• 23 اپریل, 2024

دین کی خاطر صبر و استقامت دکھانا بہت بابرکت کام ہے

الفضل کے سالانہ نمبر 2016ء کے لئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا پیغام

نوٹ: الفضل کا سالانہ نمبر 2016ء بوجوہ شائع نہ ہو سکا جس کی وجہ سے یہ پیغام بھی طبع نہ ہوا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے پیغام میں فرماتے ہیں۔

’’مجھے بہت خوشی ہے کہ روزنامہ الفضل کو ’’صبر واستقامت‘‘ کے عنوان سے سالانہ نمبر شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔ آمین

محترم ایڈیٹر صاحب نے اس کے لئے مجھ سے پیغام بھجوانے کی درخواست کی ہے۔ اس موقع پر میرا پیغام یہ ہے کہ صبر و استقامت الٰہی جماعتوں کا خاص وصف اور ان کی کامیابی کی کلید ہے۔ اس لئے آپ نے بھی ہمیشہ اس وصف کو اپناتے ہوئے آگے سے آگے بڑھتے چلے جانا ہے۔

کسی بھی مقصد میں کامیابی کے لئے انسان کو قربانی کرنی پڑتی ہے۔ دنیا میں لوگ اپنے محدود دنیوی مفادات کی خاطر بعض نظریات پر قائم ہوتے ہیں اور اس کے لئے وہ سختیاں برداشت کرتے اور قربانیاں کرتے ہیں۔ لیکن وہ لوگ بہت ہی خوش قسمت ہیں جو خدا کی خاطر دکھ اٹھاتے ہیں اور ہر حال میں اپنے دین اور عقائد کی حفاظت کرتے ہیں۔ نہ دنیوی لالچ انہیں بہکا سکتے ہیں اور نہ دنیا داروں کے خوف اور دھمکیاں انہیں اللہ کی رضا کی راہوں سے پیچھے ہٹا سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور ان سے اپنی معیت کا اس نے وعدہ کر رکھا ہے۔ اسی طرح جو استقامت دکھاتے ہیں ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَ اَبۡشِرُوۡا بِالۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ

(حٰمٓ سجدہ:31)

ترجمہ: یقیناًوہ لوگ جنہوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے، پھر استقامت اختیار کی ، ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ خوف نہ کرو اور غم نہ کھاؤ اور جنت ( کے ملنے) سے خوش ہو جاؤجس کا تم وعدہ دئیے جاتے ہو۔

پس دین کی خاطر صبر اور استقامت دکھانا بہت ہی بابرکت کام ہے۔ اور آج یہ وصف اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو عطا فرمایا ہے۔ سب دنیا جانتی ہے کہ احمدی کس قدر سختیاں محض للہ برداشت کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ جب کوئی احمد ی ہوتا ہے تو عزیز واقارب اور دوست تعلقات منقطع کر لیتے ہیں۔ ماحول میں نفرت پھیلائی جاتی ہے۔

معاشرتی بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔ہر طرح سے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ ملکی قوانین بھی ایسے ہیں جس میں اختلاف عقیدہ کی بناء پر ان سے اپنے ہی ملک میں امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ جھوٹے مقدمات میں ملوث کیا جاتا ہے اور کئی بے گناہ احمدی ابھی بھی قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ اب تک کون سا ظلم ہے جو احمدیوں پر ڈھایا نہیں گیا۔ جائیدادیں چھینی گئیں۔ آگیں لگائی گئیں۔ کاروبار لوٹے گئے۔ مارا پیٹا گیا یہاں تک کہ کتنے ہی احمدی اپنے دین اور عقائد کی حفاظت کرتے ہوئے راہِ مولیٰ میں قربان ہو گئے۔ ایسے لوگ آسمان احمدیت کے روشن ستارے ہیں۔

یہ واقعات انفرادی بھی ہیں اور اجتماعی بھی جن میں سے نمایاں طور پر 2010ء کا وہ دکھ بھرا واقعہ ہے جب لاہور میں دو مقامات پر احمدیوں کو عین عبادت کرتے ہوئے بڑی بےدردی کے ساتھ جان سے مار دیا گیا۔ مگر اس مشکل وقت میں بھی وہاں پر موجود ہر احمدی کوہِوقار بن کر صبرواستقامت کا نہایت شاندار نمونہ پیش کرتا رہا۔ اس وقت ان میں سے کوئی درود شریف کا ورد کر رہا تھا تو کوئی کلمہ پڑھ رہا تھا اور کوئی اپنے ساتھی کی ضرورت پوری کرنے میں مصروف تھا۔ وہ ذرا بھر بھی ڈگمگائے نہیں اور نہ ہی ان کے قدموں میں کوئی لغزش آئی بلکہ وہ احمدیت پر اپنے ایمان کو سچا ثابت کرتے ہوئے اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئے۔ یہی وہ صبر واستقامت ہے جو خدا کے فضل سے سب دنیا میں جماعت کو کامیابیوں اور ترقیات سے ہمکنار کر رہا ہے۔ پس اے خدا کی خاطر دکھ سہنے والے وفا شعار احمدیو! تمہیں مبارک ہو کہ تم اس آسمانی نظام خلافت کے ساتھ منسلک ہو جس سے وابستگی کے نتیجے میں اللہ نے تمکنت دین اور خوفوں سے امن دلانے کے وعد ے فرمائے ہیں۔ تم اپنے آپ کو اکیلا مت سمجھو ۔ خلیفہ وقت کی دعائیں ہر دم آپ کے ساتھ ہیں۔ عرش کا خدا آپ کی قربانیوں کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا اوروہ دن ضرور طلوع ہو گا جب آپ امن و سکون کے ساتھ اور مذہبی آزادی کے ماحول میں اپنے دین پر عمل کر سکیں گے۔

حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک دفعہ آنحضور ﷺ نے فرمایا :۔
’’مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے ۔ اس کے سارے کام برکت ہی برکت ہوتے ہیں۔ یہ فضل صرف مومن کے ساتھ مختص ہے۔ اگر اس کو کوئی خوشی و مسرت اور فراخی نصیب ہوتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہے اوراس کی شکر گزاری اس کے لئے مزید خیر وبرکت کو موجب بن جاتی ہے۔ اور اگر اس کو کوئی دکھ اور رنج اور تنگی اور نقصان پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے اور اس کا یہ طرز عمل بھی اس کے لئے خیر وبرکت کا ہی باعث بنتا ہے کیونکہ وہ صبر کر کے ثواب حاصل کرتا ہے۔‘‘

(مسلم کتاب الزھد)

حضرت مسیح موعودؑ نے بھی اپنی پیاری جماعت کو صبر کی نصیحت فرمائی ہے ۔چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:
’’میں اپنی جماعت کو چند لفظ بطور نصیحت کہتاہوں کہ وہ طریق تقویٰ پر پنجہ مار کریا وہ گوئی کے مقابلہ پر یا وہ گوئی نہ کریں اور گالیوں کے مقابلہ میں گالیاں نہ دیں۔ وہ بہت کچھ ٹھٹھا اور ہنسی سنیں گے جیسا کہ وہ سن رہے ہیںمگر چاہئے کہ خاموش رہیں اور تقویٰ اور نیک بختی کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فیصلہ کی طرف نظر رکھیں۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی نظر میں قابل تائید ہوں تو صلاح اور تقویٰ اور صبر کو ہاتھ سے نہ دیں۔‘‘

پھر آپ فرماتے ہیں۔
’’جب میں صبر کرتا ہوں تو تمہارا فرض ہے کہ تم بھی صبر کرو۔ درخت سے بڑھ کر تو شاخ نہیں ہوتی۔ تم دیکھو کہ یہ کب تک گالیاں دیں گے۔ آخر یہی تھک کر رہ جائیں گے۔ا ن کی گالیاں، ان کی شرارتیں اور منصوبے مجھے ہرگز نہیں تھکا سکتے۔ اگر میں خداتعالیٰ کی طرف سے نہ آتا تو بیشک میں ان کی گالیوں سے ڈر جاتا، لیکن میں جانتا ہوں کہ مجھے خدا نے مامور کیا ہے پھر میں ایسی خفیف باتوں کی کیا پرواہ کروں۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ تم خود غور کرو کہ ان کی گالیوں نے کس کو نقصان پہنچایا ہے ان کو یا مجھے؟ ان کی جماعت گھٹی ہے اور میری بڑھی ہے۔‘‘

پس میری بھی آپ کو یہی نصیحت ہے کہ ہر حال میں صبر کریں۔ اپنے دین اور عقائد کے بارے میں کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کریں اور استقامت کا عمدہ نمونہ دکھائیں۔ یاد رکھیں! استقامت ایک عظیم خلق ہے۔ اور یہ راہ ان لوگوں کی راہ ہے جو مُنْعَمْ عَلَیْہِمْ ہیں۔ بزرگوں کا مقولہ ہے اَلْاِسْتَقَامَۃُ فَوْقَ الْکَرَامَۃِ۔ یعنی استقامت کرامت سے بڑھ کر ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ سے ثبات قدم اور استقامت کی دعا مانگتے رہنا چاہئے۔

آپ میرے خطبات سنتے رہتے ہیں۔ میں بار بار احباب جماعت کو دعاؤں اور عبادات کی طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں۔ روزانہ دو نوافل پڑھنے اور ہفتہ میں ایک نفلی روزہ رکھنے کی تحریک بھی میں نے آپ کو کی ہوئی ہے۔ کچھ اور دعائیں بھی بطور خاص آپ کو بتا چکا ہوں۔ ان سب باتوں پر عمل کریں اور ان وقتی مشکلا ت سے ہرگز خوفزدہ نہ ہوں کیونکہ یہ یقینی بات ہے کہ اللہ کے بندے ہی ہمیشہ فتح یاب ہوا کرتے ہیں۔ اللہ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کے سارے غم خوشیوں میں بدل دے اور کبھی کوئی دکھ اور صدمہ آپ کے پائے ثبات میں لغزش نہ لا سکے۔ آمین۔ فی امان اللہ

پچھلا پڑھیں

ویلنٹائن ڈے Valentine Day

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 فروری 2020