• 1 اگست, 2025

اعجاز القرآن

اللہ تعالیٰ ہر ایک نبی کو معجزات عطا فرماتا ہے۔ یہ معجزات نبی کے مخالفین کے لئے حجت اور ایمان لانے والوں کے لئے باعثِ تقویت ِ ایمان ثابت ہوتے ہیں۔ بعض معجزات وقت کی مناسبت سے وقتی ہوتے ہیں اور صرف نبی کے دَور کے لوگ ہی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کا سانپ بن جانا یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سمندر سے گزر جانا۔ مگر بعض معجزات نبی کے گزر جانے کے بعد کےزمانہ میں ظاہر ہوتے ہیں اور اُس نبی کے ماننے والوں کے ایمان کو مضبوط کرتے ہیں اور مخالفین کے لئے حجت بن جاتے ہیں۔ اور یہ پیشگوئیوں کے معجزے ہوتے ہیں۔ جو سب سے بڑھ کر آنحضور ﷺ کو قرآن مجید کی صورت میں عطا ہوئے ہیں۔ اس کی تفصیلی بحث سے قبل دیکھتے ہیں کہ معجزہ کی تعریف کیا ہے؟ اس کی کتنی اقسام ہوتی ہیں اور اس کی ضرورت کیا ہے؟

معجزے کی تعریف

عربی زبان میں لفظ ’معجزہ‘ کا مادہ ’ع ج ز‘ ہے ۔اس مادہ کے معنی المنجد کی رو سے مندرجہ ذیل ہیں۔

’’قادر نہ ہونا۔ طاقت نہ رکھنا۔ عاجز ہونا۔ …… المُعجِزَۃ۔ خارق عادت جس کو اللہ تعالیٰ کسی نبی کے ہاتھ سے ظاہر کردے اوردوسرے اس سے عاجز ہوں۔‘‘

(المنجد۔ صفحہ ۵۴۰)

اس مادہ کے معنی مفرادات امام راغب کی رو سے مندرجہ ذیل ہیں۔

’’عَجز ٌ کے اصلی معنی کسی چیز سے پیچھے رہ جانا یا اس کے ایسے وقت میں حاصل ہونا کے ہیں جب کہ اس کا وقت نکل جا چکا ہو۔ جیسا کہ لفظ اَلدَّبرُ کسی کام کے کرنے سے قاصر رہ جانے پربولا جا تا ہے اور یہ اَلقُدرَۃُ کی ضد ہے۔‘‘

(المفرادات امام راغب۔ جلد دوم۔ صفحہ۱۰۸۔زیر ِلفظ ع ج ز)

ان دو لغا ت کو دیکھنے کے بعد حضرت مسیح موعود ؑ کی معجزہ کی تعریف کو دیکھتے ہیں۔ حضور ؑ تحریر فرماتے ہیں۔
’’معجزہ ایسے امرِ خارق عادت کو کہتے ہیں کہ فریقِ مخالف اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز آجائے خواہ وہ امر بظاہر نظر انسانی طاقتوں کے اندر ہی معلوم ہو۔ جیسا کہ قرآن شریف کا معجزہ جوملک عرب کے تمام باشندوں کے سامنے پیش کیا گیا تھا پس وہ اگرچہ بنظر سرسری انسانی طاقتوں کے اندر معلوم ہوتا تھا لیکن اس کی نظیر پیش کرنے سے عرب کے تمام باشندے عاجز آگئے ۔۔۔۔ اصلی اور بھاری مقصد معجزہ سے حق اور باطل یا صادق اور کاذب میں ایک امتیاز دکھلانا ہے۔ اور ایسے امتیازی امر کا نام معجزہ یا دوسرے لفظوں میں نشان ہے۔ نشان ایک ایسا ضروری امر ہے کہ اُس کے بغیر خدائے تعالیٰ کے وجود پر بھی پورا یقین کرنا ممکن نہیں اور نہ وہ ثمرہ حاصل ہونا ممکن ہے کہ جوپورے یقین سے حاصل ہوسکتا ہے۔‘‘

(روحانی خزائن جلد ۲۱۔ براہین احمدیہ جلد پنجم۔ صفحہ ۵۹ تا ۶۰)

ایک اور جگہ حضور ؑ فرماتے ہیں کہ
’’معجزہ سے مراد فرقان ہے جو حق اور باطل میں تمیز کر کے دکھا دے اور خدا کی ہستی پر شاہد ِناطق ہو۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم، صفحہ ۲۳۶ جدید ایڈیشن)

پس ان حوالہ جات کی روشنی میں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ جب خدا تعالیٰ اپنے انبیاء کو دنیا میں حق کی تعلیم پھیلانے کے لئے بھیجتا ہے تو اُس کی ہر طرح سے مدد اور نصرت بھی کرتا ہے۔ اگرچہ نبی اور اس کی جماعت پہلے ہی دنیاوی لحاظ سے کمزور ہوتی ہے اور حق کی آواز اٹھانے پر ان کی مخالفت بھی بہت ہوتی ہے۔ مخالفین ہمیشہ بہت مضبوط اور طاقت ور ہوتے ہیں۔ جب ان مخالفین کے بالمقابل خدائی نصرت اور مدد نبی اور اس کی جماعت کے لئے آتی ہےجو دنیاوی لحاظ سے کمزور ہوتی ہے تو یہ خدائی نصرت مخالفوں کو عاجز کر دیتی ہے اور دشمن ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔

معجزہ کی ضرورت

مذہب میں معجزات کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ معجزات سے خدا تعالیٰ کی ہستی اور نبی کی سچائی پر ایمان پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح مومنین کے ایمان مضبوط ہوتے ہیں اور روحانیت زندہ ہوتی ہے۔ اس وجہ سے مومنین کی جماعت کو معجزات کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ تاکہ اُن کے ایمان و ایقان میں ترقی ہوتی رہے۔ اور بحیثیت جماعت وہ ایک زندہ جماعت بن جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مذہب کی غرض بیان کرتے ہوئے فرماتے ہے کہ
’’یہ تو ظاہر ہے کہ مذہب کی اصلی سچائی خدائے تعالیٰ کی ہستی کی شناخت سے وابستہ ہے۔ سچے مذہب کے ضروری اور اہم لوازم میں سے یہ امر ہے کہ اُس میں ایسے نشان پائے جائیں جو خدائے تعالیٰ کی ہستی پر قطعی اور یقینی دلالت کریں اور وہ مذہب اپنے اندر ایسی زبردست طاقت رکھتا ہو جو اپنے پیرو کا خدائے تعالیٰ کے ہاتھ سے ہاتھ ملادے۔‘‘

(روحانی خزائن جلد ۲۱۔ براہین احمدیہ جلد پنجم۔ صفحہ ۶۰)

اسی طرح معجزات کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’جس دین میں زندہ معجزات نہیں وہ دین قائم رہ سکتا ہی نہیں …… مجھ پر الزام لگایا گیا ہے کہ میں معجزات سے منکر ہوں حالانکہ میرا ایمان ہے کہ بغیر معجزات کے زندہ ایمان ہی نصیب نہیں ہوسکتا‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ۶۶۶)

پس دین کے قائم ہونے اور افرادِ جماعت کے ایمان کو قائم کرنے کے لیے معجزات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہی ایک خاص بات ہے جس کے ذریعہ انبیا کرام اور ان کی سچی جماعت کی پہچان ہوتی ہے۔

معجزات کی اقسام

جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ معجزات کی دو بڑی اقسام ہیں۔ معجزے کی ایک قسم صرف نبی کے زمانے میں ظاہر ہوتی ہے جو ہمیشہ کے لئے نہیں ہوتی اور صرف اس وقت اور اُس واقعہ سے منسلک ہوتی ہے۔ جبکہ معجزے کی دوسری قسم ہمیشہ کے لئے ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ معجزات کی اقسام کے بارے فرماتے ہیں کہ
’’معجزات دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو کہ موسیٰ ؑ کے سوٹے کی طرح فوراً دکھادیئے جاتے ہیں۔ دوسرے علمی رنگی کے معجزات اور غیب پر مشتمل پیشگوئیاں۔ اول الذکر معجزات اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ان سے دشمنوں کے منہ بند ہوجاتے ہیں مگر دیرپا اور ہمیشہ کے واسطے نہیں ہوتے بلکہ وہ وقتی ضرورت کے مناسبِ حال ہوتے ہیں پیچھے آنے والی قوموں کے واسطے وہ کوئی حجت اور دلیل نہیں ہوتے کیونکہ ان میں تدبر وفکر کا انسان کو موقعہ نہیں ملتا۔ مگر موخر الذکر معجزات ایسے علمی رنگ میں ہوتے ہیں کہ وہ ہمیشہ کے واسطے اور دیر پا ہوتے ہیں۔ انسان جوں جوں ان میں غور و خوض کرتا ہے توں توں ان کی شوکت اور عظمت بھی بڑھتی جاتی ہے اور جوں جوں بُعدِ زمانی ہوتا جاتا ہے۔ ان کی ضیاء اور شوکت میں ترقی ہوتی جاتی ہے۔ ان کی عظمت میں فرق نہیں آتا۔ چنانچہ ہمارے نبی کریم ﷺ کے معجزات اس قسمِ ثانی کے ہیں۔ دیکھ لو۔ تیرہ سو برس گذر چکے ہیں۔ زمانہ ترقی کے لحاظ سے معراج پر پہنچ گیا ہے۔ نئے نئےعلوم اور طبعیات نکلے مگر آنحضرت ﷺ کی تعلیم کا کوئی نقص کوئی ثابت نہ کر سکا اور نہ ہی آپ کے معجزات کی قدر وعظمت میں فرق آیا بلکہ روز افزوں ان کی عظمت اور شوکت بڑھتی ہی جاتی ہے اور جُوں جُوں نئے نئے علوم نکلتے ہیں، سائنس اورفلسفہ ترقی کرتا جاتا ہے توں توں آپ کی تعلیم کی عظمت اور آپ کے معجزات کی شوکت زیادہ ہوتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 5، 1988 ایڈیشن۔ صفحہ467 تا 468)

حضور ﷺ نے معجزات کی یہ دونوں اقسام دنیا کو دکھائیں۔ اس طرح نہ صرف اپنی زندگی کے مخالفوں کے لئے حجت بنے بلکہ رہتی دنیا کے مخالفوں کے لئے آپ حجت ہیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام قرآن کریم کی ایک اَور خصوصیت بیان فرماتے ہیں کہ
’’توریت اور قرآن میں یہ بھی ایک فرق ِعظیم ہے کہ قرآن جسمانی اور روحانی خوارق ہر قسم کے اپنے اندر رکھتا ہے۔ مثلاً شق القمر کا معجزہ جسمانی معجزات کی قِسم سے ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول، 1988 ایڈیشن۔ صفحہ ۵۶)

معجزات کی اقسام میں بڑا اور ہمیشہ رہنے والا معجزہ علمی اور پیشگوئیوں والا معجزہ ہے جو قرآن کریم کی صورت میں ملا ہے ۔ قرآن کی معجزانہ تعلیم ہمیشہ ہمیش کے لئے موجود ہے اوریہ ایک ایسی زبردست دلیل ہے کہ اس کے مقابل پر تمام انبیاء کے معجزات کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس طرح قرآنی معجزے کی افضلیت اور برتری دوسرے تمام مذاہب پر اپنی حجت قائم کر دیتی ہے۔

ایک دوسرے زاویے سے اگر دیکھا جائے تو معجزات کو مزید چار اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ تفسیر کبیر میں تحریر فرماتے ہیں :
’’معجزے کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک معجزے ہدایت دینے کے لئے اور لوگوں پر حجت تمام کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔ وہ ایسے معجزے ہوتے ہیں جن کو دشمن سے بھی منوایا جاسکتا ہے۔ اگر منوایا نہ جاسکے تو وہ حجت کس طرح ہو سکتے ہیں۔ پس جو معجزے حجت کے لئے آتے ہیں وہ ایسی ہی شکل میں آتے ہیں جن کو منوایا جا سکے۔ مثلاً قرآن کریم کا معجزہ۔ اسی طرح بعض معجزات ایسے ہوتے ہیں۔ جو صرف تقویت ایمان کے لئے ہوتے ہیں اُن کا منوایا جانا ضروری نہیں ہوتا۔ وہ صرف مومنوں کے ازدیاد ایمان کے لئے ظاہر ہوتے ہیں۔ …… مثلاً رسول کریم ﷺ کی انگلیوں کے درمیانی سوراخوں سے ایک دفعہ پانی پھوٹ نکلا اور ایک آیت ؔہوتے ہیں یعنی دشمنوں پر حجت تمام کرنے کے لئے آتے ہیں۔ یہ معجزے ایسے ہوتے ہیں جنہیں دشمنوں کے سامنے کھلے طور پر پیش کیاجاسکتا ہے۔ اور کچھ معجزے ایسے ہوتے ہیں جو ابتلائی ہوتے ہیں اور اُن میں رنج اور کوفت کا پہلو پایا جاتا ہے۔لیکن خدا تعالیٰ کسی حکمت کے ماتحت اُن کو ظاہر فرما تا ہے۔حضرت مسیح کی بن باپ ولادت بھی ایسے ہی ابتلائی معجزوں میں سے ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلدپنجم، صفحہ 194)

اس اقتباس کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ معجزات کی چار اقسام ہیں جو مخالفوں اور اپنوں دونوں کے لئے دکھائے جاتے ہیں۔اور قرآن کریم کا معجزہ مخالفوں کے لئے بطور حجت کے ہمیشہ کے لئے موجود ہے۔

حضور ﷺ اور دوسرے انبیاء کرام کے معجزات

اگرچہ تمام انبیاء کرام خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں اور اسلام کے بنیادی عقائد میں یہ بات شامل ہے کہ تمام انبیا ء پر ایمان لانا ضروری ہے ۔ ہر نبی ایک خاص زمانے اور ایک خاص علاقے کے لئے مبعوث ہوا ہے مگر آنحضور ﷺ پوری دنیا اور ہمیشہ کے لئے مبعوث ہوئے ہیں۔ اسی طرح آنحضرت ﷺ کے معجزات اور دوسرے انبیاء کے معجزات میں بھی فرق ہے۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:
’’دنیا میں کُل نبیوں کے معجزات کو بھی اگر اُن کے مقابلہ میں رکھیں، تو میں ایمان سے کہتا ہوں کہ ہمارے پیغمبر ِ خدا ﷺ کے معجزات بڑھ کر ثابت ہوں گے۔ قطع نظر اس بات کے کہ رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئیوں سے قرآن شریف بھرا پڑا ہے اور قیامت تک اور اس کے بعد تک کی پیشگوئیاں اس میں موجود ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد اول، صفحہ 274)

اسی طرح حضور ﷺ ایک زندہ نبی ہےاورآپ کی تعلیم اور معجزات بھی ہمیشہ کے لئے زندہ ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’الغرض قرآن شریف ایک کامل اور زندہ اعجاز ہے اور کلام کا معجزہ ایسا معجزہ ہوتا ہے کہ کبھی اور کسی زمانہ میں وہ پرانا نہیں ہوسکتا اور نہ فنا کا ہاتھ اس پر چل سکتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد2، صفحہ27)

’’غرض قرآن شریف بدوں غور و خوض بدوں محو و اثبات اپنے اندر زندگی کی روح رکھتا ہے اور بدوں کسی نسبتی لحاظ یا مقابلہ کے وہ مستقل اعجاز ہے …… سو انسانی فطرت تو تازہ بتازہ نشانات دیکھنا چاہتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد2، صفحہ42)

اسی طرح کلام کے معجزہ ہونے کے بارے حضور ؑ فرماتے ہیں کہ:
’’کلام کا معجزہ آدم علیہ السلام سے لے کر آنحضرت ﷺ کے زمانہ تک چار ہزار برس ہوئے ہیں سوائے قرآن مجید کے اور کسی نے نہیں دکھایا اور نہ کسی نے دیکھا۔‘‘

(ملفوظات جلد2، صفحہ507)

قرآن کریم کا معجزہ

جہاں آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں حضور ﷺنے بے شمار معجزات دکھائے وہاں آپ نے قرآن کریم کا معجزہ رہتی دنیا کے لئے چھوڑا۔اس بارے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’قرآن شریف ایسا معجزہ ہے کہ نہ وہ اول مثل ہوا اور نہ آخر کبھی ہوگا۔ اس کے فیوض و برکات کا در ہمیشہ جاری ہے۔ اور وہ ہر زمانہ میں اسی طرح نمایا ں اور درخشاں ہے جیسا آنحضرت ﷺ کے وقت تھا۔‘‘

(ملفوظات جلد 2، صفحہ 40 2003ء ءایڈیشن)

اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن کریم ایک عظیم الشان معجزہ ہے جو رہتی دنیا کے لئے ہر قوم کے لئے ایک حجت کے طور پر قائم رہے گا۔ اس دعویٰ کے ثبوت میں حضرت مسیح موعود ؑ نے مندرجہ ذیل دلائل وبراہین دیئے ہیں۔
’’خداتعالیٰ نے قرآن شریف کو جو معجزہ عطا فرمایا ہے، وہ اعلیٰ درجہ کی اخلاقی تعلیم اور اُصولِ تمدن اور اس کی فصاحت و بلاغت کا ہے۔ جس کا مقابلہ کوئی انسان ہر گز نہیں کر سکتا اور ایسا ہی معجزہ غیب کی خبروں اور پیشگوئیوں کا ہے۔اس زمانہ کا کوئی شعبدہ بازی کا استاد ایسا کرنے کا ہر گز دعویٰ نہیں کرتا۔‘‘

(ملفوظات جلد اول، صفحہ258)

’’معجزہ تو علم کا ہی بڑا ہوتا ہے۔ حضرت رسول کریم ﷺ کا سب سے بڑا معجزہ قرآن شریف ہی تھا جو اب تک قائم ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول، صفحہ440)

ان حوالہ جات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن عظیم نے ایک علمی معجزہ اور دوسرا پیشگوئیوں پر مشتمل غیب کے علم کا معجزہ دیا ہے۔ یہ دونوں علوم قرآن کریم میں بڑی فصاحت و بلاغت سے پائے جاتے ہیں۔ اس بارے میں حضور ؑ فرماتے ہیں :
’’غرض قرآن شریف حکمت ہے اور مستقل شریعت ہے اور ساری تعلیموں کا مخزن ہے اور اس طرح پر قرآن شریف کا پہلا معجزہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے اور پھر دوسرا معجزہ قرآن شریف کا اس کی عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد2، صفحہ31)

اسی طرح قرآن کریم کے ظاہری الفاظ بھی معجزے سے کم نہیں ہے۔ اُن الفاظ کی ترکیب بھی اپنے اندر ایک معجزہ رکھتی ہے۔ حضور ؑ اس بارے فرماتے ہیں :
’’یہ قرآن ِ شریف کا اعجاز ہے کہ اس میں سارے الفاظ ایسے موتی کی طرح پروئے گئے ہیں اور اپنے اپنے مقام پر کھے گئے ہیں کہ کوئی ایک جگہ سے اُٹھا کر دوسری جگہ نہیں رکھا جاسکتا اور کسی کو دوسرے لفظ سے بدلا نہیں جا سکتا۔ لیکن اس کے باوجود اس کے قافیہ بندی اور فصاحت و بلاغت کے تمام لوازم موجود ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد5، صفحہ482)

ایک اَور جگہ قرآن کریم کی معجزانہ تعلیم کے بارے حضورؑ فرماتے ہیں :
’’پس معجزہ کی حقیقت سمجھنے کے لئے قرآن شریف نہایت روشن مثال ہے کہ بظاہر وہ بھی ایک کلام ہے جیسا کہ انسان کا کلام ہوتا ہے لیکن وہ اپنی فصیح تقریر کےلحاظ سے اور نہایت لذیذ اور مصفّٰی اور رنگین عبارت کے لحاظ سے جو ہر جگہ حق اور حکمت کی پابندی کی التزام رکھتی ہے اور نیز روشن دلائل کے لحاظ سے جو تمام دنیا کے مخالفانہ دلائل پر غالب آگئیں اور نیز زبردست پیشگوئیوں کے لحاظ سے ایک ایسا لاجواب معجزہ ہے جو باوجود گذرنے تیسرہ سو برس کے اب تک کوئی مخالف اس کا مقابلہ نہیں کر سکا اور نہ کسی کو طاقت ہے جو کرے۔ قرآن شریف کو تمام دنیا کی کتابوں سے یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ معجزانہ پیشگوئیوں کو بھی معجزانہ عبارات میں جو اعلیٰ درجہ کی بلاغت اور فصاحت سے پُر اور حق اور حکمت سے بھری ہوئی ہیں بیان فرماتا ہے۔‘‘

(روحانی خزائن جلد21۔ براہین احمدیہ جلد پنجم۔ صفحہ59 تا 60)

ان تمام حوالہ جات کی روشنی سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قرآن کریم ایک عظیم الشان معجزہ ہے۔ قرآن کریم اپنی بناوٹ کے اعتبار سے معجزہ ہے۔ قرآن کریم اپنی کامل اور مکمل تعلیم کے لحاظ سے معجزہ ہے۔ قرآن کریم اپنی پیشگوئیوں کی بنا پر معجزہ ہے۔ قرآن کریم ایک ہمیشہ رہنے والا زندہ معجزہ ہےکیونکہ یہ تعلیم رہتی دنیا کے لئے ہے، ہر زمانہ کے لئے ہے، ہر قوم کے لئے ہےاورہر قسم کے حالات کے لئے ہے۔ اسی طرح قرآن کریم اپنے غیب کے علم کی بنا پر معجزہ ہے۔ غیب کے علم میں گزرے ہوئے زمانے سے لے کر آئندہ آنے والے زمانے کی تمام خبریں شامل ہیں۔ بلکہ زندگی کی ابتداء سے انتہا تک کے علوم اس میں پائے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے اس کی برتری ایسی کامل اوراٹوٹ بن جاتی ہے کہ دنیا کا دوسرا کوئی مذاہب اس کا مقابلہ کر نہیں سکتا۔ اور مرور زمانہ کے باوجود علم الغیب کا معجزہ کبھی ماند نہیں پڑ ےگا بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لئے زندہ رہے گا۔ قرآن کریم کے عظیم الشان معجزہ ہونے کے باوجودصرف سعادت مند لوگ ہی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جیسے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین جنہوں نے قرآن کریم کے معجزے سے فائدہ اٹھایا اور آنحضورﷺ پر ایمان لائے ۔ جبکہ ابوجہل جیسے نامراد لوگ اس زندہ معجزہ کو دیکھتے ہوئے بھی نہ دیکھ سکے کیونکہ وہ روحانی آنکھوں سے محروم تھےاور اندھے تھے۔ پس ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم اس عظیم کتاب کے ماننے والے ہیں جس میں زندہ خدا کے زندہ نشان پائے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

؎دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے

(مقصود احمدمنصور مبلغ سلسلہ گیاناؔ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 مئی 2021