• 25 اپریل, 2024

متحد ہو کر اعلیٰ معیار کے مطابق دعا کرنے کی اہمیت

اس سال کا آغاز بین الاقوامی طور پر سیاسی، امن اور مذہبی لحاظ سے بےچینی اور بدامنی کا باعث ثابت ہوا اور مختلف طبقہ ہائے فکر میں عالمی جنگ چھڑنے کی سرگوشیاں بھی ہونے لگیں۔ اسی دوران متعدد عرب اور مغربی ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کی خبریں بھی کانوں میں پڑتی رہیں اور پاکستان میں جماعتِ احمدیہ پر روز بروز بڑھتی ہوئی مشکلات بھی سامنے ہی تھیں۔ الغرض ہر دل ایک عجیب سی فکر میں مبتلا تھاکہ چند دن ہوئے میں نے ایم ٹی اے لگایا تو پیارے آقا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ایک کلاس کے دوران جب کسی نے سوال کیا کہ ’’حضور حالات کیسے بدلیں گے ؟‘‘ اس سوال کے جواب میں پیارے آقا نے فرمایا: ’’میرے دل میں یہی ڈالا گیا کہ اگر سارے احمدی اکٹھے ہوکر تین دن چلائیں اور اللہ تعالیٰ کے لئےخالص ہوجائیں اور قربانی کریں، تو تین دن میں انقلاب آسکتا ہے۔‘‘ یہ جملہ سُنتے ہی میرے دل میں شدّتِ جذبات کی لہر دوڑگئی اور کئی روز یہ جملہ میرے ذہن میں گونجتارہا اور میرے ضمیر کو جھنجھوڑتا رہا کہ ہم جو آج وقت کے امام کو ماننے اور محسنِ انسانیت ﷺ کے حقیقی پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ کیا چیز ہے جو ہمیں اس شدت سے دعائیں نہیں کرنے دے رہی؟ وہ شدّت جس کا ذکر حضورِ انور نے اس جواب میں فرمایا۔ ذہن اسی سوچ میں اُلجھا تھا کہ اپنی کمزوری پر یہ چند اشعار یاد آئے۔

جو اس کی راہ میں مٹ جائے
کیا نفس نہیں وہ پاس میرے؟
جو طوفانوں سے لڑ جائے
کیا دل نہیں وہ پاس میرے؟
جو عشق کی راہیں پار کرے
کیا روح پر نہیں وہ چھاپ میرے؟

پس حضورانور کا یہ فرمان ہم سب کے لئے لمحۂ فکر یہ ہے اور ہمیں دو باتوں کی طرف دعوت فکر دے رہا ہے؛ اوّل یہ کہ کیا ہم احمدی مسلمان ان عبادات کے معیار پر ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کا خلیفہ ہم سے چاہتے ہیں؟ اور دوم یہ کہ کیا ہم ایک جماعت کی حیثیت سے مل کر ان دعاؤں کی کوششیں کر رہے ہیں جس کی آج ، ان حالات میں ہمیں ضرورت ہے؟اس مقام پر مجھے محسوس ہوا کہ مجھے، آپ کواورہم سب کو اپنا انفرادی اور اجتماعی محاسبہ نفس کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے اندر کیا کیا کمزوریاں ہیں اور ان کمزوریوں کو دور کرنے کی خاطر ایک لائحہ عمل تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

جیسا کہ حضورِ انور نے فرمایا کہ پہلے ہمیں اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرنا ہوں گی اور اپنی کمزوریوں کو خدا سے مدد چاہتے ہوئے دور کرنا ہوگا تب ہی اسلام کو دنیا پر غلبہ حاصل ہوگا اور تب ہی دنیا میں انقلاب اور امن برپا ہوگا اور جب اس کوشش اور لگن سے دنیا کے تمام احمدی خدا کے حضور عجز و انکسار سے جھک کر اس کی مدد اور رحم کو طلب کریں۔ توممکن نہیں کہ اس قادر خدا کی محبت جوش نہ مارے اور وہ چند دِنوں میں ایک انقلاب پیدا نہ کردے۔ اس تبدیلی کے لئے ہمیں انفرادی و جماعتی طور پر عشرہ نماز کے ساتھ اب ’’عشرہِ تہجد اور عشرہ دعا‘‘ کا بھی انعقاد کرنے کی ضرورت ہے۔ جس میں تمام احباب جماعت خالص ہو کر عالمی امن اور ایک دوسرے کے حق میں بڑھ چڑھ کر دعائیں کریں اور ان دنوں کو محض دین اور ہمدردئ انسان کے لئے وقف کردیں۔ کیونکہ ہم نے پانچ وقت نماز پڑھ کر یہ نہیں سمجھ لینا کہ ہم نے اپنا فرض پورا کردیا بلکہ ہمیں نوافل اور مجاہدات کے ذریعہ اپنے اندر ایک نئی روح پیدا کرنی ہوگی جو ہمیں اس خدائے کریم کے قرب کا وارث بنادے۔

چنانچہ آج ہر احمدی کو اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ اگر آج دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے اور انسانیت کی حالتِ زار بدل سکتی ہے تو وہ محض انہی عاجزانہ دعاؤں سے ممکن ہے اور جب تک ہم خود کوغفلت و سستی کے اس کنویں سے نہیں نکالیں گے ہم کسی صورت میں دنیا کی مدد نہیں کرسکتے۔ پس یہ انقلاب ایک قربانی چاہتا ہے اور آج میں اپنے آپ سے اور آپ سب سے یہ سوال کرتی ہوں کہ کیا ہم اس قربانی کے لئے تیار ہیں؟ کیونکہ آج وہ وقت آگیا ہے جس کے لئے ہم نے اپنی جان، مال، وقت اور اولاد کو قربان کرنے کا عہد کیا تھا۔ لیکن یہ قربانی سب سے بڑی قربانی ہے، یعنی نفس کی قربانی جو ایک موت اپنے اوپر طاری کرنے کا نام ہے۔

میری خدا کے حضور عاجزانہ دعا ہے کہ خدا تعالیٰ ہم سب کو خدا کے خلیفہ کے اس حکم پر لبیک کہتےہوئے اپنی عبادتوں کے معیار بلند سے بلند تر کرتے چلے جانے کی توفیق دے۔ آمین

آئیے آج سے اپنی جماعتوں میں ’’عشرہ دعا‘‘ منائیں اور دنیا کو دکھائیں کہ صرف جماعتِ احمدیہ مسلمہ ہی وہ جماعت ہے جو تمام انسانیت سے حقیقی ہمدردی رکھتی ہے اور “محبت سب کے لئے ، نفرت کسی سے نہیں” صرف ایک نعرہ نہیں بلکہ ہمارا نصب العین بھی ہے۔

(سدرۃالمنتیٰ۔ڈنمارک)

پچھلا پڑھیں

ویلنٹائن ڈے Valentine Day

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 فروری 2020