• 20 اپریل, 2024

ابوریحان البیرونی۔ موازنہ ادیان کا بانی

ایشیا میں جب پہلا ہزار سال ختم ہونے کو تھا تو وہ وقت علم و فضل، تجارت اور جنگوں کے ضمن میں ولولہ انگیز تھا۔ ایک ہزار واں سال ختم ہونے کو تھا جب ایشیا میں ابن سینا جیسا عبقری انسان تولد ہوا، اور یورپ میں ابن رشد جیسا نابغہ روز گار فلسفہ و حکمت کے فلک پر نمودار ہوا تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب امام الغزالیؒ نے احیاء العلوم جیسی معرکۃالآراء کتاب زیب قرطاس کی اورابن الہیثم نے کتاب المناظر جیسی مبسوط کتاب رقم کی تھی۔ اس دور سے دو سو سال قبل بغداد میں اس عہد ساز ترجمہ کی تحریک کی ابتداء ہوئی جب فارسی، عبرانی، شامی اور یونانی کتابوں کے تراجم عربی زبان میں کئے گئے۔ اسلامی دور حکومت میں مختلف علوم جیسے اسٹرانومی، الجبرا، ریاضی، فلاسفی، منطق، علم الادویاء میں کتابیں لکھے جانے کے علاوہ نئی نئی دریافتیں کی گئیں۔ یہ بات خاص طور پریاد رکھنے کی ہے کہ اس دور میں البیرونی (م13دسمبر 1048ء) نے پہلی بار موازنہ ادیان پر قلم اٹھایا تھا۔

آج کے دور میں جبکہ شدت پسندی کا مشرق و مغرب میں دور دورہ ہے وقت کا تقاضا ہے کہ بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے فضا ہموار کی جائے۔ مذاہب کا مطالعہ اس نقطہ نظر سے کیا جائے کہ امن کی فضا قائم ہو، مذاہب کے پیروکاروں میں پیار جنم لے اور انسانیت کا عَلم ہر جگہ لہرائے۔ اس ضمن میں تقابلہ مطالعہ ادیان کے مؤ سس ابوریحان البیرونی کا تذکرہ یہاں کیا جاتا ہے۔

ادیان کی تاریخ

ادیان کی تاریخ کا مطالعہ کوئی پرانا علم نہیں ہے۔ یورپ میں گیارھویں اور بارھویں صدیوں میں یو نیورسٹیوں کا آغاز ہوا تو اس وقت ان کا بنیادی مقصد دینی علوم کی تعلیم سے طالب علموںکو آراستہ کرنا تھا۔ ان کو اپنے مذہب کے سوا کسی اور مذہب سے کوئی سروکار نہ تھا۔اگر مذاہب کا مطالعہ کیا ہی جاتا تو اس کا مقصد ایسے ادیان کا مطالعہ تھا جو مسلمہ عقائد کے بر خلاف، گمراہ کُن اور کذب تھے۔ تھیولوجی اور ادیان کے مطالعہ کے مابین فرق سمجھنا بعض دفعہ مشکل ہوتا ہے۔ تھیولوجی یعنی عقائد کا مطالعہ ایک صاحب ایمان دوسرے مومن کو سکھا سکتا تا نجات کا ذریعہ حاصل ہو جبکہ موازنہ ادیان میں مذہب کا تجزیہ متعدد نقطہ ہائے نظر سے کیا جاتا، عالمی ادیان کے عقائد، اخلاقیات، میٹا فزکس، نجات کی ماہیئت اور حصول کا موازنہ کیا جاتا تاکہ انسانی تجربہ کو سمجھا جا سکے۔ ادیان کے مطالعہ میں تاریخ، سوشیالوجی، لٹریچر اور دیوتاؤں کی خیالی کہانیاں شامل ہیں۔ ان میں مشرق وسطیٰ، ایرانی، افریقن، ہندوستانی، ایسٹ ایشین، امریکن، اور قدیم یونانی ادیان شامل ہیں۔
یورپ میں جرمن ماہر لسانیات و ہندویات میکس میولر (Max Muller 1823-1900) کی کتابوں اور ما ہر مصریات سی پی ٹیل C.P. Teale کی کتابوں اور لیکچرز کی وجہ سے موازنہ ادیان کا آغاز ہوا تھا۔

البیرونی کا مختصر تعارف

البیرونی کی ولادت سینٹرل ایشیا کے ملک ازبکستان کی قدیم ریاست خوارزم کے دارالخلافہ کاث (ازبک) میں ہوئی تھی۔ 1957ء میں کاث کا نام البیرونی کی یاد میں بیرونیہ میں تبدیل کر دیا گیا۔ ریاست خوارزم اس وقت ازبکستان، ترکمانستان، کازقستان میں تقسیم شدہ ہے۔ اس کی اوائل زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ملتیں۔ اس کو فطری طور پر علم ہیئت میں خاص شوق تھا چنانچہ 17 سال کی عمر میں اپنے آبائی شہر کا عرض بلد معلوم کیا تھا۔ یہ در اصل علم جغرافیہ سے اس کے دائمی شوق کی خشت اول تھی۔

آرام و شانتی سے کتابوں کے مطالعہ اور ان کو قلم بند کرنے کا یہ سلسلہ995ء کو ختم ہو گیا جب محمود غزنوی نے اس کے آبائی شہر پر حملہ کر کے اس کو یرغمال بنا لیا۔سلطان محمود غزنوی کو اپنی سلطنت کے لئے البیرونی جیسے اہل علم اور سفارت کاروں کی ضرورت تھی۔ جلد ہی البیرونی غزنہ (افغانستان) پہنچ گیا۔ زندگی میں چھ شہزادوں کی خدمت پر مامور رہا، مگر سیاست اور سکالر شپ کو اس نے ہمیشہ جداجدا رکھا۔

البیرونی جامع العلوم شخص تھا جس نے اسٹرانومی، ریاضی، جیوگرافی، علم مساحت یعنی جیوڈیسی، منرلوجی، فارماکالوجی، ہسٹری میں زبردست کارنامے سرانجام دئیے۔ ہندوستان اور ہند وکلچر پر اس کی کتاب تاریخ الہند تو اس کا زندہ جاوید کارنامہ ہے۔ البیرونی نے تمام کتابیں فارسی اور عربی میں قلم بند کی تھیں اور سنسکرت سیکھنے کیلئے اس نے بڑی جانفشانی سے محنت کی تھی تو ہندوستان کے مذاہب کا مطالعہ ان کی زبان میں کیا جا سکے۔ البتہ اس کو متعدد زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ سیاسی امور سے نپٹنے کے علاوہ اس نے بڑی جانفشانی سے 146 کتابیں زیب قرطاس کی تھیں جن میں 95کا تعلق ہیئت اور ریاضی کے علوم سے تھا۔ اس دور کے مسلمان سکالرز کا خیال تھا کہ ممکن ہے زمین حرکت کرتی ہے جہاں تک البیرونی کا تعلق ہے اس نے تسلیم کیا کہ وہ اس آئیڈیا کو نہ تو صحیح اور نہ ہی غلط ثابت کر سکتا البتہ اس کے خیالات زمین کی حرکت کے حق میں تھے۔

البیرونی اعلیٰ پایہ کا فلاسفر بھی تھا۔ البیرونی کے دور حیات تک مسلمان یونانی فلاسفروں کے خیالات سے کلی طور پر آگاہ ہو چکے تھے، کیونکہ یونانی کی متعدد کتابیں عربی میں ترجمہ کی جا چکی تھیں۔ مسلمان سکالرز ارسطو اور افلاطون کے نظریات کو قبول کرنے لگے تھے جس کی وجہ سے ان کے اذہان میں سوالات پیدا ہونے لگے کہ خدا کی ماہیت کیا ہے؟ خدا کی قدرت، کائنات کا آغاز اور تخلیق، الہام کی نوعیت جیسے سوالات اور متنازعہ نظریات کو اسلامی عقائد کے مطابق ڈھالنا ایک مسئلہ بن چکا تھا۔ بحیثیت فلاسفر البیرونی کے ہم عصر ابن سینا کو زیادہ اہم مقام حاصل ہے۔ البیرونی اور ابن سینا دیگر علوم میں ہم پلہ تھے اور دونوں کے درمیان سوال و جواب کی صورت میں خط و کتابت ہوئی تھی۔ کتابی صورت میں یہ ابھی تک الا سئلہ والاجوبہ کے نام سے محفوظ ہے۔

(کتاب نامور سائنسدان ابو ریحان البیرونی از قلم زکریاورک میں صفحات 191-194، پراٹھارہ سوالات درج ہیں)

موازنہ ادیان

البیرونی سے قبل کئی ایک سکالرز نے موازنہ ادیان کا مطالعہ کیا تھا لیکن ان میں سے اکثریت کا تعلق یا تو اس گروہ سے تھا جس نے برگشتہ فرقوں یا ادیان کا مطالعہ کیامحض ان کو برا کہنے یا چٹخارے لینے کیلئے کیا۔ دوسرا گروہ یا پھر وہ تھا جس نے ادیان کا مطالعہ کیا مگر ان کے مابین لطیف حدفاصل کو سمجھ نہ پائے۔ اس ضمن میں البیرونی نے ابو العباس ایران شہری کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ‘‘وہ کسی موجودہ دین پر یقین نہیں رکھتا تھا لیکن ایک ایسے دین کا واحد پیروکار تھا جس کا وہ موجد تھا اور جس کی تشہیر و اشاعت کی اس نے کو شش کی۔’’

اس بات میں دو رائے نہیں کہ موازنہ ادیان کے مطالعہ Comparative Study of Religion کی داغ بیل البیرونی نے ڈالی تھی جس نے چھ ادیان زرتشت، یہودیت، جینازم، ہندوازم، عیسائیت اور اسلام کے عقائد اور اعمال practices، کاموازنہ پہلی بار پیش کیا تھا۔ البیرونی نے تمام ادیان کے عقائد، رسومات، رواج، تہواروں کو دیانت داری اور بغیر تعصب کے پیش کیا، اس حد تک کہ ہر دین کی شناخت برقرار رہے۔ دین کے بارے میں اس کی اپروچ معروضی تھی جس کی وجہ سے اس کی شہرت آج تک برقرار ہے۔ اس نے کہا ان جملہ ادیان کو جیسے کے وہ تھے سمجھا اور پرکھا بجائے اس کے کہ ان کے عقائد کو غلط یا براکہا جائے۔ البیرونی کا کہنا تھا کہ تمام کلچرز آپس میں دور سے کہیں جا کر دیگر کلچرز سے منضبط یا منسلک ہو جاتے کیونکہ یہ بہر حال انسان کے ہی بنائے ہوئے ہیں۔

آرتھر جیفری البیرونی کی موازنہ ادیان میں کنٹری بیوشن کے بارے میں لکھتا ہے:

ترجمہ: البیرونی کی ادیان کے مطالعہ میں کنٹری بیوشن اس کے دور میں نادر اور اس کے اپنے دین کی تاریخ میں بے مثال ہے۔ اس کیلئے اس نے ایسے سائنسی اصول وضع کئے جیسے مکملیت، درستی، اور غیر جانبدارانہ طریقہ۔

موازنہ ادیان کے ضمن میں البیرونی رقم طراز ہے۔

’’عیسائیت سے قبل یونانیوں کے بھی وہی عقائد و افکار تھے جو ہندؤوں کے ہیں۔ ان کے طبقہ علماء کا طریقہ فکر بھی ہندو علماء جیسا تھا اور یونانی عوام ہندو عوام کی طرح بت پرستانہ خیالات رکھتے تھے۔ لیکن یو نانیوں میں کچھ ایسے حکماء پیدا ہوئے جنہوں نے حقیقت کو ایسی خرافات سے پاک کیا۔ اس سلسلے میں سقراط کا نام قابل ذکر ہے جس نے اپنی قوم کے عوام کی مخالفت کی اور حق پرقائم رہنے کی پاداش میں جان دی۔‘‘

(البیرونی کا ہندوستان، مرتبہ قائم الدین احمد، اردو ترجمہ عبد الحی 2005ء صفحہ32، اردو بازار لاہور)

موازنہ ادیان کے ضمن میں البیرونی کی دو کتابوں کا احوال بیان کرنا لازم ہے یعنی کتاب آثار الباقیہ اور تاریخ الہند۔

کتاب آثار الباقیہ

البیرونی نے اپنی سب سے پہلی کتاب آثار الباقیہ عن القرون الخالیہ (Chronology of Ancient Nations) جرجان میں قیام کے دوران 999ء میں تالیف کی تھی۔ اس کے لکھے جانے کی وجہ اس نے خودبیان کی: ’’ادباء میں سے ایک صاحب نے مختلف قوموں کی تواریخ کی کیفیت، ان کے اصول میں اختلاف کی وجہ مجھ سے دریافت کی۔ یعنی تاریخیں کہاں سے شروع ہوتی ہیں اور ان کے حصے یعنی سال اور مہینے جن پرمبنی ہیں کیا ہیں؟ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے اختلاف پیش آیا۔ نیز کون کون سے مشہور تہوار، میلے اور یادگار ایام مخصوص اوقات اور رسوم وغیرہ ہیں جو مختلف قوموں میں رائج ہیں‘‘

(البیرونی، از سید حسن برنی صفحہ43-1927ء)

یہ کتاب دور ماضی کے اہم تاریخی، مذہبی، اور علمی مسائل پر ایک تنقیدی تاریخ ہے جس میں مختلف تہذیبوں یعنی شامی، ایرانی، یونانی، عبرانی، نصرانی، صابی، زرتشتی، عرب اور اہل یہود کے کیلنڈروں، اور تہواروں کا ذکرکرکے بتایا کہ بعض اقوام نے کیوں بعض اوقات اور موسم اپنے میلوں اور تہواروں کیلئے مقرر کئے۔ کتاب میں بارہ ادیان اور دینی کمیو نٹیز کا ذکر کیا گیا جس کی اکثریت کا تعلق ہندو دھرم سے ہے۔ بدھ مت کے بارے میں زیادہ معلوما ت نہیں دی گئیں کیونکہ اس وقت شمالی ہندوستان سے یہ مذہب ختم ہو چکا تھا۔ کتاب کے21 ابواب ہیں۔ آٹھواں باب مدعیان نبوت اور ان کی امتوں کی تاریخیں، مہاتمابدھ، مانی، مزدک بن ہمداد، مسیلمہ، بہافریذ بن ما ہ فروزین، ہاشم بن حکیم المعروف ابن المقفع، حسین بن منصور حلاج، ابی زکریا الطمامی اور ابن ابی الغراقر کے حالات زندگی۔ درج ذیل اقوام کے تہواروں اور صیام کا ذکر کیا گیا ہے: ایرانی، سغدین، اہل خوارزم، یونانی، اہل یہود، ملکیہ Melkite، نصرانی، جیوش پاس اوور Passover، کرسچین لنٹ Lent، نصاری نسطوریہ Nestorian Christian، قدیم مجوسیوں اور صابیین، قبل از اسلام عرب قوم اور مسلمان۔

(نامور سائنسدان البیرونی، از قلم زکریاورک 74، کتابی دنیا،دہلی 2007ء)

کتاب کی خصوصیات کے متعلق سید حسن برنی رقم طراز ہیں:
’’کتاب کو دیکھ کر مبصر کو حیرت ہوتی ہے کہ سوانو سو سال پہلے کس طرح کوئی مصنف ایسے عالمانہ اور محققانہ طور پر اس تصنیف کو لکھ سکتا تھا۔ کسی مضمون کی روایات کو جمع کرنا ، تنقیدی نظر سے اس کے ہر پہلو کو جا نچنا، ہر ایک کی صحت و عدم صحت پوری تحقیقات کے بعد صحیح فیصلہ صادر کرنا، البیرونی کے آثار (الباقیہ) کے ایسے خصائص ہیں جو اس کی ہر تصنیف کو دیگر تصنیف سے ممتاز کرتے ہیں۔ جا بجا ریاضی کی مدد سے معاملات کو پرکھا ہے اور موشگافی کے نئے نئے طریقوں سے کام لیا ہے۔ البیرونی نے آتش پرستوں کی نہایت عمدہ تقویم، عید نوروز، اور تہواروں کی کیفیت آثار میں تحریر کی ہے جو فی زمانہ قابل قدر چیز ہے۔‘‘

(البیرونی، از سید حسن برنی، صفحہ148)

تاریخ الہند

البیرونی کی مشہور زمانہ کتاب جس کی وجہ سے اس کو موازنہ ادیان کا بانی کہا جاسکتا ہے وہ تحقیق مع للہند من مقولہ مقبولہ فی العقل او مرذولہ تھی۔ عام طور پر اس کو کتاب الہند کہا جاتاہے۔ انگلش میں ترجمہ دو جلدوں پر مشتمل ہے جس کے چھ صد صفحات ہیں۔ بعض سکالرز نے اس کو سوشیالوجی کی کتاب کہا ہے جبکہ کو لمبیا یو نیورسٹی نیویارک کے پروفیسر جارج صلیبا Saliba نے اس کو نسلی جغرافیہ کہا ہے۔ کتاب کے جرمن اور انگلش تراجم سا خاؤ نے کئے اور ان کوطبع بھی کروایا۔

کتاب تاریخ الہند کا تعارف یوں لگتا ہے جیسے عہد حاضر کے کسی جدید کتاب کا دیباچہ ہے۔ کتاب کے 81، ابواب ہیں۔ مضامین کی گونا گوں فہرست دیکھ کر انسان بے سا ختہ کہہ اٹھتا کہ البیرونی نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ اس نے اپنے مطالعہ کے آؤٹ لائن پیش کی، کن قیاسات پر اس نے اپنی تحقیق کی بنیاد رکھی، اور کس عمدہ طریق سے علم کو قاری کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ وہ لکھتا ہے۔

’’یہ کتاب مناظرہ کی کتاب نہیں ہے۔ اس کو لکھنے کا مقصد میرا یہ نہیں تھا کہ ہم فریق مخالف (ہندؤوں)کے وہ اقوال جنہیں ہم غلط سمجھتے ہیں نقل کر کے ان کے رد کے دلائل پیش کریں، بلکہ میری یہ کتاب احوال و اقوال کی دستاویز ہے اس میں ہم ہندؤوں کے اقوال کو من و عن پیش کریں گے اور ساتھ ہی یونانیوں کے ملتے جلتے نظریات و عقائد کو پیش کریں گے تا کہ دونوں کی باہمی مشابہت کا اندازہ ہو جائے۔ یو نانیوں کے علاوہ ہم کہیں کہیں صوفیوں، عیسائیوں کے بعض فرقوں اور بعض دوسرے ادیان کے اقوال بھی نقل کریں گے‘‘

(البیرونی، سید حسن برنی، علی گڑھ 1927ء)

’’ہم آگے چل کر ان (ہندؤوں) کے نظریات کو صراحت سے سمجھائیں گے جیسا کہ ہم نے ہندو دھرم کے عالموں سے سمجھا ہے اور اس پر منصفانہ تنقید کریں گے۔ اگر اس میں کوئی نامانوس بات نظر آئے گی یا کوئی ایسی بات ملے گی جو دوسری قوموں کے نظریات سے مطابقت رکھتی ہو تو ہم اسے بھی بیان کر دیں گے۔ اس لئے نہیں کہ انہیں پڑھ کر قاری ہندؤوں کی مذمت کرے بلکہ صرف اس لئے کہ جو لوگ ان موضوعات کا مطالعہ کرتے ہیں ان کی فہم و فراست کو جلا بخشے‘‘

(البیرونی، قائم الدین احمد ص123)

پروفیسر این میری شمل کتاب Shimmel الہند کے بارے میں لکھتی ہیں: البیرونی کی کتاب الہند کو سب سے پہلی معروضی کتاب کہا جا سکتا ہے جو ہسٹری آف ریلجن پر لکھی گئی۔

Al-Biruni’s Book, India, can well be regarded as the first objective book ever written on the history of religion.

البیرونی نے کتاب الہند ابو سہل عبد المنعم بن نوح طفلسی کی فرمائش پر لکھی تھی کیونکہ مسلمانوں کی ہندؤوں کے متعلق معلومات غلط تراجم اور تصانیف پر مبنی نیز نقائص اور غلطیوں سے مملو تھیں۔ پھر وہ لوگ جو ہندؤوں سے مکالمہ اور تبادلہ خیال کے خواہش مند ہیں وہ بھی معلومات حاصل کر سکیں۔ اس کے نزدیک ہندؤوں سے مکالمہ ضروری تھا کیونکہ ایسے بہت سے موضوعات تھے جو پیچیدہ اور قابل نزاع تھے جن کو مسلمانوں اور ہندؤوں کے درمیان مکالمہ و مخاطبہ سے ہی حل کیا جا سکتا تھا۔

کتاب الہند میں البیرونی نے ہندوتہذیب کی کہانی اہل ہند کی زبانی سنائی اور ہندوستان کے تمدّن کی تصویر خود ہندو مصوّر کے قلم سے کھینچی ہے۔ اس نہ صرف ہندو مذہب، علم نحو، فلاسفی، آسمان اور زمین کے متعلق ہندؤوں کے تصورات، ان کے دریاؤں، شہروں کے فاصلے ، دنیا کی پیدائش اور فنا ہو نے کے بارے میں تصورات پر بحث تاریخوں کے تعین کا فیصلہ، مدّوجزر اور آفتاب و ماہتاب کے گرہن کے سلسلے میں ہندؤوں کے عقائد، عدالتی نظام، میراث کے اصول، مقدس اور منحوس اوقات کی نشاندہی، برہمن اور غیر برہمن کے طرز زندگی میں فرق بیان کیا۔ اس کے علاوہ سوسائٹی کا تقابلی مطالعہ پیش کیا بلکہ ہندوستان کے جغرافیہ، اسٹرانومی، اسٹرالوجی، کاسمالوجی اورمتعدد دیگر علوم کا موازنہ بھی پیش کیا تھا۔

اس کی دقیقہ رس نگاہوں سے ہندؤوں کی عادات اور ضعیف الاعتقادی بھی اوجھل نہیں رہی۔ اس نے ثابت کیا کہ اہل ہند اور اہل اسلام بالکل مختلف ہیں۔کسی چیز میں مشابہ نہیں۔زبان، مذہب، رسم و رواج، طریق معاشرت و تمدّن۔ غرضیکہ ہندؤوں کی ہر چیز مسلمانوں سے مختلف ہے۔ سنسکرت عربی کی طرح ادق ہے۔ اکثر الفاظ کے متبادل اورمتعدد معنی ہیں۔ مسلمان سنسکرت الفاظ کے تلفظ سے قاصر ہیں۔

بلاشبہ البیرونی نے تحقیق کا جو طریقہ بیان کیا وہ اس پر خود عمل پیرا ہوا۔ کتاب الہند میں اس نے ہندوفلاسفی، زبان، ان کے لٹریچر کی کتابیں، ان کی مقدّس کتابوں، اسٹرانومی، اسٹرالوجی، حکایات، توہمات، اوزان سے قارئین کو متعارف کرایا۔ ہندوؤں کی روزانہ زندگی کے سو شل پہلوؤں کو پیش کیا یعنی شادی بیاہ اور ذات پات کا نظام۔ اپنے موضوع پر صحیح طور پر قدرت حاصل کرنے کیلئے اس نے سنسکرت سیکھی اور ہند ؤوں کی چندمقدّس کتابوں کے عربی میں تراجم کئے، جو کہ ابھی تک دستیاب ہیں۔ کتاب کی تالیف میں اس نے 24 کتابوں 14 یونانی مصنفین اور 40 سنسکرت کتابوں سے استفادہ کیا ۔

(زکریا ورک ۔کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

ویلنٹائن ڈے Valentine Day

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 فروری 2020