• 5 مئی, 2024

’’درستی اخلاق کے بعد دوسری بات یہ ہے کہ دعا کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی پاک محبت حاصل کی جاوے‘‘۔ (حضرت مسیح موعودؑ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پھر ایک مجلس میں جو لاہور میں ہی تھی آپ نے فرمایا کہ ’’درستی اخلاق کے بعد دوسری بات یہ ہے کہ دعا کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی پاک محبت حاصل کی جاوے‘‘۔ (اپنے اخلاق درست کرو۔ اُس کے بعد دعا کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی پاک محبت حاصل کرنے کی کوشش کرو۔) ’’ہر ایک قسم کے گناہ اور بدی سے دور رہے اور ایسی حالت میسّر ہو کہ جس قدر اندرونی آلودگیاں ہیں اُن سب سے الگ ہو کر ایک مصفّٰی قطرہ کی طرح بن جاوے۔ جب تک یہ حالت میسّر نہ ہو گی تب تک خطرہ ہی خطرہ ہے۔ لیکن دعا کے ساتھ تدابیر کو نہ چھوڑے کیونکہ اللہ تعالیٰ تدبیر کو بھی پسند کرتا ہے اور اسی لئے فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا (النازعات: 6) کہہ کر قرآن شریف میں قسم بھی کھائی ہے۔ جب وہ اس مرحلہ کو طے کرنے کے لئے دعا بھی کرے گا اور تدبیر سے بھی اس طرح کام لے گا کہ جو مجلس اور صحبت اور تعلقات اُس کو حارج ہیں اُن سب کو ترک کر دے گا اور رسم، عادت اور بناوٹ سے الگ ہو کر دعا میں مصروف ہو گا تو ایک دن قبولیت کے آثار مشاہدہ کر لے گا۔ یہ لوگوں کی غلطی ہے کہ وہ کچھ عرصہ دعا کر کے پھر رہ جاتے ہیں اور شکایت کرتے ہیں کہ ہم نے اس قدر دعا کی مگر قبول نہ ہوئی۔ حالانکہ دعا کا حق تو اُن سے ادا ہی نہ ہوا تو قبول کیسے ہو؟۔ اگر ایک شخص کو بھوک لگی ہو یا سخت پیاس ہو اور وہ صرف ایک دانہ یا ایک قطرہ لے کر شکایت کرے کہ مجھے سیری حاصل نہیں ہوئی تو کیا اُس کی شکایت بجا ہو گی؟ ہرگز نہیں۔ جب تک وہ پوری مقدار کھانے اور پینے کی نہ لے گا تب تک کچھ فائدہ نہ ہو گا۔ یہی حال دعا کا ہے۔ اگر انسان لگ کر اُسے کرے اور پورے آداب سے بجا لاوے۔ وقت بھی میسّر آوے تو امید ہے کہ ایک دن اپنی مراد کوپا لیوے۔ لیکن راستہ میں ہی چھوڑ دینے سے صدہا انسان مر گئے(گمراہ ہو گئے) اور صدہا ابھی آئندہ مرنے کو تیار ہیں‘‘۔ (اگر رستے میں چھوڑ دیں گے تو گمراہ ہونے کو تیار رہیں )۔ فرمایا ’’اسی طرح وہ بد اعمالیاں جن میں لوگ سر سے پاؤں تک غرق ہیں اُن کے ہوتے ہوئے چند دن کی دعا کیا اثر دکھا سکتی ہے۔ پھر عُجب، خود بینی، تکبر اور ریاء وغیرہ ایسے امراض لگے ہوئے ہوتے ہیں جو عمل کو ضائع کر دیتے ہیں۔ نیک عمل کی مثال ایک پرند کی طرح ہے اگر صدق اور اخلاص کے قفس میں اُسے قید رکھو گے تو وہ رہے گا ورنہ پرواز کر جائے گا۔ اور یہ بجز خدا تعالیٰ کے فضل کے حاصل نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖ اَحَدًا (الکہف: 111)۔ عملِ صالح سے یہاں یہ مراد ہے کہ اس میں کسی قسم کی بدی کی آمیزش نہ ہو۔ صلاحیت ہی صلاحیت ہو۔ نہ عُجب ہو، نہ کبر ہو، نہ نخوت ہو، نہ تکبر ہو، نہ نفسانی اغراض کا حصہ ہو، نہ رُو بخلق ہو‘‘۔ (یعنی لوگوں کی طرف توجہ رہے کہ اُن سے اُمیدیں رکھیں) حتّٰی کے دوزخ اور بہشت کی خواہش بھی نہ ہو۔ صرف خدا تعالیٰ کی محبت سے وہ عمل صادر ہو۔ جب تک دوسری کسی قسم کی غرض کو دخل ہے تب تک ٹھوکر کھائے گا اور اس کا نام شرک ہے۔ کیونکہ وہ دوستی اور محبت کس کام کی جس کی بنیاد صرف ایک پیالہ چائے یا دوسری خالی محبوبات تک ہی ہے۔ ایسا انسان جس دن اُس میں فرق آتا دیکھے گا اُسی دن قطع تعلق کر دے گا۔ جو لوگ خدا تعالیٰ سے اس لئے تعلق باندھتے ہیں کہ ہمیں مال ملے یا اولاد حاصل ہو یا ہم فلاں فلاں امور میں کامیاب ہو جاویں اُن کے تعلقات عارضی ہوتے ہیں اور ایمان بھی خطرے میں ہے۔ جس دن ان کے اغراض کو کوئی صدمہ پہنچا‘‘۔ (یعنی اپنی ذاتی خواہشات کو کوئی نقصان پہنچا، نہ پوری ہوئیں) ’’اُسی دن ایمان میں فرق آ جائے گا۔ اس لئے پکا مومن وہ ہے جو کسی سہارے پر خدا تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتا‘‘۔ (خدا تعالیٰ کی عبادت اس لئے نہیں کرتا کہ یہ ہو گا تو تب میں عبادت کروں گا)۔

(ملفوظات جلدنمبر7 صفحہ 132-131۔ مطبوعہ لندن ایڈیشن 1984ء)

پھر 1904ء کے اگست میں لاہور کی ہی ایک مجلس ہے۔ یہاں آپ فرماتے ہیں کہ: ’’بہت ہیں کہ زبان سے تو خدا تعالیٰ کا اقرار کرتے ہیں لیکن اگر ٹٹول کر دیکھو تو معلوم ہو گا کہ اُن کے اندر دہریت ہے کیونکہ دنیا کے کاموں میں جب مصروف ہوتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے قہر اور اُس کی عظمت کو بالکل بھول جاتے ہیں۔ اس لئے یہ بات بہت ضروری ہے کہ تم لوگ دعا کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے معرفت طلب کرو۔ بغیر اُس کے یقین کامل ہرگز نہیں ہو سکتا۔ وہ اُس وقت حاصل ہو گا جبکہ یہ علم ہو کہ اللہ تعالیٰ سے قطع تعلق کرنے میں ایک موت ہے۔ گناہ سے بچنے کے لئے جہاں دعا کرو وہاں ساتھ ہی تدابیر کے سلسلہ کو ہاتھ سے نہ چھوڑو‘‘ (گناہ سے بچنے کے لئے دعا کرو، ساتھ تدبیر بھی کرو۔) ’’اور تمام محفلیں اور مجلسیں جن میں شامل ہونے سے گناہ کی تحریک ہوتی ہے، اُن کو ترک کرو‘‘۔ (یہ نوجوانوں کے لئے خاص طور پر بڑا ضروری ہے کہ تمام محفلیں، مجلسیں، دنیاوی لغویات جن سے گناہ کی تحریک ہوتی ہے، اُن کو ترک کریں)۔ ’’اور ساتھ ہی ساتھ دعا بھی کرتے رہو۔ اور خوب جان لو کہ ان آفات سے جو قضا و قدر کی طرف سے انسان کے ساتھ پیدا ہوتی ہیں، جبتک خدا تعالیٰ کی مدد ساتھ نہ ہو ہرگز رہائی نہیں ہوتی۔ نماز جو کہ پانچ وقت ادا کی جاتی ہے اس میں بھی یہی اشارہ ہے کہ اگر وہ نفسانی جذبات اور خیالات سے اُسے محفوظ نہ رکھے گا تب تک وہ سچی نماز ہرگز نہیں ہو گی۔ نماز کے معنے ٹکریں مار لینے اور رسم اور عادت کے طور پر ادا کرنے کے ہرگز نہیں۔ نماز وہ شئی ہے جس سے دل بھی محسوس کرے کہ روح پگھل کر خوفناک حالت میں آستانہ الوہیت پر گر پڑے۔ جہاں تک طاقت ہے وہاں تک رقت کے پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ اور تضرع سے دعا مانگے کہ شوخی اور گناہ جو اندر نفس میں ہیں وہ دور ہوں۔ اسی قسم کی نماز بابرکت ہوتی ہے۔ اور اگر وہ اس پر استقامت اختیار کرے گا تو دیکھے گا کہ رات کو یا دن کو ایک نور اس کے قلب پر گرا ہے اور نفسِ امّارہ کی شوخی کم ہو گئی ہے۔ جیسے اژدہا میں ایک سَمّ قاتل ہے، اسی طرح نفسِ امارہ بھی سَمّ قاتل ہوتا ہے۔ اور جس نے اُسے پیدا کیا اُسی کے پاس اُس کا علاج ہے۔‘‘ (یعنی خدا تعالیٰ نے بنایا ہے تو جتنے گناہ ہیں، جو نقصان دہ چیزیں ہیں، اِن کا علاج بھی اللہ تعالیٰ سے مانگو لیکن خالص ہو کر، خود کوشش کرتے ہوئے)۔

(ملفوظات جلدنمبر7 صفحہ123۔ مطبوعہ لندن ایڈیشن 1984ء)

پھر 1904ء میں ایک مجلس میں جہاں نئے بیعت کرنے والے شامل تھے آپ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ:
’’دعا کے لئے انسان کو اپنے خیال اور دل کو ٹٹولنا چاہئے کہ آیا اُس کا میلان دنیا کی طرف ہے یا دین کی طرف؟ یعنی کثرت سے وہ دعائیں دنیاوی آسائش کے لئے ہیں یا دین کی خدمت کے لئے؟۔‘‘ (یہ بڑی نوٹ کرنے والی چیز ہے۔ یہ دیکھو تمہارا میلان کس طرف ہے۔ دنیا کی طرف یا دین کی طرف؟ اور اس کا معیار کیا بنایا۔ فرمایا کہ یہ دیکھو تم جو دعائیں کرتے ہو اُن میں زیادہ تر دعائیں تمہاری دنیاوی آسائشوں کے لئے ہیں، دنیاوی ضروریات کے لئے ہیں یا دین کے لئے ہیں، یا دین کی خدمت کے لئے)۔ ’’پس اگر معلوم ہو کہ اُٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہوئے اُسے دنیاوی افکار ہی لاحق ہیں اور دین مقصودنہیں تو اُسے اپنی حالت پر رونا چاہئے‘‘۔ (اگر صرف دنیاوی فکریں ہی ہیں اور دین اس کا مقصدنہیں ہے تو فرمایا کہ اُسے اپنی حالت پر رونا چاہئے)۔ ’’بہت دفعہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ کمر باندھ کر حصولِ دنیا کے لئے مجاہدے اور ریاضتیں کرتے ہیں۔ دعائیں بھی مانگتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طرح طرح کے امراض لاحق ہو جاتے ہیں۔ بعض مجنون ہو جاتے ہیں۔ لیکن سب کچھ دین کے لئے ہو تو خدا تعالیٰ اُن کو کبھی ضائع نہ کرے۔ قول اور عمل کی مثال دانہ کی ہے۔ اگر کسی کو ایک دانہ دیا جاوے اور وہ اُسے لے جا کر رکھ چھوڑے اور استعمال نہ کرے تو آخر اُسے پڑے پڑے گُھن لگ جاوے گا۔ ایسے ہی اگر قول ہو اور اُس پر عمل نہ ہو تو آہستہ آہستہ وہ قول بھی نہ رہے گا۔ اس لئے اعمال کی طرف سبقت کرنی چاہئے‘‘۔ (یعنی اعمال کی طرف بڑھنے کی کوشش کرو۔ ایک دانے کو اُگاؤ گے تو اس میں سے پودا پھوٹ پڑے گا۔ رکھ دو گے تو گُھن لگ جائے گا)۔

(ملفوظات جلدنمبر7 صفحہ117۔ مطبوعہ لندن ایڈیشن 1984ء)

پھر جنوری 1908ء کی ایک مجلس میں گفتگو فرماتے ہوئے کہ حقیقی دعا کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ’’دعا دو قسم (کی) ہے۔ ایک تو معمولی طور سے، دوم وہ جب انسان اُسے انتہا تک پہنچا دیتا ہے۔ پس یہی دعا حقیقی معنوں میں دعا کہلاتی ہے۔ انسان کو چاہئے کہ کسی مشکل پڑنے کے بغیر بھی دعا کرتا رہے‘‘۔ (یہ ضروری نہیں ہے کہ جب مشکلات آئیں تبھی دعائیں کرنی ہیں بلکہ عام حالات میں بھی دعا کرتا رہے) ’’کیونکہ اسے کیا معلوم کہ خدا تعالیٰ کے کیا ارادے ہیں؟ اور کل کیا ہونے والا ہے؟ پس پہلے سے دعا کرو تا بچائے جاؤ۔ بعض وقت بلا اس طور پر آتی ہے کہ انسان دعا کی مہلت ہی نہیں پاتا۔ پس پہلے اگر دعا کر رکھی ہو تو اُس آڑے وقت میں کام آتی ہے‘‘۔ (یہ ہے دعا کی اہمیت)۔

(ملفوظات جلدنمبر10 صفحہ123-122۔ مطبوعہ لندن ایڈیشن 1984ء)

(خطبہ جمعہ 20؍ مئی 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 مئی 2021