خواہش کا کوئی باب مکمل نہیں ہوا
دیکھا ہے جو بھی خواب مکمل نہیں ہوا
اس نے مرے جواب سے ڈھونڈا ہے پھر سوال
جبکہ مرا جواب مکمل نہیں ہوا
بے ہوش تھا پڑا رہا وہ آرزو کے بعد
جب تک ترا نقاب مکمل نہیں ہوا
منزل نہ مل سکی اسے جب تک کہ راہرو
فطرت سے ہم رکاب مکمل نہیں ہوا
پاگل ابھی سے ہو رہی ہیں تتلیاں تمام
تیار وہ گلاب مکمل نہیں ہوا
ہے جستجوئے یار تو دل کا گھڑا سنبھال
بپھرا ابھی چناب مکمل نہیں ہوا
میں جانتا تھا خواہشیں دشمن کا روپ ہیں
ان سے بھی اجتناب مکمل نہیں ہوا
چہرہ بدل بدل کے جو ملتا ہے روز و شب
لگتا ہے اک عذاب مکمل نہیں ہوا
ترکش میں تیر ہیں تو انہیں آزمائیے
گھائل یہ دل جناب مکمل نہیں ہوا
ہوتا رہا ہے تیرا کبھی میرا، آج تک
دل کا بھی انتساب مکمل نہیں ہوا
چہرے پہ اطمِنان بتاتا ہے یہ نجیب!
تیرا بھی احتساب مکمل نہیں ہوا
(نجیب احمد فہیم)