• 19 اپریل, 2024

گھر کے سکون کے لئے دعا، صبر، برداشت اور قربانی

مضمون کا محرک گھریلو ماحول میں شام کی ایک نشست میں باتوں باتوں میں زیر بحث آنے والا ایک موضوع ہے۔ بچوں کے رشتوں میں مشکلات اور شادیوں کے جلدی ٹوٹ جانے کا ذکر تھا سب اپنے اپنے تجربات بیان کر رہے تھے ۔ ایک صاحب نے بتایا کہ ان کے جاننے والوں میں ایک رشتہ لمبی چوڑی تحقیق کے بعد قریباًطے ہو گیا تھا کہ اچانک سُنا کہ انکار ہوگیا ہے اور وجہ یہ بتائی گئی کہ لڑکی ہر لحاظ سے اچھی ہے مگر ان کا گھر چھوٹا ہے۔ ایک صاحبہ نے ذکر کیا کہ اس کے جاننے والوں میں شادی کے جلدی بعد لڑکی واپس آگئی کہ اُن کا گھر بہت چھوٹا ہے میں وہاں نہیں رہ سکتی ۔ باتیں تو اور بھی ہوئیں مگر اس گھر والی بات سے دل پر چوٹ سی لگی۔ یہ گھر کہاں سے اتنے اہم ہو گئے رشتے تو انسانوں کے انسانوں سے ہوتے ہیں۔ مکین اہم ہوتے ہیں یا مکان۔اگر گھر بنگلے، گلی محلے، اعلی پوش علاقے قسمتوں کے معمار ہوتے تو خوشیاں بازاروں میں بکا کرتیں۔ یہ درست ہے کہ رشتہ ہم کفو میں کرنا چاہئے ۔

تحقیق کرنا بھی فریقین کا حق ہوتا ہے ۔ اس میں بھی شک نہیں کہ گھروں سے گھر کے باسیوں کے سلیقے رہن سہن اور رکھ رکھاؤ کا اندازہ بھی ہوجاتا ہے ۔ لیکن آس دِلا نے کے بعد گھر چھوٹا کہہ کر انکار کرنا اوراس کا چرچا کرنادلآزاری کا باعث بنتا ہے۔ اللہ تعالی بچا کے رکھے ۔ پیدا کرنے والے کو محروموں اور مظلوموں کی بہت غیرت ہوتی ہے۔ گدا سے شاہ اور شاہ سے گدا بنا دینا قدرت کے کھیل ہیں

گھر وہ ہے جہاں چین ہو آرام و سکوں ہو
کیا فرق ہے اس بات سے چھوٹا یا بڑا ہے

میں اپنے جاننے والوں میں خوش باش جوڑوں کو ذہن میں لاکر سوچنے لگی تا کہ اندازہ لگاؤں کہ ان کی خوشیوں میں کس حد تک گھروں کے علاقے،رقبے اور ٓرائشی سامان کا دخل ہے۔ مگر میں کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی کیونکہ میں نے کبھی اپنے قریبیوں کے گھروں کےطول و عرض کا اس نظر سے جائزہ ہی نہیں لیا تھا دوسروں کا نہیں مگر اپنی زندگی کی کتاب کے ہر ورق پر لکھی داستان کا جائزہ لے کر اندازہ لگا سکتی ہوں کہ میں چھوٹے گھر میں بھی رہی ہوں اور بڑے گھر میں بھی مگر اللہ کا شکر ہے ہرجگہ دل مطمئن رہا سوچتے سوچتے یادوں کے در اِس طرح کھلتے چلے گئے جیسے کمپیوٹر پر ‘گھر’لکھ کر سرچ کیا ہو۔ جہاں جہاں وقت گزارا تھا سب نظروں کے سامنے آنے لگا ۔ بفضل الہٰی عمر عزیز کی پون صدی گزار چکی ہوں ۔خدائے رحمان کی عطا سے قادیان میں پیدا ہوئی۔

ہمارے خاندان میں احمدیت سے وابستگی کا اعزاز بفضلِ الہٰی ہمارے داداجان حضرت میاں فضل محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ کو نصیب ہوا جو ۱۸۹۵ء میں حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہوئے۔ پھر آپؓ مع خاندان ۱۹۱۷ء میں ہرسیاں سے ہجرت کرکے قادیان تشریف لائے محلہ دارالفضل میں اپنا مکان بناکر رہائش اختیار کی ۔ آپؓ کے دوسرے بیٹے (میرے والد صاحب) مکرم عبدالرحیم صاحب دیانت نے محلہ دارالفتوح میں ریتی چھلے کے بالکل سامنے اپنا مکان بنایا یہ مکان لبِ سڑک تھا نیچے دو دکانیں تھیں اوپر گھر تھا جسے چوبارہ کہتے تھے ۔ اسی دو کمروں کے مکان میں خاکسار نے آنکھ کھولی ۔ زندگی کے پہلے چھ سال اسی مکان میں گزرے۔بچپنے کی یادوں میں ایک کمرہ نظر آتا ہے جس میں چاروں دیواروں کے ساتھ چارپائیاں ہوتیں صبح کے وقت اباجان ا یک بڑی سی انگیٹھی میں پتھر کے کوئلے دہکا کر کمرے کے درمیان میں لاکر رکھ دیتے ۔ کمرہ گرم رہتا اسی پر وضو کے لئے پانی گرم ہوتا ،ناشتہ بنتا ۔ امی جان ہمیں جگا کر گرم پانی سے وضو کرواکے نماز قرآن پڑھاتیں اور اباجان کی لائی ہوئی مزے مزے کی چیزیں ناشتے میں دیتیں۔ اباجان فجر کی نماز پڑھ کر واپس آتے بڑی سی گرم چادر کی بُکل ماری ہوتی۔ قدرے بلند آواز میں قرآنی اور مسنون دعائیں پڑھتے رہتے پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کسی کتاب کا درس دیتے۔مجھے چوبارے پر ہاتھ کا نلکا بھی یاد ہے جو گراؤنڈ سے ایک لمبے سے پائپ کو چھت سے اوپر گزار کر لگایا گیا تھا یہ اس لئے یاد رہا کہ ایک دفعہ نلکے کا ہینڈل ہاتھ سے چھٹنے سے منہ کے بل گری تھی ۔ چوٹ گہری تھی جس کا نشان میرے ماتھے کا مستقل نقش بن گیا۔ چھوٹی عمر میں قادیان سے ہجرت کرنی پڑی اس لئے قادیان کے مکان کا نقشہ زیادہ یاد نہیں رہا ۔

۱۹۴۷ء میں تقسیم بر صغیر کے وقت اباجان قادیان میں درویش ہو گئےہم ہجرت کرکے لاہور آئے تو کچھ عرصہ رتن باغ میں قیام رہا ۔ یہ پہلے ایک سکول تھا ۔بڑے بڑے کمروں میں ڈیسکوں سے حدبندی کرکے ایک ایک گھرانے کو ٹھہرایا گیا ۔نیند میں ہم بچے اس حدبندی سے آزاد ہوکر کہیں سے کہیں چلے جاتے صبح امی ہمیں ادھر ادھر سے تلاش کرکے اکٹھا کرلیتیں۔ یہ بے سروسامانی کا مشکل زمانہ تھا ۔ساری سختیاں بڑوں نے جھیلیں ہم بچے تو ہر جگہ کوئی نہ کوئی کھیل بنا کر اچھل کود کرتے رہتے۔ برآمدے کے ستونوں کے گردا گردگھوم گھوم کے پہروں کھیلتے ۔ روٹی راشن سے ملتی تھی۔ ایک کچنار کے د رخت کے نیچے سکول بھی شروع ہوا تھا ۔

۱۹۴۹ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ربوہ منتقل ہوئے۔ یہاں دارالخواتین میں جگہ ملی جسے احاطہ بھی کہتے تھے یہاں ایسے خاندانوں کو جگہ ملی جن کے مرد قادیان رہ گئے تھے یا شہید ہو گئے تھے احاطے میں مردوں کے داخلے کی اجازت نہیں تھی۔ سب خواتین تھیں ایک ایک خاندان کو ایک ایک کمرہ دیا گیا یہ کمرےکچی مٹی کی اینٹوں سے بنائے گئے تھے جن کی چھت لکڑی کے بالوں پر چٹائی اور مٹی ڈال کر بنائی گئی تھی بڑی عمر کی عورتوں نے ہماری تربیت کی ذمہ داری از خود اپنے اوپر ڈال لی تھی ۔ ہم ان کی عقابی نگاہوں کی زد میں رہتے تھے ۔بڑا ساصحن مشترک تھا ۔ برسات سے پہلے چھتوں پر مٹی ڈالی جاتی اور بعد میں دیواروں پر چکنی مٹی میں توڑی ملا کر لپائی کی جاتی فرش پر پوچا لگایا جاتا ۔ بارش میں جگہ جگہ سے چھت سے پانی ٹپکنے لگتا گھر کے برتن ٹپکن کے نیچے لگائے جاتے۔ کوئی جگہ خشک ہوتی تو کپڑے بستر وغیرہ وہاں سمیٹ دئے جاتے۔ جلانے کی لکڑی بھی پانی سے بچائی جاتی۔ایک دن امی جان بہت خوش تھیں دراصل انہوں نے ربوہ کی زمین پر ایک پلاٹ خریدا تھا ہمیں ریلوے لائن کے پار اسٹیشن کے عقب میں دارالرحمت وسطی میں پلاٹ دکھانے لے گئیں اور بتایا کہ قادیان واپس جانے تک ہم یہاں مکان بنا کر رہیں گے ۔ دور دور ریتلی زمین اور جھاڑ جھنکار کے علاوہ کچھ نہیں تھا ۔ مجھے اپنے پلاٹ پر ایک ننھا سا پودا نظر آیا جس کے پتے ذرا مختلف تھے۔میں نے اس کے ارد گرد جگہ صاف کرکے پانی دینا شروع کردیا ۔ پانی بہت فاصلے سے کسی ڈبے میں لے کرآتی ۔ پانی ملا تو اس میں نئے پتے آنے لگے یہ سرس کا پودا تھا جسے پنجابی میں سریں کہتے ہیں پانی ملا توتیزی سے بڑھنے لگا جو بعد میں بہت بڑا درخت بنا ہم گرمیوں میں اس کے سائے میں چارپائیاں ڈال کر آرام کرتے۔ اس پر کثرت سے لیمن کلر کے برش نما خوشبودارپھول لگتے۔ ہم بارش میں کاغذ کی کشتیاں چلاتے کیچڑ میں کھیلتے ۔مٹی گوندھ کے برتن بناتے اور کچن میں لکڑی کی آگ میں برتن پکاتے اس بات سے بے نیاز کہ کس کسمپرسی سے گزر رہے ہیں خوب خوب کھیلتے تھے ہمارے پاس کوئی کھلونے نہیں تھے ۔بھاگتے دوڑتے اودھم مچاتے چھپن چھپائی ’میروڈبہ‘ ’سٹاپو‘ اور کئی قسم کے بھاگ دوڑ کے کھیل کھیلتے مٹی دھول میں اَٹے شرارتیں کرتے رہتے۔ لکڑی کی آگ کا دھواں اور کالک الگ مصیبت تھی۔ بتانا یہ تھا کہ قادیان سے نکل ربوہ میں گھر بنا ۔ قادیان میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اباجان کے مکان کا نام راحت منزل عنایت فرمایاتھا ۔ ربوہ میں مکان بنا تو یہی بابرکت نام رکھا گیا۔یہ مکان ایک کنال زمیں کے ایک کونے میں دوکمروں پر مشتمل تھا جن کے ساتھ کچی اینٹوں سے ایک چھوٹے کمرے اور کچن کا اضافہ کیا گیا۔ اس چھوٹے کمرے میں حضرت داداجان ؓ کا پلنگ ہوتا تھا۔ ایک صحابی ٔمسیح کے قرب کی برکتیں میسر تھیں۔ بڑا کمرہ ہر مقصد کے لئے استعمال ہوتا دیواروں کے اندر بنی الماریوں میں ہم بہن بھائی خانے بانٹ کر کتابیں رکھتے کپڑے لٹکانے کے لئے دروازوں کے پیچھے کھونٹیاں تھیں جنہیں دیوار کی مٹی سے بچانے کے لئے کوئی اخبار چپکا دیا جاتا۔گھر کا صحن کچا تھا کچھ حصے میں مختلف سائز کے پتھر روڑے اینٹیں لگی ہو ئی تھیں جھاڑو دیتے ہوئے ہر کھانچے سے مٹی نکالنی پڑتی بجلی نہ ہونے کی وجہ سے استری میں کوئلے ڈالے جاتے جو مشکل کام تھا ۔ رات کو لالٹین کی روشنی میں پڑھتے۔دن کو ہاتھ کے پنکھے جھل جھل کر ہاتھ شل ہوجاتے یہی پنکھی جب امی جان کے پاس ہوتی تو ہوا لینے کے علاوہ نظم و ضبط بر قرار رکھنے کے لئے ہتھیار کا کام دیتی ۔ درختوں کی چھاؤں کا مزا اسی زمانے میں لیا ۔اس گھر میں پھول سبزیاں اگانے کا شوق خوب پورا ہوا ۔ ایک بیری کا درخت تھا جس کی ایک شاخ پر اباجان نے کاٹھے بیروں کا پیوند لگایا تھا اس درخت کو بیک وقت دونوں قسم کے بیر لگتے۔ گرمیوں میں شام کو صحن میں پانی کا چھڑکاؤ ہوتا مٹی کی سوندھی خوشبو وہیں نصیب ہوئی ۔ سونے کے لئے چارپائیاں صحن میں بچھائی جاتیں سر شام یہاں ایک امی سکول کھل جاتا سورتیں یاد کرائی جاتیں ،انبیا کرام کی کہانیاں سنتے ۔بیت بازی ہوتی شکر ہے اس زمانے میں ٹی وی نہیں تھا بہت پر لطف وقت گزرتا۔اس لطف کے سوا کسی لطف سے شناسائی نہیں تھی رات نسبتاً ٹھنڈی ہوتی اس کے ساتھ کھلا آسمان ‘ کہکشاں کا نظارہ ’چاند کی چاندنی کا لطف ابھی تک یاد ہے۔ رات کو اگر بارش ہوجاتی تو اپنا اپنا بستر اٹھا کر اندر بھاگنے کی جلدی ہوتی تاکہ بستر گیلا نہ ہوجائے۔ربوہ کی مخصوص یادوں میں دیوار پر اینٹ مار کر پڑوسنوں کو متوجہ کرنا اور دیوار کے اِدھر اُدھر کھڑے کھڑے محلے کی سیاستوں پر تبصروں کے علاوہ ضرورت کی چیز مانگ لینا ،سالن کی پلیٹ کا تبادلہ بھی شامل تھا ۔

۱۹۴۹ء سے۱۹۶۳ء تک صرف دو مہینے ربوہ سے باہر گزرے وہ ایسے کہ ۱۹۵۳ء میں گرمیوں کی چھٹیوں میں آپا لطیف نے اچھرہ لاہور بلوا لیا کوئی بڑا شہر دیکھنے کا یہ پہلا موقع تھا قیام مختصر تھا مگر کئی لحاظ سے یادوں میں رہا ہر چیز نئی تھی ڈبل ڈیکر بس نے خاصا حیران کیا ۔ ان دنوں جماعت کے خلاف شور ش زوروں پر تھی ۔ایک رات ایسی بھی آئی کہ ضروری سامان کی گٹھڑی بغل میں دبا کر سائیکل پر گھر چھوڑا کہیں اور پناہ لی ۔کم عمری میں سنگین حالات قریب سے دیکھنے کا اثر رہا۔ بہنوئی مکرم شیخ خورشید صاحب الفضل کے اسسٹنٹ ایڈیٹر تھے پل پل کی خبریں ملتیں یہیں پر حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓکا پیغام ملا کہ میرا خدا میری مدد کو دوڑا آ رہا ہے پھر ہم نے خدائی مدد کے نظارے دیکھے
اب تو ربوہ ماشاء اللہ بہت ترقی کرگیا ہے اس زمانے کی بڑی دلچسپ بات بتاتی ہوں کہ جب میں نے ۱۹۵۶ میں میٹرک کا امتحان پاس کیا تو رزلٹ کیسے دیکھا تھا ۔ ربوہ میں اس وقت اخبار بہت کم آتے تھے ۔ کسی نے مشورہ دیا کہ اگر رزلٹ دیکھنا ہے تو علی الصبح بسوں کے اڈے پر چلے جائیں سرگودھا جانے والی بس میں اخبارہوتے ہیں ان سے اخبار لے کر رزلٹ دیکھا جا سکتا ہے ۔ ان دنوں حسن اتفاق سے میرے اباجان قادیان سے آئے ہوئے تھے بعد از نماز فجر بس کے اڈے پر چلے گئے وہاں اور لوگ بھی اپنے بچوں کے رول نمبر کی پرچیاں لے کر آئے ہوئے تھے ۔ بس رکی سب نے اپنی اپنی پرچی کے رول نمبر کا رزلٹ پوچھا اخبار والا بتاتا گیا ۔ میرے رول نمبر پر اخبار والے نے فرسٹ ڈویژن بتائی تو اباجان بے حد خوش ہوئے وہیں سڑک پر سجدہ ٔشکر بجا لائے ۔ ایسے ہی شکرکے جذبات سے ڈھیر ہوتے ہوئے اصلی سجدوں کی دعائیں ہمارا زاد راہ ہیں ۔ اباجان بعد میں بھی بہت عرصے تک اس دن کی خوشی کا اظہار کرتے رہے ۔ بی اے پاس کرنے کے بعد ایم اے کے لئے دوسال لاہور کے ہوسٹلوں میں رہی واپس آکر جامعہ نصرت میں جاب مل گئی ۔ جلدی ہی شادی طے ہوگئی اس طرح راحت منزل میں راحت بخش رہائش کا عرصہ ختم ہوا ضمناًَبتادوں کہ ہمارے وقت کے ربوہ میں شادیاں بہت سادگی سے ہوتی تھیں رات کی پر سکون فضا میں کہیں دور سے گھڑا بجنے کی آواز آتی محلے بھر میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی کہ شادی ہونے والی ہے اس کے علاوہ کسی ساز کو ہم نہیں جانتے تھے ۔ دعوت نامے کے کارڈ نہیں ہوتے تھے ایک فل سکیپ کاغذ پر شادی یا ولیمے کے بلاوے کا خط لکھ کر نیچے مدعوئین کی ایک فہرست بنا دی جاتی ۔ کوئی یہ دعوت نامہ مذکور گھروں تک لے جاتا اور دستخط کروالیتا گھر کے صحنوں میں انتظام کرکے سادہ سی تقریب میں رخصتانہ ہوجاتا ۔ امیر غریب کی شادی پر ایک شربت کا گلاس یا چائے کا کپ پیش کیا جاتا ۔ ربوہ میں ایک شہزادی کی شادی کی تقریب کا آنکھوں دیکھا حال بھی بتادوں جامعہ نصرت کے نوٹس بورڈ پر ایک دعوت نامہ لگا تھا کہ صاحبزادی امۃ المتین بنت حضرت مصلح موعود ؓکو اپنی دعاؤں سے رخصت کیجئے وقت مقررہ پرپہنچے صحن میں کرسیوں اور چارپائیوں پر بیٹھنے کا انتظام تھا درمیان میں نسبتا ًاونچی جگہ پر ایک کرسی پر سرخ و سبز رنگوں کے گوٹے کے ہلکے سے کام کے غرارہ سوٹ میں ملبوس دلہن شہزادی کو بٹھایا گیا ۔ دعائیہ نظموں کے بعد اجتماعی دعا سے رخصتانہ کی تقریب مکمل ہوئی شامیانہ لگا نہ سٹیج بنا ۔ دولھا اندر نہ بلایا گیا اس لئے دودھ پلائی جوتا چھپائی کوئی رسم نہیں ہوئی سادگی سے شادی کی تقریب مکمل ہوگئی ۔

بات میں بات نکل آئی میں ذکر کر رہی تھی راحت منزل کا یہاں سب بہن بھائیوں نے تعلیم مکمل کی اور شادیاں ہوئیں یہ برکتوں والا گھر وقعی راحت منزل تھا بظاہر سادہ مگر مکینوں کی آپس میں محبت پیار سے بہت کشادہ۔۱۹۶۳ءمیں خاکسار بنتِ درویش ماں باپ اور بہت سے عزیزو ں کی دعاؤں کے ساتھ شادی کے بعد بابل کے گھر سے رخصت ہوئی ربوہ اور اہل ربوہ کو چھوڑنا بہت مشکل تھا خاص طور پر جامعہ نصرت اور سٹاف ممبرز پھر لجنہ ہال سب کو خدا حافظ کہا میں تو اپنے درخت سے بھی گلے مل کر آئی تھی (میرے جانے کے بعد یہ درخت خشک ہوگیا تھا)۔ کراچی آ ئی تھی کراچی کا تصور اس وقت ایسا ہی تھا جیسے کوئی سمندر پار چلا جائے دلہن بن کر جس گھر میں آئی تھی وہ بندر روڈ جسے اب ایم اے جناح روڈ کہتے ہیں پر جامع کلاتھ مارکیٹ کے سامنے عید گاہ میدان کے عقب میں ایک متروکہ بلڈنگ کی چھت پر تھا ۔ جب ناصر صاحب کا خاندان قادیان سے ہجرت کرکے کراچی آیا تو اس بلڈنگ میں کچھ احمدی رہتے تھے انہیں کے توسط سے بلڈنگ کی چھت پر سونے کی جگہ مل گئی یہ اچھا باموقع ٹھکانا تھا چھت پر لکڑی کے تختوں اورٹاٹ سے دیواریں بنا کر ٹین کی چھتیں ڈال لی گئیں ۔ اسی میں ایک کمرہ ہمیں ملا باقی کمروں میں ناصر صاحب کی والدہ محترمہ بہن بہنوئی اور بچے رہتے تھے

اُس گھر میں پانی حاصل کرنا دشوار کام تھا ایک نل تھا جو فرش سے ایک فٹ اُ ونچا ہوگا جس میں مقررہ وقت پر پانی آتا وہیں پردیگچیاں اور ڈبے لگا کر ہم ڈرم میں پانی بھر لیتے بعد میں پائپ سے پانی بھرنے کا انتظام ہو گیا۔ میرے کمرے میں دو چار پائیوں کے بعد مشکل سے چلنے کی جگہ بچتی تھی ۔ پہلی بچی پیدا ہوئی تو اُس کا جھولا چھت سے اس طرح لٹکادیا گیا کہ میں اپنے بستر پر بیٹھ کر اُس کی دیکھ بھال کر سکوں۔ ایک دیوار کے ساتھ لٹکے ہوئے ریک میں میری اور اُس کی ضرورت کی ساری چیزیں رکھی رہتیں ۔ چھوٹا سا کچن تھا جس میں ہم باری باری اپنا کام کر لیتے مٹی کے تیل کا چولہا جلتا تھا جس کو بجھانے کے لئے پانی کا چھینٹا مارتے تو ہر طرف جان لیوا بدبو پھیل جاتی لگتا تھا ہر چیز سے مٹی کے تیل کی بد بو آتی ہے ۔ جس کی مجھے عادت نہیں تھی ۔ ایک دو مشترک ملنے جلنے والوں نے اُمی جان کو جا کر بتایا بلکہ افسوس کے رنگ میں کہا اتنا پڑھا لکھا کر لڑکی کہاں دے دی ۔ مگر میری امی بہت صاحبِ فراست خاتون تھیں ہمیشہ صبر اور شکر کرنے کی تلقین کرتیں۔ ربوہ کے کھلے ماحول سے کراچی کے اس مختصرسے گھر میں منتقل ہوکر یہاں رہنے والوں کے انداز میں رہنا سیکھ لیا ۔ سسرال کے پیار محبت نے حوصلہ دیا ۔ آرام سے ساتھ رہی ۔ناصر صاحب نے اسی گھر میں رہ کر محنت سے پڑھا تھا اور اللہ کے کرم سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اعلیٰ عہدوں پر سرکاری ملازمت کی مجھے پتا تھا کہ محنت سے زندگی بنانے والوں کو سب کچھ ایک دن میں نہیں مل جاتا ۔

1965ء میں ناصر صاحب کی ٹرانسفر لاہور ہو گئی ۔ ربوہ کے قریب آنے کی خوشی تھی ہم نے میکلوڈ روڈ پر گراؤنڈ فلور پر ایک مکان کرائے پر لیا۔ اس گھر میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں پہلے بیٹے سے نوازا ۔ اچھی جگہ تھی مگر اوپر کے فلیٹ میں رہنے والوں نے اس قدر تنگ کیا کہ مکان چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ۔ گالیوں کا جواب دینا تو ہمیں سکھا یا ہی نہیں گیا تھا بس ذرا سا غصہ اُتار نے کے لئے مکان سے جاتے وقت دیوار پر ایک چٹ چپکا دی جس پر لکھا کہ ’یہ مکان ہم اوپر والوں کی تکلیف کی وجہ سے چھوڑ رہے ہیں‘۔ جب ٹرک میں سامان رکھا گیا تو اوپر والے صاحب آئے اور ناصر صاحب سے دعا سلام کر کے کہا کہ ہم آپ کی برداشت پر حیران ہیں ہم نے آپ کو ہر طرح تنگ کیا اب آپ جیسے لوگ کہاں سے ملیں گے ۔ شاید یہ ہماری تعریف تھی ۔

پھر ہم گڑھی شاہو لاہور میں مسجد دار الذکر کے بہت قریب ایک کرائے کے مکان میں کچھ عرصہ رہے ۔ مالک مکان کے کباب کی دکان لاہور میں مشہور تھی اُن سے کباب بنانے کی ترکیب سیکھی ۔ اس مکان میں احمدی بھائی بہنوں کی محبت کا ایسا تجربہ ہوا جسے کبھی نہیں بھلا سکتی ۔ ناصر صاحب کی والدہ صاحبہ جو کراچی سے بیمار ی کی حالت میں آئی تھیں وفات پا گئیں ابھی محلّے میں ہمارا کوئی خاص جا ننے والا نہ تھا ۔فجر کی نماز میں ناصر صاحب اور ان کے بھائی مکرم محمود احمد قریشی صاحب مسجد گئے اور ذکر کیا کہ رات والدہ صاحبہ فوت ہو گئی ہیں ۔ ان کے ساتھ ہی کچھ خدام گھرآ گئے اور سارا انتظام سنبھال لیا خواتین میرے پاس آ گئیں ۔ عجیب اپنائیت سے سارا کام کیا ۔ فجزاھم اللہ تعالی احسن الجزاء ۔ایمبولنس میں جنازہ لے کر ربوہ پہنچے تو دار الضیافت میں سب عزیز موجود تھے کیونکہ وہاں بھی اعلان کروادیا گیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ دُکھ سکھ میں شریک ہونے والی ہماری جماعت کو تا قیامت زندہ وپائندہ رکھے آ مین ۔

پیاری اماں کی وفات کے بعد ہمارا اس گھر میں جی نہ لگا تو ہم باغپتی سٹریٹ سمن آباد میں کرائے کےمکان میں منتقل ہو گئے ۔ یہاں کی ایک دلچسپ بات بتا دوں پڑوسن کا تعلق کسی ایسی جماعت سے تھا جو گھر میں قوالیاں مذہبی جوش خروش سے کرواتے ہیں ایک دن مجھے بھی مد عو کیا ۔ میں ربوہ کی پلی بڑھی پہلی دفعہ جب ڈھول کی تھاپ پر ’یا محمؐد‘ سنا تو سٹپٹا کر رہ گئی ۔ اتنی تکلیف ہوئی کہ اُٹھ کر گھر آ گئی اور پھر موقع نکال کر اُسے اپنی جماعت سے متعارف کروایا ۔ خلیفۂ وقت کی قبولیت دعا کا ذکر بھی ہوا ۔ چند دن کے بعد وہ میرے پاس آئیں توبے حد پریشان تھیں۔سنجیدہ صورت سے کہا کہ آپ کے خلیفہ کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اُ نہیں ہمارے لئے بھی دعا کا لکھ دیں ۔ میں جی ہی جی میں خوش ہو ئی اور پوچھا کہ کیا لکھوں؟ کہنے لگی کہ میں بہت دُکھی ہوں ۔میرے میاں قوالی سنتے ہیں مگر اُ نہیں ’’حال‘‘ نہیں آتا ۔اپنے خلیفہ صاحب کو لکھو کہ دعا کریں کہ میرے میاں کو بھی ’’حال‘‘ آنے لگے ۔ میں نے دعا کا لکھا مگر ’’حال‘‘ آنے کے لئے نہیں بلکہ راہِ راست نصیب ہونے کے لئے دعا کی درخواست کی۔

لاہور سے پھر کراچی ٹرانسفر ہوئی تو تین بچوں کے ساتھ اُس آ سمان گیر مکان میں رہنا مشکل ہو گیا ۔ کرایہ کا مکان لیا اورپھر ہمیں ناظم آباد میں بہت بڑا سر کاری گھر الاٹ ہو گیا ۔ یہ پہلا سرکاری گھر تھا جو ہمیں 1972ء میں الاٹ ہوا تھا ۔ ہمارے پاس بڑے بڑے کمروں کی کھڑکیوں اور برآ مدے کی شیشے کی دیوارں پر لگانے کے لئے پردے بھی نہیں تھے ۔ فر نیچر تو دور کی بات تھی۔ اس کا لان بہت خوبصورت تھا ۔بچے کھلے صحن میں کھیلتے تو بہت اچھا لگتا ۔

1975ء میں ناصر صاحب کی ٹر انسفر اسلام آباد ہو گئی ۔ یہاں ایک دلچسپ بات یاد آ گئی ۔ اسلام آباد جانے کے لئے سامان پیک کیا تو بہت سا فالتو سامان گھر میں چھوڑ دیا ۔ ناصر صاحب نے اپنے بڑے بھائی صاحب کو چابی دے دی کہ کسی دن آ کر دیکھ لیں اگر کوئی کام کی چیز ہو تو اُٹھا لیں۔ باقی ردّی والے کو بلا کر دے دیں ۔ ہم اسلام آباد پہنچے تو کچھ دنوں کے بعد کراچی والے گھر کے اُوپر والے فلیٹ میں مقیم صاحب کا فون آیا کہ یہ آپ مکان کس کو دے گئے ہیں۔ ایک مرد کسی عورت کو ساتھ لاتا ہے اور بوتلوں وغیرہ کی آوازیں بھی آتی ہیں ۔ تھوڑی دیر کے لئے تو ہم ہکا بکا رہ گئے کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں ۔ مگر فوراً ہی عقدہ کھلا کہ بھائی صاحب اور بھابی صاحبہ ردّی اخبار اور بوتلیں وغیرہ چھانٹ رہے ہونگے۔ پھر جو ہماری ہنسی چھوٹی تو قابو میں ہی نہ آئے ۔ اب تک اس بات کا مزا آتا ہے اور ایک پرَ سے کوّوں کی قطار بنانے والا محاورہ یادآتا ہے ۔

اسلام آباد میں ہمیں ایف سیون میں بہت بڑا سر کاری بنگلہ مل گیا۔ یہ ناظم آباد والے مکان سے بھی بڑا تھا ۔ لان بھی بڑا تھا اور بہت خوبصورت کیاریاں تھیں۔ پھول، سبزیاں اورپھل اُگانے کا شوق خوب پورا ہوا ۔ گلاب اور بوگن ولا کی بیلیں پوپلر کے لمبے لمبے درخت بہت اچھے لگتے۔ ٹیرس میں بیٹھ کر خوبصورت اسلام آباد کا نظارہ کرتی ۔ مجھے اُس شہر کا رنگ بدلتا آسمان اور گلاب بہت اچھے لگتے تھے ۔ پنڈی اور اسلام آباد کی جماعت کی خواتین سے شناسائی ہوئی۔ 1979ء میں واپس کراچی ٹرا نسفر ہو گئی ۔ کچھ عرصہ راشد منہاس روڈ پر کرائے کے مکان میں رہنے کے بعد 1980ء میں جناح ہسپتال کے ساتھ ٹی اینڈ ٹی کالونی میں سی ٹائپ بنگلہ مل گیا ۔ اس باموقع کشادہ مکان میں ہم بیس سال رہے۔ صحن اتنا وسیع تھا کہ ربڑ اور برگد کے بوڑھے درختوں کے علاوہ آم ،لیموں ،کیلے،پپیتے اور نیم کے درخت تھے۔گیٹ کے پاس ایک بہت بڑا درخت تھا جس پر فروری میں انگنت لال لال پھول کھلتے۔ ان پیالہ نما پھولوں سے پانی پینے کئی رنگوں کے پرندے آتے جن کی چہچہاہٹ ہرصبح کو دلفریب بنا دیتی۔گیٹ سے گیراج تک جھومر اور بوگن ویلیا پھولوں کی بیلیں تھیں جس سے سایہ رہتا اور خوشبو بھی آتی ۔

صدر میں واقع اس گھر میں بہت آرام ملا۔ ناصر صاحب کا دفتر، بچوں کے تعلیمی ادارے، گیسٹ ہاؤس جہاں جماعت کے دفاتر تھے یہیں ایم ٹی اے کے لئے ریکارڈنگ ہوتی تھی، قریب قریب تھے۔ بڑی بیٹی نے گھر سے چند قدم دور سندھ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا ۔ اس برکتوں والے گھر میں بچوں کی تعلیم مکمل ہوئی اورشادیاں بھی ہوئیں ۔

یہاں سےاحمدیہ ہال بھی قریب تھا جہاں لجنہ کا دفتر تھا ۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ توفیق سے لمبا عرصہ شعبہ اشاعت میں خدمت کی توفیق ملی۔ ہفتے میں دو دن دفتر جانا ہوتا۔ کام کے ساتھ یہاں کراچی بھر سے آئی ہوئی خواتین سے ملاقات ہوجاتی ۔ بظاہر ہنستی مسکراتی محنت سے جماعت کا کام کرتی ہوئی کسی خاتون سے ذرا تنہائی میں بات ہوتی تو گھریلو زندگی میں درپیش کئی قسم کے مسائل کا علم ہوتا۔ محض چمچ معمولی ہونےپر،برتن اچھے نہ ہونے پر،گھر کا راستہ خوب صورت نہ ہونے اور ذات برادری کےفرق جیسی معمولی باتوں پر اختلافات اور لڑائیوں کے قصے تھے ۔ ان کے علاوہ اصلاح معاشرہ کےشعبہ میں جو جھگڑے آتے وہ بھی بعض اوقات معمولی باتوں اور غلط فہمیوں پر مبنی ہوتے۔ جنہیں سن کر بہت تکلیف ہوتی ۔

ناصر صاحب کی ریٹائر منٹ کے کچھ عرصے بعد یعنی2001ء میں فیڈرل بی ایریا کراچی میں اپنے مکان میں منتقل ہو گئے ۔ اس سے پہلے کرائے کے یا سرکاری مکانوں میں رہے تھے۔ پہلی بار اپنے گھر میں رہنے کا مزا ملا مگر بہت مختصر عرصہ اپنے گھر میں رہ سکے ۔ بچے جو ملک سے باہر چلے گئے تھے اپنے پاس بلانے لگے ۔ یوں ہم اپنے گھونسلے سے اُڑتے اور امریکہ، کینیڈا اور انگلینڈ میں بچوں کے پیارے پیارے نشیمنوں میں کچھ عرصہ گزار کر واپس گھر آجاتے ۔ پھر یہ ہوا کہ 2010ء میں امریکہ آئے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے ۔ اپنا گھر،میری کتابیں اور بہت کچھ کراچی میں رہ گیا۔ اب بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کے گھروں کے حسن و خوبصورتی اور طول و عرض کیا لکھوں۔ یہ محض مولا کریم کے اَن گنت احسانات ہیں جن کے شکر کے لئے الفاظ نہیں ملتے ۔کتنے ملکوں میںاور کتنے گھروں میں رہنے کا اتفاق ہوا ۔ اتنی تفصیل لکھنے کے بعد اپنا تجربہ تو یہی ہے کہ خاکسار جہاں بھی رہی اللہ تعالیٰ کےفضل سےمطمئن اور خوش رہی ۔کیا خوشیاں مکانوں کے چھوٹے یابڑے ہونے سے وابستہ ہوسکتی ہیں؟ خاکسار راحت منزل سے ٹین کی چھت کے نیچے آئی تھی مگر ساری عمر وہاں نہیں رہی۔ مولا کریم نے ایک سے ایک بڑے گھر سے نواز ا۔ ہر جگہ پہلے سے بڑھ کر صبروشکر اور خوشی سے رہی ۔ الحمد للہ۔ اللہ تعالیٰ کے احسانات پر جُھکا سر،دعا کے لئے اُٹھے ہاتھ،بھیگی آنکھیں اور الحمدللہ ۔ زندگی یوں ہی گزر گئی ۔ اگر میں سسرال آکر مٹی کے تیل کے چولہے سے اُٹھنے والے بدبو کے پہلے بھبکے پر یہ اعلان کردیتی کہ یہاں رہنا مشکل ہے تو آج حالات بہت مختلف ہوتے ۔ اللہ تبارک تعالیٰ کا جتنا بھی شکر کروں ،کم ہے۔

یہ دنیاوی جنت عارضی تو ہے ۔کچھ دن کا ٹھکانا ہے۔اب دائمی جنت میں گھر ملے بس یہی دعا ہے۔

اپنی مثال دے کر بات آگے بڑھانا شاید پسندیدہ نہ ہو مگر حقیقی زندگی کے تجربات و حوادث اگر کسی کے کام آجائیں تو کیا بُرا ہے ۔ گھر بنانا اور بنائے رکھنا قسمت کے کھیل ہیں اور قسمت ان پر مہربان ہوتی ہے جو خدا کا خوف رکھتے ہوں ۔ ہر قدم دعا کے ساتھ سنبھل کر اٹھائیں۔ ایک گلاس ہی ہاتھ سے چھوٹ جائے تو کرچی کرچی ہوجاتا ہے۔ اگر ان کرچیوں کو جوڑ کر دوبارہ ویسا ہی خوب صورت گلاس بنانا چاہیں تو کتنا مشکل اور ناممکن ہوتا ہے۔ اس لئے پہلے سے گلاس کی حفاظت کرنا ضروری ہے۔ رشتے جوڑ کے رکھنا قربانی چاہتے ہیں ۔سو فیصد ہم مزاج ساتھی ملنا آسان نہیں ہوتا ۔ایک گھر میں ایک ماں باپ کے پیدا کئے ہوئے ،پالے ہوئے بچے ہم مزاج نہیں ہوتے تو کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا کیسے بالکل ہم مزاج ہو سکتے ہیں؟ صبروبرداشت اور قربانی سے تعلقات قائم رہتے ہیں ۔ خوشیاں نصیبوں سے ملتی ہیں اس کے لئے فارمولا یہ ہے کہ عزت کرو اور بدلےمیں عزت کروالو۔ پیاردو، پیار لے لو۔ لڑ جھگڑ کر تو لڑائی جھگڑا ہی ملے گا۔ بڑے گھر، جہیز، زیور، شادی کی دھوم دھام ، قیمتی بَری ،بھاری جوڑے وقتی خوشی تو دے سکتے ہیں لیکن حقیقی اور لازوال خوشی تو دعا اور اللہ کی رضا سے ملتی ہے اور اللہ کی رضا شادی بیاہ میں ان سب باتوں کو مد نظر رکھنے سے ملتی ہے جو اسلام کی تعلیم ہے۔ ہمارے خلفائے کرام ہمیں بار باریہ حسین تعلیمات یاد کرواتے رہتے ہیں ۔اگر ایسی خوبیاں مل جائیں جو حضرت رسول پاک ﷺ نے شادی کرنے کے لئے مدّ نظر رکھنے کا ارشاد فرمایا ہے تو دعا اور توکل سے بہترین کی امید میں چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے ۔ صبر اور برداشت بہت قیمتی جوہر ہیں۔ اللہ تعالیٰ حامی و مددگار ہوجاتا ہے ۔ دعا گو ہوں کہ سب احمدی گھرانوں میں جنت جیسا سکون میسر ہو ۔ آمین۔

حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعائیں ہمارے ساتھ ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ جماعت کے افراد کو مَردوں کو، عورتوں کو عقل اور توفیق دے کہ وہ اپنے عائلی مسائل اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق حل کرنے والے ہوں اور دنیاوی خواہشات کے بجائے دین مقدم ہو۔ اللہ تعالیٰ کا خوف اور تقویٰ ہمیشہ پیش نظر ہو۔ اسی طرح نئے رشتوں کے مسائل بھی اللہ تعالیٰ دور فرمائے۔ بہت سارے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ لڑکوں اور لڑکیوں کو یہ توفیق دے اور اس بات کو سمجھنے کی توفیق دے کہ شادی بیاہ صرف دنیاوی اغراض کے لئے یا دنیاوی اغراض کو پورا کرنے کے لئے نہیں بلکہ دین کو مقدم کرتے ہوئے آئندہ نسلوں کو دین کی راہوں پر چلنے والا بنانے کے لئے ہوں اور نیک نسلیں پیدا کرنے کے لئے ہوں تا کہ آئندہ نسلیں محفوظ ہوں اور اسلام کی خدمت کرنے و الی ہوں اور اس طرح پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بنیں۔

(خطبہ جمعہ 3؍ مارچ 2017ء)

(امۃ الباری ناصر- امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 جنوری 2021