سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
حضرت مرزا عبدالحق خدا کے فضل سے 106 سال کی عمر دراز گزار کر انتقال کر گئے۔آپ کو خوب جماعتی خدمات کا موقع ملا۔ متعدد کلیدی عہدوں پرفائز رہے۔ خاکسار کو یہ شرف حاصل ہے کہ سرگودھا میں ہماری رہائش بھی اس حلقہ میں تھی جہاں آپ رہائش پذیر تھے اور بچپن سے ہم اس شفیق وجود کی عنایات کے مَورد بنے رہے۔ پھر جب خاکسار سنِ شعور کو پہنچاتو مرزاصاحب سے ایک گہرا ذاتی تعلق قائم ہوا۔ ایک عرصہ تک آپ کی قربت نصیب رہی۔آج موصوف کی یاد میں قلم اُٹھایا ہے تو آپ کے بہت سے واقعات ذہن میں آرہے ہیں۔ چند واقعات کو سپردِ قرطاس کررہا ہوں جن سے آپ کی اعلیٰ شخصیت اور تقویٰ کا ثبوت ملتا ہے۔
آپ پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے ۔ میری نظر میں آپ کی تمام تر کامیابی آپ کی سچائی اور دیانتداری کی وجہ سے تھی۔ آپ نے کبھی جھوٹ کا ساتھ نہ دیا۔ اس ضمن میں آپ کا ایک واقعہ قارئین کی نذر کرتا ہوں۔
آپ نے بتایا کہ ایک دفعہ مجھے ایک صاحب نے ایک کیس دیا۔ جب میں نے مطالعہ کیا تو مجھے اس میں صداقت نظر نہ آئی۔ چنانچہ اگلی پیشی کے دوران میں نے اسے کہا کہ تم اس کے لئے گواہ کہاں سے لاؤ گے۔ اس نے مجھے بتایا کہ یہ مولوی صاحب گواہی کے لئے آئے ہیں۔ میں نے ان صاحب سے کہا کہ اس جھوٹے کیس کے لئے کیسے گواہی پر آمادہ ہو گئے تو انہوں نے مجھے جواب میں کہا کہ رقم کی خاطر میں گواہی دے رہا ہوں۔ یہ معلوم ہونے پر اس شخص سے لی ہوئی رقم اسے واپس کرتے ہوئے میں نے اس کا کیس لینے سے انکار کردیا۔
ایک مرتبہ آپ نے بتایا کہ میں نے فیصلہ کیا کہ وکالت کے پیشے کو چار گھنٹے سے زیادہ وقت نہ دیا جائے اور باقی وقت دینی علوم کے لئے استعمال کیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فضل فرمایا کہ اس کے باوجود میں ہمیشہ کامیاب وکلاء میں شمار کیا جاتا تھا۔ مجھے وکلاء کہا کرتے تھے کہ مرزاصاحب مصلّے کے نیچے سے رقم نکال لاتے ہیں۔
حضرت مرزا صاحب دلوں پر راج کرتے تھے۔ میرے والد مکرم برکت اللہ منگلا ایڈووکیٹ کو بھی آپ سے بہت محبت تھی۔ میری ٹرانسفر جب سرگودھا سے فیصل آباد ہوئی تو میں نے اپنی رہائش کا بندوبست ربوہ میں کیا ۔روزانہ ربوہ سے فیصل آباد آتا جاتا تھا۔ میں نے اپنے والد صاحب سے عرض کی کہ آپ بھی ہمارے پاس ربوہ مستقل رہائش اختیار کرلیں۔ آپ کہنے لگے کہ جب تک حضرت مرزا عبدالحق اس محلہ میں موجود ہیں، مَیں کسی دوسرے شہر میں رہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ ان کی عمر میں برکت ڈالے، اگر یہ اللہ کے پاس چلے گئے تو پھر جہاں کہو گے وہاں رہائش اختیار کرلوں گا۔ وائے حسرت ! آپ کو کیا معلوم تھا کہ آپ کا بلاوا حضرت مرزا عبد الحق سے پہلے آ جانا ہے۔ آپ کو نامعلوم افراد نے گھر میں داخل ہو کر راہ مولیٰ میں قربان کر دیا تھا۔
ایک دفعہ خاکسار نے آپ سے کہا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میری اور میرے بچوں کی عمربھی الله تعالیٰ آپ کو دے دے۔ آپ نے مجھے گلے لگایا اور فرمایا الله تعالیٰ آپ کو آپ کی عمریں مبارک کرے۔ خاکسار کی بیٹی ماریہ محمود 1998ء میں سرگودھا میں پیدا ہوئی۔ چونکہ ہم آپ کے بالکل قریب رہائش رکھتے تھے۔ مَیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں نے لندن میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒسے متبرک شہد لیا تھا اور میری خواہش ہے کہ میں بچی کو آپ کے پاس لاؤں اور آپ اسے وہ تبرک بھی کھلائیں اور اس کے کان میں اذان بھی دیں۔ آپ نے سن کر مبارکباد دی اور فرمانے لگے، نہیں میں آپ کے گھر خود آ تا ہوں۔ چنانچہ آپ گھر تشریف لائے اور تقریباً آدھا گھنٹہ وہاں گزارا اوربچی کو تبرک بھی کھلایا اور اذان بھی دی۔
اپنے کالج کے زمانہ کا واقعہ یوں بیان کیا۔ جب میں طالب علم تھا اور میری داڑھی کے بال نکل رہے تھے اور مَیں شیو نہیں کرتا تھا کیونکہ میں شروع سے ہی داڑھی رکھنے کا شوق رکھتا تھا۔ بعض طالب علم کالج کے بورڈ پر میرے کارٹون بنادیتے اورمذاق بھی کرتے لیکن مَیں ان کی پرواہ نہ کرتا۔
آپ کی دِل موہ لینے والی شخصیت کا گہرا اثر اَپنوں کے علاوہ بیگانوں پر بھی ہوتا تھا۔ اس کا آئینہ داریہ واقعہ ہے جو آپ کے بڑے بیٹے مکرم مرزا ناصر احمد نے مجھے سنایا۔ 1947ء میں تقسیم ہند ہوئی ۔ حضرت مرزاعبدالحق اس وقت گورداسپور شہر میں تھے اور وہیں وکالت کی پریکٹس کرتے تھے۔ فسادات انڈیا کے مختلف حصوں میں شروع ہو چکے تھے۔ آپ کی خدمت میں ہندوؤں اور سِکھوں کے لیڈر حاضر ہوئے اور عرض کی کہ جب تک آپ گورداسپور میں ہیں کسی مسلمان کو نقصان نہیں ہوگا ۔ لہٰذا جب تک آپ گورداسپور میں قیام پذیر تھے کسی مسلمان کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ حالانکہ آپ مسلم لیگ کے ضلعی سیکرٹری بھی تھے۔
آپ کا ایک اور ایمان افروز واقعہ یوں ہے۔ آپ نے بتایا جب میں شملہ میں زیرتعلیم تھا اور میری جوانی کی عمرتھی جس جگہ میری رہائش تھی اس کے سامنے ایک گھر تھا اور وہاں ایک لڑکی رہتی تھی۔ وہ اکثر مجھے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتی تھی لیکن میں اسے کوئی توجہ نہیں دیتا تھا۔ ایک دفعہ جب میں اکیلا گھر میں تھا تو وہ لڑکی کسی طرح میرےگھر میں داخل ہوگئی اور مجھے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی تو میں نے سختی سے اُسے گھر سے نکال دیا۔
جب بھی مجھے کوئی مشکل درپیش ہوتی تو میں اپنے خدا کو اپنا یہ عمل پیش کرتا کہ میں محض تیری رضا کے لئے اس بدی سے بچااب تو ہی میری یہ مشکل آسان فرما دے اور میرا تمام طاقتوں کا مالک خدا میری مشکلیں آسان فرما دیتا۔
آپ کو مطالعہ کا بے حد شوق تھا۔ آپ نے ایک دفعہ بتایا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام کتب کوکئی کئی مرتبہ پڑھاہے۔ جب بڑھاپے میں کمزوری کی حالت میں لیٹے ہوئے ہوتے تھے تو کئی دفعہ خاکسار کو الفضل پڑھ کر سنانے کے لئے کہتے تھے۔
1974ء میں جب احمدی احباب کے گھروں کو جلایا گیا تو آپ کے گھر کو بھی نذر آتش کیا گیا۔ آپ کا کافی نقصان ہوا۔ اس وقت آپ قرآن مجید کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے تھے جب کہ آگ لگی ہوئی تھی اور گھر کا تمام قیمتی سامان جلایا جارہا تھامگر آپ کی جان آپ کی لائبریری تھی جس میں بہت نایاب کتب بھی تھیں ۔آپ کو اگر کسی چیز کی بہت فکرتھی تو وہ آپ کی کتب تھیں۔ آپ کی زندگی کتب کے بغیر ایسی تھی جیسی مچھلی پانی کے بغیر۔
گھر جلائے جانے کے چند روز بعد اس وقت کے پنجاب اور دیگر اعلی افسران آپ کے گھر آئے اور آپ سے نقصان کا افسوس کیا تو آپ فرمانے لگے کیا افسوس ۔ایک مومن کو الله تعالیٰ ایک سجدہ میں جو لذّتیں عطا کر دیتا ہے۔ اس کے سامنے ان سب چیزوں کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے۔
ایک دفعہ آپ نے اپنی دُعا کی قبولیت کا دلچسپ واقعہ سنایا کہ میں نےگورداسپور سے ہفتہ کو قادیان جانا تھا ۔ اتوار کا دن قادیان بسر کرتا اور پیر کے دن واپس آ جاتا تھا۔ اس روٹین میں کبھی کبھارناغہ بھی ہو جاتا تھا۔ اس زمانہ میں بٹالہ سے قادیان گاڑی نہیں چلتی تھی اور مَیں گورداسپور سے قادیان سائیکل پر آتا تھا ۔یہ تقریباً 12میل سفر بنتا تھا۔ تین سال تک میرایہ سفراسی طرح رہا۔ فرمانے لگے کہ قادیان کے سفر کے لئے کچھ عرصہ راستہ میں گھوڑا بھی رکھا۔ کچھ سفر سائیکل پر اور کچھ سفر گھوڑے پرطے کر لیتا۔ گھوڑا اس لئے رکھا کیونکہ سارا سفرسائیکل پر موزوں نہ تھا۔ بعض جگہ بورڈ لگے ہوتے تھے کہ آفتاب غروب ہونے کے بعد سفر نہ کریں ۔ راستے میں ڈاکے وغیرہ پڑتے ہیں۔ ایک مرتبہ جب آ دهاسفرسائیکل پر طے کیا تو اچانک سائیکل پنکچر ہو گیا۔ مجھے پنکچر لگانا بھی نہیں آتا تھا۔ ابھی ایک گھنٹے کا سفر باقی تھا اور اگر پیدل چلتا تو مزید تین گھنٹے لگتے۔ میں نے سائیکل کھڑی کر کے دُعا کی اے خدا ! تو میری مدد فرما۔ جب دُعا ختم کی تو دیکھا کہ ایک سِکھ سائیکل پرآ رہا تھا اس کے معلوم کرنےپر میں نے بتایا کہ سائیکل پنکچر ہوگیا ہے اس نے سامان نکالا اور سائیکل کو پنکچر لگا دیا۔ میں نے اپنے خدا کا شکر ادا کیا اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگیا۔
ایک دفعہ جب آپ کو مکرم جنرل(ر) ڈاکٹرمحمدمسعودالحسن نوری جنرل چیک اپ کے لئے CMH راولپنڈی لے گئے(ان دنوں آپ کچھ علیل بھی تھے) تو وہاں ہسپتال میں آپ رات 2 بجے تہجد کے لئے بیدار ہوتے اور اپنے ربّ کے حضور دُعاؤں کا سلسلہ جاری رہتا۔ تمام سٹاف جو وہاں رات کی ڈیوٹی پر موجود ہوتا تھا آپ کوبڑی محبت کی نظر سے دیکھتا اور بہت متاثر ہوتا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ پاکیزہ نمونہ بذاتِ خود بہت بڑی دعوت الیٰ اللہ ہے۔
ایک دفعہ آپ نے بتایا کہ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ کسی نے مجھے دودھ کا ایک پیالہ دیا ہے۔ میں نے وہ دودھ کا پیالہ پیا تو وہ اتنا مزیدار تھا کہ اس کی لذّت میرے تمام جسم میں پھیل گئی۔ صبح جب میں بیدار ہوا تو وہ لذت میرے منہ اور جسم میں محفوظ تھی، میں نے اس دن صبح ناشتہ بھی نہ کیا کہ وہ لذّت دیر تک قائم رہے۔
خلفائے کرام کے ساتھ آپ کا قریبی تعلق تھا ۔آپ نے ایک دفعہ بتایا کہ جب میں نیا نیا سرگودھا آ یا۔ ایک دن بغیر اطلاع کے حضرت مصلح موعودؓمجھے ملنے تشریف لے آئے اور فرمایا کہ میں صرف آپ کی رہائش دیکھنے آیا ہوں کہ آپ یہاں سہولت سے ہیں یا نہیں؟
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کو بھی آپ سے بے انتہا محبت تھی۔ چند واقعات درج ہیں۔
ایک دفعہ مسجد فضل لندن میں آپ نماز کی انتظار میں بیٹھے تھے جب حضورؒ تشریف لائے تو پیار سے آپ کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر فرمانے لگے، مرزا صاحب !آپ بیٹھے ہیں۔
ایک دفعہ حضورؒ آپ سے فرمانے لگے جب آپ لندن ہوتے ہیں تو مجھے بہت زیادہ خوشی رہتی ہے اور جب آپ چلے جاتے ہیں تو مَیں اس جگہ کو بھی پیار سے دیکھتا ہوں جس جگہ آپ آ کر بیٹھے ہیں۔ ایک دفعہ جب آپ لندن میں تھے تو فجر کی نماز پر آپ نہ آ سکے۔ نماز کے بعد حضور فرمانے لگے کیا وجہ ہے کہ مرزا عبدالحق صاحب نہیں آئے۔ ظہر کی نماز پر جب آپ تشریف لائے تو کسی نے آپ کو یہ بات بتادی، آپ بےچین ہوئے اور تین دفعہ ان سے کہا کہ حضور کو میری طرف سے عرض کرنا کہ میں دور رہتا ہوں اور آج فجر کی نماز کے وقت میری سواری کا بندوبست نہیں ہوسکا تھا۔
آپ کی حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ اپنائیت کا واقعہ یوں ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ دریا کی سیر کے لئے نکلے اور کشتی میں سوار ہو گئے، کچھ لوگ بھی ساتھ تھے اور صرف ایک آدمی کی جگہ تھی۔ حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالثؒ اور خاکسار وہاں کنارے پر موجود تھے، حضورؓ نے فرمایا: ناصر احمد آپ آجائیں۔ مرزا صاحب کہتے ہیں کہ جب میں گورداسپور گیا تو حضور کو خط لکھا کہ آخر بیٹا بیٹا ہی ہوتا ہے۔ اگلی دفعہ جب مَیں قادیان گیا تو حضورؓ مجھے اپنے ساتھ شکار کے لئے لے گئے۔ اس طرح میری دلجوئی فرمائی۔
اسی طرح کا ایک واقعہ یوں سنایا کہ ایک مرتبہ مکرم کرنل مرزا داؤد احمد اور میں حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ اکٹھے کار میں سفر کررہے تھے۔ ایک جگہ سفر کے دوران ہرنوں کی ایک بڑی قطارنظر آئی۔ حضورؓ نے ہم دونوں کو فرمایا کہ ہرن کا شکار کر کےلاؤ اور آپ وہاں سڑک کے کنارے کھڑے ہو گئے ہم دونوں بندوقیں لے کر شکار کے لئے گئے۔ فائربھی کئے مگر ہرن بھاگ گئے۔ کچھ وقت گزر گیا جب ہم واپس آپ کے پاس آئے تو حضور نے مجھے مخاطب کر کے از راہ مزاح فرمایا: مرزا جی سلام۔ ہرن گھر جا کرضرور مر جائے گا۔ میں نے جواباً عرض کیا حضور سلام! واقعی ایک نہ ایک دن ضرور مر جائے گا۔
ایک دن قبولیت دُعا کا دلچسپ واقعہ سنایا کہ مَیں بس میں سوار جارہا تھا، مَیں نے دہی کی لسّی پی ہوئی تھی اور پیٹ میں گڑبَڑتھی اور حاجت محسوس ہوئی، بس کو ٹھہرانا بھی عجیب لگ رہا تھا اور دوسری طرف کام برداشت سے باہر تھا۔ مَیں نے دُعا کی کہ اے اللہ! کوئی صورت نکال دے مثلاً بس پنکچر ہو جائے اور مجھے وقت مل جائے ۔ چنانچہ اسی وقت بس کا ٹائر پھٹ گیا اور بس کھڑی ہوگئی۔ مجھے آسانی سے فارغ ہونے کا وقت میسر آ گیا۔ یوں تو یہ ایک معمولی سا واقعہ ہے لیکن میرے لئے بہت اہم تھا۔
آپ کی دین سے محبت اور دینی غیرت کا آئینہ دار یہ واقعہ بیان کے لائق ہے۔ آپ کے ایک بیٹے طا ہرا حمد جب فوت ہوئے تو یہ عاجز آپ کے پاس افسوس کے لئے حاضر ہوا۔ یہاں یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ صاحب 1974ء کے حالات کی وجہ سے جماعت سے لاتعلق ہو گئے تھے ۔آپ نے بڑے زور سے کہا کہ بیٹا! افسوس کس چیز کا۔ میرے لئے تو وہ اسی دن مر گیا تھا جس دن اس نے جماعت سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ پھر فرمانے لگے وہ ایک بزدل شخص تھا جو خود بھی ضائع ہو گیا اور اپنی اولاد کو بھی ضائع کر دیا۔
آخر میں فرمایا کہ اگراللہ تعالیٰ مجھے حکم دے کہ اپنے تمام بیٹوں کو قربان کر دو تو مَیں ایک لمحہ کے لئے بھی نہ سوچوں اور اپنے تمام بچوں کو قربان کر دوں۔
ایسے مبارک وُجود دُنیامیں کم کم پیدا ہوتے ہیں۔ آپ نے زندگی میں ہر ایک چیز پراپنے خدا کو مقدم رکھا اور اس سے اپنے اس مضبوط تعلق کو آخری سانس تک وفا کے ساتھ نبھایا۔
آپ خدا رسیدہ عابد وزاہد انسان تھے۔ آپ نے ایک دفعہ مجھے بتایا کہ میں عموماً تہجد کی دو رکعت نماز ڈیڑھ گھنٹے میں ادا کرتا ہوں۔ آپ ہمیشہ باقاعدگی سے تہجد ادا کیا کرتے تھے۔ خاکسارکو آپ سے بہت محبت تھی اور آپ سےبھی بے انتہا محبت خاکسار کوملی۔ ایک دفعہ مجھے بتایا کہ جب مَیں اپنے بچوں کا صدقہ دیتاہوں تو آپ کا صدقہ بھی شامل کر لیتا ہوں۔
ایک دفعہ بتایا کہ تہجد میں ایک سجدے میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان تمام دُعاؤں کا اس عاجز کو وارث بنائے۔ آپ ایک غریب پرور انسان تھے، اکثر و بیشتر آپ کے گھر مختلف علاقوں سے غرباء آتے، آپ حسبِ استطاعت ان کی مالی مدد کیا کرتے تھے۔
خاکسار کے بھائی ظفراللہ منگلا کی ایچی سن کالج لاہور سے آتے ہوئے 1991ء میں وفات ہوئی تو آپ ہمارے پاس افسوس کے لئے چک منگلا تشریف لائے اور بہت زیادہ وقت وہاں گزارا۔ آپ مجھے فرمانے لگے کہ بیٹا ! جب جوانوں کے کندھوں پرکسی بوڑھے کی لاش ہوتی ہے تو وہ موت نہیں ہوتی ہاں جب بوڑھوں کے کندھوں پر کسی جوان کی لاش ہوتی ہے تو دراصل وہ موت کہلاتی ہے۔
مالی قربانی کا جذبہ بھی آپ کے اندر بہت زیادہ تھا ۔مالی چندہ جات کی ہر تحریک میں آپ صف اول میں شامل تھے اور ہمیشہ چندہ سال کے شروع میں ہی ادا کر دیا کرتے تھے۔ ایک عجیب واقعہ آپ نے سنایا کہ مَیں نے ایک مالی خوشحالی رکھنے والےشخص سے کچھ چندہ دینے کے لئے کہا تو وہ صاحب آئیں بائیں شائیں کرنے لگے جس پر میں نے اسے کہا کہ اچھا پھر مرنے سے پہلے یہ وصیت کر جانا کہ میرا سارا مال میرے ساتھ قبر میں رکھ دیں ۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ چند دنوں کے بعد وفات پا گیا اور سب مال اسباب دُنیا میں ہی چھوڑ گیا۔
ہمارے ایک دوست نے خواب میں دیکھا کہ ایک تخت لگا ہوا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام موجود ہیں اور خلفائے احمدیت بھی وہاں ہیں اور مرزاعبدالحق بھی ہیں مَیں نے دَربان سے اجازت چاہی کہ میں بھی اندر جانا چاہتا ہوں۔ مجھے جواب ملا کہ یہ ایک بہت اہم میٹنگ ہے لہٰذا آپ اندر تشریف نہیں لے جاسکتے۔
اللہ تعالیٰ آپ کی روح پر بے شمار رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین
(محمود احمد منگلا)