• 19 اپریل, 2024

عہدیداران کی ذمہ داریاں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس ہر سطح کے عہدے داروں کے لئے یہ ضروری ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کے حق صحیح طور پر ادا کرنے کی کوشش کریں۔ ہر عہدیدار کا رَکھ رکھاؤ، بول چال، عبادت کے معیار دوسروں سے مختلف ہونے چاہئیں، ایک فرق ہونا چاہئے۔

لجنہ کی عہدیدار ہیں تو اُنہیں مثلاً قرآنی حکم میں ایک پردہ ہے اُس کا خیال رکھنا ہو گا ورنہ وہ اپنی امانت کا حق ادا نہیں کر رہی ہوں گی۔ باقی احکام تو ہیں ہی، لیکن مَردوں سے زیادہ عورتوں کو ایک زائد حکم پردے کا بھی ہے۔ ناروے کے بارے میں پردے کی شکایات وقتاً فوقتاً آتی رہتی ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی ایک وقت میں بڑی سخت تنبیہ کی تھی۔ اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع بھی سمجھاتے رہے۔ لیکن آپ جو عہدیداران ہیں اگراب بھی آپ کے پردے کے معیار نہیں ہیں، عورتوں مردوں میں میل جول آزادانہ ہے، ایک دوسرے کے گھروں میں بغیر پردے کے آزادانہ آنا جانا ہے اور مجلسیں جمانا ہے جبکہ کوئی رشتے داری وغیرہ بھی نہیں ہے، صرف یہ کہہ دیا کہ فلاں میرا بھائی ہے اور فلاں میرا منہ بولا چچا یا ماموں ہے اور اس لئے حجاب کی ضرورت نہیں یا اور اسی طرح کے رشتے جوڑ لئے تو قرآن اس کی نفی کرتا ہے اور ایک مومنہ کو تاکیدی حکم دیتا ہے کہ تمہارے پر پردہ اور حجاب فرض ہے۔ حیا کا اظہار تمہاری شان ہے۔ اگر لجنہ کی ہر سطح کی عہدیدار خواہ وہ حلقہ کی ہوں، شہر کی ہوں یا ملک کی ہوں، اگر عہدیدار اپنے پردے ٹھیک کر لیں اور اپنے رویے اسلامی تعلیم کے مطابق کر لیں تو ایک اچھا خاصہ طبقہ باقیوں کے لئے بھی، اپنے بچوں کے لئے بھی اور اپنے ماحول کے لئے بھی نمونہ بن جائے گا۔ ایک لجنہ کی عہدیدار کا امانت کا حق تبھی ادا ہو گا جب وہ اَور باتوں کے ساتھ ساتھ اپنے پردہ کا حق بھی ادا کر رہی ہو گی۔ مجھے بعض کے پردہ کا حال تو ملاقات کے دوران پتہ چل جاتا ہے جب اُن کی نقابیں دیکھ کر یہ ظاہر ہو رہا ہوتا ہے کہ بڑے عرصے کے بعد یہ نقاب باہر آئی ہے جس کو پہننے میں دقت پیدا ہو رہی ہے۔ پس عہدے داربھی اور ایک عام احمدی عورت کا بھی یہ فرض ہے کہ اپنی امانتوں کا حق ادا کریں۔ آج کل اپنے زعم میں بعض ماڈرن سوچ رکھنے والے کہہ دیتے ہیں کہ پردے کی اب ضرورت نہیں ہے یا حجاب کی اب ضرورت نہیں ہے اور یہ پرانا حکم ہے۔ لیکن میں واضح کر دوں کہ قرآنِ کریم کا کوئی حکم بھی پرانا نہیں ہے اور نہ کسی مخصوص زمانے اور مخصوص لوگوں کے لئے تھا۔ احمدی مرد اور عورتیں خلافت سے وابستگی کا اظہار بڑے شوق سے کرتے ہیں، جہاں اللہ تعالیٰ نے خلافت جاری رہنے کا قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا ہے وہاں عبادتوں اور اعمالِ صالحہ سے اس کو مشروط بھی کیا ہے۔ سورۃ نور میں جہاں یہ آیت ہے اس سے دو آیات پہلے یہ بیان فرمایا ہے کہ یہ دعویٰ نہ کرو کہ ہم یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے بلکہ فرمایا طَاعَۃٌ مَّعْرُوْفَۃٌ کا اظہار کرو۔ ایسی اطاعت کرو جو عام اطاعت ہے۔ ہر اُس معاملے میں اطاعت کرو جو قرآن اور رسول کے حکم کے مطابق تمہیں کہا جائے۔ اُس پر عمل کرو اور اس کے مطابق اطاعت کرو۔ قرآن اور رسول کا حکم جب پیش کیا جائے تو فوراً مانو۔ اس بارے میں مَیں بہت مرتبہ کھل کر بتا بھی چکا ہوں۔ پس جہاں مردوں کے ساتھ عورتیں اپنے عبادتوں کے معیار بلند کریں، اپنے ایمان میں ترقی کی کوشش کریں وہاں وہ خاص حکم جو عورتوں کو ہیں اُن پر بھی عمل کرنے کی کوشش کریں۔ یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ پردے کے بارہ میں اپنے آپ کو ڈھانکنے کا حکم گو عورت کو ہے لیکن اپنی نظریں نیچی رکھنے کا اور زیادہ بے تکلفی سے بچنے کا حکم مرد اور عورت دونوں کو ہے۔ بلکہ اپنی نظریں نیچی رکھنے کا حکم پہلے مَردوں کو ہے پھر عورتوں کو ہے تا کہ مَرد بے حجابی سے نظریں نہ ڈالتے پھریں۔ پھر امانتوں میں ووٹ کے حق کا صحیح استعمال ہے، جہاں بھی استعمال ہونا ہو۔ پھر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے عہدِ بیعت کا حق ادا کرنا ہے، اس کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بڑا واضح فرمایا ہے کہ جس کے سپرد جو بھی امانتیں ہیں تم اُس کے لئے پوچھے جاؤ گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے نیک اعمال میں تکبر سے بچنے اور عاجزی اختیار کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ ہمارے ہاں اکثر مسائل اور جھگڑے تفاخر اور تکبر سے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر انسان اپنی حیثیت پر غور کرتا رہے تو ہمیشہ عاجزی کا اظہار ہو اور اس کے جائزے سب سے زیادہ انسان خود لے سکتا ہے۔ دوسرے کے کہنے پر تو بعض دفعہ غصہ بھی آجاتا ہے چِڑ بھی جاتا ہے لیکن خود اپنا جائزہ لینے کی عادت ڈالیں تو یہ سب سے بہترین طریقہ ہے۔ ایمانداری سے قرآنی احکامات کو سامنے رکھتے ہوئے جائزے لیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کا خوف ہو اور یقیناً ہر احمدی میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہے، صرف ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے تو یہ جائزے بڑی آسانی سے لئے جا سکتے ہیں۔ پس قرآنِ کریم کو پڑھتے وقت اللہ تعالیٰ کے حکموں پر غور کرنے کی عادت ڈالیں۔ آج مختصر وقت میں میں تمام احکامات کی تفصیلات تو آپ کے سامنے نہیں رکھ سکتا، جیسا کہ مَیں نے کہا خود ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور یہ تبھی ہو گا جب قرآنِ کریم کی ہر گھر میں باقاعدہ تلاوت بھی ہو، اُس کو سمجھنے کی کوشش بھی ہو اور اُس پر عمل کرنے کی کوشش بھی ہو۔ بچوں کی بھی نگرانی ہو کہ وہ نمازوں کی طرف بھی توجہ دے رہے ہیں، قرآنِ کریم کوپڑھنے کی طرف بھی توجہ دے رہے ہیں۔ ہر احمدی کو جس کا ایمان لانے کا دعویٰ ہے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایمان کا دعویٰ تبھی مکمل ہوتا ہے جب یومِ آخرت پر بھی ایمان ہو اور یقین ہو اور یہ واضح ہو کہ مرنے کے بعد کی ایک زندگی ہے جس میں اس دنیا کے کئے گئے اعمال کا حساب دینا ہو گا۔ جہاں آخری فیصلہ ہو گا، جہاں جزا سزا کا فیصلہ ہو گا۔

پس اللہ تعالیٰ نے مساجد آباد کرنے والوں کی یہ نشانی بھی بتائی ہے کہ اُن کو آخرت پر بھی ایمان ہوتا ہے۔ مرنے کے بعد کی زندگی اور وہاں حساب کتاب کو بھی وہ برحق سمجھتے ہیں اور جب برحق سمجھتے ہیں تو جہاں مسجد میں عبادت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کے باقی احکامات پر بھی عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں، اُس کے انعامات کے وارث بنیں۔ اور پھر فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ پر ایمان کامل ہو گا، اس یقین پر انسان قائم ہو گا کہ آخرت کے سوال جواب سے بھی گزرنا پڑناہے تو پھر انسان خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے گا۔ اپنی تمام تر توجہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی عبادت کرے گا اور حدیث میں آیا ہے کہ بہترین عبادت نماز ہے۔

(جامع الأحادیث از جلال الدین سیوطی باب الھمزہ مع الفاء جلد5 صفحہ186 حدیث نمبر3952 بحوالہ المکتبۃ الشاملۃCD)

جب مومنین کی جماعت نماز کے لئے جمع ہوتی ہے تو پھر جہاں خدا تعالیٰ کی وحدت کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے وہاں ایک دوسرے کے لئے نیک جذبات اور جماعتی وابستگی اور وحدت کا بھی اظہار ہو رہا ہوتا ہے۔ پھر اُن تمام نیک اعمال بجا لانے کی طرف بھی توجہ جاتی ہے جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کے حق سے ہے یا اُس کی مخلوق کے حق سے ہے۔

اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پھیلانے کا حق ادا کرنے کے لئے اور مخلوق کا حق ادا کرنے کے لئے کیونکہ ہمیشہ وسائل کی ضرورت ہے اس لئے مساجد آباد کرنے والوں کے عملوں کے ذکر میں یہ اہم بات بھی اللہ تعالیٰ نے ذکر فرما دی کہ وہ زکوٰۃ دینے والے ہوتے ہیں، مالی قربانی کرنے والے ہوتے ہیں۔ اپنے مال کو اپنے تک محدودنہیں رکھتے بلکہ دین اور مخلوق کے حق کی ادائیگی کے لئے اپنے مالوں میں سے خرچ کرتے ہیں۔ یہاں زکوٰۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور قرآنِ کریم میں دوسرے کئی مقامات پر نماز کے قیام کے ساتھ عمومی مالی قربانی کا ذکر کیا گیا ہے تا کہ جہاں دینی ضروریات پوری ہوتی ہوں وہاں محروم طبقہ کی ضرورت بھی پوری ہو رہی ہو۔

پس مسجدیں اور اُنہیں آباد کرنے والے وہ لوگ ہیں جن کا اُٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوتا ہے۔ اُن کے دل میں خدا کا خوف اور خشیت ہوتی ہے۔ اُس پیار کی وجہ سے جو اُنہیں خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے اور پھر یہ خوف اور خشیت مزید نیکیوں کی طرف لے جا رہی ہوتی ہے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو ہدایت پر ہیں اور جنہیں اللہ تعالیٰ ہدایت یافتوں میں شمار کرتا ہے۔

(خطبہ جمعہ30 ؍ ستمبر 2011ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 جولائی 2021