• 18 مئی, 2024

پاکستان کا شمال حسن سے مالامال (قسط دوم)

پاکستان کا شمال حسن سے مالامال
قسط دوم

پہلی قسط کے لئے دیکھیں الفضل آن لائن موٴرخہ 30؍مئی 2022ء

وادیٔ نیلم

دریائے نیلم کے کنارے 144کلومیٹر طویل وادیٔ نیلم مظفرآباد کے شمال اور شمال مشرق میں واقع ہے۔اس کا صدر مقام اٹھمقام ہے۔نیلم پہلے آزادکشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کی ایک تحصیل ہوا کرتی تھی جسے 2005ء میں ضلع کا درجہ دیا گیا۔ اب یہ آزادکشمیر کا سب سے بڑا ضلع ہے جس کی دو تحصیلیں اٹھمقام اور شاردہ ہیں۔ یہاں آکر ادراک ہوتا ہے کہ کشمیر کو کس باعث جنت نظیر کہا جاتا ہے۔ جوں جوں آپ اس وادیٔ میں آگے بڑھتے جائیں اس کے انتہائی مسحور کن حسن کے سحر میں قید ہوتے چلے جاتے ہیں۔ نیلم کی خاص بات یہ ہے کہ اگر سیاح صرف مرکزی سڑک پر ہی چلتے چلے جائیں تو بھی قدرتی مناظر سے بھرپور حظ اٹھا سکتے ہیں۔

بلندوبالا سرسبز پہاڑوں، گھنے جنگلات اور قسم ہا قسم کے پھلوں سے لدے خوبصورت باغات پر مشتمل اس وادی تک پہنچنے کے لیے دو راستے ہیں۔ایک راستہ جو کہ عام اور معروف ہے وہ راولپنڈی سے براستہ مری مظفرآباد اور مظفرآباد سے وادیٔ نیلم ہے۔ جبکہ دوسرا راستہ ایبٹ آباد سے ہے۔دو سال قبل ہزارہ موٹر وے بننے کے بعد موٹر وے کے راستہ سے بھی مظفرآباد جایا جا سکتا ہے۔ ایبٹ آباد سے ہزارہ موٹر وے کے راستے shahta interchange پر اتر کے براستہ گڑھی حبیب اللہ مظفرآباد جاتے ہیں۔

اگر آپ ناران سے واپسی پر نیلم جانا چاہتے ہیں تو بالاکوٹ سے مظفرآباد کی جانب بہت صاف اور کشادہ روڈ جاتا ہے۔جس پر آپ باآسانی ایک سے ڈیڑھ گھنٹے میں مظفرآباد پہنچ سکتے ہیں۔جبکہ براستہ مری راولپنڈی سے مظفرآباد تین سے چار گھنٹہ کی مسافت ہے۔

اسی طرح لوکل ٹرانسپورٹ پر راولپنڈی سے وادی ٔ نیلم جانے کے لیےراولپنڈی کے پیر ودھائی اڈہ سے سے روزانہ دو سروسز نیلم کے لیے روانہ ہوتی ہیں جو وادیٔ نیلم کے آخری بس اسٹاپ کیل تک جاتی ہیں۔اسی طرح واپسی پر بھی یہی دو سروسز دوپہر اور شام کو روانہ ہوتی ہیں اور قریباً بارہ گھنٹوں میں راولپنڈی پہنچا دیتی ہیں۔جبکہ مظفرآباد سے بھی قریباً ہر آدھ گھنٹے کے بعد نیلم کے لیے بسیں اور ویگنیں چلتی ہیں۔

راولپنڈی سے دو سے چار روز میں نیلم کے ٹرپ کے ذریعہ اس وادی کے حسن سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔آئیے اب کشمیر کی اس حسین وادی کے بعض مقامات کا تعارف حاصل کرتے ہیں۔

پیر چناسی

گو کہ یہ خوبصورت مقام وادیٔ نیلم میں نہیں بلکہ مظفر آباد سے 30 کلو میٹر کی بلندی پر پہاڑ کی چوٹی پر ہے۔اکثر سیاح نیلم جاتے ہوئے پیرچناسی کے حسن کا نظارا کرتے ہوئے آگے جاتے ہیں۔پیر چناسی دراصل ایک بزرگ کے نام سے منسوب ہے جن کا مزار پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے۔بعض کے نزدیک یہ ایک فرضی قبر ہے۔ یہ مقام سطح سمندر سے9500 فٹ بلند ہے۔ مظفرآباد سے ایک سے ڈیڑھ گھنٹے میں باآسانی یہاں پہنچا جا سکتا ہے۔ٹھنڈیانی کی طرح پیرچناسی بھی شہر سے قریب بلندی پر واقع پُرفضا اور سرد مقام ہے اور ایبٹ آباد سے ٹھنڈیانی جانے والی سڑک کی طرح مظفرآباد سے پیرچناسی کو جانے والی سڑک کی بھی مسلسل چڑھائی ہے۔

پیرچناسی پہنچنے سے کچھ پہلے ایک مقام سراں ہے۔ یہاں ایک ریسٹ ہاؤس اور پیراگلائیڈرز پوائنٹ ہے۔اگر موسم صاف ہو تو یہاں آپ کو پیراگلائیڈنگ کرتے ہوئے گلائیڈرز نظر آئیں گے۔یہ پیرا گلائیڈنگ سراں سے مظفرآباد ائیر پورٹ تک کی جاتی ہے۔ہوا میں اڑتے رنگ برنگےپیراشوٹس مظفر آباد کی فضاؤں کو مزید رعنائی بخش رہے ہوتے ہیں۔بعض سیاح پیرچناسی پر رات کو کیمپنگ بھی کرتے ہیں۔رات کے وقت یہاں گرمیوں میں بھی موسم کافی سرد ہوتا ہے۔لیکن رات قیام کے لیے یہاں کوئی ہوٹل موجود نہیں ہے۔صرف چنددکانیں اور ایک دو ادنیٰ درجہ کے ریسٹورنٹس ہیں۔پیرچناسی پر ایک طرف نیلم کا خوبصورت پہاڑی سلسلہ اور دوسری جانب وادیٔ کاغان کاخوبصورت پہاڑ ماکڑا نظر آتا ہے۔ماہ جولائی و اگست میں قریباً روزانہ شام کے وقت پیرچناسی کی بلندی پر بادلوں سے برستا پانی جل تھل کر کے موسم کو مزید خوشگوار بنا دیتا ہے۔

کنڈل شاہی

مظفرآباد سے 74 کلومیٹر کے فاصلہ پر کنڈل شاہی نامی خوبصورت مقام ہے۔یہاں پر ایک چھوٹا سا بازار بھی ہے۔ کنڈل شاہی کا قصبہ وادی کے اس مقام پر واقع ہے جہاں جاگراں نالہ دریائے نیلم میں گرتا ہے۔سیاح وادیٔ نیلم جاتے ہوئے یہاں کچھ دیر سستانے اور خوبصورتی کا مشاہدہ کرنے کے لیے یہاں رکتے ہیں۔کنڈل شاہی میں ایک حسین آبشار بھی ہے۔آبشار دیکھنے کے لیے نیلم کو جانے والے راستے سے بائیں جانب مڑ کرایک پختہ راستہ پر دو کلومیٹر کی مسافت کے بعد یہ آبشار گرتی نظر آتی ہے۔قدرت کا یہ نادر اورحسین شاہکار ہے۔اگرچہ یہ آبشار بہت زیادہ بلند تو نہیں لیکن چوڑائی زیادہ ہونے کی وجہ سے اپنی خوبصورتی میں مشہور ہے۔2018ء میں یہاں جاگراں نالے پر بنا لکڑی کا ایک پل ٹوٹنے کی وجہ سے 25 طلباء ڈوب گئے تھے۔

اٹھمقام

مظفرآباد سے 80 کلومیٹر کے فاصلہ یہ ضلع نیلم کی تحصیل اور اس کا صدر مقام ہے۔دریائے نیلم کے کنارے اٹھمقام نامی یہ قصبہ وادیٔ نیلم کا سب سے بڑا آبادی والا علاقہ ہے۔یہاں ایک یونیورسٹی اور دو تین کالجز بھی ہیں۔یہاں بہت سے ہوٹلز اور ریسٹورنٹس ہیں۔باوجود اس کے کہ یہ بہت دلکش علاقہ ہے لیکن اکثر سیاح یہاں قیام سے بہتر آگے جانے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ مظفرآباد سے اٹھمقام قریب ہے اور سیاح مزید آگے وادی کے اندر کیرن، نیلم یا شاردہ وغیرہ ٹھہرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔

اٹھمقام سے لوات تک مسلسل انڈیا کا سرحدی علاقہ آپ کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔پہلے انڈیا کا ضلع بارہ مولا اور پھر کپواڑہ کے حسین نظارے آپ کی آنکھوں کو خیرہ اوردل کو موہ لیتے ہیں۔جا بجا آپ کو یہ منظر نظر آئے گا کہ دریا کے ایک جانب پاکستان کا سبز ہلالی پرچم جبکہ دوسری جانب انڈیا کے لہراتے جھنڈے نظر آئیں گے۔

کیرن

مظفرآباد سے کیرن ساڑھے تین سے چار گھنٹے کا سفر ہے۔یہ لوئر نیلم بھی کہلاتا ہے۔دریائے نیلم اور لائن آف کنٹرول پر واقع یہ چھوٹا سا قصبہ سیاحوں کو بے اختیار رکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔دریا کے کنارے کیمپنگ بھی کی جا سکتی ہے۔جبکہ یہاں سرکاری ریسٹ ہاؤسز، عمدہ اور درمیانی درجہ کے ہوٹلز اور رات قیام کے لیے ہٹس اور ٹینٹس بھی لگے ہوئے ہیں۔یہ ایک پر سکون اور خاموش لیکن بے حددلکش جگہ ہے۔یہاں انتہائی تیز رفتاری سے بہتا دریائے نیلم کا پانی بھی بے حد پرسکون محسوس ہوتا ہے۔کیرن اور اس سے ملحقہ علاقہ میں دریائے نیلم ہی لائن آف کنٹرول سمجھا جاتا ہے۔دریا کی دوسری جانب ہندوستان ہے اور اور عجیب اتفاق یہ کہ دوسری طرف گاؤں کا نام بھی کیرن ہی ہے۔ بہت سے سیاح یہاں دریا کے کنارے باربی کیو بھی کرتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل تک یہاں لکڑی کے ہوٹلز تھے تاہم سیاحوں کی کثرت سے آمد کی وجہ سے اور بدلتے حالات کے باعث اب لکڑی کے ہوٹلز نظر نہیں آتے۔

نیلم گاؤں

یہ گاؤں اس وادی کے حسن کی معراج کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔اسی گاؤں کے نام پر اس وادی کا نام ہے۔اس گاؤں کو اب اپر نیلم بھی کہا جاتا ہے۔یہاں پہنچ کر یوں محسوس ہوتا ہےکہ آپ جنت نظیر نہیں بلکہ جنت میں ہی پہنچ گئے ہیں۔جو سیاح اس وادی سے متعارف ہیں وہ اس گاؤں میں لازماً ایک رات گزارتے ہیں۔اس گاؤں میں گزشتہ چند سالوں میں بڑی کثرت سے ہوٹلز بنے ہیں۔گاؤں کے بالائی حصہ میں آپ کیمپنگ بھی کر سکتے ہیں۔گاؤں کے اوپر کی جانب کھڑے ہو کر بل کھاتے دریائے نیلم،پاکستان اور ہندوستان کے علاقہ میں بلند و بالا درختوں میں گھرے فلک بوس پہاڑوں، سیب،خوبانی، اخروٹ، آڑو اور ناشپاتی کے باغات کا دلفریب نظارہ قلب و نظر کو عجیب طراوت اورفرحت بخشتا ہے۔گاؤں کے مقامی لوگ بھی بے حد مہمان نواز اور خوش اخلاق ہیں اور آنے والے سیاحوں کو اپنی مسکراہٹ سے خوش آمدید کہتے نظر آتے ہیں۔

اس حسین گاؤں تک پہنچنے کے لیے کیرن سے بائیں جانب ایک پختہ سڑک آ رہی ہے۔گاڑی پر اس کی مسافت بیس سے پچیس منٹ جبکہ ہائیکنگ کے شوقین افراد پہاڑوں کے درمیان سے ہوتے ہوئے باآسانی ایک گھنٹہ میں یہاں پہنچ جاتے ہیں۔

پتلیاں جھیل

کیرن سے شاردہ کی جانب جائیں تو راستہ میں قریباً 3کلومیٹر بعد ایک چھوٹا سا قصبہ لوات آتا ہے۔یہاں سے ایک راستہ لوات نالہ سے ہوتا ہواپتلیاں جھیل کو جاتا ہے۔ پتلیاں تک جانے کے لیے لوات یا نلتر نالہ سے بذریعہ جیپ لوات بالا جاتے ہیں اور یہاں سے پتلیاں جھیل کا پیدل ہائیکنگ ٹریک ہے۔ یہ دودن کا ہائیکنگ ٹریک ہے۔ پتلیاں جھیل کا ٹریک کرنے کے لیے موزوں وقت ماہ جولائی و اگست ہے۔ اس کے قرب و جوار میں بھی تین، چار چھوٹی بڑی جھیلیں اور ان گنت آبشاریں ہیں جن میں جھاگ چھمبر اور کنالی آبشار مشہور ہیں۔ مین پتلیاں جھیل سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ایک جھیل پتلیاں ٹو کے نام سے بھی منسوب ہے۔ یہاں سے ایک راستہ رتی جھیل کی جانب بھی جاتا ہے۔بعض ہائیکرز یہاں سے نکلنے والی ایک گلی کے راستے بڑاوئی (وادیٔ ناران) کی طرف بھی اترتے ہیں۔یہ ایک دشوار ہائیکنگ ٹریک ہے۔

رتی جھیل

یوں تو اس وادی میں بہت سی خوبصورت جھیلیں ہیں لیکن رسائی کے اعتبار سے رتی جھیل سب سے موزوں ہے۔رتی جھیل تک پہنچنے کے لیے کیرن سے شاردہ کی جانب جانے والی سڑک پر دس کلومیٹر کی مسافت اور آدھ گھنٹہ کی ڈرائیو کے بعد ایک گاؤں دواریاں آتا ہے۔دواریاں میں پہلے صرف ایک چھوٹا ساریسٹ ہاؤس ہی ہوتا تھا لیکن چند سالوں سے یہاں ہوٹلز بننا شروع ہو گئے ہیں۔ یہاں سے بائیں جانب بلندی کی طرف جانے والا راستہ رتی گلی کو جا رہا ہے۔راستہ کی ناہمواری کے باعث یہاں سے اپنی گاڑی پر رتی گلی جانا ممکن نہیں ہے لہٰذا گاڑی یہیں کھڑی کر کے جیپ پر دَومیل نامی مقام پرجایا جاتا ہے۔دواریاں سے دَومیل قریباً ڈیڑھ سے دو گھنٹہ میں پہنچ جاتے ہیں۔جیپ کا کرایہ چار سے چھ ہزار روپے میں طے کیا جا سکتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک اس جھیل پر دواریاں سے ہائیکنگ کر کے جانا ہی ممکن تھا مگر اب قریباً تین چار سال قبل ایک کچا جیپ ٹریک دومیل تک بنا دیا گیا ہے۔ یہ راستہ بھی بے حد خوبصورت ہے۔جگہ جگہ بائیں جانب جھیل سے آنے والا نالے کا تیزز رفتار شور مچاتا بہتا پانی پہاڑی پتھروں سے زور آزمائی میں مصروف نظر آتا ہے۔بعض جگہوں پر پانی کی آواز اس قدرتیز ہوتی ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔جھیل سے نکلا یہ پانی بالآخر دواریاں کے مقام پر بڑی گرمجوشی کے ساتھ دریائے نیلم سے بغلگیر ہو جاتا ہے۔دواریاں میں ایک چھوٹی سی ٹربائن بھی لگی ہوئی ہے۔ جو اوپر سے آنے والے پانی کے نیچے گرنے کے مقام پر مقامی لوگوں نے لگائی ہوئی ہے۔یہ لوکل ٹربائن مقامی گھروں کی بجلی کی ضرورت پوری کرتی ہے۔نیلم میں اکثر مقامات پر ایسی ٹربائنز نصب ہیں۔

دَومیل سے آدھ گھنٹہ کا پیدل ٹریک آپ کو اس جھیل تک لے جاتا ہے۔ یہ ٹریک بہت زیادہ مشکل نہیں ہے۔لیکن دومیل سے باآسانی گھوڑے بھی مل جاتے ہیں۔دومیل میں رات بھی گزاری جا سکتی ہے۔ لیکن یہاں رات صرف اپنے خیمے میں یا مقامی لوگوں کے لگائے ٹینٹس میں ہی بسر ہو سکتی ہے کیونکہ یہاں کوئی ہوٹل بلکہ ہَٹ بھی نہیں ہے۔اگرآپ جون کے آخر یا جولائی کی ابتداء میں جائیں تو یہاں دَومیل میں گلیشیئر کے نہ پگھلے ہونے کی وجہ سے پہاڑ پر برف ہی برف نظر آئے گی اور بہت سے بچے اور بڑے اس گلیشیئر سے سلائیڈنگ کرتے نظر آئیں گے۔

رتی جھیل خوبصورتی اور دلکشی میں اپنی مثال آپ ہے۔جھیل کے اردگرد انواع و اقسام کے رنگ برنگے اور پرکشش پھولوں سے ڈھکے خود رو پودے لگے ہوئے ہیں جو کہ اس جھیل کی رعنائی میں اضافے کا سبب ہیں-تین اطراف سے یہ جھیل پہاڑوں میں گھری ہے۔اس جھیل کا سبز پانی اور گردا گردبرف پوش پہاڑ آنے والوں کو اپنے حسن میں جکڑ لیتے ہیں۔ یہ جھیل بالعموم ماہ جولائی و اگست میں ہی سیاحوں کو اپنے تک رسائی کی اجازت دیتی ہے کیونکہ اس سے قبل راستہ کے گلیشیئرز پگھلنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔

شاردہ

دواریاں سے مزید کچھ آگے روڈ پر چانگن نامی چھوٹا سا گاؤں ہے۔ یہاں پہنچ کر ڈرائیورز محتاط ہو جاتے ہیں کیونکہ یہاں پر سڑک سنگلاخ چٹانوں کو کاٹ کر بنائی گئی ہے اور یہاں ڈرائیور کی معمولی سی غفلت خدانخواستہ حادثے کا باعث بن سکتی ہے۔ ماضی میں یہاں بعض ایسے حادثات پیش آ چکے ہیں جن کے نتیجے میں کئی گاڑیاں دریا برد ہو گئیں۔

دریائے نیلم کے دونوں جانب آبادشاردہ ایک قصبہ ہے جو ضلع نیلم کی تحصیل بھی ہے۔ یہ دواریاں سے 27 کلومیٹر اور سوا گھنٹہ کی مسافت پر واقع ہے۔یہ قصبہ بھی وادیٔ نیلم میں کے حسن میں اضافے کا باعث ہے۔

شاردہ ایشیائی تاریخ میں قدیم علمی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ قریباً تین ہزار سال قبل مسیح میں وسطی ایشیائی قبائل یہاں وارد ہوئے جو بدھ مت اور شیومت کے پیروکار تھے۔ انہوں نے یہ بستی قائم کی۔ ان قبائل میں سے کشن قبیلے نے اپنے لیے ایک نئی دیوی کی تخلیق کی جسے شاردہ دیوی کہا جاتا تھا۔ اسی دیوی کے نام سے یہ قصبہ آج بھی آباد ہے۔ دریائے نیلم کا قدیم نام کشن گنگا بھی اسی خاندان سے منسوب ہے۔ یہ لوگ علم و فن سے روشناس تھے لہٰذا انھوں یہاں ایک علمی مرکز قائم کیا۔ مؤرخین کے مطابق زمانۂ قدیم میں چین، وسطی ایشیا اور موجودہ پاکستان اور ہندوستان کے باسی حصولِ علم کی خاطر یہاں کا رخ کیا کرتے تھے۔ اس علمی مرکز کے آثار ابھی بھی کھنڈر کی شکل میں شاردہ میں موجود ہیں جنہیں شاردہ یونیورسٹی کہا جاتا ہے۔شاردہ سے قریباً پندرہ منٹ پیدل ٹریکنگ کر کے ان کھنڈرات تک پہنچا جا سکتا ہے۔

شاردہ میں دریا کے ہر دو جانب درمیانے درجہ کے ہوٹلز بنے ہوئے ہیں۔ دریا کے دوسرے کنارے کھلا میدان ہے جہاں کیمپنگ بھی کی جا سکتی ہے۔ دریا کے دوسری طرف جانے کے لیے لوہے کا ایک پل ہے جس پر لکڑی کے تختے نصب ہیں۔ اس پل پر سے ٹرک بھی گزرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن کسی بھی گاڑی کے گزرتے وقت یہ پل پیدل چلنے والوں کو جھولے بھی دے رہا ہوتا ہے۔

شاردہ سے ایک راستہ جو ناہموار غیر پختہ ٹریک ہے. ناران کی جانب بھی نکلتا ہے۔یہ ٹریک نوری ٹاپ سے ہوتا ہوا ناران میں جل کھڈ اترتا ہے۔ ہائیکنگ اور موٹر سائیکلنگ کے شوقین افراد اس ٹریک کو استعمال کرتے ہیں۔ یہ دو دن کی ہائیکنگ اورایک روز کی موٹر سائیکلنگ ہے۔ بالعموم یہاں سےناران جانے کی بجائے ناران سے اِس طرف یعنی وادیٔ نیلم میں اترنے کو فوقیت دی جاتی ہے کیونکہ اِس جانب سے چڑھائی زیادہ ہے۔اس راستے میں بعض خوبصورت جھیلیں بھی ہائیکنگ کرنے والوں کا استقبال کرتی ہیں۔

اڑنگ کیل

شاردہ سے قریباً13کلومیٹر آگے ایک قصبہ کیل آتا ہے۔چونکہ شاردہ سے آگے روڈ کا معیار بہتر نہیں ہے اس لیے بالعموم سیاح اپنی گاڑیاں شاردہ میں پارک کر کے آگے جاتے ہیں۔کیل میں فوج کی سب چھاؤنی بھی ہے۔اس علاقہ کا اصل حسن یہاں سے قریباً پون گھنٹہ کی مسافت پر واقع خوبصورت مقام اڑنگ ہے۔ اڑنگ جانے کے لئے دریا پار کرنے کی خاطرایک لفٹ لگی ہوئی ہے۔ اس لفٹ کے ذریعہ دریائے نیلم کو پار کر کے گھنے درختوں سے گھرے پہاڑوں کے درمیان سے ایک راستہ اڑنگ کی جانب جاتا ہے۔چند سال قبل جب ابھی یہ چیئر لفٹ نہیں لگی تھی تو کیل سے اڑنگ جانے کے لیےدو گھنٹے پر مشتمل پیدل ہائیکنگ کرتے ہوئے اڑنگ جایا جاتا تھا۔لیکن اب چیئر لفٹ سے دریا پار کر کے تقریباً نصف گھنٹہ کی پیدل ٹریکنگ کے بعد آپ اس حسین و جمیل وادی میں پہنچ جاتے ہیں۔

اڑنگ پہنچ کر یوں محسوس ہوتا ہے گویا آپ کسی افسانوی اور طلسماتی علاقے میں آن پہنچے ہیں۔ حدِ نگاہ تک پھیلا ہواوسیع وعریض میدان جس میں کہیں کہیں مکئی کی لگی فصل بھی نظر آتی ہے۔ پھولو ں سے مزین مخملی گھاس، لکڑی کے مخصوص کشمیری طرز کے گھر، بدن پر سبز اور سروں پر سفید شال اوڑھے چاروں طرف بلندوبالا پہاڑ اور ان پہاڑوں میں بادام اور چیڑ کے درخت، بس یوں لگتا ہے کہ گویا خواب دیکھ رہے ہیں۔ یہاں آنے والے سیاح اس وادی کے سحر میں مبتلا ہو کر رات گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اڑنگ کےاس وسیع سبزہ زار میں لکڑی کے نقش و نگار سے آراستہ ایک خوبصورت مسجد بھی موجود ہے۔ یہاں قیام کرنے کے لیے ہٹس اور ہوٹلز بھی موجود ہیں جبکہ کیمپنگ بھی کی جا سکتی ہے۔ اگر آپ یہاں رات بسر کرنا چاہتے ہیں تو گرم کپڑے ہمراہ لانا مت بھولیں کیونکہ یہاں رات کے وقت درجہ حرارت منفی میں بھی داخل ہو جاتا ہے۔

تاؤ بٹ

اس نام سے بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ غالباً کسی خوش خوراک بٹ صاحب کا ذکر ہو رہا ہے لیکن درحقیقت یہ کسی شخصیت نہیں بلکہ پاکستان کی ایک حسین و دلفریب وادی کا نام ہے۔جو وادی ٔنیلم کے انتہائی شمال میں واقع ہے۔

کیل سے مزید آگے یہ انتہائی دلکش اور دیدہ زیب مقام تاؤبٹ ہے۔تاؤ بٹ جانے کے لیے جیپ ہائر کرنا پڑتی ہے کیونکہ یہ ایک غیر ہموار اور دشوار راستہ ہے۔بعض ہائیکنگ کے شوقین کیل سے تاؤبٹ پیدل بھی جاتے ہیں۔یہ ایک دن کا پیدل ٹریک ہے۔کیل سے تاؤبٹ بہت زیادہ چڑھائی نہیں ہے لیکن راستہ انتہائی اونچا نیچا ہے۔اس راستے کے ذریعہ جیپ میں بیٹھ کر آپ اپنی پسلیوں کی مضبوطی کا خوب امتحان لے سکتے ہیں۔لیکن تمام راستے میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چشمے بہتے نظر آتے ہیں۔ راستے کے ساتھ متعدد آبشاریں پھوار اڑاتی ہیں اور گہرائی میں دریا خوابناک حد تک شفاف ہے۔ یوں وادی کا حسن راستے کی مشکلات کو نظر انداز کرنے میں ممد بن جاتا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ وادیٔ نیلم کا اصل حسن کیل سے آگے شروع ہوتا ہے۔

کیل سے تاؤ بٹ جاتے ہوئے ابتداء میں ہی ایک جیپ ٹریک شاؤنٹر وادی کی طرف نکلتا ہے۔یہاں سے شاؤنٹر وادی تقریبا تین گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ یہاں سے آگے جیپ ٹریک ختم ہوجاتا ہے اور پھر پیدل ہائیکنگ کا آغاز ہوتا ہے۔ تقریبا دو گھنٹے کی مشکل ہائیکنگ کے بعد ڈیک ون کا مقام آتا ہے۔ شاؤنٹر اور ڈیک ون دونوں مقامات پر رہائشی کیپمس میسر ہیں۔ اس کے بعد تقریبا مزید 4 گھنٹے سے چھ گھنٹے کی ہائیکنگ پر 13500 فٹ کی بلندی پر چٹا کٹھا جھیل واقع ہے۔یہ وادیٔ نیلم کی ایک خوبصورت ترین جھیل ہے لیکن رتی جھیل سے نسبتاً کچھ چھوٹی ہے۔یہ دودن کا ہائیکنگ ٹریک ہے۔

تقریباً چار گھنٹوں کے مسلسل سفر کے بعد آپ تاؤبٹ نامی اس خوبصورت وادی داخل ہو جاتے ہیں جو پاکستان کے ان چند شمالی علاقوں میں سے ایک ہے جس کی آپ کسی بھی زاویہ سے تصویر لیں، ہر تصویر قدرتی حسن کا ایک شاہکار ہوتی ہے۔ یہ مقام تصور سے بھی زیادہ حسین ہے۔تاؤبٹ میں رات قیام کرنے کے لیے ہوٹلز اور ہٹس بنے ہوئے ہیں۔ پاک فوج کی بھی قیام گاہیں ہیں۔

خلاصہ یہ کہ اگر آپ اس مسحور کن حسین وادی سے گرمیوں میں لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں تو باآسانی تین سے چار روز میں وادیٔ نیلم کو دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن یہاں آتے وقت اصل شناختی کارڈ لانا مت بھولیں کیونکہ لائن آف کنٹرول کے ساتھ ہونے کی وجہ سے جگہ جگہ آپ کی شناخت کو پر کھا جاتا ہے۔

(م م محمود)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 جون 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ