• 5 مئی, 2024

حضرت مسیح موعودؑ کا جذبۂ ہمدردیٔ خلق

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔

’’اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی روحانی حالت سدھارنے کے لئے کس قدر رحم اور ہمدردی کا جذبہ آپؑ میں تھا، اس کا اظہار آپؑ کے اس اقتباس سے بھی ہوتا ہے۔

آپؑ فرماتے ہیں: ’’اللہ جلّشانہٗ خوب جانتا ہے کہ میں اپنے دعویٰ میں صادق ہوں، نہ مفتری ہوں، نہ دجّال، نہ کذّاب۔ اس زمانہ میں کذّاب اور دجّال اور مفتری پہلے اِس سے کچھ تھوڑے نہیں تھے تا خداتعالیٰ صدی کے سر پر بھی بجائے ایک مجدّد کے جو اس کی طرف سے مبعوث ہو ایک دجّال کو قائم کرکے اور بھی فتنہ اور فساد ڈال دیتا۔ مگر جو لوگ سچائی کو نہ سمجھیں اور حقیقت کو دریافت نہ کریں اور تکفیر کی طرف دوڑیں مَیں ان کا کیا علاج کروں۔ مَیں اس بیمار دار کی طرح جو اپنے عزیز بیمار کے غم میں مبتلا ہوتا ہے‘‘ ایسا تیمار دار مریض کی تیمارداری کرنے والا جو اپنے عزیز بیمار کے غم میں مبتلا ہوتا ہے ’’اس ناشناس قوم کے لئے سخت اندوہ گین ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اے قادر ذوالجلال خدا، اے ہادی اور رہنما اِن لوگوں کی آنکھیں کھول اور آپ ان کو بصیرت بخش اور آپ ان کے دلوں کو سچّائی اور راستی کا الہام بخش اور یقین رکھتا ہوں کہ میری دعائیں خطا نہیں جائیں گی۔ کیونکہ مَیں اُس کی طرف سے ہوں اور اُس کی طرف بلاتا ہوں۔ یہ سچ ہے کہ اگر میں اُس کی طرف سے نہیں ہوں اور ایک مفتری ہوں تو وہ بڑے عذاب سے مجھ کو ہلاک کرے گا کیونکہ وہ مفتری کو کبھی وہ عزت نہیں دیتا کہ جو صادق کو دی جاتی ہے۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد نمبر 5صفحہ 324)

اپنے شعر میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ؎

گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو
رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے

(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد نمبر 5 صفحہ 225)

پھر ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو راہ راست پرلانے اور عذاب سے بچانے کے لئے آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’اکثر دلوں پر حُبِّ دنیا کا گرد بیٹھا ہوا ہے۔ خدا اس گرد کو اٹھاوے، خدا اس ظلمت کو دور کرے، دنیا بہت ہی بے وفا اور انسان بہت ہی بے بنیاد ہے۔ مگر غفلت کی سخت تاریکیوں نے اکثر لوگوں کو اصلیت کے سمجھنے سے محروم رکھا ہے …… خداوند کریم سے یہی تمنا ہے کہ اپنے عاجز بندوں کی کامل طور پر دستگیری کرے اور جیسے انہوں نے اپنے گزشتہ زمانہ میں طرح طرح کے زخم اٹھائے ہیں ویسا ہی ان کو مرہم عطا فرماوے اور ان کو ذلیل و رسوا کرے جنہوں نے نور کو تاریکی اور تاریکی کو نور سمجھ لیا ہے اور جن کی شوخی حد سے زیادہ بڑھ گئی اور نیز ان لوگوں کو بھی نادم اور منفعل کرے (شرمندہ کرے) جنہوں نے حضرت احدیت کی توجہ کو جو عین اپنے وقت پر ہوئی غنیمت نہیں سمجھا۔ (یعنی حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا آنا) اور اس کا شکر ادا نہیں کیا بلکہ جاہلوں کی طرح شک میں پڑے۔ سو اگر اس عاجز کی فریادیں رب العرش تک پہنچ گئی ہیں تو وہ زمانہ کچھ دور نہیں جو نور محمدیؐ اس زمانہ کے اندھوں پر ظاہر ہو اور الٰہی طاقتیں عجائبات دکھلاویں ۔‘‘

(مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ513-512 مکتوب نمبر 5 بنام میر عباس علی صاحب محررہ 9 فروری 1883ء جدید ایڈیشن)

عام مخلوق کے لئے آپؑ کا جذبۂ ہمدردی انتہائی بڑھا ہوا تھا لیکن جو لوگ آنکھیں رکھتے ہوئے اندھے ہوں، جو لو گ روشنی دیکھ کر اسے تاریکی کہیں، جو علم رکھتے ہوئے جاہلوں کی طرح ضد کریں اور عوام الناس کو بھی اندھیروں میں لے جا رہے ہوں، ان کے لئے تو دعا نہیں نکلتی۔ اعلیٰ کے لئے ادنیٰ کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ تو یہ بھی جذبہ رحم اور ہمدردی کی وجہ سے تھا کہ جو آپ نے ان کے لئے بددعا کی۔ بے شک آپ نے یہ بددعا تو کی لیکن یہ حد سے بڑھے ہوؤں کے لئے بددعا تھی۔ اور یہ دعا مخلوق کی اکثریت سے ہمدردی کے جذبے کی وجہ سے تھی، ان پر رحم کھاتے ہوئے تھی۔ اللہ تعالیٰ نے یقینا آپؑ کی دعاؤں کو قبولیت کا درجہ دیا ہے۔ سعید روحیں روز ہم دیکھتے ہیں سلسلے میں داخل ہوتی ہیں، جن پر اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرماتا ہے اور نور محمدیؐ ﷺ دنیا میں پھیل رہا ہے۔ آج ہم مسیح محمدیؐ کے غلاموں کا بھی کام ہے کہ آپ کی دعاؤں کو اپنی دعاؤں میں شامل کریں اور آپؑ کی دعاؤں سے بھی حصہ لیں۔ آپؑ کی تعلیم کو اپنے عملوں پر لاگو کرتے ہوئے مخلوق خدا سے جذبہ ہمدردی کے تحت اس پیغام کو بھی لوگوں تک پہنچائیں اور اپنی دعاؤں کو اپنی استعدادوں کے مطابق زیادہ سے زیادہ کریں تاکہ جس نور محمد ؐ کو پھیلانے کے لئے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے، اس میں ہم بھی نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ کا نعرہ لگاتے ہوئے شامل ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘

(خطبہ جمعہ مؤرخہ 26جنوری 2007ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ