• 26 اپریل, 2024

نفس کو مارو کہ اس جیسا کوئی دشمن نہیں

بچپن میں ہم ایک رسالہ پڑھا کرتے تھے جو حکیم محمد سعید مرحوم کے ادارے ہمدرد فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ’’نونہال‘‘ کے نام سے شائع ہوا کرتا تھا ۔پڑھنے کے بعد وہ ہمارے کمرے کی الماری میں بنی چھوٹی سی لائبریری کی زینت بن جاتا تھا ۔اس زمانے میں ہم نے بعض جنوں بھوتوں، شہزادوں وغیرہ کی کہانیاں ایسی پڑھیں جو تھیں تو بظاہر ناممکن مگر وہ گہرا سچائی کا سبق دے جاتی تھیں ۔اور پھر اسی قسم کی سبق آموز کہانیوں پر مبنی بچوں کے پروگرام بھی ہم نے پی ٹی وی پر دیکھے۔ آجکل کے دور میں تو ایسی سبق آموز کہانیاں لکھنے اور پروگرام بنانے کا رواج ہی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اعلیٰ اقدار کو اجاگر کرنے کا جذبہ ابھی زندہ تھا۔ وہ کہانیاں اس قسم کی ہوتی تھیں کہ مثلاً ایک شہزادہ ہے اس کو مہم سر کرنی ہے مگر شرط یہ ہے کہ دائیں بائیں کی آوازوں پر کان نہیں دھرنے،ان سے متاثر ہوئے بغیر سیدھے راستے پر چلتے ہوئے اپنی مہم کو سر کرنا ہے ۔جہاں بھی کوئی ان آوازوں سے متاثر ہو کر انکی طرف دیکھے گا وہ وہیں پتھر کا ہوجائے گا ۔اب بظاہر یہ ناممکن نظر آتا ہے مگر جب ہم روحانی دنیا کی بات کریں تو بعینہٖ یہی واقعہ رونما ہوتا ہے ۔جہاں بھی انسان صراط مستقیم پر چلتے چلتے بیرونی آوازوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے وہ وہیں پتھر کا ہوجاتا ہے ۔یعنی شیطان کا بندہ بن جاتا ہے ۔قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ جہنم کا ایندھن پتھر بھی ہونگے۔یہ وہی پتھر ہیں جو صراط مستقیم پر چلتے ہوئے کھوئے گئے۔ان کہانیوں میں آگے چل کر یہ بھی آتا ہے کہ باوجود سمجھانے کے کہ ان آوازوں سے خوف نہ کھاؤ ۔یہ بے اثر آوازیں ہیں۔ان کی لالچ اور تمناؤں کے بہکاوے میں نہیں آنا یہ محض دھوکہ کے سوا کچھ نہیں ۔پھر بھی کئی لوگ جانتے بوجھتے ہوئے ان آوازوں کی طرف دیکھتے ہیں اور وہیں پتھر کے ہوجاتے ہیں۔جب شہزادہ اپنی منزل کی جانب رواں دواں سفر کرتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ جگہ جگہ راستے میں لوگ پتھر بنے ہوئے ہیں۔ بالآ خر جب وہ اپنی منزل مقصود تک پہنچتا ہے اور زندگی پاتا ہے تو اس سے پتھر بھی زندہ ہوجاتے ہیں ۔

اب اس طرح کی کہانیاں جوہم نے پڑھیں جو بظاہر عجیب وغریب ایک مصنوعی کہانی لگتی ہے ۔غور کریں تو خدا تعالیٰ کا بھیجا ہوا شہزادہ ایک نبی کی صورت میں جب مبعوث کیا جاتا ہے تو وہ بھی ایسا ہی زمانہ ہوتا ہے جب ہر طرف سےشیطانی آوازوں کی گونج سنائی دے رہی ہوتی ہے ۔کبھی حرص وطمع کی شکل میں، جھوٹی جنّتوں کے نظارے دکھائے جا رہے ہوتے ہیں کہ آؤ تمہیں یہاں آرام و راحت ملے گی ۔لیکن جب انسان اپنے نفس کا غلام بن کر ان لذّتوں پر ہاتھ ڈالتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ لذّتیں تو عارضی تھیں جو ساتھ دکھ لئے ہوئے تھیں ۔محض ایک سراب تھا۔

فَلَوۡلَاۤ اِذۡ جَآءَہُمۡ بَاۡسُنَا تَضَرَّعُوۡا وَ لٰکِنۡ قَسَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ وَ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیۡطٰنُ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ

(الانعام:آیت 44)

پس جب ہماری طرف سے ان پر سختی (کی مصیبت) آئی کیوں نہ انہوں نے گِریہ و زاری کی۔ لیکن ان کے دل سخت ہو چکے تھے اور شیطان نے ان کو وہ اعمال خوبصورت کرکے دکھائے جو وہ کیا کرتے تھے۔

قرآن کریم فرماتا ہے کہ آج بھی وہ خدا کے بھٹکے ہوئے بندے جن کو ان کاشیطان بعض دفعہ نصیحت کے رنگ میں،سبز باغ دکھا کر، نیکی کا لبادہ اوڑھے اور بعض دفعہ ڈرا کر خدا کے رستے سے ہٹانے کیلئے کوشاں رہتا ہے۔جو ڈر جائیں ان پر روحانی موت طاری ہو جاتی ہے ۔لیکن ایک ہے جو خدا کی روحانی سلطنت کا شہزادہ جو خدا کی مدد کے ساتھ اسی کے بتائے ہوئے راستے پر کشاں کشاں آگے بڑھتا رہتا ہے ۔نہ دائیں دیکھتا ہے نہ بائیں اور توحید کا علم بلند کئے ہوئے اپنی منزل مقصود تک پہنچتا ہے جہاں خدا اس کو اپنی گود میں لے لیتا ہے۔پھر باقی سفر خدا کی گود میں ہی کٹتا ہے ۔

اِبتدا سے تیرے ہی سائے میں میرے دن کٹے
گود میں تیری رہا مَیں مثلِ طفلِ شیر خوار

(مُناجات اور تبلیغِ حق،دُرِّثمین اُردو)

خدا کی گود میں آتے ہی جب وہ کسی پتھر پر پھونک مارے گا وہ پتھر زندہ ہوجائے گا ۔صدیوں کے روحانی مردے فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعاؤں سے اسی طرح زندہ ہوتے ہیں ۔

لیکن ہر انسان جب نبی کی پیروی میں صراط مستقیم کا سفر اختیار کرتا ہے تو بھی خطرہ موجود رہتا ہے کہ وہ کسی بھی لمحہ اپنے نفس کا بندہ بن کر دنیا کی لذّتوں میں کھویا جائےاور اس راہ سے ہٹ کر گمراہ ہوجائے ۔پس دونوں طریقے ہی پتھر بنانے والے ہیں۔جہاں ہم اپنے نفس کے شیطان کی آواز سن کر سیدھے راستے سے ہٹے وہیں خدا ئے واحد ویگانہ کی عبادت ختم اور شیطان کی شروع۔

قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَغۡوَیۡتَنِیۡ لَاُزَیِّنَنَّ لَہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَاُغۡوِیَنَّہُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ

(الحجر: آیت 40)

اس نے کہا اے میرے ربّ! چونکہ تو نے مجھے گمراہ ٹھہرا دیا ہے سو میں ضرور زمین میں (قیام) ان کے لئے خوبصورت کر کے دکھاؤں گا اور میں ضرور ان سب کو گمراہ کر دوں گا۔

اب یہاں اگر ہر انسان نظرانصاف سے اپنے اندرونی حالت کا جائزہ لے تو معلوم ہوگا کہ زندگی کے کسی نہ کسی لمحے میں ،جانے انجانے میں اس نے شیطان کی عبادت کی ہے۔ کیوں کہ جب انسان نفس کی عبادت کرتا ہے تو وہ شیطان کی عبادت ہی کررہا ہوتا ہے۔ انسان کا دل گواہی دے گا کہ میں لاعلمی میں کبھی نہ کبھی شیطان کی آواز پر لبیک کہہ چکا ہوں۔

ھویٰ کو اپنا معبود بنانا

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

اَفَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰٮہُ وَ اَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلۡمٍ وَّ خَتَمَ عَلٰی سَمۡعِہٖ وَ قَلۡبِہٖ وَ جَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً ؕ فَمَنۡ یَّہۡدِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ اللّٰہِ ؕ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ

(الجاثیہ: آیت 24)

کیا تُو نے اسے دیکھا ہے جو اپنی خواہش کو ہی معبود بنائے بیٹھا ہو اور اللہ نے اسے کسی علم کی بِنا پر گمراہ قرار دیا ہو اور اس کی شنوائی پر اور اس کے دل پر مہر لگادی ہو اور اسکی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہو؟ پس اللہ کے بعد اسے کون ہدایت دے سکتا ہے؟ کیا پھر بھی تم نصیحت نہیں پکڑو گے؟

ھویٰ کے کیا معنی ہیں۔ نفس کی تمنّا، نفس کی خواہش کو ’’ھویٰ‘‘ کہتے ہیں۔ شیطان نے جسے اپنے نفس کی تمنّا میں مبتلا کر دیا ہو۔ اپنے نفس کا اسیر بن چکا ہو ۔قرآن کریم نے اس کو بھی شرک کہا ہے۔ ظاہری شرک کرنے والے تو نبی کی دعاؤں کے فیض سے ہدایت پاجاتے ہیں لیکن قران کریم کے فرمان کے مطابق اگر کوئی ظاہری مشرک نہ بھی ہو تواگر اس نے اپنے نفس کو محبوب بنایا تو اس کی ہدایت کے تمام راستے بند ہو جاتے ہیں یعنی ان کے کانوں، دلوں اور آنکھوں پر پردہ پڑ جاتا ہے ۔اب دیکھیں کتنا بڑا شرک ہے۔ مگر پھر بھی روزمرہ کی زندگی میں سب سے زیادہ عبادت اپنے نفس کی عبادت ہی نظر آتی ہے۔

شیطان کے حملوں کی اقسام

ایک حملہ تفکرات کا ہے۔ جہاں دنیاوی تفکرات اتنا ہجوم کرلیں انسان کے دل و دماغ پر کہ خدا کا تصور مغلوب ہوجائے، مدھم ہوجائے۔ تو یہ روحانی مرض رفتہ رفتہ شرک کا روپ دھار لیتا ہے۔ کسی کا پیارا بچہ، عزیز رشتہ دار وغیرہ فوت ہوجائے، کسی کو مالی نقصان ہوجائے، ملازمت چلی جائے یا کوئی جائداد کا مقدمہ ہار جائے تو فوراً یہ تفکرات انسان کو اس طرح گھیر لیتے ہیں کہ پھر معلوم پڑتا ہے کہ اس نے تو اپنے نفس کو معبود بنایا تھا یا کہ نہیں۔ اگر تو نفس ہی اس کا معبود تھا تو پھر وہ وہیں خطرہ محسوس کرتا ہے اور خدا پر بھی مایوس ہوکر زبان کھولنے لگ جاتاہے۔

جیسا کہ فرمایا:

فَاَمَّا الۡاِنۡسَانُ اِذَا مَا ابۡتَلٰٮہُ رَبُّہٗ فَاَکۡرَمَہٗ وَ نَعَّمَہٗ ۬ۙ فَیَقُوۡلُ رَبِّیۡۤ اَکۡرَمَنِ

(الفجر: آیات 16)

پس انسان کا حال یہ ہے کہ جب اُس کا ربّ اُس کی آزمائش کرتا ہے پھر اُسے عزّت دیتا اور اُسے نعمت عطا کرتا ہے تو وہ کہتا ہے میرے ربّ نے میرا اِکرام کیا ہے۔

وَ اَمَّاۤ اِذَا مَا ابۡتَلٰٮہُ فَقَدَرَ عَلَیۡہِ رِزۡقَہٗ ۬ۙ فَیَقُوۡلُ رَبِّیۡۤ اَہَانَنِ

(الفجر: آیات 17)

اور اس کے برعکس جب وہ اُس کی آزمائش کرتا اور اس کا رزق اس پر تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے میرے ربّ نے میری بے عزتی کی ہے۔

لیکن جو لوگ اپنی ھویٰ کو اپنا معبودسمجھنے کے بجائے خدا تعالیٰ کو اپنا معبود سمجھتے اور اپنی سوچوں کا قبلہ اسی کی طرف رکھتے ہیں ان کا تو یہی جواب ہوتا ہے کہ

الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

(البقرہ: آیت157)

اُن لوگوں کو جن پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم یقیناً اللہ ہی کے ہیں اور ہم یقیناً اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ وَ مَنۡ یَّتَّبِعۡ خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ فَاِنَّہٗ یَاۡمُرُ بِالۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ لَوۡ لَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ رَحۡمَتُہٗ مَا زَکٰی مِنۡکُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ اَبَدًا ۙ وَّ لٰکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِّیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ

(النور:آیت 22)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! شیطان کے قدموں پر مت چلو۔ اور جو کوئی شیطان کے قدموں پر چلتا ہے تو وہ تو یقینا بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں کا حکم دیتا ہے۔ اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہو تو تم میں سے کوئی ایک بھی کبھی پاک نہ ہو سکتا۔ لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک کر دیتا ہے۔ اور اللہ بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔

مندرجہ بالا آیت کی تشریح میں ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ
قرآن کریم میں چار پانچ مختلف جگہوں پر یہ حکم ہے کہ شیطان کے قدموں پر نہ چلو، ان پر چلنے سے بچتے رہو۔ کبھی عام لوگ مخاطب ہیں اور بعض جگہ مومنوں کو مخاطب کیا گیاہے۔ تو ایمان لانے والوں کو یہ تنبیہ کی ہے، مومنوں کو یہ تنبیہ کی ہے کہ یہ نہ سمجھوکہ ہم ایمان لے آئے اس لئے ہمیں اب کسی چیز کی فکر نہیں ہے۔ فرمایا کہ نہیں۔ تمہیں فکر کرنی چاہئے۔ کیونکہ جہاں تم ذرا بھی لا پرواہ ہوئے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری توجہ ہٹی تو تمہارا ایمان ضائع ہونے کا خطرہ ہر وقت موجود ہے۔ کیونکہ شیطان گھات میں بیٹھا ہے۔ اس نے تو آدم کی پیدائش کے وقت سے ہی کہہ دیاتھا کہ اب مَیں ہمیشہ اس کے راستے پر بیٹھا رہوں گااور شیطان نے اپنے پر یہ فرض کر لیا تھا کہ اللہ تعالیٰ جو بھی آدم اور اس کی اولاد کے لئے نیک راستے تجویز کرے گا وہ ہر وقت ہر راستے پر بیٹھ کر ان کو گمراہ کرنے کی کوشش کرے گا اور شیطان نے یہ کہا کہ مَیں ان کے د لوں میں طرح طرح کی خواہشات پیدا کروں گا تاکہ وہ سیدھے راستے سے بھٹکتے رہیں۔ مختلف طریقوں سے انسانوں کو ورغلانے کی کوشش کرتا رہوں گا۔ اگر ایک دفعہ میرے ہاتھ سے نکل بھی جائیں تو مَیں لگاتار حملے کرتارہوں گا کیونکہ مَیں تھک کر بیٹھنے والا نہیں ہوں۔ مَیں دائیں سے بھی حملہ کروں گا، مَیں بائیں سے بھی حملہ کروں گا، پیچھے سے بھی حملہ کروں گا، سامنے سے بھی حملہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ کو اس نے ایک طرح کا چیلنج دیاتھاکہ ایسے ایسے طریقوں سے حملہ کروں گا کہ ان میں سے بہتوں کو توشکرگزار نہیں پائے گا۔ تو خیر وہ تو اللہ تعالیٰ نے اس کو جواب دیا لیکن دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ناشکرگزار لوگ ہوتے ہیں تو واضح ہوگیا کہ وہ شیطان کے قدموں پر چلنے والے ہیں۔ اور شیطان کے قدموں پر حکم بھی ہے کہ نہ چلو تو اس کا حکم کیاہے۔ جیساکہ واضح ہے کہ شیطان کا راستہ اختیار نہ کرو۔ ان باتوں پر عمل نہ کرو جو شیطان کے رستے کی طرف لے جانے والی ہیں۔ جب انسان مومن بھی ہو، پتہ بھی ہو کہ شیطان کا راستہ کون سا ہے اور پھر یہ بھی پتہ ہو کہ شیطان کا راستہ انتہائی بھیانک راستہ ہے۔ یہ مجھے تباہی کے گڑھے کی طرف لے جائے گا توپھر کیوں ایسا شخص جو ایک دفعہ ایمان لے آیاہو شیطان کے راستے کو اختیار کر ے گا اور اپنی تباہی کے سامان پیدا کرے گا۔ کوئی عقل والا انسان جس نے ایمان بھی دیکھ لیاہو، جانتے بوجھتے ہوئے کبھی بھی اپنے آپ کو اس تباہی میں نہیں ڈالے گا۔ تو پھرکیوں مومنین کو یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ شیطان کے راستے پر مت چلو، اس سے بچتے رہو۔ تو ظاہر ہے یہ وارننگ، یہ تنبیہ اس وجہ سے دی گئی ہے جیساکہ مَیں نے پہلے بھی بتایاہے کہ شیطان نے کھلے طورپر آدم کو، اس کی اولاد کو چیلنج دے دیا تھاکہ مَیں تمہیں ورغلاتا رہوں گا اور ایسے ایسے طریقوں سے ورغلاؤں گا، اور ایسی ایسی جہتوں سے حملہ کروں گا کہ تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گاکہ ہوکیاگیاہے۔ اور یہ حملے ایسے پلاننگ سے اور آہستہ آہستہ ہوں گے کہ تم غیر محسوس طریق پر یہ راستہ اختیار کر تے چلے جاؤ گے میرا مسلک اختیار کرتے چلے جاؤ گے۔

پھر فرمایا۔ ’’پھر بے شمار برائیاں ہیں جو شیطان بہت خوبصورت کرکے دکھا رہا ہوتاہے اور جن سے اللہ کے فضل کے بغیر بچنا ممکن نہیں۔ مثلاً ایک اچھا بھلا شخص جو بظاہر اچھا بھلا لگتاہے، کبھی کبھار مسجد میں بھی آجاتاہے، جمعوں میں بھی آتاہوگا، چندے بھی کچھ نہ کچھ دیتاہے لیکن اگر کاروبار میں منافع کمانے کے لئے دھوکہ دیتاہے تووہ شیطان کے قدموں کے پیچھے چل رہاہے۔ اور شیطان اس کو مختلف حیلوں بہانوں سے لالچ دے رہاہے کہ آج کل یہی کاروبار کا طریق ہے۔ اگر تم نے اس پرعمل نہ کیا تو نقصان اٹھاؤگے اور وہ اس کہنے میں آ کر، ان خیالات میں پڑ کر، اس لالچ میں دھنستا چلا جاتاہے اور آہستہ آہستہ جو تھوڑی بہت نیکیاں بجا لارہاہوتاہے وہ بھی ختم ہوجاتی ہیں اور مکمل طورپر دنیا داری اسے گھیرلیتی ہے اور ایسے لوگ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ شاید اب یہی ہے ہماری زندگی، شایداب موت بھی نہیں آنی اور ہمیشہ اسی طرح ہم نے رہناہے۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر نہیں ہونا۔ تو ایسے طریقے سے شیطان ایسے لوگوں کو اپنے قبضہ میں لیتاہے کہ بالکل عقل ہی ماری جاتی ہے۔ پھر جب ایک برائی آتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فضل اٹھ جاتاہے تو اس طرح پھر ایک کے بعد دوسری برائی آتی چلی جاتی ہے اور ایسے لوگ پھر دوسروں کے حقوق مارنے والے بھی ہوتے ہیں، دوسروں کے حقوق پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔ بہن بھائیوں کی جائیدادوں کو کھاجانے والے بھی ہوتے ہیں، رحمی رشتوں کو بھلا دینے والے بھی ہو جاتے ہیں۔ غرض ہر قسم کی نیکی، ہر قسم کی برکت ان پر سے، ان کے گھروں سے اٹھ جاتی ہے اور یہ آپ بھی پھر آہستہ آہستہ بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کی اولادیں بھی بے راہ روی کا شکار ہوجاتی ہیں اور انجام کار یہی نتیجہ نکلتاہے کہ ایسے لوگ پھر جماعت میں بھی نہیں رہتے۔ توشیطان کے ایسے پیروکاروں سے اللہ تعالیٰ خود بھی جماعت کو پاک کردیتاہے۔ اگر آپ جائزہ لیں تو خود بھی آپ جائزہ لے کر یہی دیکھیں گے اور یہ بڑا واضح اور صاف نظرآجائے گا کہ جماعت کو چھوڑنے والے اکثر ایسے لوگ ہی ہوتے ہیں‘‘-

(خطبہ جمعہ 12؍ دسمبر 2003ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

مزید شیطان کے حملوں کے طریق کے بارے میں ہمارےپیارے امام فرماتے ہیں کہ
’’یہ بات بھی ہمیں یاد رکھنی چاہئے کہ شیطان کا حملہ ایک دم نہیں ہوتا۔ وہ آہستہ آہستہ حملہ کرتا ہے۔ کوئی چھوٹی سی برائی انسان کے دل میں ڈال کر یہ خیال پیدا کر دیتا ہے کہ اس چھوٹی سی برائی سے کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ کون سا بڑا گناہ ہے۔ پھر یہ چھوٹی چھوٹی برائیاں بڑے گناہوں کی تحریک کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ ڈاکہ اور قتل ہی بڑے گناہ ہیں۔ کوئی بھی برائی جب معاشرے کا امن و سکون برباد کرے تو وہ بڑی برائی بن جاتی ہے۔ انسان کو یہ احساس مٹ جاتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر پاک ہونا ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے تو جہاں مستقل مزاجی سے برائیوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے شیطان کے قدموں پر چلنے سے بچنا ہے وہاں مستقل مزاجی سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ کر پاک ہونے کی کوشش کرنا بھی ضروری ہے اور مستقل اور ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کو پکارنے اور اس سے مدد مانگنا بھی ضروری ہے۔ اس کے بغیر انسان شیطان کے حملوں سے بچ نہیں سکتا۔‘‘

(خطبہ جمعہ 11؍ مارچ 2016ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

نفس کے شیطان سے بچاؤ کے طریقے

اب جب ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ شیطان کن کن راہوں سے حملہ کرتا ہے تو اس سے بچنے کی مدد بھی ہم خدا سے ہی مانگیں گے۔جیسا کہ سورہ فاتحہ میں ہمیں سکھایا گیا ہے

اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ

تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے ہم مدد چاہتے ہیں۔

ہمارے پیارے امام فرماتے ہیں۔
’’حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے اپنی تفسیر میں۔ کہ ایک بزرگ تھے جن کے پاس ان کا شاگرد کافی عرصہ رہا اور تعلیم حاصل کرتا رہا۔ جب وہ تعلیم سے فارغ ہو کر اپنے گھر جانے لگا تو اس بزرگ نے اس سے دریافت کیا کہ میاں! تم اپنے گھر جارہے ہو کیا تمہارے ملک میں شیطان ہے؟ وہ یہ سوال سن کر حیران رہ گیا۔ اور اس نے کہا شیطان بھلا کہاں نہیں ہوتا۔ ہر ملک میں شیطان ہوتاہے اور جہاں مَیں جارہاہوں وہاں بھی شیطان موجود ہے۔ آپ نے فرمایا اچھا۔ اگر وہاں شیطان ہے تو پھر جو کچھ تم نے میرے پاس رہ کر علم حاصل کیا ہے جب اس پر عمل کرنے لگو گے تو لازماً شیطان تمہارے رستہ میں روک بن کر حائل ہوگا۔ ایسی حالت میں تم کیا کروگے؟ وہ کہنے لگا مَیں شیطان کا مقابلہ کروں گا، اس سے لڑوں گا۔ وہ بزرگ کہنے لگے بہت اچھا تم نے شیطان کامقابلہ کیا اور وہ تمہارے دفاع کی تاب نہ لاکر بھاگ گیا۔ لیکن جب پھر تم عمل شروع کروگے وہ حملہ کرے گا تو پھر کیا کروگے۔ انہوں نے کہا پھر مَیں شیطان کا مقابلہ کروں گا۔ پھر اگر وہ دوڑ جائے گا پھرعمل کرنے لگو گے توپھر آجائے گا۔ جب دو تین دفعہ اس نے پوچھا تو شاگر دنے کہا کہ مجھے تو سمجھ نہیں آئی آپ مجھے بتائیں مَیں کس طرح مقابلہ کروں۔ جب مَیں مقابلہ کرنے لگوں گاتو شیطان دوڑ جائے گا۔ جب میں عمل کرنے لگوں گا تو شیطان پھر آ جائے گا۔ توبزرگ نے کہا کہ اگر تم اپنے کسی دوست کے گھرجاؤ اور اس کے دروازے پر ایک کتا بندھاہو اور وہ تمہیں کاٹنے کو پڑ جائے تو تم کیا کروگے۔ اس نے کہا مَیں اس کا مقابلہ کروں گا جومیرے ہاتھ میں سوٹی ہے، چھڑ ی ہے یا زمین پر کوئی روڑہ پتھر نظر آئے تو اس کوماروں گا اور اس کو بھگا دوں گا۔ اس نے کہاٹھیک ہے دوڑ گیا۔ پھر جب تم اس کے دروازے میں داخل ہونے لگو پھر تمہاری ٹانگ پکڑ لے گا توپھر کیا کروگے۔ کہاپھر مَیں اسی طرح ماروں گا۔ تو دو تین دفعہ جب انہوں نے پوچھا کہ کیاکرو گے کتے کے ساتھ۔ تو کہنے لگا آخرمیں یہی ہوگا کہ اس دوست کو آواز دو ں گا کہ تمہارا کتامجھے آنے نہیں دے رہا تم میری جان چھڑاؤ اس سے۔ تو اس بزرگ نے کہاکہ یہی شیطان کاحال ہے۔ شیطان بھی اللہ میاں کا کتاہے۔ جب انسان پر باربار حملہ آور ہو اور اس کو اللہ تعالیٰ کے قریب نہ ہونے دے تو اس کا یہی علاج ہے کہ اللہ تعالیٰ کو پکارواور اسے آواز دو کہ اے اللہ!مَیں آپ کے پاس آنا چاہتا ہوں مگر آپ کا یہ کتا مجھے آنے نہیں دیتا۔ اسے روکئے تاکہ مَیں آپ کے پاس پہنچ جاؤں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اسے روک دے گا اور انسان شیطان کے حملے سے محفوظ ہوجائے گا۔ تو فرماتے ہیں کہ غرض طہارت کامل جس کے بعد کوئی ارتداد اور فسق نہیں ہوتا محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ حاصل ہوتی ہے۔ پہلے انسان آپ پاک ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگے، اس کے آگے روئے، گڑگڑائے کہ مجھے شیطان سے بچا تو پھر اللہ تعالیٰ کا فضل بھی شامل حال ہوجاتا ہے اور پھر فرمایا کہ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوتی ہے جسے انسانی دعائیں اپنی طرف کھینچتی رہتی ہیں۔ تویہ ہے شیطان سے بچنے کا طریقہ کہ شیطان سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے مددمانگو اور صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاؤ اور غیراللہ سے دل نہ لگاؤ۔

پھر حدیث میں شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے یہ دعا سکھائی ہے۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ فرمایا کیا مَیں تمہیں ایک ایسی دعا نہ بتاؤں جو ہمیں رسول اللہﷺ سکھایا کرتے تھے۔ وہ یہ دعا تھی کہ اے اللہ !مَیں عاجز آجانے، سستی، بخل، بزدلی، انتہائی بڑھاپے اور عذاب قبر سے تیری پناہ میں آنا چاہتاہوں۔ اے میرے اللہ میرے نفس کو اس کا تقویٰ عطا کر۔ وَزَکِّھَا وَاَنْتَ خَیْرُ مَنْ زَکّٰھَا اور اس کو، نفس کو پاک کر اور تُوہی بہترین پاک کرنے والا ہے۔ انسان کو پاک کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مَیں ہی ہوں جسے چاہتاہوں پاک کرتا ہوں توُ اس کاولی اور اس کا مولیٰ ہے۔ اے اللہ! مَیں ایسے دل سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو خشوع اختیار نہیں کرتا اور ایسے دل سے جو کبھی سیر نہیں ہوتا اور ایسے علم سے جو نفع نہیں دیتا۔ اور ایسی دعا سے جو قبول نہ ہو۔

(سنن نسائی کتاب الاستعاذہ باب الاستعاذہ من العجز)

(خطبہ جمعہ 12؍ دسمبر 2003ء فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز، بحوالہ۔الاسلام ویب سائٹ)

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز شیطانی نفس کے مارنے کے طریقوں کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’جب کوئی مصائب میں گرفتار ہوتا ہے تو قصور آخر بندے کا ہی ہوتا ہے۔‘‘ (مصیبتوں میں گرفتار ہونے کے بعد یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مصیبت آ گئی۔ نہیں۔ قصور بندے کا ہوتا ہے۔) ’’خدا تعالیٰ کا تو قصور نہیں۔ بعض لوگ بظاہر بہت نیک معلوم ہوتے ہیں اور انسان تعجب کرتا ہے کہ اس پر کوئی تکلیف کیوں وارد ہوئی یا کسی نیکی کے حصول سے یہ کیوں محروم رہا لیکن دراصل اس کے مخفی گناہ ہوتے ہیں جنہوں نے اس کی حالت یہاں تک پہنچائی ہوئی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ بہت معاف کرتا ہے اور درگذر فرماتا ہے اس واسطے انسان کے مخفی گناہوں کا کسی کو پتا نہیں لگتا۔ مگر مخفی گناہ دراصل ظاہر کے گناہوں سے بدتر ہوتے ہیں۔ گناہوں کا حال بھی بیماریوں کی طرح ہے۔ بعض موٹی بیماریاں ہیں‘‘ (یعنی ظاہر کی بیماری) ’’ہر ایک شخص دیکھ لیتا ہے کہ فلاں بیمار ہے۔ مگر بعض ایسی مخفی بیماریاں ہیں کہ بسا اوقات مریض کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ مجھے کوئی خطرہ دامن گیر ہو رہا ہے۔ ایسا ہی تپ دق ہے کہ ابتدا میں اس کا پتا بعض دفعہ طبیب کو بھی نہیں لگ سکتا یہاں تک کہ بیماری خوفناک صورت اختیار کرتی ہے۔‘‘ (بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ آخری سٹیج پر جا کر پتا چلتا ہے۔ بعض دفعہ کینسر کے مریض ہیں۔ اچھا بھلا صحت مند انسان بظاہر لگ رہا ہوتا ہے اور ایک دم پتا لگتا ہے کہ کینسر ہے اور ایسی سٹیج پر چلا گیا ہے جہاں اب کوئی علاج نہیں۔ پھیل چکا ہے اور مہینے کے اندر اندر انسان ختم ہو جاتا ہے۔ پس فرمایا کہ جس طرح بیماری کا پتا نہیں لگتا) ’’ایسا ہی انسان کے اندرونی گناہ ہیں جو رفتہ رفتہ اسے ہلاکت تک پہنچا دیتے ہیں۔ خدا تعالیٰ اپنے فضل سے رحم کرے۔ قرآن شریف میں آیا ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا (الشمس: 10) کہ اس نے نجات پائی جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا۔ لیکن تزکیۂ نفس بھی ایک موت ہے۔ جب تک کہ کُل اخلاق رذیلہ کو ترک نہ کیا جاوے تزکیۂ نفس کہاں حاصل ہوتا ہے۔‘‘ (جتنے بیہودہ گندے گھٹیا اخلاق ہیں جب تک ان کو ترک نہیں کرو گے جن پہ شیطان چلانا چاہتا ہے۔ فحشاء اور منکر پر چلانا چلاتا ہے۔ منکر کا مطلب ہی یہی ہے کہ ہر ایسی چیز جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے وہ منکر ہے۔ جب تک کُل اخلاق رذیلہ کو ترک نہ کیا جاوے تزکیۂ نفس کہاں حاصل ہو سکتا ہے۔) ’’ہر ایک شخص میں کسی نہ کسی شر کا مادہ ہوتا ہے وہ اس کا شیطان ہوتا ہے جب تک کہ اس کو قتل نہ کرے کام نہیں بن سکتا۔‘‘

(ملفوظات جلد9 صفحہ280-281۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)

پس جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ ہمیں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی پناہ کی ضرورت ہے اور اپنے جائزے لیتے رہنے کی ضرورت ہے۔

شیطان کو مارنے کے لئے کیا اور کس طرح ہمیں قدم اٹھانا چاہئے اس بارے میں ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’پیغمبر الوہیت کے مظہر اور خدانما ہوتے ہیں۔ پھر سچا مسلمان اور معتقد وہ ہوتا ہے جو پیغمبروں کا مظہر بنے۔ صحابہ کرام نے اس راز کو خوب سمجھ لیا تھا اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ایسے گم ہوئے اور کھوئے گئے کہ ان کے وجود میں اور کچھ باقی رہا ہی نہیں تھا۔ جو کوئی ان کو دیکھتا تھا ان کو محویت کے عالم میں پاتا تھا‘‘۔ (اللہ تعالیٰ کے قرب کو پانے میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کو اپنانے میں ڈوبے ہوئے تھے۔) ’’پس یاد رکھو کہ اس زمانے میں بھی جب تک وہ محویت اور وہ اطاعت میں گمشدگی پیدا نہ ہو گی جو صحابہ کرام میں پیدا ہوئی تھی مریدوں معتقدوں میں داخل ہونے کا دعویٰ تب ہی سچا اور بجا ہو گا۔ یہ بات اچھی طرح پر اپنے ذہن نشین کر لو کہ جب تک یہ نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ تم میں سکونت کرے اور خدا تعالیٰ کے آثار تم میں ظاہر ہوں اس وقت تک شیطانی حکومت کا عمل و دخل موجود ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ168-169۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)

(خطبہ جمعہ 11؍ مارچ 2016ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

نفس کا محاسبہ کرتے رہو

حضرت عمر فاروق ؓکا ایک قول ہے کہ حَاسِبُوْ اقَبْلَ اَنْ تُحَاسَبُوْا کہ بندے کو ہمیشہ اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیئے قبل اس کے کہ کوئی اور حساب کتاب لے۔

اپنے نفس کو بدیوں سے بچا کر نیک راہوں پر چلانے کے لئے سب سے بہترین اور اولین طریقہ ہمیں پیارے آقا حضرت محمدﷺ نے عملاً سکھایا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اپنے خدا سے نمازوں میں رو رو کر دعائیں مانگیں اور شیطان مردود کے شر سے بچنے کے لئے اس کی مدد طلب کرتے رہیں۔ نفس کی بدیوں سے حفاظت اور نیکیوں میں ترقی کے لئے آپؐ اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے۔ جو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہیئے۔ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ۔

اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔ حضرت ام سلمہؓ نے اس دعا کو کثرت سے اور باقاعدگی سے پڑھنے کی وجہ پوچھی توآپﷺ نے فرمایا اے ام سلمہؓ !انسان کا دل خدا تعالی کی دوانگلیوں کے درمیان ہے، جسے چاہے ثابت قدم رکھے اور جسے چاہے ٹیڑھاکر دے، اس لیے اسی سے مدد مانگنی چاہیے۔

(ترمذی کتاب الدعوات)

ایک اور موقع پر آپؐ محاسبہ نفس کے متعلق فرماتے ہیں :
عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے۔ اور موت کے بعد کی زندگی کے لئے عمل کرے اور عاجز وہ ہے جو اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کرے۔ اور اللہ تعالیٰ سے اپنی آرزوؤں کی تکمیل کا خواہش مند رہے۔

(جامع ترمذی کتاب الزھد)

؎اے میری الفت کے طالب
یہ میرے دل کا نقشہ ہے
اب اپنے نفس کو دیکھ لے تُو،
وہ ان باتوں میں کیسا ہے

(کلامِ محمود)

حرف آخر

اللہ کرے کہ ہم خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بننے کی کوشش کریں۔ تمام فحشاء اور منکر سے بچیں۔ تمام قسم کی برائیوں سے بچیں۔ ہر قسم کے تکبر سے بچیں۔ اپنے نفس کے تزکیہ کی کوشش کرتے رہیں تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں۔ ہمیشہ ہماری نظر خدا تعالیٰ پر ہو اور وہی ہمارا رب رہے۔ ہمیشہ اسی کی مالکیت ہمارے دلوں پر قبضہ جمائے رکھے۔ وہی ہمارا معبود رہے اور اس کو ہم ہمیشہ پکارنے والے بنے رہیں اور شیطان کے قدموں پر چلنے سے بچتے رہیں۔ آمین

نفس کو مارو کہ اُس جیسا کوئی دشمن نہیں
چپکے چپکے کرتا ہے پیدا وہ سامانِ دِمار

(مناجات اور تبلیغ حق۔ درثمین اردو)

(خالد محمود شرما۔کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 جون 2021