• 9 مئی, 2024

مکرم عدالت خان شہید کی قبر سے روشنی

26؍نومبر کے الفضل میں دلچسپ و مفید واقعات و حکایات (قسط 8) میں ایک واقعہ مکرم عدالت خان شہید کے بارے میں درج ہے۔ جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی تقریر سے متأثر ہو کر جوش تبلیغ میں بغیر کسی زادِ راہ کے افغانستان کی طرف گئے مگر واپس بھیج دئے گئے پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے آپ کو چین کی طرف جانے کا ارشاد فرمایا۔ کشمیر تک پہنچے تھے کہ بیمار ہو گئے اس حالت میں بھی اعلائے کلمۂ حق کا حق ادا کرتے رہے۔ کئی افراد نے احمدیت قبول کی۔ غریب الوطنی میں جان جاں آفریں کے سپرد کردی۔ شہادت پر سر افراز ہوئے۔ الفضل میں یہ واقعہ پڑھتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ خاکسار کے والد صاحب مکرم میاں عبد الرحیم دیانت درویش قادیان نے اپنی یاد داشتوں میں ان کے بارے میں لکھا ہوا ہے۔ آپ وقف عارضی پر کشمیر کی طرف جایا کرتے تھے۔ وہاں مکرم عدالت خان شہید سے ملاقات ہوئی تھی۔ لکھتے ہیں:
’’میں دعوت الی اللہ کے لئے آسنور میں تھا ایک صاحب سے ملاقات ہوئی میں نےحال احوال پوچھا تو بتایا کہ میرا نام عدالت خان ہے حضورؓ کے خطبہ سے متاثر ہو کر پاپیادہ اللہ توکّل نکل کھڑے ہوئے ہیں ……جب دو سال بعد دوبارہ جموں گیا تو وہ نظر نہ آئے میں نے سمجھا روس جانے میں کامیاب ہو گئے ہوں گے۔ میں نے تبلیغی دورے کے بعد واپسی کا سفر جموں کی طرف سے کرنے کی بجائے حویلیاں، مظفر آباد کی طرف سے کیا۔ دوستوں نے تنبیہہ بھی کی یہ راستہ پُرخطر ہے۔ مگر مجھے دعوت الی اللہ، سیر اور دشوار گزار راستوں کا شوق تھا۔ سوپور، کپ درزہ مقدردن، ہچہ مرگ دیووالی وغیرہ کی طرف سے سفر کیا۔ ہر جگہ اور راستے میں اور سفر کے اَن گنت دلچسپ واقعات پیش آئے۔ ہچہ مرگ میں مجھے ایک مخلص احمدی دوست ملے جو سری نگر میں آشنا ہوئے تھے۔ میں نے عدالت خان صاحب کا پوچھا آپ نے بتایا کہ عدالت خان روس جانے کے لئے میرے پاس ٹھہرے تھے اتفاق سے بیمار ہو گئے ؏

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

بخار ٹائیفائڈ اور پھر نمونیہ ہو گیا جب دیکھ بھال اور علاج میری طاقت سے باہر ہو گیا تو میں نے اُنہیں مقدردن جماعت میں لے جانے کی تیاری کی وہاں بھی افاقہ نہ ہوا۔ ایک دن حالتِ یاس میں اُس مخلص نوجوان نے کہا کہ ایک طریقہ ہو سکتا ہے جس سے میں ایک سال اور زندہ رہ سکتا ہوں اور وہ یہ کہ کسی غیر احمدی کو میرے پاس لائیں وہ مجھ سے حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت پر مباہلہ کرے پھر خدا کی قسم میں ایک سال اور زندہ رہ سکتا ہوں… مگر ایسے غیر احمدی کا کیسے انتظام ہوتا؟ آخر ان کا وقتِ شہادت آ گیا۔ غریب الوطنی میں موت کو گلے لگایا اور یہیں اُن کو دفن کر دیا گیا۔

وہاں پر میں ایک دن حجام سے بال کٹوا رہا تھا تو اُس نے ایک بات سُنائی وہ غیر احمدی تھا کہنے لگا عدالت خان کا کیا کہنا میں گواہ ہوں کہ وہ شہید ہوا دیکھو وہ سامنے قبرستان ہے اور وہ میرا گھر ہے۔ میں ایک دن رات کو جاگا تو دیکھا قبرستان میں روشنی ہے میں نے خیال کیا کہ کوئی میت آئی ہو گی۔ دوسرے دن بھی قبرستان میں خاص طرح کی روشنی دیکھی پھر بھی میں نے یہی خیال کیا کہ تدفین ہو رہی ہو گی۔ تیسری رات بھی روشنی دیکھی تو میں ہمت کر کے اُٹھا قبرستان آیا تو دیکھا یہ روشنی عدالت خان کی قبر سے پھوٹ رہی تھی شعائیں بلند ہو رہی تھیں۔

اس کی یہ بات سن کر میں وہاں سے اُٹھا تو عدالت خان کی قبر پرجا کر دعا کی۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ اللہ تبارک تعالیٰ اپنی راہ میں مرنے والوں کو کیسے کیسے نور عطا فرماتا ہے۔ خدا درجات بلند فرمائے آمین۔‘‘

(زندہ درخت صفحہ134)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 دسمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی