• دنیا میں انسان مال سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے۔ اسی واسطے علم تعبیر الرؤیا میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دیکھےکہ اس نے جگر نکال کر کسی کو دیا ہے تو اس سے مراد مال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حقیقی اتقاء اور ایمان کے حصول کے لئے فرمایا۔لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ کہ حقیقی نیکی کو ہرگز نہ پاؤ گے جب تک کہ تم عزیز ترین چیز خرچ نہ کرو گے۔ کیونکہ مخلوق الٰہی کے ساتھ ہمدردی اور سلوک کا ایک بڑا حصہ مال کے خرچ کرنے کی ضرورت بتلاتا ہے۔اور ابنائے جنس اور مخلوق الٰہی کی ہمدردی ایک ایسی شئے ہے جو ایمان کا دوسرا جزو ہے جس کے بدوں ایمان کامل اور راسخ نہیں ہوتا۔جب تک انسان ایثار نہ کرے دوسرے کو نفع کیونکر پہنچا سکتا ہے۔اور اس آیت میں، لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ میں اسی ایثار کی تعلیم اور ہدایت فرمائی گئی ہے۔ پس مال کا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی انسان کی سعادت اور تقویٰ شعاری کا معیار اور محک ہے۔ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں للّہی وقف کا معیار اور محک وہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ضرورت بیان کی اور وہ کُل اثاث البیت لے کر حاضر ہو گئے۔
(ملفوظات جلد 2 صفحہ 95-96 ایڈیشن 1985ء)
• سچے نیکوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ خدا کی رضا جوئی کے لئے اپنے قریبیوں کی اپنے مال سے مدد کرتے ہیں اور نیز اس مال میں سے یتیموں کے تعہّداور ان کی پرورش اور تعلیم وغیرہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں اور مسکینوں کو فقر و فاقہ سے بچاتے ہیں اور مسافروں اور سوالیوں کی خدمت کرتے ہیں اور ان مالوں کو غلاموں کو آزاد کرانے کے لئے اور قرض داروں کو سبکدوش کرنے کے لئے بھی دیتے ہیں اور اپنے خرچوں میں نہ تو اسراف کرتے ہیں نہ تنگ دلی کی عادت رکھتے ہیں اور میانہ روش چلتے ہیں۔ پیوند کرنے کی جگہ پر پیوند کرتے ہیں اور خدا سے ڈرتے ہیں اور ان کے مالوں میں سوالیوں اور بے زبانوں کا حق بھی ہے۔ بے زبانوں سے مراد کتے، بلیاں، چڑیاں، بیل، گدھے، بکریاں اور دوسری چیزیں ہیں۔ وہ تکلیفوں اور کم آمدنی کی حالت میں اور قحط کے دنوں میں سخاوت سے دل تنگ نہیں ہو جاتے بلکہ تنگی کی حالت میں بھی اپنے مقدور کے موافق سخاوت کرتے رہتے ہیں۔ وہ کبھی پوشیدہ خیرات کرتے ہیں اور کبھی ظاہر۔ پوشیدہ اس لئے کہ تاریا کاری سے بچیں اور ظاہر اس لئے کہ تا دوسروں کو ترغیب دیں۔خیرات اور صدقات وغیرہ پر جو مال دیا جائے اس میں یہ ملحوظ رہنا چاہئے کہ پہلے جس قدر محتاج ہیں ان کو دیا جائے۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی،روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 357)