• 5 مئی, 2024

مکرم میاں منظور احمد غالب صاحب

یاد رفتگان
ہمارے پیارے ابا جان مکرم میاں منظور احمد غالب صاحب

دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے لبریز ہے اور میں اس کے پاک رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجتا ہوں کہ جس نے ہمارے والد صاحب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظل کامل اور مامور زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ سلام کو بفضل تعالیٰ عین جوانی میں شناخت کرنے کی توفیق بخشی اور خلافت کے آسمانی نظام سے وابستہ کیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ اَمَّا بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثۡ

ترجمہ: اور تو اپنے رب کی نعمت کا ضرور اظہار کرتا رہ۔

ہمارےوالد محترم 13 اپریل 1945ء کو اپنے ڈیرہ ٹھہڑی ذیلی موضع دودہ ضلع سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ میرے والد صاحب نے خود تحقیق کر کے بیعت کی۔ والد صاحب فرماتے تھے کہ 1956ء سے لے کر 1983ء تک ربوہ میں جتنے جلسہ سالانہ ہوئے ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے شمولیت اختیار کی ہے۔ کیونکہ ان کے بڑے بھائی مکرم میاں ظہور احمد صاحب مرحوم نے تقریباً 1955ء میں بیعت کی تھی اور ان کے بڑے بھائی ان سے عمر میں تقریباً 16 سال بڑے تھے۔ وہ ان کو ہر جلسہ سالانہ پے ساتھ لے کے آتے تھے۔والد محترم فرمایا کرتے تھے کہ میرے بڑے بھائی مکرم ظہور احمد مرحوم کا میری ذات پے احسان ہے کہ وہ مجھے جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کیلئے تبلیغ کرتے رہتے۔ محترم والد صاحب کوبچپن سے ہی دین سے لگاؤ تھا اور آباء و اجداد سے ہی گھر میں علمی ماحول تھا۔ محترم والد صاحب کو کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ دیگر کتب کے ساتھ ساتھ آپ نے جماعتی کتب اورکتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا اور جیسے جیسے آپ کتب کا مطالعہ کرتے، آپ پر نئے نئے حقائق و معارف کھلتے۔ چنانچہ آپ کا مطالعہ کا شوق مزید بڑھ گیا اور اسی مطالعہ کی برکت سے اور رویاء کی بنا پر آپ نے 17 سال کی عمر میں بیعت کر کے 1962ء میں جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کی۔ الحمد اللہ

آپ بڑے شوق اور دینی جذبہ سے کتب خریدتے تھے چنانچہ گھر میں ایک لائبریری بھی بنائی ہوئی ہے جس میں صحاح ستہ، روحانی خزائن، کتب خلفاء احمدیت اور دیگر جماعتی کتب موجود ہیں۔ آپ باقاعدگی کے ساتھ روزانہ کتب کامطالعہ کرتے تھے۔ اکثر رات گئے تک مطالعہ جاری رکھتے اور مطالعہ کرتے کرتے سو جاتےتو خاکسار (این اے غالب) خاموشی سے وہ کتاب آپ کے ہاتھ سے پکڑ کر لائبریری میں رکھ دیتا۔ اکثر اوقات خاکسار آپ سے پوچھتا کہ یہ کتاب تو آپ پہلے بھی پڑھ چکے ہیں تو آپ فرماتے کہ با ر بار پڑھنے سے ہر بار نیا فلسفہ سامنے آتا ہے۔

والد محترم کو الفضل پڑھنے کا انتہائی شوق تھا کیونکہ آپ اکثر جماعتی دورہ جات کیلئے گھر سے باہر رہتے تھے اور ہمیں تاکید کر کے جاتے تھے کہ میرے آنے تک تمام الفضل کو اکھٹا کر کے رکھنا ہے۔ اور جب بھی دورہ سے واپس تشریف لاتے تو ساری الفضل مانگتے اور ہم سے استفسار کرتے کہ آپ لوگوں نے الفضل کا مطالعہ کیا ہے؟ اگر کیا ہے تو کوئی ایک بات بتا دیں جو آپ کو یاد ہو ۔ کوئی بھی واقعہ یا بات نہ بتانے کی صورت میں پاس بٹھا کر پوری الفضل خود پڑھ کے سناتے۔

ہم بچوں کو اکثر شام کو اپنے پاس بیٹھا کر جماعتی واقعات سنانا ان کا معمول تھا۔ آپ کا واقعات کو پیش کرنے کا رنگ انتہائی سادہ اور پرلطف ہوتا جو دل کی گہرائی تک اثر کرتا۔ جب کسی واقعہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ان کے صحابہ کے واقعہ میں کوئی تکلیف کا ذکرہوتا تو آپ کی آواز رندہ جاتی اور آنکھوں سے جاری طاری ہو جاتے ۔

آپ کو خلافت سے جنون کی حد تک محبت تھی۔ اکثر وبیشتر خلافت کی برکات کے متعلق بڑی تفصیل سے بتایا کرتے تھے۔ خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ نے جو خلافت کی برکات پے خطبات دیے تھے اکثر ہمیں سنایا کرتے تھے۔ آپ نےحضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ کے زمانہ میں بیعت کی اور آپ کو قصر خلافت میں ڈیوٹی کرنے کا موقع بھی ملا۔

ایک دفعہ خاکسار (میاں عطاءالعلیم) نے والد صاحب سے عرض کی کہ یورپ میں اولاد کے ضائع ہونے کے بہت خدشات ہوتے ہیں مجھے نصیحت کریں کہ میری اولاد نیکی کی طرف گامزن رہے۔ اس پر بڑے پرجوش انداز میں کہا کہ جس طرح میں نے تم کو خلافت سے محبت اور اطاعت کرنا سیکھائی ہے اسی طرح تم بھی اپنی اولاد کو خلافت سے جوڑ دو تو تمہاری کبھی بھی اولاد ضائع نہیں ہو سکتی۔

جب خاکسار (میاں عطاء العلیم) کو بطورریجنل قائد خدام الاحمدیہ نارتھ ویسٹ خدمت کی توفیق ملی تو خاکسار نے والد محترم کو تفصیل سے بتایا کہ جس ریجن کا میں قائد بنا ہوں وہ بہت لمبا چوڑا ہے۔ وقت کی کمی ہے۔ مجالس دور دور ہیں۔ ہر جگہ بار بار جانا مشکل ہے تو والد محترم فرمانے لگے کہ آپ کے پاس گاڑی میں پٹرول ڈلوانے کیلئے پیسے ہیں؟ بھوک لگے تو کھانا کھانے کیلئے پیسے ہیں؟ تو خاکسار نے عرض کی کہ الحمدللہ سب کچھ ہے تو والد محترم بڑے غصہ سے فرمانے لگے تو پھر خدا کا شکر ادا کرو کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نعمت سے نوازا ہے ۔ جب میں نائب قائد علاقہ تھا تومیرے علاقہ کی 64 مجالس تھیں۔ تو میرے پاس نہ گاڑی تھی اورنہ پیسا تھا۔ میں جب بھی جماعتی دورہ پر جا تا تو میں اپنے ساتھ بھنے چنے اور گڑ ساتھ لے کے جاتا تھا کیونکہ کھانا کھانے کیلئے پیسے نہ تھے اور سفر کیلئے صرف سائیکل میسر تھا اگر وہ بھی پنکچر ہو جاتا تو اس کو پنکچر لگوانے کیلئے کوئی پیسہ نہ ہوتا تھا۔ جس پر خاکسار کو بہت شرمندگی ہوئی اور اپنا کام بہت آسان لگا۔ اس کے بعد اللہ کے فضل سے خاکسار کو بہتر رنگ میں جماعتی خدمت کرنے کی توفیق ملی۔

جب بھی خاکسار (میاں عطاءالعلیم) کو جماعتی خدمات بڑھ چڑھ کے کرنے کا موقع ملتا تو ابا جان بہت خوش ہوتے اور خاکسار جب بھی جماعتی خدمت بجا لانے کی حقیر سی کوشش کرتا تو ابا جان پھولے نہ سماتے۔ ان خدمات کی بناء پر ابا جان کی خاکسار سے قربت بہت زیادہ بڑھ گئی تھی۔ جو بھی ہم بہن بھائیوں میں سے جماعتی خدمت کرنے کی توفیق پاتا تو آپ انتہا کی خوشی کا اظہار کرتے۔

والدمحترم بیان کرتے ہیں کہ شاید 1980ء کی بات ہے۔ اس دور میں ایک دفعہ خدام الاحمدیہ کے دورہ پر پیلووینس گیا۔ گرمی کے دن تھے۔ ایک بس رات کو سرگودھا سے آتی تھی اور صبح کو واپس براستہ خوشاب سے سرگودھا جاتی تھی۔ صبح تک جماعتی کام مکمل نہ ہو سکا۔ بس چلی گئی۔ دوپہر ہونے کو آ گئی۔ مجھے بتایا گیا کہ یہاں سے اڈہ 32چک والا 9 میل کے فاصلہ پر ہے تو میں پیدل چل پڑا۔ صحراء کی گرمی کڑاکے کی تھی۔ چشمہ جہلم لنک کینال تک آتے آتے بہت پیاس لگ گئی۔ نہر بھی بہت گہری تھی اور سنا تھا کہ 18 فٹ گہری ہے۔ ڈوبنے کے ڈر سے نیچے اتر کر پانی بھی نہ پی سکا ۔اس زمانہ میں صحراء میں درخت بھی نظر نہیں آتے تھے۔ ہر طرف ویرانہ ہی ویرانہ تھا۔ نہر کا پل پار کر کے ایک بیری کے نیچے سستانے کیلئے کھڑا ہو گیا۔ بے دھیانی میں کھڑا تھا کہ اچانک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا ،نظر اٹھا کے دیکھا تو ایک بدلی (چھوٹا بادل) آگئی۔ پیاس میں کمی بھی آگئی۔ میں اس کے سایہ میں چل پڑا۔راستہ تو ادھر ادھر ہو جاتا تھا مگر بدلی اپنی سیدھ میں چلتی رہی۔ چک 32 پہنچنے تک ساتھ دیا الحمد اللہ وہاں پہنچ کے پانی پیا۔ پانی پی کر دیکھا تو بدلی غائب۔

آپ ہمارے ساتھ نہایت شفقت سے پیش آتے۔آپ کی زندگی کے آخری 6 سال خاکسار (ایم این اے غالب) کو مع اہل وعیال آپ کی زیر شفقت رہنے کا خاص طور پر موقع نصیب ہوا ہے۔ 2019ء میں جرمنی گئے تو خاکسار بھی ہمراہ تھا۔ خاکسار کو فرمانے لگے کہ آپ یہاں جرمنی میں اسائلم کر لو۔خاکسار نے عرض کیا کہ اگر آپ بھی یہاں ساتھ رہیں توخاکسار اسائلم کرے گا ورنہ جہاں آپ رہیں گے خاکسار بھی آپ کے ساتھ رہے گا۔خاکسار آپ کو بڑھاپے میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا ۔چونکہ آپ کو جماعتی دورہ جات سے بہت محبت تھی اس لئے آپ مرکز ربوہ واپس آگئے اور خاکسار بھی واپس آ گیا۔ خاکسار کے ساتھ آپ کی بہت یادیں وابستہ ہیں اور جماعتی دورہ جات کے بہت سے ایمان افروز واقعات ہیں جن کو یاد کر کے خاکسار کا دل ایمان سے بھر جاتا ہے۔

والد محترم کو دورہ جات کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ آپ جب بیمار یا پریشان ہوتے تو اپنا مخصوص تھیلا لے کر جماعتی دورہ پر چلے جاتے اور کئی کئی روز واپس نہ آتے جب واپس آتے تو فرماتے کہ اللہ کے فضل سے جو میری بیماری یا پریشانی تھی اللہ تعالیٰ نے احسن رنگ میں حل کر دی ہے۔ آپ جب بھی دورہ جات سے واپس آتے تو مجھے (ایم این احمد غالب) کو فرماتے کہ میرے تھیلے میں سے ساری رقم نکالو اور رسید بک کی پڑتال کرو اور میزان دیکھو کہ برابر ہے تو اللہ کے فضل سے میزان بلکل برابر ہوتا۔ اور جماعتی چندہ فوراً دفتر خزانہ میں جمع کرواتے۔ کوئی بھی جماعتی رقم اپنے پاس نہ رکھتے۔

حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ
’’جو آدمی مہمان نوازی نہیں کرتا اس میں کوئی خوبی نہیں ہے‘‘ (مسند احمد) ’’جس گھر میں مہمان آتے جاتے رہتے ہیں اللہ اس گھر سے محبت کرتا ہے۔‘‘

ہمارے اباجان میں مہمان نوازی کا بہت زیادہ جذبہ تھا۔ اللہ کے فضل سے ہمارے گھر مہمانوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ ابا جان مہمانوں کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے ۔ جتنے بھی زیادہ دوست احباب گھر آ جاتے تو کبھی بھی چہرہ پر ملال نہ آتا، ان کو خوشی سے خوش آمدید کہتے۔ جہاں تک ممکن ہوتا ان کی خاطر تواضع کرتے۔ ان کے آرام کا خیال رکھتے جسے جو پسند ہوتا وہی چیز مہیا کرتے۔ بلکہ جماعتی مہمان جو کسی بھی کام کے سلسلہ میں مرکز آتے ان کو اپنے گھر لے آتے ۔ اور ان کی خوب خاطر تواضع کرتے۔ جماعت کے کاموں کیلئے آپ کا طریقہ کار یہ تھا کہ احباب جماعت سے ذاتی تعلق بناتے ان کی غمی خوشی میں شامل ہوتے اور جماعتی کام کے علاوہ بھی ان احباب سے مسلسل رابطہ میں رہتے۔

ہمارے والد صاحب انتہائی ہردلعزیز شخصیت کے مالک تھے ۔ اللہ کے فضل سے جماعتی مطالعہ کتب کی وجہ سے رات گئے تک محفل لگائے رکھتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے صحابہ کرام کے ایسے ایسے پر معارف واقعات بیان کرتے کہ سن کر حیرت ہوتی کیونکہ خود صرف جماعت ششم تک پڑھے ہوئے تھے۔ کم تعلیم ہونے کے باوجود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ادوار کے واقعات ازبر یاد تھے۔ اور ہمیشہ مطالعہ کرتے رہتے اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میں پیدائشی احمدی نہیں ہوں میں نے خود مطالعہ کر کے احمدیت قبول کی ہے اس لیے مجھے بہت زیادہ کتب پڑھنے کا موقعہ ملا ہے۔

آپ تہجد گزار اور رقت قلب سےعبادت بجالانےوالا اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرنے والے وجود تھے۔ طبیعت میں بہت انکسار تھا۔ تواضع اور فروتنی پائی جاتی تھی۔ آپ اپنے تئیں ہمیشہ غریب اور مسکین ہی شمارکرتے۔ ساری زندگی درویشوں کی طرح گزاری۔ کھانے میں تکلف نہیں تھا جو کچھ جس وقت ملا کھا لیا کبھی نہ بھی ملا تو صبر و شکر کے ساتھ رات بسر کر لی ۔ اور ہر وقت آخرت کی فکر میں رہتے۔ آپ اپنے پیارے آقا و مولا حضرت مسیح موعود علیہ سلام اور آپ کے خاندان سے عاشق صادق کی طرح محبت رکھتے تھے۔ آپ اللہ کے فضل سے موصی تھے ۔ آپ کا وصیت نمبر 19688 تھا ۔ آپ کی تدفین حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی از راہ شفقت سے بہشتی مقبرہ دارالفضل قطہ نمبر 13 میں ہوئی ۔ یہ سعادت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی سے ملی ۔ اپنی اولاد سے بہت پیار کرتے تھے ہم سب بہن بھائیوں سے بہت محبت سے پیش آتے ۔

والد محترم نے 1962ء میں بیعت کی سعادت کے بعد اللہ کے فضل سےجماعتی خدمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1964ء میں مقامی عاملہ میں شمولیت ، 1968ء میں قائد مقامی ، 1968ء تا 1974ء سیکرٹری مال مقامی ، 1974ء میں خدام کی ضلعی عاملہ میں بطور نگران حلقہ شاخ جنوبی ضلع سرگودھا ، 1974ء کے ہنگاموں کے دوران اپنی خدمات مرکز میں پیش کیں ، نگران حلقہ ، نائب قائد ضلع، 1987ء میں نائب ناظم انصار اللہ، ناظم مال ضلع نائب ناظم عمومی ، خاص طور پر ابا جان کو لمبا عرصہ بطور نمائندہ لجنہ اماء اللہ اور اسی طرح کئی شعبوں میں کام کرنے کی توفیق ملی۔ 1993ء میں مکرم حضرت مرزا عبدالحق صاحب امیر ضلع سرگودھا کی عاملہ میں سیکرٹری مال ، 1995ء سیکرٹری تحریک جدید، 1996ء سیکرٹری وقف جدید، 2006ء سیکرٹری وصیت ۔ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے 2008ء تک مسلسل ان عہدوں پر کام کرنے کی توفیق ملی۔ 2008ء میں ربوہ منتقل ہو گئے ربوہ میں سیکرٹری مال محلہ دارالانوار ربوہ ، سیکرٹری امور عامہ محلہ دارالانوار ربوہ، بطور نمائندہ مال ضلع خوشاب، نمائندہ وقف جدید ضلع خوشاب وفات تک خدمت کرنے کی توفیق ملی۔ الحمد اللہ ۔

آپ نے پسماندگان میں 5 بیٹے، 3 بیٹیاں، پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں یاد گار چھوڑے ہیں اللہ کے فضل سے سب بچے کسی نہ کسی رنگ میں جماعت کی خدمت کرنے کی توفیق پا رہے ہیں۔ آپ کے بڑے بیٹے مکرم میاں بشیر احمد صاحب حال بیلجئم کو اللہ کے فضل سے مختلف دینی خدمات کا موقع ملا آپ لوکل قائد، ریجنل قائد، نائب صدر خدام الاحمدیہ بیلجئم رہے اب آپ بطور لوکل زعیم انصار اللہ خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ آپ کے دوسرے بیٹے مکرم مبشر احمد ظہیر صاحب حال جرمنی اللہ کے فضل سے لوکل قائد، ریجنل قائد اور اب آپ بطور صدر جماعت فرن ہائم جرمنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ آپ کے تیسرے بیٹے مکرم میاں عطاء الہادی حال بوسٹن امریکہ ربوہ میں منتظم اطفال محلہ اور اب لوکل سیکرٹری ضیافت جماعت بوسٹن امریکہ خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ آپ کے چوتھے بیٹے مکرم میاں عطاء العلیم حال لیور پول انگلستان لوکل قائد لیور پول ، ریجنل قائد نارتھ ویسٹ اور جلسہ سالانہ انگلستان کے دوران بطور ناظم متعدد بار خدمت کی توفیق ملی اور اب خاکسار کو نائب ناظم اعلیٰ مجلس انصار اللہ نارتھ ویسٹ، لیور پول کی مسجد کا بطور مسجد منیجر اور سیکرٹری تعلیم لیور پول جماعت کی خدمت کرنےکی توفیق مل رہی ہے۔ آپ کے پانچویں بیٹے مکرم ایم این احمد غالب کو منتظم اطفال، سیکرٹری اصلاح وارشاد، زعیم خدام الاحمدیہ محلہ، سیکرٹری مال اور سیکرٹری وصایا خدمت کرنے کی توفیق ملی۔ آپ کی بڑی بیٹی مکرمہ فرح طلعت طیب صاحبہ اللہ کے فضل سے قاریہ ہیں اور کئی سالوں سے الحافظون میں بطور استانی خدمت سر انجام دے رہی ہیں۔ لوکل، ریجنل لجنہ اماء اللہ میں خدمت کا موقع مل رہا ہے۔ آپ کی دوسری بیٹی بشریٰ بختیار خان صاحبہ کواللہ کے فضل سے لوکل، ریجنل لجنہ اماء اللہ میں خدمت کا موقع مل رہا ہے۔ اللہ کے فضل سے معروف شاعرہ اور کالم نگار ہیں اور آپ کے تین شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ آپ کی تیسری بیٹی طیبہ مریم چاند کو اللہ کے فضل سے لوکل عاملہ میں خدمت دین کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ طیبہ مریم چاند کے خاوند مکرم شبیر چاند صاحب مربی سلسلہ ہیں اور انڈیا میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ابو جان کے 15 پوتے، پوتیاں، نواسے اور نواسیاں بابرکت تحریک وقف نو میں شامل ہیں۔آپ کے پوتے عزیزم سفیر احمد صاحب مربی سلسلہ ہیں اور PS آفس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ آپ کے بڑےنواسے عزیزم عدیل احمد طیب صاحب اسی سال جامعہ انگلستان سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں اور اسلام آباد ٹلفورڈ میں ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں آپ کے دوسرے نواسے عزیزم شاہ زیب طیب صاحب جامعہ انگلستان میں چھٹے سال کے طالب علم ہیں آپ کے تیسرے نواسے عزیزم فرید احمد خان صاحب جامعہ انگلستان میں پہلے سال کے طالب علم ہیں ۔ الحمد اللہ

محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے مورخہ 09 اپریل 2021 کو حضور ایدہ اللہ تعالی نے والد محترم کی نماز جنازہ غائب پڑھائی اور ان تاریخی الفاظ میں والد صاحب کا ذکر خیر فرمایا۔

’’اگلا جنازہ میاں منظور احمد غالب صاحب ابن میاں شیر محمد صاحب آف دودہ ضلع سرگودھا کا ہے۔ آپ7 فروری کو وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کے بڑے بھائی کو 1955ء میں احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی تھی ۔ پھر بڑے بھائی کے ساتھ یہ ربوہ جاتے رہے اور وہاں انہوں نے بیعت کر لی۔ ان کے بیٹے بشیر احمد صاحب بیلجئم کہتے ہیں کہ آپ خلافت کے فدائی عاشق تھے اور خلافت کی اطاعت میں کوئی توجیہ نہیں کرتے تھے بلکہ من و عن عمل کرنا سمجھتے تھے اور میں ذاتی طور پر ان کا واقف تھا اور یہ یقیناً بہت اخلاص و وفا سے جماعت کی خدمت کرنے والے بھی اور خلافت کی اطاعت کرنے والے تھے۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے خادم دین مہمان نواز انتہائی درویش طبع غریب پرور ملنسار نہایت شفیق اور ہر دلعزیز شخصیت کے مالک تھے۔ اللہ کے فضل سے ان کو خدام الاحمدیہ ضلع میں بھی پھر انصار اللہ ضلع پھر جماعت میں ضلع کی سطح پر سیکرٹری مال سیکرٹری وقف جدید سیکرٹری تحریک جدید کی خدمت کی توفیق ملی سرگودھا میں اور بڑے احسن رنگ میں انہوں نے اپنی خدمات سر انجام دیں۔ ان کے ایک پوتے مربی سلسلہ ہیں یہاں سفیر احمد آجکل پی۔ ایس میں کام کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔‘‘

ہمارے والد مکرم ومحترم میاں منظور احمد غالب صاحب مورخہ 7 فروری 2021 بعمر 76 برس اس دار فانی سے عالم جاودانی کو انتقال فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

بلانے والا ہے سب سے پیارا
اسی پے اے دل تو جاں فدا کر

آپ دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے، خادمِ دین، مہمان نواز، انتہائی درویش طبع، غریب پرور، ملنسار، نہایت شفیق اور ہر دلعزیز شخصیت کے مالک تھے۔

(میاں عطاءالعلیم لیور پول یوکے اور ایم این احمد غالب)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 مئی 2021