• 25 اپریل, 2024

دعا جو قرب الٰہی کا ذریعہ ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر دعا جو قرب الٰہی کا ذریعہ ہے اس کے بارے میں آپؑ فرماتے ہیں کہ
’’دعا کی مثال ایک چشمۂ شیریں کی طرح ہے جس پر مومن بیٹھا ہوا ہے۔ وہ جب چاہے اس چشمہ سے اپنے آپ کو سیراب کر سکتا ہے جس طرح ایک مچھلی بغیر پانی کے زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح مومن کا پانی دعا ہے کہ جس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس دعا کا ٹھیک محل نماز ہے…‘‘ دعا کی جو صحیح جگہ ہے وہ نماز ہے۔ یہی حقیقت میں صحیح دعا ہو سکتی ہے۔) فرمایا کہ ’’… جس میں وہ راحت اور سرور مومن کو ملتا ہے۔ …‘‘ (نماز میں راحت اور سرور مومن کو ملتا ہے) ’’کہ جس کے مقابل ایک عیّاش کا کامل درجہ کا سرور جو اُسے کسی بدمعاشی میں میسر آسکتا ہے ہیچ ہے۔ بڑی بات جو دعا میں حاصل ہوتی ہے وہ قربِ الٰہی ہے۔ دُعا کے ذریعہ ہی انسان خدا تعالیٰ کے نزدیک ہو جاتا اور اسے اپنی طرف کھینچتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 4صفحہ 45۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس قرب الٰہی حاصل کرنے کے لئے نمازوں کا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے اور وہ حق تبھی ادا ہو گا جب اس کی ادائیگی باقاعدہ کی جائے اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس طرح کی جائے۔

پھر نمازوں اور دعاؤں کے معیار کی طرف توجہ دلاتے ہوئے مزید آپ فرماتے ہیں کہ
’’انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کا ایک درد ہونا چاہئے جس کی وجہ سے اس کے نزدیک وہ ایک قابل قدر شئے ہو جاوے گا۔ اگر یہ درد اس کے دل میں نہیں ہے اور صرف دنیا اور اس کے مافیہا کا ہی درد ہے تو آخر تھوڑی سی مہلت پاکر وہ ہلاک ہو جاوے گا۔ خدا تعالیٰ مہلت اس لیے دیتا ہے کہ وہ حلیم ہے لیکن جو اس کے حلم سے خود ہی فائدہ نہ اٹھاوے تو اُسے وہ کیا کرے۔ پس انسان کی سعادت اسی میں ہے کہ وہ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور تعلق بنائے رکھے۔ سب عبادتوں کا مرکز دل ہے۔ اگر عبادت تو بجالاتا ہے مگر دل خدا کی طرف رجوع نہیں ہے تو عبادت کیا کام آوے گی۔ اس لیے دل کا رجوعِ تام اس کی طرف ہونا ضروری ہے۔ …‘‘ (دل کا مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہونا ضروری ہے۔) ’’…اب دیکھو کہ ہزاروں مساجد ہیں۔ مگر سوائے اس کے کہ ان میں رسمی عبادت ہو اور کیا ہے؟ ایسے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت یہودیوں کی حالت تھی کہ رسم اور عادت کے طور پر عبادت کرتے تھے اور دل کا حقیقی میلان جو کہ عبادت کی رُوح ہے ہرگز نہ تھا۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے ان پر لعنت کی۔ پس اس وقت بھی جو لوگ پاکیز گیٔ قلب کی فکر نہیں کرتے تو اگر رسم و عادت کے طور پر وہ سینکڑوں ٹکریں مارتے ہیں ان کو کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ اعمال کے باغ کی سرسبزی پاکیزگیٔ قلب سے ہوتی ہے۔ اسی لئے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا (الشمس: 10۔ 11) کہ وہی بامراد ہو گا جو کہ اپنے قلب کو پاکیزہ کرتا ہے اور جو اُسے پاک نہ کرے گا بلکہ خاک میں ملا دیگا یعنی سفلی خواہشات کا اُسے مخزن بنا رکھے گا وہ نامراد رہے گا۔ اس بات سے ہمیں انکار نہیں ہے کہ خدا کی طرف آنے کے لئے ہزار ہا روکیں ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتیں تو آج صفحہ دُنیا پر نہ کوئی ہندو ہوتا نہ عیسائی۔ سب کے سب مسلمان نظر آتے لیکن ان روکوں کو دُور کرنا بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے۔ وہی توفیق عطا کرے تو انسان نیک و بد میں تمیز کر سکتا ہے۔ اس لئے آخر کار بات پھر اسی پر آٹھہرتی ہے کہ انسان اسی کی طرف رجوع کرے تا کہ قوّت اور طاقت دیوے۔‘‘

(ملفوظات جلد4صفحہ 222۔ 223۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر قرب الٰہی حاصل کرنے کے لئے توبہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’بخوبی یاد رکھو کہ گناہ ایسی زہر ہے جس کے کھانے سے انسان ہلاک ہو جاتا ہے اور نہ صرف ہلاک ہی ہوتا ہے بلکہ وہ خد اتعالیٰ کا قرب حاصل کرنے سے رہ جاتا ہے اور اس قابل نہیں ہوتا کہ یہ نعمت اس کو مل سکے۔ جس جس قدر گناہ میں مبتلا ہوتا ہے اسی اسی قدر خدا تعالیٰ سے دور ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ روشنی اور نور جو خداتعالیٰ کے قرب میں اسے ملنی تھی اس سے پرے ہٹتا جاتا ہے اور تاریکی میں پڑ کر ہر طرف سے آفتوں اور بلاؤں کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہانتک کہ سب سے زیادہ خطرناک دشمن شیطان اس پر اپنا قابو پا لیتا ہے اور اُسے ہلاک کر دیتا ہے۔ لیکن اس خطرناک نتیجہ سے بچنے کے لیے اﷲ تعالیٰ نے ایک سامان بھی رکھا ہواہے۔ اگر انسان اس سے فائدہ اٹھائے تو وہ اس ہلاکت کے گڑھے سے بچ جاتا ہے اور پھر خدا تعالیٰ کے قرب کوپاسکتاہے۔ وہ سامان کیا ہے؟ رجوع الی اﷲ یا سچی توبہ۔ …‘‘ (یہ سچی توبہ وہ سامان ہے۔) فرمایا کہ ’’… خدا تعالیٰ کا نام توّاب ہے۔ وہ بھی رجوع کرتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان جب گناہ کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ سے دُور ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ اس سے بعید ہوتا ہے۔ …‘‘ (گناہ کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے دور ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے دور ہو جاتا ہے۔) ’’…لیکن جب انسان رجوع کرتا ہے یعنی اپنے گناہوں سے نادم ہو کر پھر خدا تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے تو اس کریم رحیم خدا کا رحم اور کرم بھی جوش میں آتا ہے اور وہ اپنے بندہ کی طرف توجّہ کرتا ہے اور رجوع کرتا ہے۔ اس لئے اس کا نام…‘‘ (اللہ تعالیٰ کا نام بھی) ’’… تواب ہے۔‘‘ (وہ بھی بندے کی طرف توبہ قبول کرتے ہوئے آتا ہے اس لئے اس کا نام تواب ہے۔) ’’…پس انسان کو چاہئے کہ اپنے ربّ کی طرف رجوع کرے تا کہ وہ اس کی طرف رجوع برحمت کرے۔‘‘

(ملفوظات جلد 4صفحہ 141۔ 142۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر آپ فرماتے ہیں:
’’اسلام وہی طریق نجات بتاتا ہے جو درحقیقت خدا تعالیٰ کی طرف سے ازل سے مقرر ہے اور وہ یہ ہے کہ سچے اعتقاد اور پاک عملوں اور اس کی رضا میں محو ہونے سے اس کے قرب کے مکان کو تلاش کیاجائے اور کوشش کی جائے کہ اس کا قرب اور اس کی رضا حاصل ہو کیونکہ تمام عذاب خدا تعالیٰ کی دوری اور غضب میں ہے پس جس وقت انسان سچی توبہ اور سچے طریق کے اختیار کرنے سے اور سچی تابعداری حاصل کرنے سے اور سچی توحید کے قبول کرنے سے خدا تعالیٰ سے نزدیک ہو جاتا ہے اور اسی کو راضی کر لیتا ہے تو تب وہ عذاب اس سے دور کیا جاتا ہے۔‘‘

(ست بچن، روحانی خزائن جلد10 صفحہ275)

(خطبہ جمعہ 2؍ مئی 2014ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 جنوری 2021