• 17 جولائی, 2025

حضرت علّامہ حکیم مولانا عبید اللہ بسملؔ امرتسریؓ

سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے صحابہ میں آپ کے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ ؐ کے صحابہ کرام کا پاکیزہ نمونہ نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة الجمعۃ میں دونوں جماعتوں کو یعنی آنحضرت ؐ کے صحابہ کی جماعت کو اور اصحابِ احمد علیہ السلام کی جماعت کو یکساں قرار دیا ہے۔ کیونکہ در اصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت ؐ کے بُروزِ کامل ہیں۔ چنانچہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’صحابہؓ کی جماعت اتنی ہی نہ سمجھو جو پہلے گزر چکے بلکہ ایک اور گروہ بھی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ذکر کیا ہے۔ وہ بھی صحابہؓ ہی میں داخل ہے جو احمدؐ کے بُروز کے ساتھ ہوں گے‘‘۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ431 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس جس طرح آنحضرت ؐ کے صحابہ نے دینِ حق کی خاطر اپنی جانیں، اپنے اموال و اولاد اور اپنی ساری عزّتیں قربان کر دیں، اِسی طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ نے اس زمانے میں صدق و وفا کے اعلیٰ ترین نمونے قائم کئے۔ جو رہتی دنیا تک کے لئے قابلِ تقلید ہیں۔

اصحابِ احمدؑ کے مبارک زُمرہ میں ایک ایسی بزرگ ہستی جنہوں نے احمدیت قبول کر کے اپنا سب کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیا حضرت علّامہ مولانا حکیم عبید اللہ صاحب بسملؔ امرتسری رضی اللہ عنہ ہیں۔ بیعت سے پہلے آپ علمائے اہلِ تشیّع میں بلند مقام رکھتے تھے لیکن حضرت مسیح پاک علیہ الصلوٰة والسلام کی غلامی میں آ کر آپ نے ان تمام عزّتوں کو پسِ پشت ڈال کر حضرت اقدس علیہ السلام کے سایہٴ عاطفت میں راحت و آرام پایا۔ اور حقیقی رنگ میں دین کو دنیا پر مقدم کر کے دکھایا۔

ابتدائی حالات

آپؓ کی پیدائش 1852ء میں ہوئی۔ والد ماجد خواجہ مظہر جمال صاحب حضرت امام علی شاہ صاحب نقشبندی مجددی کے مجازی خلیفہ تھے۔

(روزنامہ الفضل، مؤرخہ 18؍اپریل 2002ء، صفحہ3۔ الحکم قادیان، مؤرخہ 7؍نومبر 1938، صفحہ7)

ابتدائی عمر میں آپ ؓنے مولانا ابو محمد حسین شعری قادری سے فارسی تعلیم حاصل کی اور پھر عربی پڑھنے کے لئے آپ کو مولانا ابو عبد اللہ غلام علی قصوری ثم امرتسری اور اُن کے شاگردِ رشید مولانا احمد اللہ صاحب کے پاس بھیجا گیا۔ مولانا احمد اللہ صاحب کی شاگردی میں آکر آپ پر وہابیت کا رنگ چڑھنے لگا۔ چنانچہ اُس زمانہ کے بارہ میں آپؓ خود بیان فرماتے ہیں کہ :۔
’’میرے والد بھی اگرچہ آزاد مشرب اور بدعات سے سخت متنفر تھے۔ مگر اس وقت کی توہّب کی مخالف رَو نے اُن کے دل میں یہ خیال پیدا کیا۔ کہ علمِ طب سے واقفیت حاصل کرائی جائے۔ چنانچہ حکیم مراد علی کے پاس تحصیل طب کے لئے جانے کی اجازت دی۔ اور خود حرمین شریفین کی زیارت کو چلے گئے۔ حکیم مراد علی چھپے ہوئے غالی شیعہ تھے۔ جو شخص اُن کے پاس اُٹھتا بیٹھتا۔ اُس پر کچھ اس طرح اپنے عقائد کا اظہار کیا کرتے تھے۔ کہ اس سادہ لوح پر شیعیت کا رنگ چڑھ جاتا تھا۔ مجھ نوجوان خلق متغیر کی سادہ طبیعت میں بھی آہستہ آہستہ شیعیت اثر کر گئی۔ جب میرے والد ایک سال مکّہ معظّمہ اور ایک سال مدینہ طیّبہ میں رہ کر واپس آئے۔ تو اُن کو ایک دوست نے اطلاع دی۔ کہ عبیداللہ توہّب کے گڑھے سے نکل کر شیعیت کے کنوئیں میں گر گیا ہے۔ والد صاحب نے مجھ کو حکیم صاحب کے پاس جانے سے روک دیا۔ اور بقیہ کتب ِطبّیہ کی تعلیم کے لئے حکیم حسام الدین صاحب خلف حکیم گل محمد صاحب کے پاس جانے کی اجازت دی۔ اُن کی خدمت میں حاضر ہونے سے معلوم ہؤا۔ کہ آپ مذہب تفضیل کا عقیدہ رکھنے والے معتزلی الاصول ہیں۔ اُن کی صحبت نے میرے سابقہ عقائد کو اور بھی پختہ کر دیا۔‘‘

(الحکم قادیان، مؤرخہ 7؍نومبر 1938ء، صفحہ7)

’’ارجح المطالب‘‘ کی تصنیف
اور دیگر علمی کارنامے

جن دنوں براہینِ احمدیہ کی اشاعت ہوئی، آپ کو بھی نصف حصّہ دیکھنے کی توفیق ملی۔ مگر پھر رامپور کی طرف سفر اختیار کیا جہاں جنرل عظیم الدین خان مدار المہام نے آپ کو ریاست کے کتب خانہ کی رجسٹراری پر مامور کر دیا۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ:۔
’’بجائے اس کے کہ میں علوم و فنون میں ترقی کرتا۔ اور موقع کو غنیمت سمجھتا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سوانح عمری لکھنے لگ گیا۔ سات سال شب و روز کی عرق ریزی کے بعد ’’ارجح المطالب فی مناقب علی ابن ابی طالب‘‘ لکھ کر لاہور میں چھپوائی۔ گو چار پانچ ایڈیشن اس کے نکلے۔ مگر شیعہ سُنّی دونوں اس سے ناراض ہو گئے۔ شیعہ حضرات ابو بکرؓ کے فضائل دیکھ کر۔ اور اہلِ سنّت حضرت علی کی فضیلت کو اوّل نمبر پر دیکھ کر۔‘‘

(الحکم قادیان، مؤرخہ 7؍نومبر 1938ء، صفحہ7)

آپ کی یہ کتاب ’’ارجح المطالب‘‘ 1899ء میں پہلی بار طبع ہوئی اور نہایت مقبول ہوئی حتّٰی کہ آج تک برِ صغیر کے شیعہ درس گاہوں میں پڑھائی جاتی ہے اور شائع کی جاتی ہے۔ یہ کتاب سیّدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی سیرت و سوانح پر سند سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح آپ نے دیگر تصانیف بھی رقم فرمائیں جن میں ’’مسدس مد و جزر اسلام فارسی‘‘، ’’ترجمان پارسی‘‘ اور ’’مرأت الاسلام‘‘ نمایاں ہیں۔ چنانچہ آپ کی تصانیف کی مقبولیت کے متعلق آپ کے فرزند جمیل احمد صاحب تحریر کرتے ہیں:
’’ارجح المطالب کی نسبت تمام ہندوستان میں شہرت ہو گئی۔ کہ ایسی کتاب آج تک ہندوستان میں نہیں لکھی گئی۔ … شمس العلماء مولوی شبلی نعمانی جیسے نقاد سے اور شمس العلماء مولوی الطاف حسین صاحب حالی جیسے وقت پسند مصنف سے اور مولوی ذکاء اللہ صاحب جیسے عالی دماغ پروفیسر سے اور سید امیر علی صاحب بیرسٹرایٹ لاء سے اور خان بہادر پیرزادہ محمد حسین خاں صاحب ایم اے ڈسٹرکٹ جج سے اور بیل صاحب بہادر ڈائریکٹر سررشتہ تعلیم پنجاب سے ریویو حاصل کر کے ٹیکسٹ بُک کمیٹی میں پیش کر کے تین سو روپیہ انعام حاصل کیا۔ اور مدارس پنجاب کے کورس سرمایہ خرد و پیرایہ خرد۔ گنجینہ خرد کے ابتدائی صفحات ترجمان پارسی کے انتخابات سے مزیّن ہوئے۔ اور تخمیناً دس سال تک زیر تعلیم رہے۔‘‘

(بحوالہ روزنامہ الفضل، 18؍اپریل 2002ء، صفحہ3)

سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے درس القرآن میں ایک دفعہ فرمایا:۔
’’حضرت علامہ عبیداللہ صاحب بسمل ایک چوٹی کے شیعہ عالم تھے۔ اتنے بزرگ اور اتنے علم میں گہرے اور متبحر کہ جب یہ احمدی ہو گئے تو اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ہی نہیں بعد میں پارٹیشن تک، پارٹیشن کے بعد بھی ان کی بعض کتب ابھی تک تدریس کے طور پر شیعہ مدرسوں میں پڑھائی جا رہی ہیں کیونکہ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ایک شیعہ دوست میرے پاس گفتگو کے لیے آئے جب میں وقفِ جدید میں ہوتا تھا تو گفتگو کے بعد انہوں نے اطمینان کا اظہار کیا اور اللہ کے فضل سے احمدی ہو گئے۔ اس فیصلہ کے بعد انہوں نے بتایا کہ میں پہلے آپ کو بتایا نہیں کرتا تھا۔ (پہلے وہ ایک شیعہ عالم تھے، ان کا مجھے عہدہ یاد نہیں مگر وہ شیخوپورہ کے کسی گاؤں یا فیصل آباد کے کسی گاؤں، ان کے بازو کے علاقے کے تھے کہیں کے) انہوں نے بتایا کہ مَیں شیعوں میں یہ مرتبہ رکھتا ہوں، عالم ہوں۔ … اور شیعوں میں کافی مرتبہ رکھتا ہوں لیکن آج میں آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ ابھی تک عبیداللہ صاحب بسمل کی کتب ہمارے مدرسوں میں پڑھائی جا رہی ہیں۔ اتنا ان کا رعب ہے، ان کے علم کا اور ہمیں یہ لوگ بتاتے نہیں۔ …مجھے تو ویسے پتہ لگ گیا ہے اس عالم کے ذریعہ سے۔ لیکن یہ وہاں پڑھاتے ہوئے نہیں بتاتے کہ وہ کون تھا اور بعد میں، بسمل صاحب کے ساتھ کیا ہوا۔‘‘

(ماخوذ از درس القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ بیان فرمودہ 16فروری 1994ء۔ بحوالہ خطبہ جمعہ مؤرخہ 15؍جنوری 2021ء۔ الفضل انٹرنیشنل، 5؍فروری 2021ء، صفحہ6)

بشپ لیفرائے کا لیکچر

’’ارجح المطالب‘‘ کے چھپنے کے کچھ عرصے بعد ہی احمدیت کی طرف آپ کا سفر شروع ہؤا۔ آپ کے بیٹے جمیل احمد صاحب رقمطراز ہیں کہ:۔
’’ابھی والد صاحب لاہور میں ہی مقیم تھے۔ کہ بشپ لیفرائے نے زندہ نبی کے عنوان اشتہار نکال کر اہلِ اسلام کے تمام فرقوں کو دعوت دی۔ جب بشپ نے دورانِ تقریر میں تمام انبیاء کو مردہ اور حضرت عیسیٰ کو زندہ ثابت کر کے جمیع انبیاء پر حضرت عیسیٰ کی افضلیت کا دعویٰ پیش کیا۔ تو سب … سن کر خاموش رہے۔ صرف ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب احمدی نے قرآن و حدیث اور انجیل سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات اور رفع روحانی پر واضح دلیلیں بیان کرنی شروع کیں۔ دیوانہ را ہوائے بس است۔ والد صاحب کی تحقیق طلب طبیعت احمدیت کی طرف مائل ہو گئی۔‘‘

(روزنامہ الفضل، 18؍اپریل 2002ء، صفحہ4)

بشپ لیفرائے کا پہلا لیکچر بعنوان ’’معصوم نبی‘‘ بتاریخ 18؍مئی 1900ء کو فورمین چیپل انارکلی لاہور میں ہؤا۔ بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مؤرخہ 25؍مئی 1900ء کو بشپ کے نام پہلا اشتہار تحریر فرمایا جس میں آپ نے اُسے چیلنج کیا کہ روئے زمین پر صرف اسلام زندہ مذہب ہے اور آنحضرت ؐ ہی زندہ رسول ہیں۔

(مزید تفصیل کے لئے دیکھئے تاریخِ احمدیت، جلد2، صفحہ90 تا 96)

قبولِ احمدیت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت سے فیضیابی:

حضرت مولانا بسملؔ نے قادیان کا سفر کس طرح اختیار فرمایا، اُس کے متعلق آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ:۔
’’ارجح المطالب کا چھپنا تھا۔ کہ میرے ہاتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب سِرُّ الخلافہ آگئی۔ اس کے مطالعہ نے میری آنکھیں کھول دیں۔ اُنہی دنوں مَیں نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو خواب میں دیکھا۔ کہ آپ ایک شخص سے فرما رہے ہیں۔ جاؤ حضرت مرزا صاحب کو کہہ دیں۔ میں یہاں آ گیا ہوں۔ دوسرے روز میں ہمراہ حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسیٰ قادیان آیا۔ اور چہرہ اقدس دیکھتے ہی پروانہ وار قربان ہو گیا۔‘‘

(الحکم قادیان، مؤرخہ 7؍نومبر 1938ء، صفحہ7)

یہ سن 1900ء کی بات ہے جبکہ بشپ لیفرائے آف لاہور نے ’’معصوم نبی‘‘ کے عنوان پر لیکچر دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُسے جواباً چیلنج کیا۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ جب آپ قادیان پہلی بار آئے اور حضور سے مصافحہ اور دست بوسی کا شرف نصیب ہؤا تو دوپہر کا وقت تھا اور حضور مسجد مبارک میں تشریف فرما مہمانوں سے اُن کے احوال دریافت کر رہے تھے۔ کہ اتنے میں دوپہر کے کھانے کا وقت ہؤا اور دسترخوان مسجد میں ہی بچھ گیا۔ ایک پیالی میں کریلے پکے ہوئے تھے اور آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بالمواجہ بیٹھ گئے۔ دورانِ طعام آپ نے حضور علیہ السلام سے بشپ لیفرائے کے لیکچر کے حوالے سےعصمتِ انبیاء کے متعلق سوالات کئے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مسئلہ کو کچھ ایسی شرح و بسط کے ساتھ بیان فرمایا۔ کہ میں اس کا اعادہ نہیں کر سکتا‘‘ اور ’’میرا دل وجد کرنے لگ گیا‘‘۔

(الحکم قادیان، مؤرخہ 7؍مئی 1939ء صفحہ3، کالم2۔ نیز سیرت المہدی، روایت 631)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے کلماتِ طیبات سن کر

’’میرے قلب پر اس وقت رقت طاری ہو گئی۔ اور آنسو بہنے لگ گئے۔ میں نے کھڑے ہو کر عرض کیا۔ کہ میں آج تک سخت بھُولا رہا۔ کاش جس وقت کہ براہینِ احمدیہ چھپ رہی تھی اسی وقت حضور کی قدم بوسی کے لئے حاضر ہوتا۔ یَا لَيْتَنَا كُنَّا مَعَكَ فَنَفُوزَ فَوْزًا عَظِيمًا۔ اُس وقت میں بھی مخالفوں میں سے تھا۔ لیکن اب میں توبہ کرتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَهُ۔ چونکہ میں نے کھڑے ہو کر یہ عرض کیا تھا۔ اس لئے حضورؑ نے آنکھ اُٹھا کر مجھے دیکھا۔ اس وقت میں نے حضور ؑکی چشم مبارک کو دیکھا۔ کہ نہایت روشن اور اجلیٰ تھیں۔

چشم بد دور۔ آنکھیں موتی چور

اس کے بعد میں نے پھر ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آنکھوں کو دیکھا۔ بس دو دفعہ ہی میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آنکھوں کی پُتلی دیکھی ہے۔ کیونکہ حضور کو نہایت غض بصر رہتا تھا۔ جس سے حضور علیہ السلام کی آنکھ کی پتلی کم دکھائی دیتی تھی۔ غالباً کشمیر سے ایک شخص آیا تھا۔ اور اُس نے کچھ پڑھا۔ جس پر حضورؑ نے آنکھ اُٹھا کر اُسے دیکھا۔‘‘

(الحکم قادیان، مؤرخہ 7؍مئی 1939ء صفحہ3تا 4)

حضورؑ کی خدمت میں قصیدہ پیش کرنے کی سعادت

حضرت مولانا بسمل رضی اللہ عنہ ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ فارسی اور عربی دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ چنانچہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں ایک قصیدہ کہا جسے آپ کو حضور کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت بھی ملی۔ آپ پچھلی عبارت کے تسلسل میں فرماتے ہیں:۔
’’اسی شب کو یا اس کے بعد دوسری شب کو میں نے ایک قصیدہ پڑھا۔ جس کے دو اشعار یہ ہیں۔

؎آدمِ ثانی، سمئ مصطفیٰ، عیسیٰ مسیح
یوسفِ مصر امامت مہدئ آخر زماں

یعنی آپ آدمِ ثانی، آنحضرت ؐ کے ہمنام، عیسیٰ مسیح اور یوسفِ مصر (کی خصوصیات رکھنے والے) ہیں۔ مہدیٴ آخر زمان (کی یہ شان ہے)۔ ناقل

؎ذاتِ اُو واللہ اعلم عالمے در عالمے
قدرِ اُو اللہ اکبر آسماں بر آسماں

یعنی اللہ تعالیٰ سب سے بہتر جانتا ہے کہ آپؑ کی ذات عالم میں ایک عالم ہے۔ اور اللہ اکبر! آپ کی قدر و منزلت آسمان پر ایک آسمان ہے۔ ناقل

جب میں اس شعر پر پہنچا۔

؎خاتَم ختمِ خلافت از برائت واگذاشت
کرد چوں ختمِ نبوت خاتمِ پیغمبراں

یعنی: آپ خلافت کے خاتم ہیں، آپ پر اُسی طرح خلافت ختم ہے جس طرح کہ حضرت خاتم الانبیاء ؐ نے نبوت کو ختم کر دیا۔ ناقل

تو حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا۔ پھر پڑھو۔ چنانچہ دو دفعہ حضور نے یہ شعر مجھ سے پڑھوایا۔ جب میں نے یہ شعر پڑھا۔

؎آرے آرے حالِ من مانند بکعب ابن زہیرؓ
آنچہ باوے کرد پیغمبر بکن بامن ہماں

ہاں! ہاں! میرا حال کعب ابن زہیرؓ جیسا ہی ہے۔ جس طرح آنحضرتؐ نے اُس کے ساتھ سلوک کیا، آپ بھی مجھ سے ویسا ہی سلوک کریں۔ ناقل

تو اس وقت کسی صاحب نے یہ اعتراض کیا کہ شاعر کہتے کہتے حد سے بڑھ جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی نسبت کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ سے جا ملائی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ کچھ نسبت ہؤا ہی کرتی ہے۔‘‘

(الحکم قادیان، مؤرخہ 7؍مئی 1939ء صفحہ4)

قارئین کی خدمت میں عرض کر دوں کہ حضرت کعب بن زہیر بن ابی سُلمٰی رضی اللہ عنہ ابتداء میں اسلام کے دشمن تھے اور آنحضرت ؐ کی شان میں گستاخی کرتے تھے۔ ان کے جرائم کی وجہ سے آنحضرت ؐ نے ان کے قتل کا ارشاد فرمایا۔ جب انہیں یہ معلوم ہؤا تو حضرت رحمۃ للعالمین ؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے گناہوں پر ندامت کا اظہار کیا اور رحم کی طلب کی۔ چنانچہ کعب بن زہیرؓ نے اس وقت آنحضرت ؐ کی شان میں قصیدہ کہا جسے سن کر آنحضرتؐ نے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور اپنی چادر عنایت فرمائی۔ اور معاف فرما دیا۔ یہ قصیدہ بُردہ کہلایا (بُردہ چادر کو کہتے ہیں) اور اپنے مطلع کی وجہ قصیدہ بَانَتْ سُعَاد کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ (لیکن اِسے امام بوصیری ؒ کے قصیدہ بُردہ سے نہ ملایا جائے جس میں ’’مَوْلايَ صَلِّ وَسَلِّمْ دَائِماً أَبَداً‘‘ کا مصرعہ آتا ہے۔)

پس حضرت مولانا بسملؔ کو ایک رنگ میں صحابیٴ رسول ؐحضرت کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ سے مشابہت حاصل تھی جیسا کہ حضور علیہ السلام کے مندرجہ بالا مبارک ارشاد میں اشارہ ملتا ہے۔

یہ مکمل قصیدہ الحکم کے شمارہ مؤرخہ 24؍جنوری 1901ء کے صفحہ11تا 12 پر درج ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت

اپنی بیعت کے بارے میں آگے بیان کرتے ہیں:
’’جس دن میں نے یہ قصیدہ پڑھا۔ اس کی دوسری شب کو حضرت صاحب سے ایک مولوی عبدالرحیم صاحب تھے انہوں نے عرض کیا۔ کہ عبیداللہ کہتا ہے میری بیعت قبول فرمائی جائے۔ حضور اس وقت شہ نشین پر تشریف رکھتے تھے۔ حضرت صاحب نیچے تشریف لے آئے اور بیعت قبول فرمائی۔ توبہ و استغفار کے بعد جب حضرت صاحب نے فرمایا۔ کہ میں حتی المقدور دین کو دنیا پر مقدّم رکھوں گا۔ تو میرا بدن لرز گیا۔ میں نے دل میں کہا یہ انوکھی بیعت ہے۔ اور بیعت ہے تو یہ ہے۔ کیونکہ میں اکثر جگہ بیعت کر چکا تھا۔ تو کسی بزرگ نے کہا کہو مَیں دل سے خاندان نقشبندیہ کی غلامی میں داخل ہو گیا ہوں۔ کسی نے کہا۔ میں خاندان عالیہ قادریہ کی غلامی میں داخل ہو گیا ہوں۔ کسی نے کہا۔ خاندان چشتیہ کی غلامی میں داخل ہو گیا ہوں۔ لیکن یہ جوأ میری گردن پر کسی نے نہیں رکھا تھا۔ میرے نفس نے کہا۔ اے بسمل! کیا تُو یہ بیعت اُٹھا سکتا ہے؟ دل نے کہا بہت مشکل ہے۔ لیکن اب ہاتھ کا کھینچنا باعثِ ندامت ہے۔ رَضِیْنَا بِقَضَاءِ اللّٰہِ۔ اقرار کرو کہ ہاں میں ایسا ہی کروں گا۔ بعد بیعت نمازِ عشاء تک میں خاموش بیٹھا رہا۔ اور دل میں اُدھیڑ بُن کرتا رہا۔ کہ کیا میں اس بوجھ کو اٹھا سکتا ہوں یا نہیں؟ اذان ہوئی اور نماز پڑھی گئی۔ نماز پڑھنے کے بعد میں نے جنابِ الٰہی میں دعا کی۔ کہ الٰہی مجھے توفیق عطا فرما۔ کہ اگر اَور کچھ نہیں تو میں اس سلسلہ پر ثابت قدم ہی رہوں۔‘‘

(الحکم قادیان، مؤرخہ 7؍مئی 1939ء صفحہ4)

بیعت کی روایات کے متعلق ایک نوٹ

بیعت کے متعلق حضرت مولانا بسملؔ کی اپنی روایات میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ جب آپ قادیان پہلی بار گئے تو اُنہی دنوں میں حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید رضی اللہ عنہ بھی قادیان میں آئے ہوئے تھے۔ خاکسار کی رائے میں یہ بات درست نہیں۔ کیونکہ:۔
حضرت صاحبزادہ صاحب پہلی بار 18؍نومبر 1902ء کو قادیان پہنچے (البدر، 28؍نومبر، 1902ء، صفحہ35، کالم2) جبکہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مولانا بسملؔ کی قادیان میں آمد بشپ لیفرائے کے لیکچر (مؤرخہ 24؍مئی 1900ء) کے کچھ عرصے بعد ہوئی ہے کیونکہ آپؓ نے حضور علیہ السلام سے اسی موضوع پر سوالات کئے۔ اور عصمتِ انبیاء کے موضوع پر حضور ؑ کے جوابات نے آپ کے دل پر گہراثر چھوڑا۔

آپؓ خود بیان کرتے ہیں کہ بیعت سے ایک یا دو راتیں قبل آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں قصیدہ پڑھا۔ جسے حضورؑ نے سنا اور خوشنودگی کا اظہار فرمایا۔ یہ قصیدہ الحکم کے شمارہ مؤرخہ 24؍جنوری 1901ء کے صفحہ11تا 12 پر درج ہے۔ پس لازماً آپ نے اس تاریخ سے پہلے ہی بیعت کی۔

مؤرخ احمدیت حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہدؔ نے آپ کی بیعت کا سال 1900ء قرار دیا ہے۔

(دیکھئے تاریخِ احمدیت، جلد دوم، صفحہ161)

ہاں یہ عین ممکن ہے، بلکہ ایسا ہی ہؤا ہو گا، کہ آپ دوبارہ قادیان اُس وقت گئے ہوں جبکہ حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہیدؓ بھی قادیان حاضر ہوئے۔ یعنی نومبر 1902ء میں۔

ایک اَور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ دسمبر 1900ء میں حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہیدؓ نے اپنے شاگردِ رشید حضرت مولوی عبد الرحمٰن صاحب رضی اللہ عنہ کو مع اپنے دیگر تلامذہ کے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بیعت کا خط دے کر بھجوایا (تاریخِ احمدیت، جلد دوم، صفحہ157)۔ ممکن ہے کہ حضرت مولانا بسملؔ بھی اُنہی دنوں میں قادیان پہلی بار آئے ہوں جبکہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے یہ شاگرد آئے۔ اور چونکہ پہلے سفرمیں حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کا ذکر ہؤا ہو گا اور دوسرے میں ان سے ملاقات، اس وجہ سے دونوں واقعات ملا دیئے گئے ہوں۔

در اصل یہ روایات قریباً تیس پینتیس سال کے طویل زمانے کے بعد احاطہٴ تحریر میں لائی گئیں اور اتنے عرصے کے بعد تاریخوں میں غلطی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ نسیان بھی ہو جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں مَیں نے الحکم، البدر اور تاریخِ احمدیت کے ریکارڈز کو غور سے دیکھا ہے اور ہر پہلو سے یہی درست معلوم ہوتا ہے کہ آپؓ نے اواخر 1900ء میں بیعت کی، نہ کہ 1902ء میں۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں تناولِ طعام

اب ہم اصل مضمون کی طرف عود کرتے ہیں۔ حضرت مولانا عبید اللہ صاحب بسملؔ کو کئی بار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں کھانا کھانے کی سعادت ملی۔ اور آپؓ کو حضور علیہ السلام کا تبرّک حاصل کرنے کا از حد شوق تھا۔ چنانچہ آپ بیان کرتے ہیں:۔
’’اکثر ایسا ہوتا کہ کھانا کھاتے وقت دیدہ و دانستہ میں حضرت اقدس کے بالمقابل بیٹھتا۔ اور کھانا کھانے کے وقت میں تبرک حاصل کرنے کے لئے جس رکابی میں میرے سامنے سالن ہوتا۔ میں اُس میں ہاتھ نہ ڈالتا اور یونہی روٹی کے خالی لقمے منہ میں ڈالتا رہتا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نصف کے قریب کھانا کھا لیتے۔ تو میں اپنے سالن کی کٹوری حضرت کے سامنے رکھ دیتا۔ اور حضرت کا اُلُش آپ کھا لیتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دو ایک دفعہ دیکھ کر میرے اٹھانے سے پیشتر ہی اپنی رکابی میرے آگے رکھ دیتے۔ اور میں اپنی رکابی حضرت صاحب کی طرف کر دیتا۔ تین چار دفعہ ایسا ہی ہؤا۔ اور ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تبسّم فرماتے۔‘‘

(الحکم قادیان، 7؍مئی 1939ء، صفحہ4)

حضرت اقدس علیہ السلام کی معیت میں سیر اور ایک اعزاز

حضرت مولانا بسملؓ کو بارہا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ سیر پر جانے کا شرف نصیب ہؤا۔ آپ بیان کرتے ہیں:۔
’’حضرت صاحب کے ساتھ اکثر باہر سیر کو میں جایا کرتا تھااور اکثر رفقاء ساتھ ہوتے تھے۔ ایک روز حضرت کے پاؤں میں ایک جوتی تھی۔ جس کی ایڑی بیٹھی ہوئی تھی۔ اور پنڈلی پر ٹخنے کے قریب دھجی لپٹی ہوئی تھی۔ در اصل کوئی پھنسی تھی۔ جس پر حضور نے پھاہا لگایا ہؤا تھا۔ راستے میں اس کا بندھن کھل گیا۔ اور وہ لٹکتی اور زمین پر گھسٹتی ہوئی دُور تک چلی گئی۔ میں دیکھتا تھا۔ لیکن مجھ کو جرأت نہیں ہوتی تھی۔ کہ میں عرض کروں کہ پٹی کھل گئی ہے۔ حضور قیام فرمائیں تو مَیں باندھ دوں۔ لیکن جب دور تک یہی حالت رہی تو میرا دل بے تاب ہو گیا۔ مَیں نے جرأت کر کے عرض کیا۔ کہ حضرت کی پٹی کھل گئی ہے۔ اگر اجازت ہو تو میں باندھ دوں۔ اس وقت حضرت ایستادہ ہو گئے۔ جب میں نے پٹی کو ہاتھ لگایا تو وہ نہایت گرد آلودتھی۔ میں نے اس کو الگ کر دیا۔ جیب میں ہاتھ ڈالا تو رومال نہیں تھا۔ میں نے سر کے عمامہ کے شملہ سے جھٹ دھجی پھاڑی۔ اور حضرت کے پائے مبارک کو باندھی۔ حضرت نے اس وقت دیکھ کر میرے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔ لیکن زبان سے کچھ نہیں فرمایا۔ اور اسی طرح سے باتیں کرتے ہوئے تشریف لے گئے۔‘‘

(الحکم قادیان، 7؍مئی 1939ء، صفحہ4)

’’مثنوی لکھو۔ تمہارا یہی جہاد ہو گا‘‘

آپؓ بیان کرتے ہیں کہ:
’’میں چند روز یہاں دارالاماں میں ٹھہرا۔ پھر رخصت طلب کی۔ ارشاد ہؤا۔ مولوی عبید اللہ تمہاری طبیعت شاعری کی طرف مائل ہے۔ غزل گوئی اور قصیدہ گوئی چھوڑ دو۔ کوئی مثنوی لکھو۔ تمہارا یہی جہاد ہو گا۔ نبی کریم ؐ کے عہد میں شعراء کا جہاد یہی ہوتا تھا۔ میں نے اس روز سے عشق و عاشقی کی غزلیں لکھنی چھوڑ دیں۔ اور بعد میں ارشاد کی تعمیل میں خاتم النبیین اور النص الصریح لکھیں۔‘‘

(الحکم قادیان، 7؍مئی 1939ء، صفحہ4)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو
دبانے کی سعادت

حضرت مولانا ؓ بیان کرتے ہیں کہ جن دنوں وہ لاہور میں رہائش پذیر تھے، ایک دفعہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام وہاں تشریف لائے۔ جب حضور کی قادیان واپسی کا وقت آیا تو:
’’لاہور کے پلیٹ فارم پر ایک جگہ کرسی بچھا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ٹھہرایا گیا۔ کیونکہ ریل کے چلنے میں ابھی دیر تھی۔ اور ہجوم کثرت سے تھا۔ میں حضرت کی کرسی کے پاس بیٹھ کر حضرت کے پاؤں دبانے لگا۔ دوسری طرف ایک اَور شخص تھا۔ لیکن وہ اس زور سے دباتا تھا کہ مجھے حیرت ہوتی تھی۔ اور میں نہایت آہستگی کے ساتھ دباتا تھا۔ میں نے دو ایک دفعہ اس کو اشارہ بھی کیا کہ آہستگی سے دبا۔ مگر وہ اَور زور سے دبانے لگ گیا۔ وہ باوجودیکہ نہایت زور سے دباتا تھا۔ حضور کے چہرے پر ملال کے آثار پیدا نہیں ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ اس نے ایک دفعہ دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اس زور سے دبایا۔ کہ اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ اتنے میں ریل آ گئی اور حضرت سوار ہو گئے۔ بعد میں وہ مجھ سے ذکر کرنے لگا۔ کہ میں نے زبردست سے زبردست انسان کو دبایا ہے اور وہ ضرور میرے دبانے سے کسمسایا ہے لیکن حضرت کو محسوس تک نہیں ہؤا۔ میاں معراج الدین صاحب اس وقت پاس کھڑے تھے۔ انہوں نے کہا۔ کہ آنحضرتؐ نے ایک صحابی کی ران پر گھٹنا رکھ دیا تھا۔ تو وہ کہتا تھا کہ قریب ہے میری ران کا گوشت پِس جائے۔ سو بھائی ان بزرگوں کا یہی حال ہوتا ہے۔ کسی کی زور آزمائی ان کے جسم پر کام نہیں کرتی۔‘‘

(الحکم قادیان، 7؍مئی 1939ء، صفحہ4)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے
معجزات کے گواہ

حضرت مولانا عبید اللہ صاحب بسملؔ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے کئی نشانات کو پورا ہوتے دیکھا۔ آپ فرماتے تھے کہ ’’حضرت مسیح موعودؑ کے معجزات اس قدر ہیں۔ کہ اگر میں لکھوں تو ایک ضخیم کتاب بن جائے۔‘‘ (الحکم، مؤرخہ 7؍نومبر 1938ء، صفحہ8) نیز ’’مسیح موعود کی صداقت کے نشانات مجھ سے پوچھو‘‘۔ اور آپ ان نشانات کو اس قدر محبت اور عمدگی سے بیان کرتے کہ سننے والوں کو مزا آجاتا تھا۔

(رسالہ تشحیذ الاذہان، جون 1918ء، صفحہ25)

ذیل میں آپؓ کے ہی الفاظ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عظیم الشان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے بارے میں آپ کی چشمدید گواہیاں درج کی جاتی ہیں۔

اواخر 1902ء میں آپ کو قادیان جانے کی سعادت ملی۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے، یہ وہی ایّام تھے جن میں حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید رضی اللہ عنہ افغانستان سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کے لئے قادیان آئے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت صاحبزادہ صاحبؓ آپ کے دو دن بعد آئے۔

(دیکھئے الحکم، 7؍نومبر 1938ء، صفحہ7)

اس زمانے کا نقشہ کھینچتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ جب قادیان پہنچے ’’آ کر دیکھا۔ تو کسی قدر بہ نسبت سابق قادیان میں چہل پہل تھی۔ خربوزوں کے دن تھے۔ مسجد مبارک میں پہنچا۔ اس وقت چند متبرک نفوس خربوزے کھا رہے تھے۔ چنانچہ میں نے بھی ایک آدھ خربوزہ کھایا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے بر آمد ہونے کی نسبت پوچھا۔ لوگوں نے کہا ابھی کچھ دیر ہے۔ میں نے خیال کیا چلو حضرت مولانا نور الدین ؓصاحب کی زیارت کر آئیں۔ مولوی صاحب کے مطب میں پہنچا۔ مولوی صاحب اس وقت تشریف نہیں رکھتے تھے۔ محمد اعظم خوشنویس مجھ کو مل گیا۔ وہ اپنی بیٹھک پر لے گیا۔ تھوڑی دیر وہاں بیٹھا ہوں گا۔ کہ محمد اعظم نے کہا۔ اب حضرت صاحب کے برآمد ہونے کا وقت ہے۔ میں عجلت سے مسجد مبارک میں پہنچا۔ اتنے میں مولوی عبد الکریم صاحب تشریف لے آئے۔ اُن سے مصافحہ ہؤا۔ ابھی اِدھر اُدھر کی گفتگو ہوئی تھی۔ کہ سیڑھیوں پر سے اوپر اُٹھتے ہوئے حضرت مولوی عبد اللطیف صاحب شہید کی زیارت ہوئی۔ مولوی عبد الکریم صاحب ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔ آپ کہاں سے آئے ہیں اور کون ہیں؟ مولوی عبد اللطیف صاحب نے فرمایا میں سیّد ہوں اور کابل سے آیا ہوں۔ ارادہٴ حج رکھتا ہوں حضرت مرزا صاحب سے کہہ دیں کہ میں آ گیا ہوں۔‘‘

(الحکم قادیان، مؤرخہ 7؍موئی 1939ء، صفحہ3)

سیرت المہدی کی روایت میں آپ بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید ؓ کا چہرہ دیکھتے ہی آپ کو اپنی خواب یاد آ گئی جس میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے آپ کی ملاقات ہوئی (روایت 631)۔ پھر آپؓ آگے بیان کرتے ہیں کہ :۔
’’ایک روز اُن (حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحبؓ۔ ناقل) کی خدمت میں مہمان خانہ گیا۔ چند کتابیں وہاں دیکھ کر میں نے ایک کتاب اٹھائی۔ وہ درّ ثمین تھی۔ کھول کر پڑھنے لگا۔ ناگاہ اس شعر پر نظر پڑی

کربلائے است سیر ہر آنم
صد حسین است در گریبانم

یعنی ’’میں ہر آن کربلا میں پھرتا ہوں۔ سو حسین میرے سینے میں ہیں۔‘‘ ناقل

دل میں خیال آیا۔ کہ بہت بڑا دعویٰ ہے۔ حضرت امام حسین جیسی شخصیت کا آدمی ہونا تو امر دشوار۔ کچھ دیر کے بعد میں وہاں سے اُٹھ کر چلا آیا۔ اور مسجد مبارک میں گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک شخص سے باتیں کر رہے تھے۔ اثناء کلام میں فرمانے لگے اَلْوَلَدُ سِرٌّ لِأَبِیْهِ یہ فقرہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبانِ حقائق ترجمان پر جاری ہی تھا۔ کہ سیّد صاحب مسجد کے دروازہ سے مع رفقاء داخل ہو گئے۔ اور سلام کہہ کر میرے پہلو میں بیٹھ گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام چند لمحوں کے بعد اُٹھ کر حرم سرا میں تشریف لے گئے۔ مولوی عبد الکریم صاحب نے سیّد صاحب سے پوچھا۔ آپ حسنی سیّد ہیں یا حسینی؟ سیّد صاحب کہنے لگے۔ ہمارا خاندان حسینی ہے۔ اتنے میں نمازِ ظہر کی اذان ہو گئی۔ جب سیّد صاحب کابل واپس جا کر شہید ہو گئے۔ تو یہ تمام واقعات یعنی جناب امام حسین کا میرے خواب میں آنا اور فرمانا کہ مرزا صاحب سے کہہ دو میں آ گیا ہوں۔ اور سیّد صاحب کی نشست گاہ میں میرا کتاب دُرِّ ثمین کو دیکھنا۔ اور خاص ’’کربلااست سیر ہر آنم‘‘ کے شعر پر مجھ کو جناب امام حسین کی شخصیت کا خیال آ کر حضرت اقدسؑ کی خدمت میں جانا اور حضرت کا ایک شخص سے اَلْوَلَدُ سِرٌّ لِأَبِیْهِ کہنا اور اس کے معاً بعد سیّد صاحب کا نمودار ہو جانا۔ اور شکل و شباہت کا مِل جانا۔ اور پھر مولوی عبد الکریم صاحب کا سیّد صاحب سے حسب نسب کا سوال کرنا میرے آئینہ خیال میں پرتو افگن ہوئے۔ اور مَیں وجد میں آ کر ’’کربلائے است سیر ہر آنم‘‘ کا تکرار کرنے لگ گیا۔‘‘

(الحکم قادیان، مؤرخہ 7؍نومبر 1938ء، صفحہ7)

’’دورِ خسروی‘‘ کی پیشگوئی

مؤرخہ 11؍مارچ 1906ء کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو یہ شعر الہام ہؤا:

؎چو دَورِ خسروی آغاز کردند
مسلماں را مسلماں باز کردند

یعنی جب مسیح السلطان کا دَور شروع کیا گیا تو مسلمان کو جو صرف رسمی مسلمان تھے نئے سرے سے مسلمان بنانے لگے۔ (تذکرہ، طبع، صفحہ514۔ بحوالہ درِّ ثمین فارسی مترجم، جلد اوّل، صفحہ8، مطبوعہ 2018ء) حضرت مولانا عبید اللہ صاحب بسملؔ اُن ایّام میں قادیان گئے ہوئے تھے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ:
’’ایک دفعہ حضرت اقدس علیہ السلام نے قبل از نماز ظہر محل سرا سے بر آمد ہو کر مولوی عبد الکریم صاحب کو طلب فرمایا۔ اور ارشاد کیا۔ کہ آج یہ شعر الہام ہؤا ہے

؎چو دَورِ خسروی آغاز کردند
مسلماں را مسلماں باز کردند

میں نے عرض کیا۔ کہ عنوان تو ایسے معلوم ہوتے ہیں۔ کہ جس طرح مسیحؑ کے بعد قسطنطین اعظم سے دور خسروی شروع ہؤا تھا۔ اُسی طرح ہماری جماعت میں بھی کہیں سو برس کے بعد دورِ خسروی شروع ہو گا۔ فرمایا نہیں جلد شروع ہو گا۔ پھر میں نے عرض کیا ’’مسلماں را مسلماں باز کردند‘‘ کے معنی اِس کے سوا اَور کیا ہو سکتے ہیں۔ کہ غیر احمدی مسلمانوں کو احمدی مسلمان کیا جائے گا۔ فرمانے لگے نہیں اس کے سوا اَور بھی معنی ہیں۔ تم خود دیکھ لو گے۔ جب ملکانہ میں مرتدین کو از سرِ نو مسلمان کیا گیا۔ تو مجھ پر ’’مسلماں را مسلماں باز کردند‘‘ کے معنی حل ہو گئے۔ اور رامپور سے دوبارہ آنے پر جب دفاتر کا انتظام دیکھا۔ تو معلوم ہؤا۔ کہ دورِ خسروی کا بھی آغاز ہو گیا ہے۔ اللّٰہم زد فزد۔‘‘

(الحکم، مؤرخہ 7؍نومبر 1938ء، صفحہ7)

اِسی واقعہ کا ذکر ’’سیرت المہدی‘‘ کی روایت نمبر 631 میں بھی کیا گیا ہے۔

بیماری سے شفایابی کے نشان

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا اور توجہ سے ایک تکلیف سے شفایابی پانے کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ:۔
’’مجھے برف کے پانی پینے سے بائیں بازو اور ران میں سخت درد ہو گیا۔ اور ساتھ ہی میرا بایاں ہاتھ شدّت کے ساتھ درد کرنے لگا۔ اور اس میں ایسی سردی آ گئی۔ کہ گویا یخ کا ایک ٹکڑا ہے۔ جو شخص ہاتھ لگاتا۔ سخت سردی محسوس کرتا تھا۔ میں نے حضرت اقدسؑ سے عرض کیا۔ کہ مجھ کو خَدَر ہو گیا ہے۔ فالج ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس وقت ایک شخص سے باتیں کر رہے تھے۔ مجھ کو فرمانے لگے۔ آرام ہو جائے گا۔ میں زیادہ اپنا حال بیان نہ کر سکا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ دیکھا کہ میرے قلب میں ایک گونہ فرحت پیدا ہو گئی ہے۔ قیلولہ کرنے کی مجھ کو عادت تھی۔ اُسی روز جبکہ قیلولہ کر کے اٹھا۔ تو دیکھا۔ نہ سردی ہے۔ نہ درد نہ خَدَر ہے نہ سستی۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذالک‘‘

(الحکم، مؤرخہ 7؍نومبر 1938ء، صفحہ8)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کی قبولیت کا ایک اَور نشان آپ بیان کرتے ہیں جس میں پیشگوئی کا بھی ایک پہلو ہے:۔
’’قادیان میں ایک دفعہ میرا لڑکا جس کا نام عنایت اللہ تھا۔ بیمار ہو گیا۔ وہ دن وبائے طاعون کے تھے۔ اور ابھی حضرت اقدس کے گھر لوگوں کی آمد و رفت جاری تھی۔ امتناعی حکم صادر نہیں ہؤا تھا۔ میری بیوی روتی ہوئی حضرت اقدس کی خدمت میں پہنچی اور نہایت عاجزی سے عرض کرنے لگی۔ حضور دعا فرمائیں کہ میرا لڑکا ہلاکت سے بچ جائے۔ حضرت اس کی گریہ و زاری دیکھ کر بیٹھ گئے اور دعا فرمانے لگے۔ بعد دعا کے ارشاد فرمایا۔ کہ مجھ سے دعا نہ کراتی تو اچھا تھا۔ میری بیوی نے کہا حضرت کیا ہلاک ہو جائے گا؟ فرمایا نہیں ہلاکت سے تو بچ جائے گا۔ اُس نے مجھے آ کر کہا کہ حضرت صاحب نے فرمایا کہ۔ دعا نہ کراتی تو بہتر تھا۔ میں نے کہا اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ حضرت صاحب نے یہ کیوں فرمایا ہے۔ مگر ہے خطرناک۔ بعد مدّت مدید کے جب حضرت کا انتقال ہو گیا۔ اور حضرت خلیفہ اوّلؓ بھی انتقال فرما چکے۔ اور وہ بیوی بھی مر گئی۔ تو حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ایّدہ اللہ تعالیٰ کے عہدمیں وہ میرا منجھلا لڑکا نہایت بد معاش نکلا۔ اُس نے قادیان میں بھی سخت شرارت کی۔ جس کی وجہ سے اُس کو جماعت سے نکالنے کا حکم ہؤا۔ پھر وہ پیغامی ہو گیا۔ اور بعد میں عیسائی ہو گیا۔ جب میں اس کی شرارتیں دیکھتا۔ تو میرے منہ سے بارہا نکلتا۔ کہ یہ اُسی وقت ہلاک ہو جاتا تو بہتر تھا۔‘‘

(الحکم، 7؍مئی 1939ء، صفحہ5، 7)

دینی خدمات

بیعت کرنے کے بعد آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سےقلمی اور علمی جہاد کرنے کی خوب توفیق ملتی رہی۔ مثال کے طور پر چند خدمات درج ذیل ہیں:

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد پر آپ نے ’’تذکرة الشہادتین‘‘ کا فارسی ترجمہ کیا۔

(روزنامہ الفضل، 18؍اپریل 2002ء، صفحہ3)

آپ کو ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا فارسی ترجمہ کرنے کی بھی سعادت ملی۔ جس کی کاپیاں ایران بھیجی گئیں۔

(روزنامہ الفضل، 18؍اپریل 2002ء، صفحہ4)

آپ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے فرمان پر مثنویاں تحریر کیں۔ مثلاً ’’خاتم النبیین‘‘ اور ’’النص الصریح‘‘

(الحکم قادیان، 7؍مئی 1939ء، صفحہ4)

آپ نے تبلیغی کتب تحریر کیں جن میں ’’حق الیقین فی معنی خاتم النبیین‘‘ نمایاں ہے جس کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’آج تک ہمارے سلسلہ میں کسی نے ایسی کتاب نہیں لکھی‘‘۔

(الحکم، 7؍نومبر 1938ء، صفحہ8۔ نیز رسالہ تشحیذ الاذہان، جون 1918ء، صفحہ25)

آپ کو تعلیم الاسلام ہائی سکول میں فارسی کے مدرّس کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ آپ کے شاگردوں میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ شامل ہیں۔

(الحکم، 7؍مئی 1939ء، صفحہ5۔ نیز سیرت المہدی، روایت 631)

’’فردوسیٴ ثانی‘‘ کا خطاب

آپؓ فارسی کے چوٹی کے شاعر تھے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے آپ کی ایک نظم سن کر فرمایا ’’ان کا کلام تو فردوسی کے کلام کا نمونہ ہے۔‘‘ لہٰذا اس پر آپؓ خود کہتے ہیں:۔

؎از مسیح اللہ گشتم فیضیاب
یافتم فردوسیٴ ثانی خطاب

کہ میں اللہ کے مسیح سے فیضیاب ہؤا ہوں اور میں نےآپؑ سے فردوسیٴ ثانی کا خطاب پایا ہے۔

(رسالہ تشحیذ الاذہان، جون 1918ء، صفحہ26)

قارئین کی خدمت میں عرض کرتا چلوں کہ حکیم ابو القاسم فردوسی (وفات 1020ء؍410ھ) فارسی کے بلند پایہ شاعر تھے جنہوں نے ’’شاہنامہ‘‘ کے نام سے ایران کی تہذیبی، تمدّنی اور ثقافتی تاریخ کو منظوم کلام میں قلمبند کیا۔ اس ادبی شاہکار میں دلچسپ انداز میں ایرانی سلطنت کی داستانیں بیان کی گئی ہیں۔ فردوسی فارسی ادب کی کائنات میں خاص اور منفرد مقام رکھتے ہیں۔ پس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا حضرت عبید اللہ صاحب بسملؔ کو فردوسی کا خطاب دینا آپؓ کے قادرالکلام شاعر ہونے پر ایک زبردست دلیل اور خراجِ تحسین ہے۔

مؤرخ احمدیت حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہدؔ اپنے ایک مضمون میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت مولانا بسملؔ:
’’…بیسویں صدی کی ایک ممتاز علمی شخصیت تھے جنہیں اپنے بلند پایہ فارسی کلام کے زاویہ نگاہ سے ’’فردوسیٴ ہند‘‘ قرار دیا جائے تو مبالغہ نہیں ہو گا۔ جناب خواجہ عبد الرشید نے ’’تذکرہ شعرائے پنجاب‘‘ میں ممتاز احمدی شعراء مثلاً حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر کپورتھلوی، حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی کے علاوہ آپ کا بھی خصوصی تذکرہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ ملک الشعرائے ایران سنجرؔ نے حضرت بسملؔ سے ملاقات کی اور ان کے اشعار کا مطالعہ کرنے کے بعد اعتراف کیا ’’واللہ من بہتر ازیں نمے توانم گفت‘‘۔ خدا کی قسم میں اس سے بہتر نہیں کہہ سکتا۔

حضرت مولانا بسمل گلستانِ احمدیت کے عندلیبِ خوش نوا اور علمی اور روحانی دونوں اعتبار سے ایک نہایت عالی پایہ بزرگ ہستی تھے وہ روشنی کا ایک مینار تھے جس کی تجلیات نے علم و ادب کی دنیا کو عرصہ تک رشک قمر بنائے رکھا۔ برّ صغیر میں آپ کی جلیل القدر علمی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ جنہیں ہمیشہ سنہری حروف سے رقم کیا جائے گا۔‘‘

(روزنامہ الفضل، 18؍اپریل 2002ء، صفحہ3)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ آپ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ آپؓ ’’فارسی اور تاریخ کے نہایت کامل استاد تھے۔ حتٰی کہ مَیں نے مولوی محمد اسمٰعیل صاحب فاضل سے سُنا ہے کہ ان کے متعلق ایک دفعہ حضرت خلیفہ اوّلؓ فرماتے تھے کہ مولوی صاحب فارسی کے اتنے بڑے عالم ہیں کہ مجھے رشک ہوتا کہ کاش مجھے یہ علم عربی میں حاصل ہوتا۔ …اُردو میں بھی نہایت ماہر تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے آمین‘‘

(سیرت المہدی، روایت نمبر 631)

اخلاقِ فاضلہ

رسالہ تشحیذ الاذہان کے جون 1918ء کے شمارہ میں نہایت خوبصورت پیرائے میں چند کبار صحابہٴ مسیح موعود ؑ رضی اللہ عنہم کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ حضرت مولانا عبید اللہ صاحب بسملؔ کے اخلاقِ فاضلہ پر ایک طائرانہ نظر سپردِ قلم کرتے ہوئے راقم لکھتے ہیں:۔
’’میرے ساتھ آؤ۔ تمہیں قادیان کے چھوٹے سے قصبہ کی تنگ اور پیچیدہ گلیوں کی سیر کراؤں۔ مسجد اقصیٰ سے جنوب کی طرف برہمنوں کے مکانات کے پچھواڑے ایک گوشہ میں ایک مکان واقع ہے۔ اس کی زیبائش کی طرف دھیان کرو۔ ٹوٹی ہوئی چٹائیاں بچھی ہیں۔ ایک چٹائی پر ایک بوسیدہ سا کپڑا بچھا ہے۔ عربی زبان کے مختلف علوم و فنون کی چوٹی کی کتابیں بے ترتیب اوپر تلے گڈمڈ ہوئی پڑی ہیں۔ کچھ دوائیوں کی شیشیاں اسی فرش پر اور الماری میں رکھی ہیں۔ ایک نورانی بزرگ سر جھکائے قلم ہاتھ میں کاغذ زانوؤں پر دوات دائیں طرف رکھے ہوئے استغراق کے عالم میں بیٹھا ہے۔ اس کے قلم کو دیکھو کاغذ پر کیا کیا صوری اور معنوی گلکاریاں کر رہا ہے۔ لکھتا ہے۔ اور لکھتے لکھتے رک کر قلم کے آخری حصہ کو ہونٹوں سے دباتا ہے۔ کبھی کان پر رکھ لیتا ہے۔ اور کتابوں میں سے کوئی ایک کتاب اُٹھا کر ورق گردانی کرتا ہے۔ ایک مقام پر ٹھہر جاتا ہے۔ اور چہرے پر کامیابی کے آثار ظاہر ہوتے ہیں۔ پھر قلم کو سنبھال کر لکھنے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ جب کوئی بیمار یا کوئی اَور شخص اس کے پاس آتا ہے۔ اپنا مشغلہ تحریر چھوڑ کر بیمار کو نسخہ یا دوا دیتا ہے۔ اور دوسرے ملاقاتی سے اخلاق و محبت سے ایسی باتیں کرتا ہے۔ کہ اس کو اپنا بنا لیتا ہے۔ اس کی باتوں میں ایسا کیف اور ایسا سرور ہے۔ کہ سننے والا ہمہ تن گوش ہو کر محو ہو جاتا ہے۔ وہ ہر ایک شخص سے خواہ کیسا ہی (ادنیٰ درجہ کا) کیوں نہ ہو اس گرم جوشی اور لطف و مدارات سے ملتا ہے کہ ملنے والے کو اپنی نسبت کچھ غلط فہمی ہو جاتی ہے۔ کہ شاید مجھ میں بھی کوئی کمال ہے۔ جو یہ شخص اس احترام کے ساتھ ملتا ہے۔ لیکن اس کی غلط فہمی کسی دوسرے سے مل کر فوراً رفع ہوجاتی ہے۔ اور اُسے فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ کہ یہ وسعتِ اخلاق اور لطف و مدارات اسی شخص سے مخصوص ہے۔ تم سمجھے؟ کہ یہ کنجِ تنہائی میں رہنے والا مسیح موعود کا پروانہ کون ہے۔ اس کا نام (مولانا) عبید اللہ بسملؔ امرتسری ہے۔‘‘

(رسالہ تشحیذ الاذہان، جون 1918ء، صفحہ23 تا 26)

صبر علی مصائب اور تائیدِ حق کا نشان

قبولِ احمدیت کے بعد آپ کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن باوجود سخت مصائب کے آپ نہ صرف ثابت قدم رہے بلکہ یہ مخالفتیں آپ کے ازدیادِ ایمان کا باعث بنیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے دشمنوں کے سامنے اپنی تائید و نصرت کا ایک عبرتناک نشان ظاہر فرمایا۔ چنانچہ تشحیذ الاذہان کے مذکورہ بالا مضمون میں بیان کیا گیا ہے کہ:۔
’’قادیان آنے سے پہلے اس کا ایک شہرمیں قیام ہے۔ مخالفت کی یہ کیفیت ہے کہ حاکم تک کا دل صاف نہیں۔ ادنیٰ و اعلیٰ سب نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ ملنے والوں اور ساتھیوں نے ساتھ چھوڑ دیا۔ دوستوں نے آنکھیں پھیر لیں۔ غریب الوطنی کا عالم ہے۔ کوئی یار ہے نہ کوئی غمگسار۔ در و دیوار تک مخالفت پر آمادہ ہیں۔ فقط خدا پر توکل اور خدا کے مسیح کا عشق دل میں ہے۔ بازاروں سے گزرتا ہو۔ کوئی کچھ کہتا ہے۔ کوئی کچھ جتنے منہ اتنی باتیں۔ بچہ بچہ کی زبان پر ’’قادیانی کتّا‘‘ ہے۔ مگر یہ خدا کا مخلص بندہ اس لفظ سے اظہار ملال کیسا فخر کرتا ہے۔ کہ الحمدللہ مسیح موعود سے کچھ تو تعلق ہے۔ آوازوں سے گزر کر بعض جگہ اینٹ پتھر تک نوبت پہنچتی ہے۔ آخر وہ دن آتا ہے کہ مصائب انتہا کو پہنچے۔ دنیاوی حکومت پر غرور کرنے والے کے اشاروں پر ایک افسر رات کے وقت آ کر گھر کو گھیر لیتا ہے۔ جو وہ کر سکتا ہے کرتا ہے۔ اور اِترا کر اس مردِ جری کو کہتا ہے۔ جاؤ اپنی مدد پر کسی کو بلا لو وہ تمہیں میرے چنگل سے چھڑا لے۔ اس نے کہا ’’اِنَّمَاۤ اَشۡکُوۡا بَثِّیۡ وَ حُزۡنِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ میری نظر انسانوں پر نہیں۔ میرا بھروسہ اس پر ہے۔ جو تمہارے ظلم اور میری مظلومیت کو جانتا ہے۔ تم دیکھو گے کہ وہ میری کیسی مدد کرتا ہے۔‘‘ زمین باوجود فراخ ہونے کے اس پر تنگ کر دی گئی۔ اس لئے اس نے اس شہر کو چھوڑ دیا۔ وہ جس نے اسے کہا تھا کہ اپنی مدد پر کسی کو بلا لو۔ موردِ عتاب ہؤا۔ موت کا شکار ہؤا۔ اس کی اولاد بُرے حالوں سے زندگی کے دن بسر کر رہی ہے۔ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مدینۃ المسیح میں آ جاتا ہے۔ اور کہتا ہے

؎شکر للہ کہ دادہ اند مرا
جا بزیر منارہٴ بیضا‘‘

(رسالہ تشحیذ الاذہان، جون 1918ء، صفحہ23 تا 24)

یعنی اللہ کا شکر ہے کہ اُس نے مجھے منارہٴ بیضا یعنی منارة المسیح کے سائے میں جگہ عطا فرمائی ہے۔

آپ کی فراست

آنحضرت ؐ کی حدیث شریف ہے کہ ’’اِتَّقُوا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللّٰہِ‘‘۔ یعنی مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے (جامع الترمذی، کتاب تفسیر القرآن عن رسول اللہؐ)۔ آپ کی فراست کے بارے میں ایک واقعہ یوں ملتا ہے۔ آپ بیان کرتے ہیں:۔
’’میں ایک شب رامپور میں جناب مولوی خان ذوالفقار علی خان صاحب کے مکان پر بیٹھا ہؤا تھا۔ حضرت اقدسؑ اُن دنوں لاہور میں تشریف فرما تھے۔ حضرت کی ڈائری اخبار میں چھپتی تھی۔ جناب خان صاحب کا منشی مجھ کو اور خان صاحب کو ایک روز وہ ڈائری سنا رہا تھا۔ کہ یکایک اُس نے پڑھا۔ چند گریجوایٹ حضرت صاحب سے ملنے آئے۔ گفتگو کے سلسلہ میں حضرت صاحب نے فرمایا۔ ہمارا کام سمجھانا تھا۔ سو سمجھا چکے اب لوگ مانیں یا نہ مانیں۔ یہ فقرہ سن کر میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ اور زبان سے نکلا۔ اِنَّالِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ خان صاحب نے پوچھا خیر ہے۔ میں نے کہا۔ کیا خیر ہے نبی کے منہ سے جب خدا ایسے الفاظ نکلوا دیتا ہے۔ تو نبی امّت سے بہت جلد رخصت ہو جاتا ہے۔ خان صاحب کہنے لگے۔ یہ تمہارا وہم ہے۔ میں نے زیادہ بحث مناسب نہ سمجھی۔ ساتویں روز تار نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رخصت کی خبر دی۔ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتْ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أُحَاذِرُ یعنی تیرے بعد جو چاہے مرے، مجھے تو تیری ہی موت کا ڈر تھا۔ ناقل‘‘

(الحکم، 7؍نومبر 1938ء، صفحہ8)

وفات

آپ کی وفات 29؍ ستمبر 1939ء کو قریباً 87 سال کی عمر میں ہوئی۔ اِنَّالِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ آخر پر دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت حکیم مولانا عبید اللہ صاحب بسملؔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درجات بلند فرماتا چلا جائے۔ اور جماعتِ احمدیہ میں ہمیشہ ایسے عالم باعمل بزرگ پیدا ہوتے چلے جائیں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی پیشگوئی کے مطابق علم اور معرفت میں کمال حاصل کرنے والے ہوں اور اپنی سچائی کے نور سے دنیا کو منوّر کرنے والے ہوں۔ آمین ثم آمین

؎گر چہ جنسِ نیکواں ایں چرخ بسیار آورد
کم بزاید مادرے با ایں صفا دُرِّ یتیم

یعنی: اگر چہ آسمان نیکوں کی جماعت بکثرت لاتا رہتا ہے مگر ایسا شفّاف اور قیمتی موتی ماں بہت کم جنا کرتی ہے

؎اے خدا بر تربتِ اُو بارشِ رحمت ببار
داخلش کن از کمالِ فضل در بیت النعیم

یعنی: اے خدا اُس کی قبر پر رحمت کی بارش نازل فرما۔ اور نہایت درجہ فضل کے ساتھ اُسے جنت میں داخل کردے

(درِّ ثمین فارسی مترجم، جلد دوم، صفحہ510 اور 512، مطبوعہ 2018ء)

(فرحان احمد حمزہ قریشی۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

رمضان المبارک کی آمد آمد ہے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 جنوری 2022