• 28 اپریل, 2024

زکوٰۃ کی فرضیت وفضیلت

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

خُذۡ مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمۡ وَتُزَکِّیۡہِمۡ بِہَا وَصَلِّ عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّہُمۡ ؕ وَاللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۱۰۳﴾

(التوبہ : 103)

تُوان کے مالوں میں سے صدقہ(زکوٰۃ)قبول کرلیا کر، اس ذریعہ سے تُوانہیں پاک کرےگانیزاُن کاتزکیہ کرے گااوراُن کے لیے دعاکیاکر۔یقیناًتیری دعا اُن کے لیے سکینت کاموجب ہوگی اوراللہ تعالیٰ بہت سننے والا(اور)دائمی علم رکھنے والاہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
نماز کے بعد دوسرا حکم زکوٰۃ کا ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ جس مال پرایک سال گزرجائے اس پرغریبوں اورمسکینوں کی امدادکے لیے چالیسواں حصّہ نکالا جائے۔ اگر اسلامی حکومت ہوتواس کووہ حصّہ دیاجائے۔اگرنہ ہوتوجوانتظام ہواس کو دیا جائے۔

(فرمودات مصلح موعود دربارہ فقہی مسائل صفحہ142)

زکوٰۃ کے لغوی معنی :پاک کرنے،صالح اورمناسب ہونے، بڑھنے، بہترین اورلائق ہونے کے ہیں اورپانچ ارکان اسلام میں سے ایک اہم رکن’’زکوٰۃ‘‘ہے۔

حضرت عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ مسجد نبوی میں حضرت محمد رسول اللہﷺ صحابہ رضوان اللہ علیہم کے درمیان تشریف فرماتھےکہ حضرت جبرائیل علیہ السلام انسانی شکل میں آپ کی مجلس میں تشریف لائے اورسوال کیاکہ……یارسول اللہﷺ……اسلام کیاہے؟آپﷺ نے جواباًفرمایاکہ اسلام کے پانچ ارکان ہیں۔

(1) کلمہ طیبہ (2)اقامۃ الصلوٰۃ (3)ایتاء الزکوٰۃ (4)صوم رمضان (5)حج

اس پرحضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا صَدَقْتَ اَے اللہ کے رسول! آپ نے درست فرمایا۔

قرآن مجیدمیں اللہ تبارک تعالیٰ فرماتاہے:
نمازقائم کرؤاورزکوٰۃ اداکرواورجُھکنے والوں کے ساتھ جُھک جاؤ۔یہاں نمازکے حکم کے ساتھ ہی زکوٰۃ کاحکم اس لئے دیاہے کہ مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جب تم نمازوں کوباجماعت اداکروگے توتم جان سکوگے کہ کون ضرورتمندہے،کون غریب ہے، کون بیمارہے، توزکوٰۃ کی ادائیگی سے مخلوقِ خداکی حاجات کوپوراکرسکوگے۔

حضرت عبداللہ بن ابُو اَوْفیٰ سے روایت ہے کہ جس وقت کوئی قوم نبی کریمﷺ کے پاس اپنی زکوٰۃ لاتی تورسول کریمﷺ فرماتے یاالٰہی فلاں کی آل پررحمتیں فرما۔

(بخاری کتاب الزکوٰۃ)

آنحضرتﷺ نے فرمایا:
جسے اللہ نے مال دیااوراُس نے اُس کی زکوٰۃ ادانہیں کی توقیامت کے دن اُس کامال نہایت زہریلے سانپ کی شکل اختیارکرلے گاجواُس کے گلے کاطوق ہوگا۔پھروہ سانپ اپنے جبڑوں سےاُسے پکڑلے گااورکہے گامیں تیرامال اورخزانہ ہوں۔

(بخاری کتاب الزکوٰۃ)

زکوٰۃ کیاہے

دین اسلام کاایک بنیادی رکن ہےاوردیگرارکان کی طرح اس کی ادائیگی بھی فرض ہے۔ادائیگی زکوٰۃ کے حوالہ سے قرآن کریم،آنحضرتﷺ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت کے ارشادات پیش ہیں۔وہ احمدی احباب وخواتین جن پرزکوٰۃ کی ادائیگی کی شرائط پوری ہوتی ہوں ان سے درخواست ہے کہ اس فرض کی طرف خصوصی توجہ فرمائیں۔

زکوٰۃ کی اہمیت و فضیلت پر روشنی ڈالتے ہوئے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
یعنی وہ جواُمراء سے لے کرفُقراء کودیاجائے۔ اس میں اعلیٰ درجہ کی ہمدردی سکھائی گئی ہے۔اس طرح سے باہم گرم سردملنے سے مسلمان سنبھل جاتے ہیں۔اُمراء پریہ فرض ہے کہ وہ اداکریں۔اگرنہ بھی فرض ہوتی توبھی انسانی ہمدردی کاتقاضاتھا کہ غرباء کی مددکی جائے۔مگراب میں دیکھتاہوں کہ ہمسایہ اگرفاقہ مرتاہوتوپرواہ نہیں اپنے عیش وآرام سے کام ہے جوبات خداتعالیٰ نے میرے دل میں ڈالی ہے میں اس کے بیان کرنے سے رُک نہیں سکتا۔انسان میں ہمدردی اعلیٰ درجہ کاجوہرہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ

(آل عمران : 93)

یعنی تم ہرگز اس نیکی کوحاصل نہیں کرسکتے جب تک اپنی پیاری چیزوں کواللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو۔یہ طریق اللہ کوراضی کرنے کانہیں کہ مثلاً کسی ہندو کی گائے بیمارہوجائے اوروہ کہے کہ اچھااسے منس دیتے ہیں (یعنی صدقہ میں دیتے ہیں)

بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ باسی اورسڑی بُسی روٹیاں جوکسی کام نہیں آسکتی ہیں فقیروں کودے دیتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ ہم نے خیرات کردی ہے۔ایسی باتیں اللہ تعالیٰ کومنظورنہیں ہیں اورنہ ایسی خیرات مقبول ہوسکتی ہے وہ توصاف طورپرکہتاہے۔

لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ

حقیقت میں کوئی نیکی، نیکی نہیں ہوسکتی جب تک اپنے پیارے مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس کے دین کی اشاعت اوراس کی مخلوق کی ہمدردی کے لئے خرچ نہ کرو۔

(فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 126،بدر1908ء)

قرآن کریم میں زکوٰۃ کے متعلق ارشادات

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:

وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَارۡکَعُوۡا مَعَ الرّٰکِعِیۡنَ ﴿۴۴﴾

(البقرہ : 44)

اورنمازقائم کرواورزکوٰۃ اداکرو اورجُھکنے والوں کے ساتھ جُھک جاؤ۔

وَالۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتُ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ ۘ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَیَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَیُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَیُطِیۡعُوۡنَ اللّٰہَ وَرَسُوۡلَہٗ ؕ اُولٰٓئِکَ سَیَرۡحَمُہُمُ اللّٰہُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ ﴿۷۱﴾

(التوبہ:71)

مومن مرداورمومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں وہ اچھی باتوں کاحکم دیتے ہیں اوربُری باتوں سے روکتے ہیں اورنمازکوقائم کرتے ہیں اورزکوٰۃ اداکرتے ہیں۔اوراللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی ہیں جن پراللہ ضروررحم کرے گا۔یقیناً اللہ کامل غلبہ والااوربہت حکمت والاہے۔

خُذۡ مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمۡ وَتُزَکِّیۡہِمۡ بِہَا وَصَلِّ عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّہُمۡ ؕ وَاللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۱۰۳﴾

(التوبہ : 103)

اَے رسول! اُن کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ)لے تاکہ تو اُنہیں پاک کرے اوراُن کی ترقی کے سامان مہیّا کرے اوراُن کے لئے دعائیں بھی کرتارہے کیونکہ دُعااُن کی تسکین کاموجب ہے اوراللہ تیری دعاؤں کوبہت سننے والااورحالات کوجاننے والا ہے۔

وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ ﴿۵۷﴾

(النور: 57)

اوراگرتم چاہتے ہوکہ اللہ تعالیٰ تم پررحم کرے تو پھر نماز کو قائم کرؤاورزکوٰۃ ادا کرواوراللہ تعالیٰ کے رسول کی اطاعت کرو۔

احادیث میں زکوٰۃ کی اہمیت و فضیلت کا بیان

حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول مقبولﷺنے فرمایا: اسلام کی بنیادپانچ چیزوں پرکھی گئی ہے۔ وہ پانچ چیزیں یہ ہیں:

  1. گواہی دینااس بات کی کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں اور محمدؐ اللہ کے بندے اوررسول ہیں۔
  2. نمازقائم کرنا
  3. زکوٰۃ دینا
  4. حج کرنا
  5. اوررمضان کے روزے رکھنا

(بخاری، مسلم)

حضرت عمروبن شعیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : ایک عورت اپنی بیٹی کوساتھ لے کررسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اُس کی بیٹی نے سونے کے بھاری کنگن پہنے ہوئے تھے۔آپﷺ نے اُس عورت سے پوچھا:تُعْطِیْنَ زَکَاۃَ ھٰذَا۔کیاان کی زکوٰۃ بھی دیتی ہو؟ اس نے عرض کیاکہ‘‘نہیں’’اس پرآپﷺ نے فرمایا: ‘‘کیا تُو پسند کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تجھے آگ کے کنگن پہنائے۔’’ یہ سُن کراس عورت نے اپنی بیٹی کے ہاتھ سے کنگن اُتارلئے اورنبی کریمﷺ کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے عرض کیاکہ یہ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسولﷺ کے لئے ہیں۔ جہاں چاہیں آپﷺ خرچ فرمائیں۔

(ابوداؤد کتاب الزکوٰۃ بابُ الکنز ماھُو وزکٰوۃ الحُلٰی )

ایک دوسری روایت میں حضرت عمروبن شعیب رضی اللہ عنہ اپنے داداکے واسطے سے روایت کرتے ہیں کہ دوعورتیں نبیﷺ کی خدمت میں حاضرہوئیں۔ان کے ہاتھوں میں سونے کے دوکنگن تھے۔ آنحضرتؐ نے دریافت فرمایا:
’’کیاان کی زکوٰۃ دیتی ہو؟‘‘

انہوں نے جواب دیانہیں یارسول اللہﷺ۔اس پرآپﷺ نے فرمایا:
’’کیاتم پسندکرتی ہوکہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمہیں آگ کے کنگن پہنائے؟‘‘

انہوں نے کہا نہیں یارسول اللہﷺ۔فرمایا’’پھرتم اِن کی زکوٰۃ دیاکرو۔‘‘

(مشکوۃ)

اموالِ زکوٰۃ

اموال زکوٰۃ کی دوقسمیں ہیں۔ اموالِ باطنہ اوراموالِ ظاہرہ۔

اموالِ باطنہ یہ ہیں:
نقدروپیہ،سونا،چاندی خواہ کسی شکل میں ہو۔زیورات ہوں یااستعمال کی کوئی اور چیز۔اموالِ باطنہ کی نگرانی حکومت کی طرف سے نہیں کی جاسکتی جیسے جمع شدہ نقد روپیہ، زیوارت ………ان اموال کی زکوٰۃ اداکرناایک سچے مسلمان کی ذاتی ذمہ داری ہے۔اس قسم کی ساری زکوٰۃ خلیفۃوقت کی خدمت میں بھجوائی جائے تاکہ ساری جماعت کے غرباء،مساکین اور مستحقین کواس مال سے حصّہ مل سکے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام علماء امّت نے یہ اُصول تسلیم کیاہے کہ زکوٰۃ کی تقسیم امام (خلیفہ) وقت کاحق ہے۔

(فقہ احمدیہ صفحہ359)

اموالِ ظاہرہ یہ ہیں:
الف: مویشی مثلاً اونٹ، گائے،بھینس،بھیڑ،بکری بشرطیکہ یہ باہر سرکاری چراگاہوں یاشاملات دیہہ میں چرتے ہوں اوران کوگھرمیں باقاعدہ چارہ ڈالنے کی ضرورت نہ پڑے۔

(فقہ احمدیہ حصّہ عبادات صفحہ358)

مویشی پرزکوٰۃ تب واجب ہوگی جب ان پرایک سال گزرجائے اورسال بھرملکیّت میں رہیں گے گویاجتنے سال وہ ملکیت میں رہیں گے ہرسال ان پرزکوٰۃ واجب ہوگی۔

(تشریح الزکوٰۃ صفحہ136 فقہ احمدیہ صفحہ359)

ب: زمین میں پیداہونے والی فصلیں جیسےگندم، جو، مکئی، چاول، باجرہ، کھجور، انگور،جنگلی شہد جوکسی نے اکٹھاکیاہو۔

(فقہ احمدیہ حصّہ عبادات صفحہ358)

زمین کی پیداوارجب ایک دفعہ آئے تواس پراس وقت زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔اس کے بعدخواہ وہ کتنے سال پڑی رہے اس پردوبارہ زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی یاعائدنہیں ہوگی۔

ج: وہ معدنیات جوافرادکی تحویل میں ہوں۔مثلاًلوہے کی کان،تانبے کی کان،ٹین کی کان،تیل کے کوئیں وغیرہ۔

د: اموالِ تجارت،صنعت وحرفت میں لگاہواسرمایہ۔

(فقہ احمدیہ حصّہ عبادات صفحہ359)

اموالِ ظاہرہ سے زکوٰۃ وصول کرنے کااصل حق حکومت کوہے۔یہی وجہ ہے کہ جن زمینوں سے حکومت مالیہ وصول کرتی ہے یاجس تجارتی اورصنعتی کاروبارپرانکم ٹیکس لگاتی ہے ان پرمزیدزکوٰۃ نہیں۔

(فقہ احمدیہ حصّہ عبادات صفحہ359)

اموال تجارت پر زکوٰۃ

مکرم ناظم صاحب دارالقضاقادیان کے استفسار پر کہ

’’تجارتی کاروبار میں اصل زر پر زکوٰۃ ہے یا بشمول منافع یا صرف منافع پر زکوٰۃ ہے؟‘‘

مفتی سلسلہ مکرم مبشر احمد کاہلوں صاحب نے درج ذیل جواب ارسال فرمایا:
اموال زکوٰۃ کی بابت سیدنا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’یہ ٹیکس جسے زکوٰۃ کہا جاتا ہے صرف آمد پر نہیں بلکہ سرمایہ اور نفع سب کو ملاکر اس پر لگایا جاتا ہے۔‘‘

(نظام نو بحوالہ انوار العلوم جلد 16 صفحہ 570)

’’یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ٹیکس جسے زکوٰۃ کہتے ہیں آمدن پر نہیں ہے بلکہ سرمایہ اور نفع سب کو ملاکر اس پر لگایا جاتا ہے اور اس طرح اڑھائی فیصد درحقیقت بعض دفعہ نفع کا پچاس فیصدی بن جاتا ہے۔‘‘

(احمدیت یعنی حقیقی اسلام بحوالہ انوارالعلوم جلد 8 صفحہ 306)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ مزید فرماتے ہیں:
’’ایک زکوٰۃ کا بھی حکم ہے جو ہر امیر پر واجب ہے۔ ہر شخص جو کوئی روپیہ اپنے پاس جمع کرتا ہے یا جانور تجارت کیلئے پالتا ہے اس پر ایک رقم مقرر ہے۔ اسی طرح ہر کھیتی کی پیداوار پر ایک رقم مقرر ہے۔ کھیتی کی پیداوار پر دسواں حصہ اور تجارتی اموال پر اندازاً اڑھائی فیصدی …… یہ اڑہائی فیصدی صرف نفع پر نہیں دیا جاتا بلکہ رأس المال اور نفع سب پر دیا جاتا ہے۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن صفحہ 295-296)

تجارتی اموال پر زکوٰۃ کا نصاب آج کل دُنیا میں رائج معیار زر یعنی سونے کے نصاب والا ہے یعنی اگر تجارتی اموال اور منافع، خواہ نقد صورت میں ہو یا جنس کی صورت میں، اس نصاب کے مطابق ہے تو اس پرزکوٰۃ واجب ہوگی۔ سونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ ہے اور اس نصاب کے برابر یا زائد تجارتی اموال اور منافع پر اڑھائی فیصد زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔‘‘

(84/بحوالہ دارالافتاء سلسلہ عالیہ احمدیہ ربوہ، 6.4.2016)

سونے، چاندی کاجوزیور عورت کے ذاتی استعمال میں آتاہے اوروہ کبھی کبھی مانگنے پرغریب عورتوں کوبھی استعمال کے لئے دے دیتی ہے اس پرزکوٰۃ نہیں۔

سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:
جوزیوراستعمال میں آتاہے اس کی زکوٰۃ نہیں ہے اور جو رکھارہتاہے اورکبھی کبھی پہناجاوے اس کی زکوٰۃ دینی چاہئے جوزیورپہناجاوے اورکبھی کبھی غریب عورتوں کواستعمال کے لئے دیاجائے۔بعض کااس کی نسبت یہ فتویٰ ہے کہ اس کی زکوٰۃ نہیں۔ اورجوزیورپہناجائے اوردوسروں کواستعمال کے لئے نہ دیاجائے اس پرزکوٰۃ دینا بہتر ہے کہ وہ اپنے نفس کے لئے مُستَعمل ہوتاہے۔اس پرہمارے گھرمیں عمل کرتے ہیں اورہرسال کے بعداپنے موجودہ زیورکی زکوٰۃ دیتے ہیں اورجوزیورروپیہ کی طرح رکھا جائے اس کی زکوٰۃ میں کسی کوبھی اختلاف نہیں۔

(مجموعہ فتاویٰ احمدیہ جلد اوّل صفحہ168۔الحکم 17؍ نومبر1908)

حضرت اقدس مسیح موعود ومہدی معہودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
اَے وے تمام لوگو!جواپنے تئیں میری جماعت شمارکرتے ہو،آسمان پرتم اُس وقت میری جماعت شمارکئے جاوگے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پرقدم ماروگے۔سواپنی پنجوقتہ نمازوں کوایسے خوف اورحضورسے اداکروکہ گویاتم خدتعالیٰ کودیکھتے ہواوراپنے روزوں کوخداکے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو۔ہرایک جوزکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوٰۃ دے اورجس پرحج فرض ہوچکاہے اورکوئی مانع نہیں وہ حج کرے۔

(کشتی نُوح،روحانی خزائن جلد19صفحہ15)

مزیدفرمایا:
میں دیکھتاہوں کہ اس وقت دومُصیبتیں واقع ہورہی ہیں اوردوحرمتیں روارکھی گئی ہیں۔اوّل یہ کہ زکوٰۃ جس کے دینے کاتھاوہ دیتے نہیں اورسُودجس کے لینے سے منع کیاتھا وہ لیتے ہیں لیکن جوخداتعالیٰ کاحق تھاوہ تودیانہیں اورجواپناحق نہ تھااُسے لیاگیا۔

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 368)

زکوٰۃ کوقرآن کریم نے قائم کیاہے اس کاچندے سے ٹکراؤنہیں۔ کوئی شخص زکوٰۃ کواس لئے بندنہیں کرسکتاکہ وہ چندے دے رہاہے۔

زکوٰۃ کاایک نصاب ہے اورمعین شرح ہے۔اسلام نے روپیہ کمانامنع نہیں کیا۔ ہاں!روپیہ کوبندرکھنااورخرچ نہ کرناناجائزقراردیاہے۔ تاہم اگرکوئی شخص اپنی آئندہ کی ضروریات کے لئے بطوراحتیاط کچھ روپیہ جمع کرتاہے اورپڑے پڑے اس پرسال گزرجاتاہے تواس روپیہ پرزکوٰۃ واجب ہوجائے گی۔

آنحضرتﷺ نے فرمایا:
یقیناً لوگوں پرایک زمانہ آنے والاہے کہ آدمی اپنے مال کی زکوٰۃ نکالتے وقت تکلیف محسوس کرے گا۔

(کنزالعمال)

جانوروں کانصابِ زکوٰۃ اورشرح زکوٰۃ
زکوٰۃ کے جانوروں سے مرادمویشی ہیں۔جیسے اُونٹ، گائے، بیل، بکری، بھیڑ، چھترا، دُنبہ وغیرہ۔

نصاب

40سے زائد بھیڑ،بکریاں
30سے زائدگائے
5 سے زائداُونٹوں پرزکوٰۃ فرض ہوتی ہے

( شرح زکوٰۃ کی تفصیل فقہ احمدیہ حصّہ عبادات صفحہ363-365)

ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ

جس طرح نمازیں فرض ہیں اورمسجدمیں جماعت کے ساتھ فرض ہیں۔اسی طرح زکوٰۃ فرض ہے اوراس کاایک جگہ جمع کرکے تقسیم کرنااوراُن مصارف پرلگاناجواُس کے لئے قراردیئے گئے ہیں فرض ہے۔اس فرض کی ادائیگی کواسی طرح ضروری سمجھوجس طرح نمازاورروزہ اورحج کے فرائض کی ادائیگی کوضروری سمجھتے ہو۔

(رپورٹ صدرانجمن احمدیہ1911-12)

ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
جماعت میں بعض لوگوں کاخیال ہے کہ زکوٰۃ کانظام رائج نہیں اورہم اس طرف توجہ نہیں دیتے۔ جماعت میں زکوٰۃ کانظام رائج ہے اس لئے جن پرزکوٰۃ فرض ہے اُن کومیں توجہ دلاتاہوں کہ زکوٰۃ دینی لازمی ہے وہ ضروردیاکریں۔
(خطبات مسرورجلد5صفحہ 153)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
زکوٰۃ کی ادائیگی کے بارہ میں سوال ہوتے ہیں۔یہ بنیادی حکم ہے۔جن پرزکوٰۃ واجب ہے ان کو ضرور اداکرنی چاہئے اوراس میں بھی کافی گنجائش ہے۔ بعض لوگوں کی رقمیں کئی کئی سال بینکوں میں پڑی رہتی ہیں اورایک سال کے بعدبھی اگررقم جمع ہے تواس پربھی زکوٰۃ دینی چاہئے۔ پھر عورتوں کے زیورات ہیں ان پرزکوٰۃ دینی چاہئے۔جوکم ازکم شرح ہے اس کے مطابق ان زیورات پرزکوٰۃ اداکرنی چاہئے۔پھربعض زمینداروں پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے ان کوزکوٰۃ اداکرنی چاہئے۔تویہ ایک بنیادی حکم ہے اس پربہرحال توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

(خطبہ جمعہ 31؍ مارچ2006ء خطبات مسرورجلدچہارم صفحہ175)

زکوٰۃ کی ادائیگی کے متعلق
بعض سوالات اورجوابات

سوال1: زکوٰۃ کانصاب کیاہے؟

جواب : زکوٰۃ کانصاب درج ذیل ہے۔

  1. چاندی ساڑھے باون تولے
  2. سوناساڑھے سات تولے
  3. نقدی ساڑھے سات تولے سونے کی قیمت کے برابر نقدی۔

نوٹ: اگرمقررہ نصاب کے مطابق چاندی،سونایانقدرقم پرایک سال مکمل ہوجائے توکُل سرمایہ کااڑھائی فیصد یعنی چالیسواں حصہ سالانہ حساب سے زکوٰۃ کی ادائیگی فرض ہوتی ہے۔

سوال 2: زکوٰۃ کی ادائیگی کاطریق کارکیاہے؟

جواب:خدا تعالیٰ کے خاص فضل سے جماعت کوخلافت کاانعام ملاہے اورقیامت تک یہ انعام قائم رہنے کاوعدہ ہے۔ جماعتی لحاظ سے زکوٰۃ کی تمام رقم کامرکزی نظام کے تحت جمع ہوناضروری ہے۔کوئی بھی احمدی اپنی زکوٰۃ کی رقم ازخودتقسیم نہیں کرسکتا ہے۔ ہاں اگراس کے علم میں کوئی اس کاایسا عزیزرشتہ داریامستحق ہے)خواہ احمدی ہو یا غیر از جماعت ہو(جس کوزکوٰۃ دینی مقصودہویازکوٰۃ دینے کاارادہ رکھتا ہو تو اس کے لئے حضور انورایدہ تعالیٰ کی خدمت میں درخواست براہ راست یانظارت بیت المال آمدکے ذریعہ بھجوائے۔بصورت منظوری جماعتی نظام کے تحت امدادکردی جائے گی۔

سوال 3: کیا بینک میں یاکسی اورطورپرمحفوظ رقم پرزکوٰۃ واجب ہے؟

جواب: بینک میں یاکسی اورطورپرمحفوظ رقم پرزکوٰۃ واجب ہے۔ اگر بینک میں فکسڈڈپازٹ کے طورپررقم جمع ہواورزکوٰۃ کی شرائط پوری ہوجائیں توزکوٰۃکی ادائیگی واجب ہوجائے گی۔ اگرفکسڈڈپازٹ ایک سال سے زیادہ عرصہ تین، پانچ یادس سال کے لئے ہے توہرسال کاحساب کرکے واجب زکوٰۃ ہرسال ادا کرنا ہوگی۔ پرائز بانڈز، کمپنیوں کے شیئرز،کسی کے پاس امانتاً رکھی ہوئی سب نقدی کے زمرے میں آتے ہیں۔

سوال4: کیاحق مہرپرزکوٰۃ واجب ہے؟

جواب: مہرکی رقم جب تک عورت کوحاصل نہیں ہوتی اس پرزکوٰۃ واجب نہیں۔ جب حق مہرمل جائے اوروہ نقدیازیورکی صورت رکھتا ہو اور وہ نصاب کی قدربن جائے توایک سال گزرنے پرزکوٰۃ واجب ہوگی۔

سوال5: کیاچندہ جات زکوٰۃ کے متبادل ہیں؟

جواب : چندہ جات زکوٰۃ کے متبادل نہیں ہیں بلکہ جن احباب پرزکوٰۃکی شرائط پوری ہوتی ہوں ان کے لئے اس عبادت کواس کی شرائط کے مطابق اداکرناضروری ہے۔ جس طرح نمازاسلام کاایک رکن ہے اور شرائط کے پورا ہونے اورفرض ہونے کی صورت میں اداکرناضروری ہے اسی طرح زکوٰۃ بھی اسلام کاایک اہم رکن ہے اوراس کی شرائط مکمل ہوجائیں تواس کی ادائیگی بھی فرض ہے۔

سوال نمبر6: قرض پرزکوٰۃ کا کیا حکم ہے؟

جواب:حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں سوال پیش ہواکہ جوروپیہ کسی شخص نے کسی کوقرض دیا ہوا ہے کیااس پرزکوٰۃ دینی لازم ہے؟آپ علیہ السلام نے فرمایا’’نہیں‘‘

(بدر21؍ فروری1907ء صفحہ5)

سوال 7: کیاسیکورٹی اورپراویڈنٹ فنڈومیعادی امانت (فکسڈ ڈیپازٹ) زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہیں۔ امانت تابع مرضی (Current Account) کے بارہ میں کیاحکم ہے؟

جواب : قرض، میعادی امانت،سیکورٹی یعنی ضمانت میں دی ہوئی رقم اور پراویڈنٹ فنڈن پرزکوٰۃ نہیں۔ البتہ جس سال یہ رقوم وصول ہوں اس سال کی زکوٰۃ اداکرنی چاہئے۔

امام مالک رضی اللہ عنہ اپنی کتاب مؤطامیں فرماتے ہیں۔

اَلْاَمْرُ الَّذِیْ لَا اِخْتِلَافَ فِیْہِ عِنْدَنَا فِیْ مَسْئَلَۃِ الدَّیْنِ اِنَّ صَاحِبَہٗ لَا یُزَکِّیْہِ حَتّٰی یَقْبِضَہٗ صَاحِبُہٗ لَمْ یَجِبْ عَلَیْہِ اِلَّا زکوٰۃٌ وَاحِدَۃٌ۔

(اوجزالمسالک شرح مؤطامالک جلد3صفحہ174،فقہ احمدیہ حصہ عبادات صفحہ369)

ہمارے(یعنی مدینہ کے علماء کے)نزدیک یہ مسئلہ متفق علیہ ہے کہ جو قرض مقروض کے پاس کئی سال تک رہے اس پرزکوٰۃ نہیں البتہ جس سال یہ قرض وصول ہوصرف اس سال کی زکوٰۃ اداکرناہوگی۔جوحال قرض کاہے وہی میعادی امانت اورسیکورٹی وغیرہ کاہے امام مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے مسلک کی تائیدمیں حدیث بھی پیش کی ہے۔علاوہ ازیں زکوٰۃ کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ مال مالک کے پاس بندنہ پڑارہے بلکہ لامحالہ وہ مجبور ہوکر اسے کاروبارمیں لگائے یاکسی دوسرے کواس سے استفادہ کرنے دے ورنہ زکوٰۃ اس کے مال کوکھاجائے گی۔

سوال8: مکانات وجواہرات پرزکوٰۃ؟

جواب: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’جواہرات ومکانات پرکوئی زکوٰۃ نہیں‘‘

(البدر14؍ فروری1907ء فتاویٰ مسیح موعودصفحہ28،فقہ احمدیہ حصہ عبادات صفحہ370)

سوال9: مکان اورتجارتی مال پرزکوٰۃ؟

جواب : ایک شخص کے سوال کے جواب میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایاکہ:
’’مکان خواہ ہزارروپیہ کاہواس پرزکوٰۃ نہیں اگرکرایہ پر چلتا ہو تو آمد پرزکوٰۃ ہے۔ ایساہی تجارتی مال پرجومکان میں رکھاہے زکوٰۃ نہیں۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ چھ ماہ کے بعد حساب لیاکرتے تھے اورروپیہ پرزکوٰۃ لگائی جاتی تھی۔ ‘‘

(البدر14؍ فروری 1907ء فتاویٰ مسیح موعودصفحہ128،فقہ احمدیہ حصہ عبادات صفحہ370)

اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہراحمدی کوجس پرزکوٰۃ فرض ہے نصاب اورشرح کے مطابق زکوٰۃ اداکرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

(خواجہ محمدافضل بٹ۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

ایک سبق آموز بات (کتاب)

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ