• 2 مئی, 2024

عقل اندھی ہے گر نیّر الہام نہ

شام کی جنگ کو دس سال سے زائد ہو گئے ہیں۔ مارچ 2011ء سے وہاں قتل و غارت جاری ہے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق اب تک بارہ ملین شامی اپنے گھروں کو چھوڑ چکے ہیں اور قریباً چھ لاکھ لوگ مر چکے ہیں۔

حال ہی میں UNO کے سیکرٹیری جنرل نے کہا ہے کہ ’’اس دس سالہ جنگ سے صرف تباہی اور مصیبت ہی آئی ہے‘‘۔ ملک کا طبی نظام برباد ہو چکا ہے اور بہتوں کو کھانے پینے اور رہائش کی سہولت میسر نہیں۔ بہت سے بچے اس جنگ کے سایہ میں پلے جا رہے ہیں جن کو پچھلے دس سال سے صرف دھماکوں اور گولیوں کی آوازیں آتی رہی ہیں۔

اس قسم کے ظلم و ستم دنیا کے بہت سی جگہوں پر ہو رہے ہیں۔ لوگ جنگ بھوک پیاس نا انصافی اور غربت جیسی مصیبتوں سے دو چار ہیں۔ مگر بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ آج دنیا نے بہت ترقی کر لی ہے۔ ہم اس وقت دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ امن میں رہ رہے ہیں۔

بے شک یہ بات قابل قبول ہے کہ آج پہلے سے بڑھ کر انسان امن میں رہ رہا ہے مگر ایسے لوگوں کو یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ اگر دنیا بہت ترقی کر گئی ہے تو پھر اب تک اتنے لوگ مظالم کا شکار کیوں ہیں یہاں تک کہ تقریباً چار ارب لوگ کسی نہ کسی طریق سے غربت کا سامنا کر رہے ہیں۔ اگر ہم نے اتنی ترقی کر لی ہے تو ان لوگوں کو اب تک اس قسم کی غربت میں نہیں ہونا چاہئے تھا۔

عصر حاضر میں دنیا نے عقل پر کامل بھروسہ کرتے ہوئے بہت ترقی کی ہے۔ خاص طور پر مغربی ممالک نے مذہب ترک کرتے ہوئے بہت ترقی کر لی ہے اور وہ اس بات کو بطور دلیل بھی پیش کرتے ہیں کہ دین یا مذہب کی اب ضرورت نہیں رہی۔ لیکن اتنی ترقی کے باوجود انہی ممالک میں آج بھی جنگی جرائم، نسل پرستی اور نا انصافی وغیرہ کا دور دورہ ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو بنی نوع انسان کو اسلام کی راہ پر چلانے کے لئے آئے تھے ایک نہایت عمدہ مضمون کو اپنی کتاب براہین احمدیہ میں تحریر کرتے ہیں۔ آپ نہایت فصاحت سے بیان کرتے ہیں کہ الہام کے بغیر عقل نہ صرف بے کار ہے بلکہ مضر بھی ہوتی ہے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’میں جداً و قطعاً کہتا ہوں کہ الہام کے بغیر مجرد عقل کی پیروی میں صرف ایک نقصان نہیں بلکہ یہ وہ آفت ہے کہ کئی آفات اُس سے پیدا ہوتی ہیں……

خداوند کریم نے جیسا ہر یک چیز کا باہم جوڑ باندھ دیا ہے۔ ایسا ہی الہام اور عقل کا باہم جوڑ مقرر کیا ہے۔ اس حکیم مطلق کا عام طور پر بھی قانون قدرت پایا جاتا ہے۔ کہ جب تک ایک چیز اپنے جوڑ سے الگ ہے تب تک اس کے جوہر چھپے رہتے ہیں۔ بلکہ اکثر اوقات نفع کی جگہ ضرر ہوتا ہے۔ ایسا ہی عقل کا حال ہے کہ علم دین میں اس کے نیک آثار تب مترتب ہوتے ہیں جب وہ جوڑ یعنے الہام اس کے ساتھ شامل ہو جائے۔ ورنہ اپنے جوڑ کے بغیر ڈاین ہو کر ملتی ہے۔ سارا گھر نگلنے کو طیار ہو جاتی ہے۔ سارا شہر سنسان ویران کرنا چاہتی ہے۔ پر جب جوڑ میسر آگیا تب تو چشم بد دور کیا ہی پاک صورت اور پاک سیرت ہے۔ جس گھر میں رہے مالا مال کر دے۔ جس کے پاس جائے اس کی سب نحوستیں اتار دے۔

تم آپ ہی سوچو کہ جوڑ کے بغیر کوئی چیز اکیلی کس کام کی؟ پھر تم کیوں یہ ادھوری عقل اس قدر ناز سے لئے پھرتے ہو۔ کیا یہ وہی نہیں جو کئی بار دروغ گوئی میں رسوائیاں اٹھا چکی؟ کیا یہ وہی نہیں جس کے سر پر بار بار گرنے سے بڑے بڑے داغ موجود ہیں؟ مجھے بتائیے تو سہی کہ آپ کا جی کس پر بھرما گیا۔ یہ کہاں کی پری آگئی جس کو دل دے بیٹھے؟ کیا تمہیں خبر نہیں کہ اس نے تم سے پہلے کتنوں کا لہو پیا۔ کتنوں کو گمراہی کے کنوئیں میں دھکیل کر مارا۔ تم جیسے کئی یاروں کو کھا چکی۔ صد ہا لاشیں ٹھکانے لگا چکی۔ ……

پھر اس منہ اور اس لیاقت کے ساتھ ربانی الہام سے انکار کرنا اور آپ ہی خدا کا قائم مقام بن بیٹھنا اور حضرات مقدسین انبیاء کو اہل غرض سمجھنا یہ آپ لوگوں کی نیک طینتی ہے۔ اور اس سے دھوکا مت کھانا کہ عقل ایک عمدہ چیز ہے۔ ہم ہر یک تحقیق عقل ہی کے ذریعے سے کرتے ہیں۔ بلاشبہ عمدہ چیز ہے۔ لیکن اس کا جوہر تب ہی ظاہر ہوتا ہے جب وہ اپنے جوڑ کے ساتھ شامل ہو۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد1 صفحہ169-171 حاشیہ نمبر 11)

قرآن کریم دنیا کی واحد الہامی کتاب ہے جو اس بات کا دعویٰ کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ حرف بحرف نازل ہوئی ہے اور دینی و دنیاوی مسائل کا حل بتاتی ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی بات کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وَکُلَّ شَیۡءٍ فَصَّلۡنٰہُ تَفۡصِیۡلًا

’’یعنے اس کتاب میں ہر یک علم دین کو بہ تفصیل تمام کھول دیا ہے۔ اور اس کے ذریعہ سے انسان کی جزئی ترقی نہیں بلکہ یہ وہ وسائل بتلاتا ہے اور ایسے علوم کاملہ تعلیم فرماتا ہے جن سے کلی طور پر ترقی ہو…‘‘

(براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد1 صفحہ225 حاشیہ نمبر11)

آپ علیہ السلام نے اس غلط فہمی کو بھی دور کیا کہ الہام یعنی قرآن کریم اور عقل میں کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’ظاہر ہے کہ عقل اور الہام میں کوئی جھگڑا نہیں اور ایک دوسرے کا نقیض اور ضد نہیں اور نہ الہام حقیقی یعنے قرآن شریف عقلی ترقیات کے لئے سنگ راہ ہے بلکہ عقل کو روشنی بخشنے والا اور اس کا بزرگ معاون اور مدد گار اور مربی ہے۔ اور جس طرح آفتاب کا قدر آنکھ ہی سے پیدا ہوتا ہے اور روز روشن کے فوائد اہل بصارت ہی پر ظاہر ہوتے ہیں۔ اسی طرح خدا کی کلام کا کامل طور پر انہیں کو قدر ہوتا ہے کہ جو اہل عقل ہیں۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد1 صفحہ300-301 حاشیہ نمبر11)

پس یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ عقل اور الہام کے ملاپ سے انسان ترقی کرتا ہے۔ مگر یہاں ایک سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کیا قرآن کریم انسان کی اس ضرورت کو پورا کرتا ہے؟ کیا یہی وہ الہام ہے جس سے انسان اپنے خدا کو پاتا ہے اور اپنے ساتھیوں کے حقوق ادا کرتا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی کی وضاحت یوں فرماتے ہیں:

کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ لِتُخۡرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ

یعنی یہ عالی شان کتاب ہم نے تجھ پر نازل کی تاکہ تو لوگوں کو ہر یک قسم کی تاریکی سے نکال کر نور میں داخل کرے۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ جس قدر انسان کے نفس میں طرح طرح کے وساوس گزرتے ہیں اور شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ ان سب کو قرآن شریف دور کرتا ہے۔ اور ہر یک طور کے خیالات فاسدہ کو مٹاتا ہے اور معرفت کامل کا نور بخشتا ہے یعنے جو کچھ خدا کی طرف رجوع ہونے اور اس پر یقین لانے کے لئے معارف و حقائق درکار ہیں سب عطا فرماتا ہے۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد1 صفحہ225 حاشیہ نمبر11)

یہ دعویٰ بھی کوئی اور الہامی کتاب نہیں کرتی کہ وہ انسان کو اعلیٰ مدارج کی طرف لے جاتی ہے۔ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو آج کے فتنہ و فسادوں سے انسان کو نجات بخش سکتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے انہی مسائل کا بہترین حل اپنی تقاریر میں دیا ہے جن کا مجموعہ World Crisis and the Pathway to Peace کے نام سے شائع ہے۔

اس کے علاوہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی بعض اور تقاریر کا مجموعہ بنام True Justice and Peace شائع ہے جس میں آپ ایدہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں سنگین بے انصافی اور جرائم کی طرف رجحان کا حل بتایا ہے اور امن عالم کے قیام کے لئے حقیقی اسلامی تعلیم کو مشعل راہ قرار دیا ہے۔

آج کی دنیا نے جہاں عقل پر اتنا بھروسہ کیا ہے وہاں مذہب پر بھی یہ حملے کیے ہیں کہ وہ امن کے خلاف تعلیم دیتا ہے اور فساد کے پھیلانے میں اس کا ہاتھ بھی ہے۔ بے شک یہ بے بنیاد اور قلت تدبر پر مبنی الزام ہے مگر اس بات کا کوئی سلیم الفطرت شخص انکار نہیں کرے گا کہ عقل کی بنیاد پر اس دنیا نے اب تک نہ صرف دو خوفناک عالمی جنگیں دیکھی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ آج ایک تیسری عالمی جنگ کی بھی تیاری کر رہی ہے جس سے لاکھوں نہیں بلکہ ارب لوگوں کے مرنے اور معذور ہونے کا اندیشہ ہے۔

اس کے باوجود اسلام عقل کو پس پشت نہیں ڈالتا۔ نہ ہی دیگر مذاہب کی طرح علم اور عقل کے استعمال اور اشاعت سے روکتا ہے۔ اسلام ان دونوں کے درمیان صلح کرتا ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’الہام کے تابعین نہ صرف اپنے خیال سے عقل کے عمدہ جوہر کو پسند کرتے ہیں بلکہ خود الہام ہی ان کو عقل کے پختہ کرنے کے لئے تاکید کرتا ہے۔ پس ان کو عقلی ترقیات کے لئے دوہری کشش کھینچتی ہے ایک تو فطرتی جوش جس سے بالطبع انسان ہر یک چیز کی ماہیت اور حقیقت کو مدلل اور عقلی طور پر جاننا چاہتا ہے دوسری الہامی تاکیدیں کہ جو آتشِ شوق کو دو بالا کر دیتی ہیں۔ چنانچہ جو لوگ قرآن شریف کو نظر سرسری سے بھی دیکھتے ہیں وہ بھی اُس بدیہی امر سے انکار نہیں کر سکتے کہ اس کلام مقدس میں فکر اور نظر کی مشق کے لئے بڑی بڑی تاکیدیں ہیں یہاں تک کہ مومنوں کی علامت ہی یہی ٹھہرا دی ہے کہ وہ ہمیشہ زمین اور آسمان کے عجائبات میں فکر کرتے رہتے ہیں اور قانون حکمت الٰہیہ کو سوچتے رہتے ہیں ……‘‘

(براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد1 صفحہ303-305 حاشیہ نمبر11)

شام کی جنگ کو دس سال ہو چکے ہیں۔ اگر عقل اس کا اور باقی دنیوی مسائل کا کوئی حل نکال سکتی تو ضرور اب تک نکال چکی ہوتا۔ ظاہر ہے کہ عقل اس فتنہ اور فتنہ پردازوں کا سامنا کرنے سے قاصر ہے۔ ضرور ہے کہ اب اور حل ڈھونڈے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ دنیا اسلام کی سچائی اور امن عالم کی خوبصورت تعلیم کو پہچاننے والی ہو اور اس پر عمل کرنے والی ہو آمین۔

(جاذب محمود۔ طالب علم جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 جولائی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ