حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنگی مہم پر گئے۔ جب حضور ﷺ صحابہ ؓ کے ساتھ واپس آ رہے تھے تو دوپہر کا وقت ہوا اور قافلہ ایک وادی میں پہنچا جہاں بہت سے درختوں کے جھنڈ تھے۔ تو آپ ؐ نے بھی وہاں پڑاؤ ڈالا۔ اور مختلف لوگ مختلف جگہوں پر بکھر گئے۔ سائے میں بیٹھ گئے یا لیٹ گئے آرام کرنے لگے۔ آپؐ نے بھی ایک درخت کے نیچے آرام فرمایا اور اپنی تلوار درخت پہ لٹکا دی۔ تھوڑی دیر بعد آپؐ کو کسی دیہاتی نے جگایا۔ اور اس کے ہاتھ میں تلوار تھی۔ آپؐ نے صحابہؓ کو آواز دے کر یہ سارا واقعہ سنایا کہ دیکھو میں سویا ہوا تھا یہ دیہاتی آیا اور اس نے مجھے جگا کر کہا کہ بتاؤ مجھ سے تمہیں کون بچائے گا۔ تو میں نے تین بار کہا اللہ، اللہ، اللہ۔ اس پر تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی اور وہ کچھ بھی نہ کر سکا۔
(بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ ذات الرقاع)
ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ جب تلوار گر گئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تلوار اٹھالی اور فرمایا کہ اب تمہیں کون بچا سکتا ہے۔ اس پر وہ بہت گھبرایا اور معافیاں مانگنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا۔ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور مَیں اللہ کا رسول ہوں۔ اس نے جواب دیا میں یہ نہیں مانتا لیکن میں آپؐ سے یہ عہد کرتاہوں کہ آئندہ آپؐ سے کبھی نہیں لڑوں گا اور نہ ان لوگوں کے ساتھ شامل ہوں گا جو آپؐ سے لڑتے ہیں۔ خیر آپؐ نے اس کو معاف کر دیا۔ اور جب وہ اپنے لوگوں میں واپس گیا تو اس نے جا کے اعلان کیا کہ میں ایک ایسے شخص کے پاس سے آیا ہوں جو دنیا میں سب سے بہتر ہے۔
(السیرۃ الحلبیۃ، باب ذکر مغازیہﷺ، غزوۃ ذات الرقاع)