• 20 اپریل, 2024

خواہش کا کوئی باب مکمل نہیں ہوا

خواہش کا کوئی باب مکمل نہیں ہوا
دیکھا ہے جو بھی خواب مکمل نہیں ہوا

اس نے مرے جواب سے ڈھونڈا ہے پھر سوال
جبکہ مرا جواب مکمل نہیں ہوا

بے ہوش تھا پڑا رہا وہ آرزو کے بعد
جب تک ترا نقاب مکمل نہیں ہوا

منزل نہ مل سکی اسے جب تک کہ راہرو
فطرت سے ہم رکاب مکمل نہیں ہوا

پاگل ابھی سے ہو رہی ہیں تتلیاں تمام
تیار وہ گلاب مکمل نہیں ہوا

ہے جستجوئے یار تو دل کا گھڑا سنبھال
بپھرا ابھی چناب مکمل نہیں ہوا

میں جانتا تھا خواہشیں دشمن کا روپ ہیں
ان سے بھی اجتناب مکمل نہیں ہوا

چہرہ بدل بدل کے جو ملتا ہے روز و شب
لگتا ہے اک عذاب مکمل نہیں ہوا

ترکش میں تیر ہیں تو انہیں آزمائیے
گھائل یہ دل جناب مکمل نہیں ہوا

ہوتا رہا ہے تیرا کبھی میرا، آج تک
دل کا بھی انتساب مکمل نہیں ہوا

چہرے پہ اطمِنان بتاتا ہے یہ نجیب!
تیرا بھی احتساب مکمل نہیں ہوا

(نجیب احمد فہیم)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 جون 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ