• 17 مئی, 2024

کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار

تکبر کسی بھی انسان کے اعلیٰ اخلاق کو کھا جانے والا ایسا بد خُلق ہے جو اسےشرک تک لے جاتا ہے۔ جبکہ اس کے مقابل پر عاجزی اور انکساری وہ حسین خُلق ہے جوانسان کو اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بننے اور اعلیٰ مراتب کا وارث بناتا ہے۔ زیر نظر مضمون انہی دو اہم امور کے متعلق اسلامی تعلیم کے رہنما اصولوں پر مشتمل ہے۔

مضمون کا عنوان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اک شعر کا دوسرا مصرعہ ہے جس میں فرمایا کہ

گالیاں سُن کر دعا دو پا کے دُکھ آرام دو
کبر کی عادت جو دیکھو تُم دکھاؤ اِنکسار

قرآن میں کبر کی مذمت اور انکساری کی تعلیم

اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے

وَلَا تُصَعِّرۡ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرٍ

(لقمان: 19)

ترجمہ: اور (نخوت سے) انسانوں کے لئے اپنے گال نہ پُھلا اور زمین میں یونہی اکڑتے ہوئے نہ پھر۔ اللہ کسی تکبر کرنے والے (اور) فخرومباہات کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔

اسی طرح ایک دوسری آیت میں تکبر کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:

وَاَمَّا الَّذِيْنَ اسْتَنْكَفُوْا وَاسْتَكْبَرُوْا فَيُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا اَلِــيْمًا وَّلَا يَجِدُوْنَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا

ترجمہ:اور وہ لوگ جنہوں نے (عبادت کو) ناپسند کیا اور استکبار کیا تو انہیں وہ درد ناک عذاب دے گا اور اللہ کے علاوہ وہ اپنے لیےکوئی دوست اورمددگار نہیں پائیں گے۔

پھر عاجزی اور انکساری کے خُلق کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَعِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ہَوۡنًا وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الۡجٰہِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا

(الفرقان: 64)

ترجمہ: اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو (جواباً) کہتے ہیں ’’سلام‘‘۔

احادیث اور قرآن کریم میں
کبر کی مذمت اور انکساری کی تعلیم
گناہ کی جڑ

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:
تین باتیں ہر گناہ کی جڑ ہیں ان سے بچنا چاہئے۔ تکبر سے بچو کیونکہ تکبر نے ہی شیطان کو اس بات پر اکسایا کہ وہ آدم کوسجدہ نہ کرے۔ دوسرے حرص سے بچو کیونکہ حرص نے ہی آدم کو درخت کھانے پر اکسایا۔تیسرے حسد سے بچو کیونکہ حسد کی وجہ سے ہی آدم کے دوبیٹوں میں سے ایک نے اپنے بھائی کو قتل کر دیا تھا۔

(قشیریہ باب الحسد صفحہ79)

تکبر کیا ہے؟

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:
جس کے دل میں ذرہ بھر بھی تکبر ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل نہیں ہونے دے گا۔ ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ! انسان چاہتاہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو، جوتی اچھی ہو اور خوبصورت لگے۔ آپ ؐنے فرمایا:یہ تکبر نہیں۔ آپؐ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ جمیل ہے، جمال کو پسند کرتاہے، یعنی خوبصورتی کو پسند کرتاہے۔ تکبر دراصل یہ ہے کہ انسان حق کا انکار کرنے لگے، لوگوں کو ذلیل سمجھے، ان کو حقار ت کی نظر سے دیکھے اوران سے بُری طرح پیش آئے۔

(صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم الکبر وبیانہ)

اللہ تعالیٰ کا فیصلہ

پھر ایک روایت میں آتاہے حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
دوزخ اور جنت کی آپس میں بحث اور تکرار ہو گئی۔ دوزخ نے کہاکہ مجھ میں بڑے بڑے جابر اورمتکبر داخل ہوتے ہیں اور جنت کہنے لگی کہ مجھ میں کمزور اور مسکین داخل ہوتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے دوزخ کو فرمایا کہ تو میرے عذاب کی مظہرہے۔ جسے میں چاہتا ہوں تیرے ذریعہ عذاب دیتا ہوں۔ اور جنت سے کہا تو میری رحمت کی مظہر ہے جس پر میں چاہوں تیرے ذریعہ رحم کرتا ہوں۔ اور تم دونوں میں سے ہر ایک کو اس کا بھرپورحصہ ملے گا۔

(صحیح مسلم کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا واھلھا باب النار یدخلھا الجبارون)

مقام علیین اور اسفل السافلین کا درجہ

حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضورﷺ نے فرمایا جس نے اللہ کی خاطر ایک درجہ تواضع اختیار کی اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ رفع کرے گا یہاں تک کہ اسے عِلِّیِّیْن میں جگہ دے گا، اور جس نے اللہ کے مقابل ایک درجہ تکبّر اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو ایک درجہ نیچے گرا دے گا یہاں تک کہ اسے اَسْفَلُ السَّافِلِیْن میں داخل کردے گا۔

(مسند احمد بن حنبل، باقی مسند المکثرین من الصحابۃ مسند ابی سعید الخدری)

خاکساری کا بلند مرتبہ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:
صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ کا بندہ جتنا کسی کو معاف کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی زیادہ اسے عزت میں بڑھاتا ہے۔ جتنی زیادہ کوئی تواضع اور خاکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی اسے بلند مرتبہ عطا کرتا ہے۔

(مسلم کتاب البرو الصلۃ باب استحباب العفو و التواضع)

تواضع اختیار کرو اور فخر نہ کرو

عِیَاذ بِن حِمَار بن مُجَاشِع کے بھائی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہمارے درمیان خطاب کرتے ہوئے کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی کی ہے کہ تم اس قدر تواضع اختیار کرو کہ تم میں سے کوئی ایک دوسرے پر فخر نہ کرے، اورکوئی ایک دوسرے پر ظلم نہ کرے۔

(مسلم، کتاب الجنۃ ونعیمھا، باب الصفات التی یعرف بھا فی الدنیا اھل الجنۃ واھل النار)

کبر کی مذمت اور انکساری کی تعلیم کے متعلق
حضرت مسیح موعودؑ کے فرمودات

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے احمدی کے لیے جو دس شرائط بیعت مقرر فرمائی ہیں ان میں ساتویں شرط تکبر کو چھوڑنے اور عاجزی اور انکساری کے اختیار کرنے کے متعلق ہے چنانچہ فرمایا:
ہفتم:یہ کہ تکبر اور نخوت کو بکلّی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اورحلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا۔

مومن کی نشانی

حضور علیہ السلام کے دیگر ارشادات اس پر مزید روشنی ڈالتے ہیں جن سے تکبر کی بیزاری اور انکساری کی اہمیت عیاں ہوتی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:
’’تکبّر بہت خطرناک بیماری ہے جس انسان میں یہ پیدا ہو جاوے اس کے لئے روحانی موت ہے۔ میں یقینا ًجانتا ہوں کہ یہ بیماری قتل سے بھی بڑھ کر ہے۔ متکبر شیطان کا بھائی ہو جاتا ہے۔ اس لئے کہ تکبّر ہی نے شیطان کو ذلیل و خوار کیا۔ اس لئے مومن کی یہ شرط ہے کہ اس میں تکبّر نہ ہو بلکہ انکسار، عاجزی، فروتنی اس میں پائی جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے ماموروں کا خاصہ ہوتا ہے ان میں حد درجہ کی فروتنی اور انکسار ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر آنحضرت ﷺ میں یہ وصف تھا۔ آپؐ کے ایک خادم سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ آپؐ کا کیا معاملہ ہے۔ اس نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ مجھ سے زیادہ وہ میری خدمت کرتے ہیں‘‘۔ (اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِکْ وَسَلِّمْ

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ437-438)

تکبر جیسی اور کوئی بلا نہیں

پھر فرمایا:
’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ قیامت کے دن شرک کے بعد تکبر جیسی اور کوئی بلا نہیں۔ یہ ایک ایسی بلا ہے جو دونوں جہان میں انسان کو رسوا کرتی ہے۔ خدا تعالیٰ کا رحم ہر ایک موحد کا تدارک کرتا ہے مگر متکبر کا نہیں۔ شیطان بھی موحد ہونے کادم مارتا تھا مگر چونکہ اس کے سر میں تکبر تھا اور آدم کو جو خدا تعالیٰ کی نظر میں پیارا تھا۔ جب اس نے توہین کی نظر سے دیکھا اور اس کی نکتہ چینی کی اس لئے وہ مارا گیا اور طوق لعنت اس کی گردن میں ڈالا گیا۔ سو پہلا گناہ جس سے ایک شخص ہمیشہ کیلئے ہلاک ہوا تکبر ہی تھا۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5)

پاک ہونے کا عمدہ طریق

اسی طرح آپؑ فرماتے ہیں:
’’پس میرے نزدیک پاک ہونے کا یہ عمدہ طریق ہے اور ممکن نہیں کہ اس سے بہتر کوئی اور طریق مل سکے کہ انسان کسی قسم کا تکبر اور فخر نہ کرے نہ علمی نہ خاندانی نہ مالی۔ جب خدا تعالیٰ کسی کو آنکھ عطا کرتا ہے تو وہ دیکھ لیتا ہے کہ ہر ایک روشنی جو ان ظلمتوں سے نجات دے سکتی ہے وہ آسمان سے ہی آتی ہے اور انسان ہر وقت آسمانی روشنی کا محتاج ہے۔ آنکھ بھی دیکھ نہیں سکتی جب تک سورج کی روشنی جو آسمان سے آتی ہے نہ آئے۔ اسی طرح باطنی روشنی جو ہر ایک قسم کی ظلمت کو دور کرتی ہے اور اس کی بجائے تقویٰ اور طہارت کا نور پیدا کرتی ہے آسمان ہی سے آتی ہے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا تقویٰ، ایمان، عبادت، طہارت سب کچھ آسمان سے آتا ہے۔ اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے وہ چاہے تو اس کو قائم رکھے اور چاہے تو دور کردے۔

پس سچی معرفت اسی کا نام ہے کہ انسان اپنے نفس کو مسلوب اور لاشئی محض سمجھے اور آستانۂ الوہیت پر گر کر انکسار اور عجز کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کو طلب کرے۔ اور اس نور معرفت کو مانگے جو جذبات نفس کو جلا دیتا ہے اور اندر ایک روشنی اور نیکیوں کے لئے قوت اور حرارت پیدا کرتا ہے۔ پھر اگر اس کے فضل سے اس کو حصہ مل جاوے اور کسی وقت کسی قسم کا بسط اور شرح صدر حاصل ہو جاوے تو اس پر تکبر اور ناز نہ کرے بلکہ اس کی فروتنی اور انکسار میں اور بھی ترقی ہو۔ کیونکہ جس قدر وہ اپنے آپ کو لاشئی سمجھے گا اسی قدر کیفیات اور انوار خدا تعالیٰ سے اتریں گے جو اس کو روشنی اور قوت پہنچائیں گے۔ اگر انسان یہ عقیدہ رکھے گا تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی اخلاقی حالت عمدہ ہو جائے گی۔ دنیا میں اپنے آپ کو کچھ سمجھنا بھی تکبر ہے اور یہی حالت بنا دیتا ہے۔ پھر انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ دوسرے پر لعنت کرتا ہے اور اسے حقیر سمجھتا ہے۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ212-213)

خلیفۂ وقت کی آواز ایک اعلیٰ وصف اور عمدہ خُلق

ہمارے پیارے امام سیدناحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزشرائط بیعت کی شرط ہفتم کی تشریح میں فرماتے ہیں:
’’پھر دوسری بات جو اس شرط میں بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ فروتنی اور عاجزی اورخوش خلقی اورحلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کروں گا۔ جیساکہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ جب آپ اپنے دل ودماغ کو تکبر سے خالی کرنے کی کوشش کریں گے، خالی کریں گے تو پھر لازماً ایک اعلیٰ وصف، ایک اعلیٰ صفت، ایک اعلیٰ خُلق اپنے اندرپیداکرنا ہوگا ورنہ پھر شیطان حملہ کرے گا کیونکہ وہ اسی کام کے لئے بیٹھا ہے کہ آپ کا پیچھا نہ چھوڑے۔ وہ خُلق ہے عاجزی اورمسکینی۔ اور یہ ہو نہیں سکتاکہ عاجز اورمتکبر اکٹھے رہ سکیں۔ متکبر لوگ ہمیشہ ایسے عاجز لوگوں پر جو عبادالرحمٰن ہوں طعنہ زنیاں کرتے رہتے ہیں، فقرے کستے رہتے ہیں تو ایسے لوگوں کے مقابل پر آپ نے ان جیسا رویہ نہیں اپنانا۔ بلکہ خداتعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرنا ہے۔‘‘ فرمایا: اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو (جواباً) کہتے ہیں ’’سلام‘‘۔

پھر فرمایا:
’’پس ہر احمدی کو بھی وہی راہ اختیار کرنی چاہئے، ان راہوں پر قدم مارنا چاہئے جن پر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیﷺ چل رہے ہیں۔ہر ا حمدی کو اپنے آپ کو مسکینوں کی صف میں ہی رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ یہی عہد بیعت ہے کہ مسکینی سے زندگی بسر کروں گا۔‘‘

(شرائط بیعت اور ہماری ذمہ داریاں)

غرض حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے شعر کا یہ مصرعہ کہ ’’کِبر کی عادت جو دیکھو تُم دکھاؤ انکسار‘‘ ہر احمدی کے لیے وہ عظیم رہنما اصول ہے جس پر عمل کرتے ہوئے ہم نہ صرف اپنی زندگیاں بلکہ اعلیٰ اخلاق پر مشتمل معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ پس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مسیح پاک کی اس نصیحت کو اپنی زندگیوں میں ڈھالنے والے بنیں اور اپنی نسلوں کو بھی تکبر سے دور عاجزی اور انکساری کی راہوں پر گامزن کرنے والے ہوں۔ کیونکہ خداتعالیٰ کو بھی یہی ادا پسند ہے جس کا اظہار اس نے پیارے مسیح سے بذریعہ الہام فرمایا کہ
’’تیری عاجزانہ راہیں مجھے پسند آئیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر کما حقہ عمل پیرا ہونے ک توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(لقمان احمد شاد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 جون 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ