• 7 مئی, 2024

ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے آنے والے مسیح موعود کو مان لیا

حضرت مولوی عبدالکریم صاحب لکھتے ہیں۔ 17؍اگست 1899ء کو انہوں نے تحریر کیا کہ ’’چند روز ہوئے بریلی سے ایک شخص نے حضرت کی خدمت میں لکھا کہ کیا آپ وہی مسیح موعود ہیں جس کی نسبت رسول خدا (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے احادیث میں خبر دی ہے؟ خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر آپ اس کا جواب لکھیں۔ (مولوی عبدالکریم صاحب خطوں کا جواب دیا کرتے تھے، کہتے ہیں کہ) مَیں نے معمولاً رسالہ ’’تریاق القلوب‘‘ سے دو ایک ایسے فقرے جو اس کا کافی جواب ہو سکتے تھے لکھ دئے۔ وہ شخص اس پر قانع نہ ہوا‘‘ (تسلی نہیں ہوئی) ’’اور پھر مجھے مخاطب کر کے لکھا کہ مَیں چاہتا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب خود اپنے قلم سے قسمیہ لکھیں کہ آیا وہ وہی مسیح موعود ہیں جس کا ذکر احادیث اور قرآن شریف میں ہے؟۔ میں نے شام کی نماز کے بعد دوات قلم اور کاغذ حضرت کے (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے) آگے رکھ دیا اور عرض کیا کہ ایک شخص ایسا لکھتا ہے۔ حضرت (صاحب) نے فوراً کاغذ ہاتھ میں لیا اور یہ چند سطریں لکھ دیں۔‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا کہ:
’’میں نے پہلے بھی اِس اقرار مفصّل ذیل کو اپنی کتابوں میں قسم کے ساتھ لوگوں پر ظاہر کیا ہے اور اب بھی اِس پرچہ میں اُس خدا تعالیٰ کی قَسم کھا کر لکھتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ مَیں وہی مسیح موعود ہوں جس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُن احادیثِ صحیحہ میں دی ہے جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم اور دوسری صحاح میں درج ہیں۔ وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا۔ الراقم مرزا غلام احمد عفا اللہ عنہ وایّد 17؍اگست 1899ء‘‘۔

مولوی صاحب لکھتے ہیں کہ ’’اس ذکر سے میری دو غرضیں ہیں۔ ایک یہ کہ اپنی جماعت کا ایمان بڑھے اور انہیں وہی ذوق اور سرور حاصل ہو جو یہاں کے خوش قسمت حاضرین کو اس گھڑی حاصل ہوا اور انہوں نے سچے دل سے اعتراف کیا کہ ان کو نیا ایمان ملا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ منکرین اور بدظن اس علی بصیرت قَسم پر ٹھنڈے دل سے غور کریں اور سوچیں کہ متعمد، کذّاب اور مفتری مختلق کی یہ شان اور اسے یہ جرأت ہو سکتی ہے کہ ذوالجلال خدا کی ایسی اور اس طرح اور ایسے مجمع میں قَسم کھائے؟ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ326-327۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر افراد جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے ایک موقع پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’میں نہیں چاہتا کہ چند الفاظ طوطے کی طرح بیعت کے وقت رَٹ لئے جاویں۔ اس سے کچھ فائدہ نہیں۔ تزکیہ نفس کا علم حاصل کرو کہ ضرورت اسی کی ہے۔‘‘ (یعنی یہ سمجھو کہ تزکیہ نفس کیا چیز ہے پھر اپنے اوپر لاگو بھی کرو۔) ’’ہماری یہ غرض ہرگز نہیں کہ مسیح کی وفات حیات پر جھگڑے اور مباحثہ کرتے پھرو۔ یہ ایک ادنیٰ سی بات ہے۔ اسی پر بس نہیں ہے۔ یہ تو ایک غلطی تھی جس کی ہم نے اصلاح کر دی۔ لیکن ہمارا کام اور ہماری غرض ابھی اس سے بہت دُور ہے اور وہ یہ ہے کہ تم اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کرو اور بالکل ایک نئے انسان بن جاؤ۔ اس لئے ہر ایک کو تم میں سے ضروری ہے کہ وہ اس راز کو سمجھے اور ایسی تبدیلی کرے کہ وہ کہہ سکے کہ مَیں اور ہوں۔‘‘ آپ فرماتے ہیں: ’’میں پھر کہتا ہوں کہ یقینا ً یقیناً جب تک ایک مدت تک ہماری صحبت میں نہیں رہ کر کوئی یہ نہ سمجھے کہ مَیں اَور ہو گیا ہوں، اُسے فائدہ نہیں پہنچتا۔‘‘ فرمایا ’’فطرت اور عقلی حالت اور جذبات کی حالت میں اعلیٰ درجہ کی صفائی حاصل ہو جاوے تو کچھ بات ہے۔ ورنہ کچھ بھی نہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ72-73۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر آپ نے فرمایا کہ ’’اگر تم ایماندار ہو تو شکر کرو اور شکر کے سجدات بجا لاؤ کہ وہ زمانہ جس کا انتظار کرتے کرتے تمہارے بزرگ آباء گزر گئے اور بیشمار روحیں اس کے شوق میں ہی سفر کر گئیں۔‘‘ (آپ نے مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرمایا۔) ’’وہ وقت تم نے پا لیا۔ اب اس کی قدر کرنا یا نہ کرنا اور اس سے فائدہ اٹھانا یا نہ اٹھانا تمہارے ہاتھ میں ہے۔ مَیں اس کو بار بار بیان کروں گا اور اس کے اظہار سے مَیں رُک نہیں سکتا کہ مَیں وہی ہوں جو وقت پر اصلاحِ خَلق کے لئے بھیجا گیا تا دین کو تازہ طور پر دلوں میں قائم کر دیا جائے۔ میں اُس طرح بھیجا گیا ہوں جس طرح سے وہ شخص بعد کلیم اللہ مردِ خدا کے بھیجا گیا تھا جس کی روح ہیروڈیس کے عہد حکومت میں بہت تکلیفوں کے بعد آسمان کی طرف اٹھائی گئی۔ سو جب دوسرا کلیم اللہ جو حقیقت میں سب سے پہلا اور سیّدالانبیاء ہے دوسرے فرعونوں کی سرکوبی کے لئے آیا جس کے حق میں ہے اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ رَسُوۡلًا ۬ۙ شَاہِدًا عَلَیۡکُمۡ کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ رَسُوۡلًا (المزمل: 16) تو اس کو بھی جو اپنی کارروائیوں میں کلیم اوّل کا مثیل مگر رتبہ میں اس سے بزرگ تر تھا ایک مثیل المسیح کا وعدہ دیا گیا اور وہ مثیل المسیح قوت اور طبع اور خاصیّت مسیح ابن مریم کی پا کر اُسی زمانے کی مانند اور اسی مدت کے قریب قریب جو کلیمِ اوّل کے زمانہ سے مسیح ابن مریم کے زمانہ تک تھی یعنی چودھویں صدی میں آسمان سے اترا۔ اور وہ اترنا روحانی طور پر تھا جیسا کہ مکمل لوگوں کا صعود کے بعد خلق اللہ کی اصلاح کے لئے نزول ہوتا ہے۔ اور سب باتوں میں اُسی زمانہ کے ہمشکل زمانہ میں اُترا جو مسیح ابن مریم کے اترنے کا زمانہ تھا تا سمجھنے والوں کے لئے نشان ہو۔ پس ہر ایک کو چاہئے کہ اس سے انکار کرنے میں جلدی نہ کرے تا خدا تعالیٰ سے لڑنے والا نہ ٹھہرے۔ دنیا کے لوگ جو تاریک خیال اور اپنے پرانے تصورات پر جمے ہوئے ہیں وہ اس کو قبول نہیں کریں گے مگر عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے جو اُن کی غلطی ان پر ظاہر کر دے گا۔ ’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہیں کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کردے گا‘‘۔

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 7 تا 9)

پس ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے آنے والے مسیح موعود کو مان لیا اور بیعت کے ساتھ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے اور قرآنی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنے کا عہد کیا اور ان لوگوں میں شامل ہوئے جو شکر کے سجدات بجا لانے والے ہیں نہ کہ نظریں پھیر کر گزر جانے والے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر فضل اور احسان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس زمانے میں پیدا کیا جب مسیح موعود کا ظہور ہوا اور اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا آغاز ہوا اور وہ اندھیرا زمانہ گزر گیا جس میں پہلے لوگ پڑے ہوئے تھے۔ وہ زمانہ جو اسلام کی نشأۃثانیہ کا زمانہ تھا ہم اس میں پیدا ہوئے جس کے انتظار میں بیشمار سعید روحیں اس دنیا سے چلی گئیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں اس خدا سے ملایا جو زندہ خدا ہے۔ جو آج بھی سنتا ہے اور بولتا ہے جیسے پہلے سنتا اور بولتا تھا۔ پس ہمیں شکرگزاری کرنی چاہئے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 25 مارچ 2016 ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 جولائی 2021