• 10 دسمبر, 2024

انگلستان کے متعلق بعض اہم معلومات اور تاریخی حقائق

انگلستان کے متعلق بعض اہم معلومات اور تاریخی حقائق
1984ء سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ اور 2003ء سےحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ کے قیام کی وجہ سے انگلستان کو جماعتی تاریخ میں نمایاں مقام حاصل ہو گیا ہے

انگلستان کے مغرب میں ویلز اور شمال میں سکاٹ لینڈ واقع ہے۔ 1974ء میں لوکل گورنمنٹ کی ریفارمز کے مطابق انگلستان کو 39 چھوٹی اور 6بڑی کاؤنٹیز اور لنڈن شہر میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ پھر کاؤنٹیز کو مزید 330 اضلاع میںاور ان اضلاع کو 10ہزارعلاقوں میںتقسیم کیا گیا ہے۔ انگلستان میں لنکاشائیر (Lancashire) اور یارک شائیر کے صنعتی مرکزوں اور بحری درآمد اور برآمد کے علاوہ دارالحکومت لنڈن، مانچسٹر، لیورپول، لیڈز، شیفیلڈ، برمنگھم، برسٹل، بریڈفورڈ اور ہل (Hull) جیسے ممتاز شہروں کی مصنوعات شامل ہیں۔

انگلستان ایک محدود اختیارات کے تاجدار کے ماتحت ویلز، سکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ سے متحد ہے۔ اور یہ متحدہ ملک “دولت متحدہ برطانیہ عظمیٰ وشمالی آئرلینڈ” کہلاتا ہے۔ یہ اتحاد 1707ء میں عمل میں آیا وضع قوانین اور حقیقی بالادستی کے اختیارات پارلیمنٹ کو حاصل ہیں۔ انتظامی اختیارات اگرچہ نام کے تاجدار کے پاس ہیں مگر حقیقی اختیارات ایک کابینہ کو حاصل ہیں جو پارلیمنٹ کو جواب دہ ہے۔ کلیسائے انگلستان حکومت کا تسلیم کردہ کلیسا ہے۔

اینگلوسیکسن (Anglo Saxons)

برطانیہ میں رومی تسلط کے اختتام پر جرمانی زبان بولنے والے قبیلے آکر آباد ہو گئے۔ اینگل پانچویں صدی کے آخر پر شلس وگ (جرمنی) سے آئے اور مشرقی اینگلیا، مرسیا اور نارتھمبریا کی سلطنتوں کے لئے بنیاد یں استوار کیں۔ سیکسن بھی اسی زمانے میں برطانیہ میںآباد ہوئے۔ ان کی آبادیاں بڑھتے بڑھتے سسکس (Sussex) ویسکس (Wessex) اور ایسکس (Essex) کی سلطنتیں بن گئیں۔ انگلستان کے غیر برطانوی آبادکاروں کے لئے اصطلاح ’’اینگلوسیکسن‘‘ کا استعمال 16ویں صدی میں شروع ہوا۔ اب یہ اصطلاح زیادہ وسیع معنوں میں جزائر برطانیہ کی تمام قوموں یا ان کی نسلوں کے لئے جن میں اہل ڈنمارک اور نارمن بھی شامل ہیں استعمال ہوتی ہے۔

رقبہ وآبادی

انگلستان کا کل رقبہ ایک لاکھ 30ہزار 423 مربع کلومیٹر پرپھیلا ہوا ہے۔

آبادی

1995ء کے اعدادو شمار کے مطابق انگلستان کی آبادی 4کروڑ 89لاکھ 3ہزار ہے۔اس طرح ایک مربع کلومیٹر کے علاقے میں 374 افراد پائے جاتے ہیں۔ اس طرح یہ دنیا کے چند زیادہ آبادی والے علاقوں میںشمار ہوتا ہے۔ 80 فیصد سے زیادہ آبادی شہری علاقوں میںمقیم ہے۔

جنگلات

ماضی میں انگلستان میں بہت زیادہ جنگلات پائے جاتے تھے۔زراعت، صنعت اور رہائش کی وجہ سے جنگلات ختم کر دئیے گئے اور اب انگلستان میںجنگلات صرف 7فیصد تک رہ گئے ہیں۔ اس طرح یورپ میں 25 فیصدجنگلات کی اوسط یہاںبہت کم رہ گئی ہے۔ انگلستان بہت سے شہری علاقوں پر مشتمل ملک ہے۔ یہاں کا موسم معتدل ہے۔

اونچی چوٹی

انگلستان کی سب سے اونچی چوٹی کمبرا میںواقع ہے جس کانام سکیفل پائک (Scafell Pike) ہے۔ یہ سطح سمندر سے 3ہزار 210فٹ بلند ہے۔ اس پہاڑی چوٹی کامنظر برطانیہ کے بعض خوبصورت وحسین مناظر میںشمار ہوتا ہے۔

انگریزی زبان

انگلستان میں بولی جانے والی زبان انگریزی دنیا کی بڑی زبانوں میںشمار ہوتی ہے۔ یہ زبان برطانیہ کے علاوہ امریکہ ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کے بیشتر علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ دنیا کی واحد زبان ہے جو دور دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ثانوی زبان کی حیثیت سے بھی اس کا استعمال بہت کثرت سے ہو رہا ہے موجودہ انگریزی برطانیہ پر پانچویں صدی کے حملہ آوروں کی زبان ہی کے سلسلے کی ایک ترقی یافتہ صورت ہے۔جدید انگریزی کی نشوونما لنڈن کی ایک مقامی بولی سے ہوئی۔ اس زبان کی ترقی فرانسیسی دور اقتدار میںبھی نہ رکی۔انگریزی کا ذخیرہ الفاظ قدیم ترین انگریزی زبان کے الفاظ کے علاوہ ان الفاط پربھی مشتمل ہے جو لاطینی مسیحیت اور سکینڈے نیوین آبادکاروں کی زبان اور نارمن عہد کی فرانسیسی اور کلاسیکی زبانوں سے ماخوذ ہیں۔

نظام تعلیم

انگلستان کانظام تعلیم بہت جدید اور اعلیٰ پیمانے کا ہے انگلستان اور ویلز میں 5 سے 16 سال تک کے بچوں کے لئے تعلیم لازمی ہے ۔ 90 فیصد سے زائد سکول عوامی فنڈز کی بناء پر چل رہے ہیں۔ 1990ء کے اعدادو شمار کے مطابق 18ہزار 840 پرائمری سکولز، ایک ہزار 650مڈل سکولز اور 3 ہزار 190سیکنڈری سکولز موجود ہیں ۔ جن میں 80لاکھ سے زائد طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ پرائمری سکول سے سیکنڈری سکول میں جانے کی عمر 11سال ، مڈل میں 10 سے 14 سال اور سینئر سکول میں جانے کی عمر 14 سے 18 سال تک ہے۔ جسمانی اور ذہنی امراض میںمبتلا بچوں کے لئے خصوصی تعلیم دی جاتی ہے۔ انگلستان میں ڈیڑھ ہزار سے زائد سپیشل سکول قائم ہیں۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے 137 ادارے قائم ہیں جن میں 70 یونیورسٹیاں ہیں۔ آکسفورڈ اور کیمبرج کی یونیورسٹیاں سب سے پرانی اور نامور ہیں۔

انگلستان کے معروف شہر

لنڈن

لنڈن انگلستان کا دارالحکومت اور برطانیہ کا بڑا شہر ہے۔ یہ عظیم تاریخی شہر ٹیمز کے دونوں کناروں پرآباد ہے۔ یہاں کے انتظامی ضلع میں 28 شہری حلقے شامل ہیں۔ جس کا الگ مئیر ہے۔ جو لنڈن کونسل کے آگے جوابدہ ہے۔لنڈن میں موجودہ طرز کی بلدیاتی حکومت کا آغاز 12ویں صدی میں ہوا۔ لنڈن کا قلعہ (ٹاور) ولیم اول نے تعمیر کرایا تھا۔ 1665ء میں ہونے والی طاعون میں 75 ہزار سے زائد اموات ہوئیں۔ اور 1666ء کو عظیم آتشزدگی میں شہر کا بیشتر حصہ تباہ ہو گیا۔ پھر کرسٹوفررن نے دوبارہ تعمیر کیا ۔ 1995ء کے اعدادو شمار کے مطابق اس کی آبادی 70لاکھ 7 ہزار 1سوہے۔

حضرت مصلح موعودؓ کے دور مبارک میں تعمیر ہونے والی مسجدفضل بھی اسی شہر میں ہے ۔جہاں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ پاکستان سے ہجرت کرکے1984ء میں تشریف لائے۔

آپؒ کے وصال کے بعد حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ 2003ء سےمسندِ خلافت پر متمکن ہونے کے بعد کچھ سال مسجدفضل کے قصرِخلافت میں قیام فرما رہے اور اب اسلام آباد ٹلفورڈ میں مقیم ہیں۔ اس طرح لنڈن شہر کو جماعت احمدیہ کی تاریخ میں اہم اور غیر معمولی مقام حاصل ہو گیا ہے۔ کیونکہ خلفاءِ احمدیت کے قدموں نے اس شہر کی مٹی کو عزت بخشی ہے۔

یورپ کی سب سے بڑی مسجد بیت الفتوح بھی لندن میں موجود ہے۔

برمنگھم

یہ انگلستان کا دوسرا بڑا شہر اور عظیم صنعتی مرکز ہے۔ اس شہر کے نزدیک ہی لوہا اور کوئلہ پایا جاتا ہے اور یہ معدنی صنعت کے لئے مشہور ہے۔ پیتل اور کانسی کے بیشتر برطانوی سکے یہیں ڈھلتے ہیں۔برمنگھم یونیورسٹی کا قیام 1900ء میں ہوا۔ 1995ء کے اعدادو شمار کے مطابق برمنگھم کی آبادی 10لاکھ 17ہزار ہے۔

مانچسٹر

انگلستان کا یہ معروف شہر دریائے ارول (Irwell) کے کنارے واقع ہے۔ انگلستان کا چوتھا بڑا شہر ہے۔ یہ لندن کے شمال مغرب میں 158 میل اور لورپول کے مشرق میں 31میل کے فاصلے پرواقع ہے۔ یہاں انجینئرنگ اور کیمیائی اشیاء بنانے کی صنعتیں ہیں۔ ربڑ ،کاغذ اور آٹا پیسنے کے کارخانے ہیں۔ یہ ایک عمدہ بندرگاہ بھی ہے یہ انگلستان کا مالیاتی، بنکاری اور بیمہ کا مرکز ہے۔ یہاںپر ٹاؤن ہال، رے لینڈ، لائبریری، فری ٹریڈ ہال، رائل ایکسچینج کی عمارات دیدنی ہیں۔شہر میںمتعدد یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے موجود ہیں۔ 1830ء میں لیورپول اور مانچسٹر ریلوے کا افتتاح ہوا۔ 1838ء میںاسے شہر کا درجہ دے دیا گیا۔ 1889ء میںکاؤنٹی کا صدر مقام قرار پایا۔ جولائی 1981ء میں یہاں نسلی فسادات ہوئے جن میں متعدد افراد ہلاک ہو گئے۔ اس شہر کی آبادی 4لاکھ 32 ہزار 600 سے تجاوز کر تی ہے۔ یہ شہر کاٹن اور فائبر ٹیکسٹائل انڈسٹریز کے حوالے سے دنیابھر میں امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔

پاک وہند کے لوگوں کی ایک کثیر آبادی اس شہر میں آباد ہے۔ جماعت احمدیہ کا بھی مشن ہاؤس موجود ہے۔

لیورپول (liverpool)

یہ شہر انگلستان کی معروف بندرگاہ جومغربی برطانیہ کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے دنیا کے بڑے تجارتی مراکز میںسے ایک ہے یورپ میںکپاس کی اہم منڈی لیورپول ہی ہے۔ یہ شہر بذریعہ سرنگ برکن ہڈ سے مربوط ہے۔ لیورپول یونیورسٹی 1903ء میں بنائی گئی ۔ یہاں کی عظیم بندرگاہ کا انتظام ایک بورڈ کے سپرد ہے جو اسی مقصد کے لئے 1858ء میں قائم کیا گیا۔ سینٹ جارج ہال، ٹاؤن ہال، دی واکرآرٹ گیلری اور لیورپول یونیورسٹی کی عمارات دیدہ زیب ہیں۔ اس شہر کی آبادی 4لاکھ 70 ہزار 800 سے زائد ہے۔

برسٹل (Bristol)

انگلستان کا کاؤنٹی کہلاتا ہے۔ دریائے ایون پر سیورن کے پاس واقع ہے۔ انگلستان کی ایک بڑی اور عالمی بندرگاہ ہے۔ یہاں سے شمالی امریکہ اور آئرلینڈ کے ساتھ وسیع پیمانے پرتجارت ہوتی ہے۔ یہاں ہر قسم کی بڑی چھوٹی صنعتیں موجود ہیں۔ 1910ء سے طیارہ سازی کی صنعت کا آغاز ہوا۔ یہاں کی آبادی 5 لاکھ سے زائد ہے۔

کیمبرج یونیورسٹی

یہ انگلستان کے شہر کیمبرج میں واقع ہے۔ ا س کا بھی قدیم یونیورسٹیوں میں شمار ہوتا ہے۔ا س کی ابتداء 12ویں صدی میں ہوئی۔ 13ویں صدی کے آخر تک اس کی اقامت گاہیں یا کالج قائم ہو چکے تھے۔ اس یونیورسٹی کے 19سے زائد شعبہ جات ہیں۔ جیمزایڈوک نے یہاں کی مشہور کیونڈش تجربہ گاہ میں نیوٹران دریافت کیاتھا۔ اس کا کتب خانہ، عجائب گھر اور نباتاتی باغات قابل ذکر ہیں۔ کیمبرج یونیورسٹی پریس 16ویں صدی سے قائم ہے۔ اس یونیورسٹی کی ڈگری کے آگے عام طور پر کینٹب کا لفظ لکھا جاتا ہے جو کیمبرج کے لاطینی نام کینٹا بریجیا کا مخفف ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی

یہ انگلستان کے شہر آکسفورڈ میں واقع ہے۔ یہ قدیم ترین یونیورسٹیوں میںشمار ہوتی ہے۔ اس کا آغاز بارہویں صدی عیسوی میں ہوا۔ اقامتی کالجوں کے نظام کا آغاز 1264ء میں مرٹن کالج سے ہوا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے کالجوں کی تعداد 27 ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ آپ 1934ء سے 1938ء تک انگلستان میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے مقیم رہے۔ آپ جب آکسفورڈ میں پڑھتے تھے تو ان دنوں حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد، حضرت صاحبزادہ مرزا ظفر احمد اور حضرت صاحبزادہ مرزا سعید احمد اور دیگر صاحبزادگان بھی انگلستان میں زیر تعلیم تھے۔

برٹش میوزیم

لنڈن میں ادب، سائنس اور آرٹ کے نوادرات کا قومی عجائب گھر برٹش میوزیم 1759ء میں قائم کیا گیا۔ اس میں سررابرٹ بروس کاٹن اور سرہینس سلون کے کتب خانے موجود ہیں۔ ان کے علاوہ جارج دوم اور جارج سوم کے شاہی کتب خانے بھی ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران اس کے زیادہ تر نوادرات ویلز کی ایک کوئلے کی کان میں ذخیرہ کر دئیے گئے تھے۔ برٹش میوزیم لائبریری میں برطانیہ میںشائع ہونے والی ہر کتاب کے نسخے رکھے جاتے ہیں۔ اس وقت اس میں کئی لاکھ کتابیں موجود ہیں۔

برٹش کونسل

برطانیہ کانیم سرکاری ادارہ ہے۔ جس کا افتتاح 1935ء میں ہوا۔ اس کے قیام کا مقصد برطانیہ اور دوسرے ممالک کے درمیان سیاسی، تجارتی اور ثقافتی تعلقات کو فروغ دینا ہے۔ پاکستان میں بھی اس کے دفاتر موجود ہیں۔

لنڈن گزٹ

یہ برطانیہ کا سہ روزہ سرکاری گزٹ ہے جس کی پہلی اشاعت 1666ء میں عمل میں آئی۔ اس میں تقرریوں، اعزازات اشتہارات اور عدالتی کارروائیوں کی خبریں شائع کی جاتی ہیں۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ