• 7 مئی, 2024

شہادتوں سے لے کر مہدی آباد کے سفر تک کی داستان

11؍جنوری بدھ کا دن تھا اور کسی کے وہم وگمان بھی نہیں تھا کہ یہ دن اپنے اختتام پر جماعت برکینا فاسو کے لئے کس قدر دکھی خبر کے ساتھ ختم ہوگا۔ رات کے پونے نو بجے امیر صاحب کو یہ اندوہناک خبر ملی کہ ہمارے 9 بزرگ انصار کو مہدی آباد میں شہید کر دیاگیا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

یہ شہادتیں کوئی عام شہادتیں نہیں تھیں کہ دہشت گرد آئے اور گولیاں مار کر چلے گئے۔ بلکہ ہر ناصر کو موقع دیا گیاکہ احمدیت چھوڑ دوتو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ لیکن احمدیت کے بہادر جان نثاروں نے اپنے ایمان کو موت پر ترجیح دی۔ ایک کے بعد ایک نے جام شہادت نوش کیا لیکن بزدلی نہ دکھائی۔ مہدی آباد کے شہداء برکینا فاسو اور احمدیت کی تاریخ میں ہمیشہ عزت اور وقار کے ساتھ یا درکھے جائیں گے۔اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور باقی رہ جانے والوں کے ایمان مضبوط رکھے۔ اور ان کی خود حفاظت فرمائے۔ آمین

جس دن سے شہادتیں ہوئی تھیں دل میں یہ خواہش بار بار اٹھتی تھی کہ کاش ہم لوگ ان شہداء کے ورثاء کو مل کر ان کے غم بانٹ سکتے ان کو گلے لگا کر آنسو پونچھ سکتے۔ ان کو بتا سکتے کہ ہم سب آپ کے ساتھ ہیں اورساری دنیا کی جماعت آپ کے دکھ پر تڑپ رہی ہےاور آپ کے لئے دعائیں کر رہی ہے۔ سب سے بڑھ کر پیارے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ کی محبتیں اور شفقتیں اور دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔

لیکن ملکی حالات اس قدر خراب ہیں اور دہشت گردی کا اس قدر راج ہے کہ زمینی راستے سے توان لواحقین تک پہنچنا مشکل نظر آ رہا تھا۔ اتنے میں پیارے آقا کی طرف سے ارشاد موصول ہوا کہ امیر صاحب خود وفد بنا کر گھانا کے نمائندگان کے ساتھ جلد مہدی آباد جانے کا پروگرام بنا ئیں اور لواحقین سے حضور کی طرف سے تعزیت کریں۔ کوشش تو پہلے بھی کی جا ری تھی اب ارشاد موصول ہونے کے بعد اور کوششیں تیز کر دیں۔ ہیلی کاپٹر کے بغیر جانا ناممکن تھا۔گولڈ مائن والوں سے رابطہ کیا وہ بھی کوئی حتمی بات نہیں کر رہے تھے۔ پھر ائیر فورس والوں کے ساتھ چارٹر طیارے کا معاہدہ ہو گیا۔ جہاں پہلے پانچ لوگوں نے جانا تھا تو اب زیادہ لوگوں کی گنجائش نکل آئی اور ہمارے جیسوں کی بھی دلی مراد بر آئی۔ امیر صاحب کا رات آٹھ بجے فون آیا کہ پاسپورٹ کی کاپی بھجوادیں۔ میں نے ایسے ہی کہہ دیا کہ کیا مجھے بھی لے کر جانا ہے؟کہنے لگے ان شاء اللّٰہ۔ مجھے یقین نہیں آیا کہ مجھے بھی ان حالات میں مہدی آباد جانے کا موقع مل سکتا ہے۔ خیر نو بجے تک واپس آکر تفصیل بتائی کہ جگہ ہے، میں اور ایک اور لجنہ ممبر مادام عثمانہ رقیہ صاحبہ آپ دونوں ساتھ چلیں تاکہ وہاں کی خواتین کو مل سکیں۔اوران کے حوصلے بڑھائیں۔ ان کو پتا ہو کہ ہم سب ان کے ساتھ ہیں یوں ہم دونوں بھی قافلہ کی ممبر بن گئیں۔ صبح سات بجے نکلنا تھا۔ ساری رات ٹھیک سے نیند بھی نہ آئی کہ کیسے ان مظلوم بہنوں سے ملیں گے۔ کیسے ان کو حوصلہ دیں گے۔

اللہ اللہ کر کے رات کٹی اور صبح ہم ائیر پورٹ پر پہنچے۔ جہاں ایک بہت پرانا سا ہیلی کاپٹر کھڑا تھا۔جس پر ہم نے سفر کرنا تھا۔خیر ہم اس پر سوار ہوئے۔ اور ڈیڑھ گھنٹے بعد تقریبا ًسوا نو بجے ہم گولڈ مائن پر اترے۔ کیونکہ جس گاؤں میں ہمارے احمدی نقل مکانی کر کے گئے ہیں وہاں دہشت گردی کے خوف سے ہیلی کاپٹر نہیں اتر سکتا تھا۔ لینڈنگ کے لئے گولڈ مائن ہی ان کو محفوظ جگہ ملی۔ لیکن مائن والوں کے اپنے اصول تھے۔ انہوں نے اپنی سیکورٹی کے حوالے سے بہت وقت لگا دیا۔جب ہمیں مائن پہنچے بہت دیر ہو گئی اور جانے کی کوئی صورت نظرنہیں آرہی تھی توشدید بے چینی شروع ہو گئی کہ جس مقصد کے لئے آئے ہیں اس کو پورا کرے بغیر واپس جا نہیں سکتے۔اور دیر ہو تی جارہی ہے۔ دعائیں تو صبح سے زبان پر جاری تھیں کہ اللہ تعالیٰ انتظام فرما دےکہ ہم اپنے پیارے آقا کے حکم کی تعمیل کر سکیں اور اپنے پیاروں کو مل سکیں۔

دوپہر ایک بجے کے قریب گرین سگنل ملا کہ اب آپ لوگ جا سکتے ہیں۔ لیکن آپ کے پاس صر ف دو گھنٹے ہیں۔ بہت بھاری دل کے ساتھ نکلے کہ اتنا تھوڑا وقت! اس میں ہم کیا بات کریں گے۔ کیا بات سنیں گے۔ لیکن پھر اللہ تعالیٰ کا شکر اداکیا کہ جانے کا بندوبست ہوا۔بہت سخت سیکورٹی کے انتظامات کے ساتھ قافلہ کے افراد کو دو بسوں میں سوار کر کے گاؤں کے لئے روانہ کیاگیا۔ آدھے گھنٹے کی مسافت پر گاؤں تھا جہاں ہماری پیاری جماعت مہدی آباد کے لوگ ہمارا صبح سے انتظار کر رہے تھے،کیونکہ ان کو اطلاع تھی کہ آج آنا ہے۔

جب ہمارا قافلہ ان کے پاس رکا توساری جماعت کے لوگ بہت بے تابی کے ساتھ ملنے کے لئے آگے بڑھے۔ کیا مرد اور کیا عورتیں، چھوٹے بڑے سب ہی بے پناہ چاہت سے گلے لگ کر ملنے کے لئے بے چین تھےکہ کب کوئی اپنے ملیں، ان کے گلے لگ کر اپنا دکھ اور غم بانٹ سکیں۔ بہت ہی غم اورتکلیف کا ماحول تھا۔جوبیان سے باہرہے۔ ہم دونوں خواتین لجنہ کی طرف چلی گئیں۔ سب کے ساتھ مصافحہ کیاگلے لگایا۔لیکن سلام ہے ان احمدی خواتین پر کوئی وایلا، کوئی رونا دھونا نہیں۔ ضبط کی انتہا تک صبر، کچھ بے خبری کے آنسو خود گر پڑیں تو اور بات۔آنسو پینے کی کوشش میں آنکھیں سرخ اورچہرے انتہا کے غمزدہ۔ اپنی اجڑی زندگی کی داستان سنا رہے تھے۔

ہمارے لئے صبرکرنا مشکل ہو رہا تھا۔لیکن ان کو دیکھ کر کچھ حوصلہ بڑھاتوبات شروع کی۔ زبان کا مسئلہ تھااتنے میں ایک بہت ہی پیاری صاف سفید رنگ کے کپڑے پہنے، بہت حوصلہ مند بچی ہمارے پاس آکر بیٹھ گئی۔ اس کو فرنچ آتی تھی۔ کہنے لگی میں عائشہ ہوں۔ امام ابراہیم صاحب کی بیٹی۔میرے ابا بہت پیار کرنے والے انسان تھے۔ بہت بہادر تھے۔ ان کو بار بار کہا گیا کہ احمدیت چھوڑ دولیکن انہوں نے کہا مر جانا منظور ہے۔ احمدیت نہیں چھوڑوں گا۔میرے باپ نے سینے میں گولی کھائی۔ لیکن احمدیت نہیں چھوڑی۔ہمارےآنسو بہہ رہے تھے۔ لیکن وہ معصوم بچی اپنے آنسو پیتے ہوئے اتنی بہادری سے بات کر رہی تھی کہ اس پر رشک آرہا تھا۔کہ جس جماعت کے بچے بھی اتنے بہادر اور مضبوط ہوں تودشمن ان کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ اس بچی کو دیکھ کر اور بچے بھی ہمارے پاس آگئے۔ اکثر ان میں ایسے تھے جوواقعہ کے دن مسجد میں موجودتھے۔اور پنے پیاروں کو گولیاں مارنے کی آوازیں سن رہے تھے۔ باہر نکلنے کی ان کو اجازت نہیں تھی لیکن بعد میں جب وہ اپنے گھروں کو گئے ہوں گے کیسے انہوں نے اپنے پیاروں کی لاشیں دیکھی ہوں گی۔ وہ رات انہوں نے کیسے بسر کی ہوگی۔جب وہ وحشی درندے ابھی باہر ہی بیٹھے تھے اور ان معصوموں کو دھمکیاں دے رہے تھے۔ یا اب بھی وہ کیسے سوتے ہوں گے۔ کیسے ان کو نیند آتی ہو گی۔

اس بستی کے بچے عورتیں، مرداور بوڑھے سب ہی حوصلہ مند اور بہادر ہیں،لیکن ان کے چہرے ان کے اندر کی داستان سنا رہے تھے۔ان کے دکھ سنا رہے تھے۔ یہ دو گھنٹے اتنی جلدی گزر گئے، دل ہی نہیں مان رہا تھا کہ ان معصوم لوگوں کو چھوڑ کر واپس جایا جائے لیکن سیکورٹی والوں کے بار بار کہنے پرہمیں رخصت ہونا ہی پڑا۔ سب جماعت نے ہمیں اور ہم سب نے پیاری جماعت کو بھاری دل کے ساتھ الوداع کیا۔ ہم بس میں سوار ہو گئے۔ جب تک بس سے ایک دوسرے کو نظر آتے رہے ہاتھ ہلاتے رہے۔ ایک دوسرے کو پیاسی نظروں سے دیکھتے رہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ جلد ایسے سامان پیدا فرمادے کہ ملنے ملانے کے راستے کھل جائیں۔اور وہ لوگ اپنی نارمل زندگیوں میں واپس آسکیں۔ بچے دوبارہ اپنی تعلیم کا سلسلہ شروع کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ ان شہیدوں کے خون کو رائیگاں نہیں جانے دے گا۔ ان شاء اللہ۔

خوں شہیدانِ اُمت کا اے کم نظر! رائیگاں کب گیا تھا کہ اَب جائے گا
ہر شہادت ترے دیکھتے دیکھتے، پھول پھل لائے گی، پھول پھل جائے گی

واپسی کے سارے راستے لگتا تھا ذہن اور دل مہدی آباد کے مکینوں کے پاس ہی چھوڑ آئے ہیں۔ سلام ہے ان کے حوصلوں اور صبرپر۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان سب کاحامی وناصر ہو۔ اور ان کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے۔ اور پیارے آقا کی منشاء کے مطابق ہم ان کا خیال رکھ سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(امۃ القیوم ثاقب اہلیہ محمود ناصر ثاقب امیر جماعت احمدیہ برکینا فاسو)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 فروری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی