سورۃالانشراح (94 ویں سورۃ)
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 9 آیات ہیں)
(ترجمہ از انگریزی ترجمہ قرآن (حضرت ملک غلام فرید صاحب) ایڈیشن 2003ء)
وقت نزول اور سیاق و سباق
جیسا کہ یہ سورۃ اپنی سابقہ سورۃ (الضحیٰ) سے بہت زیادہ مربوط ہے اور اس کے مضامین کی تفصیل ہے تو یہ بھی لازماً مکی دور کی ہے اور ممکنہ طور پر نبوت کے دوسرے یا تیسرے سال کی ہے۔ جیسا کہ سابقہ سورۃ میں آپ ﷺ کے مشن کی غیر معمولی ترقیات کا ذکر ہے، موجودہ سورۃ میں چند ایسی غیر معمولی خصوصیات کا اشارہ دیا گیا ہے جو کسی بھی انسان کے اپنے مقصد کے حصول کو یقینی بنا دیتی ہیں اور ہر حق کے مبلغ کو لازم و ملزوم ہیں۔ (الف) اول تو اس کو اپنے دعویٰ کی سچائی پر یقین ہونا چاہیئے اور اس کے پاس اس کی تبلیغ کے لئے مناسب ذرائع کا ہونا ضروری ہے۔ (ب) اس کو لوگوں کی توجہ حاصل کرنی آنی چاہیئے۔ (ج) پھر الٰہی نصرت و تائید کا اس کے حق میں ہونا نظر آنا چاہیے۔ اس سورۃ میں آپ ﷺ کو ان تمام خصوصیات کا بھرپور حامل قرار دیا گیاہے لہٰذا آپﷺ کا مشن ضرور کامیاب ہو کر رہنے والا ہے۔
سورۃالتّین (95 ویں سورۃ)
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 9 آیات ہیں)
وقت نزول اور سیاق و سباق
یہ سورۃ نہایت ابتدائی مکی دور کی ہے۔ یہ حضرت ابن عباسؓ اور حضرت ابن زبیر ؓ کی رائے ہے۔ نوڈلکے نے اس سورۃ کا نزول سورۃ البروج (سورۃ نمبر 85) کے بعد رکھا ہے۔ سابقہ سورۃ (الانشراح) میں عقل اور سمجھ کے معیار پر پورے اترنے والے ایسے دلائل دئے گئے تھے جو آپ ﷺ کے دعویٰ کی سچائی کی تائید میں ہیں کہ آپ ﷺ چونکہ ان سب خصوصیات کے حامل ہیں جو ایک انسان کے مشن کی کامیابی کے لئے لازم و ملزوم ہیں لہٰذا آپ ﷺ کا مشن لازماً کامیاب ہوگا اور ایک شاندار مستقبل آپ ﷺ کے مشن کے انتظار میں ہے۔ موجودہ سورۃ میں سابقہ انبیاء کی مثالیں دے کر آپ ﷺ کے حالات اور ان کے حالات کی مشابہت دکھائی گئی ہےکہ ان کی طرح آپ ﷺ بھی کامیاب و کامران ہوں گے۔ سورۃ نمبر 89 تا 94 (الفجر، البلد، الشمس، اللیل، الضحیٰ اور الانشراح) میں مرکزی مضمون آپ کا ہجرت کرنا اور پھر آپ کے مشن کی حتمی کامیابی کا ذکر ہے۔ کہیں اشارۃً، کہیں بالواسطہ اور کہیں بلاواسطہ۔ موجودہ سورۃ میں بتایا گیا ہے کہ آپ ﷺ کی طرح سابقہ انبیاء کو بھی اپنے مشن کی خاطر اپنے آبائی گھروں کو خیر باد کہنا پڑا۔
سورۃالعلق (96 ویں سورۃ)
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 20 آیات ہیں)
وقت نزول اور سیاق و سباق
اس سورۃ کی ابتدائی پانچ آیات بالاتفاق آپ ﷺ پر غار حرا میں نازل ہونے والی پہلی آیات ہیں جو ماہ رمضان میں، ہجرت مدینہ سے تیرہ سال قبل میں نازل ہوئیں۔ اس تاریخ کا تعین 610 عیسوی بنتا ہے۔ اس لیلۃ القدر کو جب آپ ﷺ غارِ حرا میں زمین پر لیٹے ہوئے تھے اور گہری غور و فکر میں تھے کہ یہ وحی آپ ﷺ پر نازل ہوئی اور یہ الفاظ آپ ﷺ کی روح تک سرایت کر گئے۔ یہ آیات خدا کے رحم کا پہلا مظہر تھیں جو اس نے اپنے بندوں پر کی (کثیر)۔ اس سورۃ کا اپنی سابقہ سورۃ (التین) سے تعلق یوں ہے کہ سابقہ سورۃ میں یہ بتایا گیا تھا کہ خدا (انسانیت کی) ابتداء سے اپنے رسول اور پیغمبر اپنے پیغام کے ساتھ مبعوث کر رہاہے۔ سب سے قبل حضرت آدم علیہ السلام تشریف لائے جن کے بعد حضرت نوح علیہ السلام تشریف لائے اور نبیوں کے ایک تسلسل کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام تشریف لائے جو سب سے عظیم المرتبت بنی اسرائیلی نبی تھے اور سب سے آخر پر آپ ﷺ تشریف لائے ہیں۔ موجودہ سورۃ میں یہ بتایا گیاہے کہ انسان کی پیدائش تدریجی ترقی کا نتیجہ ہے، ایسی ہی اس کی روحانی ارتقاء بھی ہوتی ہے۔ وہ انبیاء جن کی سابقہ سورۃ میں مثالیں دی گئی ہیں وہ روحانیت کے مختلف درجوں کی طرف اشارہ ہے مگر آپ ﷺ اپنی ذات میں انسان کی کامل روحانی ارتقاء کی بہترین مثال ہیں۔
سورۃالقدر (97 ویں سورۃ)
(مکی سورۃ ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 6 آیات ہیں)
وقت نزول اور سیاق و سباق
چند مفسرینِ قرآن کا خیال ہے کہ یہ سورۃ مدینہ میں نازل ہوئی، جو سراسر ایک غلط خیال ہے اور تاریخی حقائق کے برخلاف ہے۔یہ یقینی طور پر مکی سورۃ ہے اور نبوت کے ابتدائی سالوں میں نازل ہوئی۔ چند ثقہ، مستند اور معزز راویوں جن میں حضرت ابن عباسؓ، حضرت ابنِ زبیرؓ اور حضرت عائشہ ؓ شامل ہیں، کی رائے اس سورۃ کے مکی ہونے میں ہے۔ نوڈلکے نے اس سورۃ کا نزول سورۃ نمبر 93 (الضحیٰ) کے بعد رکھا ہے جو نہایت ابتدائی مکی دور کی سورتوں میں سے ہے۔ سابقہ سورۃ (العلق) اس خدائی حکم سے شروع ہوئی تھی کہ آپ ﷺ قرآن کی تلاوت کریں اور اس کے پیغام کو ساری دنیا تک پہنچائیں۔
موجودہ سورۃ قرآن کریم کے بلند و بالا مقام، عالی مرتبہ اور شان وشوکت پر روشنی ڈالتی ہے جس کا اظہار اس سورۃ کی پہلی آیت سے ہوتا ہے یعنی یہ قرآن لیلۃ لقدر میں نازل ہوا (مقدر والی رات میں)۔ اس رات کو قرآن کریم میں دوسری جگہ سورۃ الدخان کی آیت نمبر 4 میں لیلۃ مبارکۃ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس سورۃ کی چھوٹی چھوٹی پانچ آیات ہیں اگر تسمیہ کو نکال دیا جائے، تاہم اس کے معانی اور مضامین بہت گہری روحانی اہمیت کے حامل ہیں۔
سورۃالبیّنۃ (98 ویں سورۃ)
(مدنی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 9 آیات ہیں)
وقت نزول اور سیاق و سباق
علماء نے اس سورۃ کے وقت نزول میں اختلاف کیا ہے۔ ابنِ مرداویہ نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ یہ سورۃ مکہ میں نازل ہوئی، جبکہ حضرت ابن عباس ؓ کے مطابق یہ ابتدائی مدنی دور کی ہے۔ جملہ تحقیقی پہلوؤں کے مدنظر علماء کی اکثریت اس رائے کے حق میں ہے جو حضرت عائشہ ؓسے مروی ہے۔ سابقہ چند سورتوں میں قرآنی وحی کی اہمیت اور اس کی بے نظیر خوبصورتی اورشان و شوکت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ موجودہ سورۃ میں اس عظیم الشان انقلاب کا ذکر ہے جو قرآن کریم کے ذریعہ برپا ہونا تھا۔ بالکل ابتداء میں یہ سورۃ بیان کرتی ہے کہ اہلِ کتاب اور مشرک تاریکی میں بھٹکے رہتے اور گناہ اور ظلم کی زندگی بسر کرتے رہتے اگر قرآن کریم نازل نہ ہوتا۔ یہ آپ ﷺ کا وجود ہی ہے جس نے ان کو شک اور کفر کے اندھیروں سے باہر نکالا ہے اور ان کو درست عقائد کے راستوں پر چلایا ہے اور نیک اعمال کی ترغیب دی ہے۔
(مترجم: ابو سلطان)