• 25 اپریل, 2024

کانوں کی افادیت

رَبَّنا مَا خَلَقْتَ ھٰذَ ا بَا طِلاً کے تحت انسان کے تمام اعضاء انسان کے اپنے لئے اور مخلوق ِ خدا کے لئے مفید ہیں اور ان کے غلط اور غیر محل استعمال پر وہ پوچھے جائیں گے ۔ ان اعضاء میں سے ایک عضو ’’کان‘‘ ہے ۔ جو انسانی تخلیق میں سب سے پہلے پیدا ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے سورة المومنون آیت 79 میں فر مایا ہے :۔ ھُوَ ا لَّذِیْٓ اَنْشَاَ لَکُمُ السَّمْعُ وَ الْاَبْصَا رَ وَا لْاَ فْئِدَ ةَ۔ ترجمہ؛ کہ وہی اللہ ہے جس نے تمہارے لئے کان اور آ نکھیں اور دل پیدا کئے ۔۔ اور بچے کی پیدائش کے معاً بعد کان میں اذان اور اقامت کہنے کا حکم ہے اور گڑتی کے لئے زبان کا استعمال بعد میں آتا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔
’’ارتقائی منازل میں سب سے پہلے قوت شنوائی عطا ہوئی تھی اور اس کے بعد بصارت اور پھر وہ دل انسان کو عطا کئے گئے جو گہری بصیرت رکھتے ہیں‘‘۔

( تعارف سورة المومنون 578)

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اور احادیث میں بھی بعض جگہوں پر قوت سماعت و شنوائی کو قوت بینائی پر فوقیت دی ہے ۔ احادیث میں حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے جہاں اللہ تعالیٰ کی 99 صفات کا ذکر فر مایا ہے وہاں بھی صفت السمیع، صفت البصیر سے پہلے بیان ہوئی ہے۔

( تر مذی کتاب الدعوات باب جامع الد عوات)

پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں بُتوں کا ذکر فر مایا وہاں بھی ان کے بارے میں لکھا کہ: لَا یَسْمَعُ وَلَا یُبْصِرُ (مریم :43) کہ وہ بُت سنتا ہے اور نہ دیکھتا ہے۔

اسی طرح سورة مریم میں ہی جہاں یوم حساب سے انکار کرنے والوں کا ذکر ہے وہاں اَ سْمِعُ بِھِمْ وَ اَبْصِرْ کے الفاظ درج ہیں کہ اس دن ان کی قوت شنوائی بہت تیز ہوگی اور نظر یں بھی بہت تیز ہونگی۔ (مریم :39)

اللہ تعالیٰ مومنوں کی اطاعت کے سلسلہ میں سَمِعْنَا وَ اطعْنَا فرماتا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ کا حکم سُن لیا ہے اور ہم اس کے دل سے فر مانبردار ہیں۔

اللہ تعالی نے جب حضرت موسی اور حضرت ہارون علیہم السلام کو فرعون کی طرف بھیجا تو ان دونوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’تم ڈرو نہیں۔ یقینًا میں تم دونوں کے ساتھ ہوں۔ اَسْمَعُ وَ اَرٰی کہ میں سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں۔ (سورۃ طٰہٰ:47)

کانوں کی دوسرے اعضاء بالخصوص آ نکھوں اور زبان پر فوقیت کا ذکر ہو رہا ہے۔ احادیث کا مطالعہ کریں تو آ نحضور ﷺ کا ایک وعظ ملتا ہے جو آپ نے فجر کی نماز کے بعد صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا۔ جسے صحابہ نے سن کر فرمایا کہ یا رسول اللہ! یہ تو الوداعی وعظ لگتا ہے۔ جس کا آ غاز ان الفاظ سے تھا کہ اُوْ صِیْکُمْ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَالسَّمْعَۃِ وَالْاِ طَاعَۃِ (تر مذی کتاب العلم) کہ آ نحضورﷺ نے نصیحت کرتے ہوئے فر مایا کہ میں تم کو اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے بات سننے اور اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔

اسی طرح آ نحضور ﷺ نے صحابہ سے مخاطب ہو کر فر مایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کو پانچ باتوں کا حکم دیا تھا۔ میں بھی تم کو پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں ۔جن کا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے۔

جماعت کے ساتھ رہو۔
امام وقت کی باتیں سنو۔
اس کی اطاعت کرو۔
دین کی خاطر وطن چھوڑنا پڑے تو وطن چھوڑ دو۔
اور اللہ کے رستہ میں جہاد کرو۔

(حدیقہ الصالحین از ملک سیف الرحمن ص226)

آ نحضور ﷺ نے ظاہری و باطنی بیماریوں سے بچنے کے لئے جو دعا سکھلائی ہے اس کے بھی الفاظ ہیں۔ اَ عُوْذُ بِکَ مِنْ الصَّمَم وَالْبُکْم کہ میں بہرے اور گونگے پن سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔

(مستدرک حاکم کتاب الدعا ء جلد 1 ص 531)

الغرض اطاعت کا کانوں کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔ وعظ و نصیحت اور خطبات و دروس وغیرہ کانوں سے سُنے جاتے ہیں۔ اور پھر ان نیک باتوں کو عملی شکل پہنائی جاتی ہے۔ مندرجہ بالا حدیث میں بہت وضاحت کے ساتھ امام وقت کی باتیں سُن کر عملی جامہ پہنانے کی تلقین ہے۔ خلیفہ وقت کے خطبات، خطابات باقاعدگی اور پوری مستعدی سے سُن کر اُن تمام باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ آج کل حضور پر نور ایدہ اللہ تعالیٰ مختلف ممالک کے احمدی عہدیداران اور احباب جماعت سے ورچوئل ملاقاتیں فرما رہے ہیں جو ایم ٹی اے پر نشر ہوتی ہیں ان کو باقاعدگی سے سنیں۔ ان میں بہت ہی چھوٹی چھوٹی باتیں قابل تقلید ملتی ہیں جیسے حال ہی میں آ سٹریلیا جماعت کے عہدیداران سے ورچوئل ملاقات میں مکرم صدر صاحب مجلس انصاراللہ نے عائلی اور رشتہ ناطہ کی مشکلات کا ذکر فر مایا جس کے جواب میں حضور نے فر مایا کہ:۔
میرے خطبات ، تقاریر خاص طور پر لجنہ کی تقاریر غور سے سنیں، خدام سے بھی بیان کرتا ہوں ، انصار کو بھی خطبات میں ذکر کرتا رہتا ہوں۔ دراصل صبر و حوصلہ کم ہو گیا ہے ۔ لڑکے کی بھی غلطیاں ہوتی ہیں اور لڑکی کی بھی ۔ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کرتے ہیں مگر آنحضرت ﷺ کی اس بات کو یاد نہیں رکھتے کہ جب رشتے کرو تو دین کو دنیا پر ترجیح دیا کرو ۔ مادیت کا اثر ہمارے معاشرے میں بھی ہو رہا ہے۔ اس لئے جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں کو تر بیت کی طرف توجہ دینی چاہیئے۔ (خلاصہ)

بہت سے اخلاقیات کا تعلق بھی کانوں سے ہے ۔ ارد گرد کے ماحول سے نیکی کی باتیں جو سننے کو ملتی ہیں تو ان پر فوراً عمل کرنے کی فکر ہو تو اخلاقیات بہتر ہوتے ہیں۔ پس لازم ہے کہ ہم سمعنا و اطعنا پر عمل کریں اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کریں ۔

جہاں اچھی اور نیک باتیں کانوں میں پڑتی ہیں وہاں بُری اور اخلاقیات کو تباہ کرنے والی باتیں بھی کانوں میں پڑتی ہیں ۔ جس طرح آنکھوں کا زنا ہے اسی طرح کانوں کی شہوت اور خیانت ہے ۔ گانے اور بے ہودہ کلمات سننے سے بھی اخلاقیات تباہ ہوتے ہیں ۔ آج کل سوشل میڈیا پر جو واہیات اور خراب الاخلاق ویڈیو یا میسجز آتے ہیں تو ان کا تعلق جہاں آنکھوں سے ہوتا ہے وہاں کانوں سے بھی سُن کر محظوظ ہوا جاتا ہے۔

غالباً 1992ء یا 1993ء کی بات ہے کہ خاکسار نے قادیان میں جلسہ سالانہ کے دنوں میں ایک انڈین اردو اخبار میں مختصر سا آرٹیکل بعنوان ’’دوکان‘‘ پڑھا تھا ۔ جس میں مضمون نگار نے لکھا تھا کہ انسان کو دوکان اور ایک زبان ملی ہے مگر وہ اپنے دوکانوں سے بات سنتا کم ہے اور زبان کے ذریعہ باتوں کو آگے زیادہ پہنچاتا ہے ۔ اس پر خاکسار نے کان اور دیگر اعضاء کے بر محل استعمال پر اسلامی تعلیمات بیان کی تھیں۔ اسلام نے بھی افواہ سازی کے حوالہ سے یہی تعلیم دی ہے کہ انسان دوکانوں سے بات سنتا اور بغیر تحقیق کے فوراً آ گے پہنچانے کی کوشش کرتا ہے ۔ آ نحضور ﷺ نے فر مایا ہے کہ :۔ لَیْسَ الْخَبْرُ کَاالْمُعَائِنَۃِ۔ کہ سنی سنائی خبر دیکھی ہوئی بات کے برابر نہیں ہو سکتی۔ ایسے لوگوں کوکانوں کا کچا کہا جاتا ہے ۔ الہٰی جماعتوں کی قانون خداوندی کے مطابق مخالفت بھی ہوتی ہے ۔ گالیاں بھی سننے کو ملتی ہیں ، جو صبر کے ساتھ سُن کر دشمنوں کے حق میں دُعا کر دی جاتی ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فر ماتے ہیں ۔

؎ گالیاں سُن کر دعا دو پاکے دُکھ آرام دو
کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 مئی 2021