• 19 اپریل, 2024

کیا لینا

ہم پیار کے سوداگر نفرت سے ہے کیا لینا
ہم دیپ جلاتے ہیں ظلمت سے ہے کیا لینا

ہم خاک نشینوں کو حشمت کی طلب نا ہے
جب خاک بسیرا ہے رفعت سے ہے کیا لینا

محفل کو ہے کیا نسبت تنہائی کی لذت سے
ہم تنہا تھے تنہا ہیں شہرت سے ہے کیا لینا

آسودگی گر سمجھو وہ دل کی ہی فرحت ہے
بے کل جو کرے دل کو دولت سے ہے کیا لینا

جو درد کی لذت کو محسوس کریں ان کو
اس عشق کی راہوں میں راحت سے ہے کیا لینا

(حافظ محمد مبرور)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 جولائی 2020