• 24 اپریل, 2024

مالی نظام (ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الخامس)

مالی نظام
ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

بچوں کو بھی چندے دینے کی عادت ڈالیں

پھر آپؑ (حضرت مسیح موعودؑ) نے فرمایا کہ ’’قوم کو چاہیے کہ ہر طرح سے اس سلسلہ کی خدمت بجا لاوے۔ مالی طرح پر بھی خدمت کی بجا آوری میں کوتاہی نہیں چاہیے۔ دیکھو دنیا میں کوئی سلسلہ بغیر چندہ کے نہیں چلتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ سب رسولوں کے وقت چندے جمع کئے گئے ۔پس ہماری جماعت کے لوگوں کو بھی اس امر کا خیال ضروری ہے۔ اگر یہ لو گ التزام سے ایک ایک پیسہ بھی سال بھر میں دیویں تو بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ ہاں اگر کوئی ایک پیسہ بھی نہیں دیتا تو اسے جماعت میں رہنے کی کیا ضرورت ہے‘‘

پھر فرمایا: ’’انسان اگر بازار جاتا ہے تو بچے کی کھیلنے والی چیزوں پر ہی کئی کئی پیسے خرچ کر دیتا ہے۔ تو پھر یہاں اگر ایک ایک پیسہ دے دیوے تو کیا حرج ہے؟ خوراک کے لیے خرچ ہوتا ہے، لباس کے لیے خرچ ہوتا ہے، اَور ضرورتوں پر خرچ ہوتا ہے، تو کیادین کے لیے ہی مال خرچ کرنا گراں گزرتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ ان چند دنوںمیں صدہا آدمیوں نے بیعت کی ہے مگر افسوس ہے کہ کسی نے ان کو کہا بھی نہیں کہ یہاں چندوں کی ضرورت ہے۔ خدمت کرنی بہت مفید ہوتی ہے۔ جس قدر کوئی خدمت کرتا ہے اسی قدر وہ راسخ الایمان ہو جاتا ہے اور جو کبھی خدمت نہیں کرتے ہمیں تو ان کے ایمان کا خطرہ ہی رہتا ہے۔ چاہیے کہ ہماری جماعت کا ہر ایک متنفس عہد کرے کہ مَیں اتنا چندہ دیا کروں گا کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے عہد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں برکت دیتا ہے‘‘

پھر آپؑ نے فرمایا: ’’بہت لوگ ایسے ہیں کہ جن کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ چندہ بھی جمع ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو سمجھانا چاہیے کہ اگر تم سچا تعلق رکھتے ہو تو خداتعالیٰ سے پکا عہد کر لو کہ اس قدر چندہ ضرور دیا کروں گا اور ناواقف لوگوں کو یہ بھی سمجھایا جاوے کہ وہ پوری تابعداری کریں۔ اگر وہ اتنا عہد بھی نہیں کر سکتے تو پھر جماعت میں شامل ہونے کا کیا فائدہ۔ نہایت درجہ کا بخیل( کنجوس) اگر ایک کوڑی بھی روزانہ اپنے مال میں سے چندے کے لیے الگ کرے تو وہ بھی بہت کچھ دے سکتا ہے۔ ایک ایک قطرہ سے دریا بن جاتا ہے۔ اگر کوئی چارروٹی کھاتا ہے تو اسے چاہیے کہ ایک روٹی کی مقدار اس میں سے سلسلہ کے لیے بھی الگ کر رکھے اور نفس کو عادت ڈالے کہ ایسے کاموں کے لیے اسی طرح سے نکالا کرے۔ چندے کی ابتدا اس سلسلہ سے ہی نہیں ہے بلکہ مالی ضرورتوں کے وقت نبیوں کے زمانوں میں بھی چندے جمع کئے گئے تھے‘‘۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ361-358 جدید ایڈیشن)

پس جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ بچوں، کھلونوں وغیرہ پر خرچ کر دیتے ہیں تو دین کے لیے کیوں نہیں کئے جاتے۔ تو اس وقت بھی جب بچوں پہ خرچ کر رہے ہوتے ہیں اگر بچوں کو سمجھایا جاوے اور کہا جائے کہ تمہیں بھی مالی قربانی کرنی چاہیے اور اس لیے کہ جماعت میں بچوں کے لیے بھی، جو نہیں کماتے ان کے لیے بھی ایک نظام ہے۔ تحریک جدید ہے، وقف جدید ہے۔ تو اس لحاظ سے بچوں کو بھی مالی قربانی کی عادت ڈالنے کے لیے ان تحریکوں میں حصہ لینا چاہیے۔ اس کےلیے کہنا چاہیے، اس کی تلقین کرنی چاہیے۔ جب بھی بچوں کو کھانے پینے کے لیے یا کھیلنے کے لیے رقم دیں تو ساتھ یہ بھی کہیں کہ تم احمدی بچے ہو اور احمدی بچے کو اللہ تعالیٰ کی خاطر بھی اپنے جیب خرچ میں سے کچھ بچا کر اللہ کی خاطر، اللہ کی راہ میں دینا چاہیے۔

اب عید آ رہی ہے۔ بچوں کو عیدی بھی ملتی ہے تحفے بھی ملتے ہیں۔ نقدی کی صورت میں بھی۔ اس میں سے بھی بچوں کو کہیں کہ اپنا چندہ دیں۔ اس سے پھر چندہ ادا کرنے کی اہمیت کا بھی احساس ہوتا ہے اور ذمہ داری کا بھی احساس ہوتا ہے۔ بچہ پھر یہ سوچتا ہے اور بڑے ہو کر یہ سوچ پکّی ہو جاتی ہے کہ میرا فرض بنتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر خرچ کروں، قربانیاں دوں۔

نومبائعین کو ابتدا سے چندہ کی عادت ڈالیں

پھر نومبائعین کے بارے میں فرمایا کہ بیعت کرتے ہیں اور وہ چندہ نہیں دیتے۔ ان کو بھی اگر شروع میں یہ عادت ڈال دی جائے کہ چندہ دینا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اس کے دین کی خاطر قربانی کی جائے تو اس سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے تو ان کو بھی عادت پڑ جاتی ہے۔ بہت سے نومبائعین کو بتایا ہی نہیں جاتا کہ انہوں نے کو ئی مالی قربانی کرنی بھی ہے کہ نہیں۔ تو یہ بات بتانا بھی انتہائی ضروری ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کا پھر ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے جو مالی قربانیاں نہیں کرتے۔ اب اگر ہندوستان میں، انڈیا میں اور افریقن ممالک میں یہ عادت ڈالی جاتی تو چندے بھی کہیں کے کہیں پہنچ جاتے اور تعداد بھی کئی گنا زیادہ ہو سکتی تھی۔ …

(خطبہ جمعہ فرمودہ 5نومبر 2004ء ،مشعل راہ جلد پنجم حصہ دوم،
ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الخامس (ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز) ص125تا127)

مالی قربانی اصلاح نفس اور قرب الٰہی کا ذریعہ

… مالی قربانی اصلاح نفس اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے بہت ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کا کئی جگہ ذکر فرمایا ہے، مختلف پیرایوں میں اس کی اہمیت بیان فرمائی ہے۔ پس جماعت احمدیہ میں جو مختلف مالی قربانی کی تحریکات ہوتی ہیں یہ اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے اور دلوں کو پاک کرنے کی کڑیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے راستے میں خرچ کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ

وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللّٰهِ

(الحديد: 11)

اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ پس اپنی زندگیوں کو سنوارنے کے لئے مالی قربانیوں میں حصہ لینا انتہائی ضروری ہے بلکہ یہ بھی تنبیہ ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے والے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں۔ جیسے کہ فرماتا ہے وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ (البقرة: 196)۔ اور اللہ کے راستے میں مال خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ پس جیسا کہ میں نے کہا یہ مالی تحریکات جو جماعت میں ہوتی ہیں، یا لازمی چندوں کی طرف جو توجہ دلائی جاتی ہے یہ سب خداتعالیٰ کے حکموں کے مطابق ہیں۔ پس ہر احمدی کو اگر وہ اپنے آپ کو حقیقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کی طرف منسوب کرتا ہے اور کرنا چاہتا ہے، اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے مالی قربانیوں کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مخلصین کی ایک بہت بڑی جماعت اس قربانی میں حصہ لیتی ہے لیکن ابھی بھی ہر جگہ بہت زیادہ گنجائش موجود ہے۔ یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہی حکم فرمایا ہے کہ اگر آخرت کے عذاب سے بچنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی جنتوں کے وارث بننا ہے تو مال و جان کی قربانی کرو۔ اس زمانے میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آ کر تلوار کا جہاد ختم کر دیا تو یہ مالی قربانیوں کا جہاد ہی ہے جس کو کرنے سے تم اپنے نفس کا بھی اور اپنی جانوں کا بھی جہاد کر رہے ہوتے ہو۔ یہ زمانہ جو مادیت سے پُر زمانہ ہے ہر قدم پر روپے پیسے کا لالچ کھڑا ہے۔ ہر کوئی اس فکر میں ہے کس طرح روپیہ پیسہ کمائے چاہے غلط طریقے بھی استعمال کرنے پڑیں کئے جائیں۔

(سلطان نصیر احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 جون 2021