یہ قرآنی فرمان اصل میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خداتعالیٰ کی طرف سے ایک تسلی کا پیغام تھا کہ اے نبی! صلی اللہ علیہ وسلم تو بھی بے فکر رہ اور اپنے صحابہ ؓ کو بھی تسلی کروا دے کہ جیسے بھی حالات ہوں۔ ہو سکتا ہے وسیع پیمانے پر تجھے اور تیری جماعت کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے، تمام قبائل جمع ہو کر تجھے اور تیری جماعت کو ختم کرنے کی کوشش کریں لیکن یہ کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ پہلے بھی اللہ تعالیٰ کار ساز رہا ہے، تجھے ہر مشکل اور ہر مصیبت سے نکالتا رہا ہے اور آئندہ بھی وہی کار ساز ہے۔ جیسے مرضی حالات ہوں، دشمن کے جو بھی منصوبے ہوں، جیسے بھی منصوبے ہوں، دشمن کبھی بھی اسلام کو مٹانے کی کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ پس آپ اسی پر ہمیشہ کی طرح توکل کرتے رہیں۔ یہ تسلّی خداتعالیٰ نے اس لئے نہیں دی تھی کہ خدانخواستہ آپؐ خوفزدہ تھے یا توکّل میں کوئی کمی آ گئی تھی۔ بلکہ یہ صحابہ کے حوصلے بڑھانے کے لئے تھا کہ کسی کمزور دل میں بھی کبھی یہ خیال نہ آئے کہ ہم کمزور ہیں اور اتنی طاقتوں کے سامنے ہم کس طرح مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اور پھر یہ بھی کہ دشمن پر بھی اظہار ہو جائے کہ ہم تمہارے سامنے جھکنے والے نہیں، ہم ہمیشہ کی طرح اس خدائے واحدپر ہی توکّل کرتے ہیں اور اس یقین سے پُر ہیں کہ وہ ہمیشہ کی طرح ہمارا مددگار ہو گا، ہماری مدد فرماتا رہے گا۔ اور دشمن ہمیشہ کی طرح ناکام و نامراد ہو گا۔ اس کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہو گی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یا اسلام کو کوئی نقصان پہنچا سکے۔
پس جیسا کہ میں نے کہا کہ آپؐ کو تو پہلے سے ہی خدا پر اس قدر یقین تھا اور توکّل تھا کہ جس کی کوئی انتہا نہیں۔ آپ ؐ نے تو توکّل کے اُس وقت بھی اعلیٰ معیار قائم کئے تھے جب آپؐ کے ساتھی کمزور تھے اور دشمن کے مقابلے کے لئے ہاتھ نہیں اٹھا سکتے تھے۔ آپؐ نے تو اس وقت بھی توکّل کے نمونے دکھائے جب آپ ؐ اکیلے تھے اور اکیلے ہی دوسرے شہروں میں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کے لئے چلے جایا کرتے تھے۔ آپؐ کو تو اس وقت بھی خداتعالیٰ کی ذات پر پورا بھروسہ تھا اور توکل اور یقین تھا کہ آخر کار جیت میری ہی ہونی ہے۔ اور آپؐ نے تو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق یہی آواز بلند کی قُلْ ھُوَ رَبِّیْ لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۔ عَلَیْہِِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ مَتَابِ (الرعد:31) کہ توُ کہہ دے وہ میرا ربّ ہے کوئی معبود اس کے سوا نہیں، اسی پر مَیں توکل کرتا ہوں اور اسی کی طرف میرا عاجزانہ جھکنا ہے۔ پس یہ آپؐ کے توکّل کی قرآنی گواہی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو یہ اعلان کرنے کے لئے کہہ رہا ہے کہ مَیں جو تیرے دل کا بھی حال جانتا ہوں، مَیں یہ کہتا ہوں کہ اعلان کر دے کہ تو نے ہمیشہ مجھ پر توکّل کیا ہے۔ پھر پہلی کتابوں میں بھی آپ کی اعلیٰ صفات کا ذکر ملتا ہے جن میں توکّل کی صفت بھی ہے۔
(خطبہ جمعہ 8؍ اپریل 2005ء بحوالہ الاسلام)