوت لائے ہیں
سفینے ساحلوں پر جو اتارے الفضل کے ہیں
حضرت میر محمد اسحاقؓ ہر طبقہ کے احمدیوں کو بزور دل اور بآواز بلند مخاطب کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
’’الفضل کو جو بدر کا جانشین ہے وہی پوزیشن دیں جو حضور نے بدر کیلئے تجویز فرمائی تھی۔ یعنی اسے حضرت مسیح موعود کا بازو سمجھیں … حضرت مسیح موعود کے اس بازو کو ایسا تندرست اور قوی اور اتنا مضبوط کر دیں کہ اس کا ایک ایک نمبر اکیلا ہی دنیا کو فتح کرنے والا ہو۔ اس لئے اے احمدی عالمو، ادیبو، مُصَنِّفو، سیاستدانو، وجاہت والو، عہدیدارو، منصب جلیلہ پر فائز ہونے والو اور اے وکیلو، ڈاکٹر و، تاجر و، پیشہ ور صناعو اور مُوجدو یعنی مختلف کاموں کے اہلو اور ہاں میری طرح بعض نا اہلو الفضل کو حضرت مسیح موعود کا بازو سمجھ کر اسے مضبوط کرو اور اگر وہ کمزور ہونے لگے تو اپنے خون سے اسے قوی اور طاقت ور بناؤ نیز اسے حضرت مسیح موعود کا لہلہاتا چمن اور سرسبز باغ تصور کر کے اپنی قلموں کے پانی سے اس کی آبپاشی کرو کہ یہی مسیح موعود کی دینی لڑائی اور یہی مسیح موعود کی شیطان سے آخری جنگ اور یہی اس کا جہاد ہے۔‘‘
(الفضل 12؍مئی 1962ء)
؎عجب مسحور کن کالم، عدو بھی اب تو کہتے ہیں
مخالف ہیں مگر عاشق تمہارے الفضل کے ہیں
ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔ ’’حضرت مصلح موعودؓ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ الفضل جماعت کا اخبار ہے۔ لوگ وہ نہیں پڑھتے اور کہتے ہیں کہ اس میں کون کی نئی چیز ہوتی ہے، وہی پرانی باتیں ہیں۔ حضرت مصلح موعود نے جن کے بارے میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو بتایا تھا کہ وہ علومِ ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا وہ فرماتے ہیں کہ شائد ایسے پڑھے لکھوں کو یا جو اپنے زعم میں پڑھا لکھا سمجھتے ہیں کوئی نئی بات الفضل میں نظر نہ آتی ہو اور وہ شاید مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہوں لیکن مجھے تو الفضل میں کوئی نہ کوئی نئی بات ہمیشہ نظر آ جایا کرتی ہے۔‘‘
(خطاب برموقع سالانہ اجتماع انصاراللہ یوکے منعقدہ 4؍اکتوبر 2009ء)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو الفضل کا خریدار بننے اور اس کے مُطالعہ کی توفیق عطا فرمائے۔ امین
(اطہر حفیظ فراز)