• 9 مئی, 2024

اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز

ڈائری عابد خان سے ایک ورق
اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز

23 مئی 2015ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور آپ کا قافلہ اٹھارہ روزہ دورہ کے لئے جرمنی روانہ ہوئے جہاں حضور انور نے بنفس نفیس جلسہ سالانہ جرمنی میں شمولیت اختیار فرما کر اس کو اعزاز بخشا۔

احمدیوں کے جذبات

ایک دن میری ملاقات ایک احمدی میاں بیوی سے ہوئی جن کی ابھی ابھی (حضور انور سے) ملاقات ہوئی تھی۔ ان کے برتاؤ سے خوب عیاں تھا کہ وہ کس قدر جذباتی کیفیت میں تھے۔

ان میں سے شوہر کا نام مکرم راجہ بشارت احمد (بعمر 34 سال) تھا اور ان کی اہلیہ مکر مہ منصورہ بشارت تھیں جن کو زندگی میں پہلی بار حضور انور سے ملاقات کا شرف ملاتھا۔ نہایت جذباتی رنگ میں مکرم بشارت احمد صاحب نے خلافت کے بارے میں گفتگو کا آ غاز کیا۔ انہوں نے بتایا
’’ہم، احمدی کس قدر خوش قسمت ہیں کہ ہم خلیفۃ المسیح کے ہاتھ پر اکٹھے ہیں۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ایک ایسا شخص ہے جس پر ہم مکمل طور پر اعتماد کرتے ہیں اور جو ہمیں ہمارے ایمان کے بارے میں راہنمائی فرماتا ہے۔ میں پوری ایمانداری سے یقین رکھتا ہوں کہ اگر ہماری جماعت میں خلافت نہ ہوتی تو ہم کب کے تباہ ہو چکے ہوتے لیکن خلافت کی (نعمت کے) بدولت ہم ایک ایسی جماعت ہیں جس کو تباہ کرنے کی کسی کو جرات نہیں ہے۔ حضور انور ہماری ڈھال ہیں جو ہمیں ہماری کمزوریوں سے بچاتے ہیں۔‘‘

ان کی اہلیہ مکرمہ منصورہ بشارت صاحبہ نے بتایا کہ
’’میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی روایات پڑھی ہیں، انہوں نے فرمایا ہے کہ جب وہ آپ سے ملے یا آپ کی اقتداء میں نماز ادا کی تو انہیں ایسا لگا جیسے ان کے گناہ دھل گئے ہوں اور آج میری بھی یہی کیفیت تھی جب میں حضور انور کو ملی۔‘‘

نہایت خوشی سے انہوں نے بتایا کہ حضور انو ر نے فرمایا ہے کہ ان کا ایک ماہ کا بیٹا اپنے والد کی بجائے، اپنی والدہ سے زیادہ مشابہ ہے اور اس بات نے ملاقات کے ماحول کو مزید خوشگوار بنا دیا۔

ایک چھوٹے بچے کے جذبات

حضور انور کے دورہ کے جو اثرات جماعت کے چھوٹے بچوں پر تھے وہ بھی خوب عیاں تھے۔ دوران دورہ میں نے مشاہدہ کیا کہ بے شمار چھوٹے بچے نہایت دمکتے چہروں کے ساتھ ہنستے مسکراتے اور حضور انور کی عطا فرمودہ چاکلیٹس ہاتھوں میں پکڑے، حضور انور کے دفتر سے باہر نکل رہے تھے۔

ایک چھوٹا بچہ عزیزم عدیل ودود (بعمر 6 سال) مجھے ملا، اس نے نہایت فخر سے اپنی چاکلیٹ دکھائی اور کہنے لگا:
’’میں ساری رات اس خوشی میں سو نہیں سکا کہ میری آج حضور انور سے ملاقات ہے۔ میں حضور انور سے ملاقات سے خوب محظوظ ہوا کیونکہ آپ نہایت شفیق ہیں اور ایک خاص چاکلیٹ مجھے اور میرے بھائی کو عطا فرمائی۔ ہم نہایت خوش قسمت ہیں۔‘‘

حضور انور کے ساتھ چند (یادگار) لمحات

منگل کے دن شام کو ظہر اور عصر کی نماز سے پہلے حضور انور نے مجھے اپنے دفتر میں بلایا اور مجھے فرمایا کہ دنیا کی تازہ ترین خبریں کیاہیں؟ میں نے حضور انور کی خدمت میں عرض کی کہ آئر لینڈ میں ریفرنڈم ہو رہاہے جس میں پبلک کا ووٹ ہم جنس پرستی کی شادی کے حق میں ہے۔

اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ کئی مغربی ممالک نے اس حوالہ سے قدم اٹھایا ہے اور آخر کار یہ ان کے لئے ایک بڑے نقصان کا باعث ہوگا۔ حضور انور نے فرمایا کہ ہم جنس پرستوں کی شادی چرچ کو کمزور کرنے کا باعث بنے گی۔

اس پر میں نے عرض کی کہ کس طرح آئر لینڈ کے ایک بشپ کے حوالہ سے میڈیا میں بیان جاری کیا جا رہا ہے کہ چرچ کواس امر کو سمجھ لینا چاہئے کہ ہم ایک معاشی انقلاب سے گزر رہے ہیں اور اس لئے اب عیسائیت کی تعلیمات کو دور جدید کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔

اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا ’’کیا یہ کسی مذہب کے لئے درست ہےکہ وہ اپنے بنیادی عقائد کو تبدیل کردے اور وہ بھی دور جدید کےرواجوں کے مطابق یا اس کو اپنی اصل اور حقیقی تعلیمات کو برقرار رکھنا چاہئے؟ ایک حقیقی مذہب ہمیشہ اپنی اصل تعلیمات پر قائم رہتا ہے۔‘‘

بعد ازاں میں نے عرض کی کہ اس دن کے پہلے حصہ میں ایک احمدی خاتون نے مجھے بتایا کہ حضور انور سے ملاقات کی خوشی کے باعث وہ اور ان کے دونوں بیٹے سار ی رات سو نہیں سکے۔ یہ سننے پر ان کے بڑے بیٹے نے جن کی عمر چھ یا سات سال تھی، میری طرف دیکھا اور کہا کہ یہ سچ ہے کہ نہ تو ان کی والدہ اور نہ ہی وہ خود سو سکے، جبکہ ان کا چھوٹا بھائی گہری نیند میں خراٹے لے رہا تھا۔ اس تبصرہ پر حضور انور نے تبسم فرمایا اور مسکراتے ہوئے فرمایا
’’یہ بچوں کی ایمانداری اور معصومیت کی ایک مثال ہے۔‘‘

ایک نوجوان خادم سے ملاقات

اس شام، کھانے کے بعد ایک نوجوان جن کا نام اوصاف احمد (بعمر 16 سال) تھا مجھے مسجد میں آکر ملے۔ انہوں نے کہا کہ وہ مجھے ملنا چاہتے تھے کیونکہ انہوں نے حضور انور کے حالیہ دورہ جات کی ڈائریز پڑھی ہیں۔

وہ ایک نہایت ایماندار دوست تھے اور کہنے لگے کہ جب تک انہوں نے یہ ڈائریز نہیں پڑھی تھیں وہ حضورانور سے ایسی محبت نہیں کرتے تھے جو ایک احمدی جو ہونی چاہئے۔ لیکن ان ڈائریز کو پڑھنے کے بعد انہیں احساس ہوا ہے کہ حضور انور کس قدر جماعت سے محبت کرتے ہیں اور یہ بھی کہ ہمیں خلافت کی کس قدر ضرورت ہے۔ یہ سن کر خوشی ہوئی کہ اس ڈائری کے مثبت اثرات مترتب ہو رہے ہیں۔ الحمد للّٰہ

جب وہ جانے لگے تو عزیزم اوصاف نے مجھے بتایا کہ انہیں جامعہ احمدیہ میں داخلہ کی بے حد خواہش ہے لیکن وہ جامعہ یوکے میں داخلہ لینا چاہتے ہیں تاکہ وہ حضور انور کے پاس رہ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ اب جبکہ جامعہ احمدیہ جرمنی کھل چکا ہے ، جامعہ احمدیہ یوکے میں داخلہ لینا مشکل ہو گیاہے تاہم وہ ایک معجزہ کے رونما ہونےکی امید میں ہیں۔

(حضور انور کا دورہ جرمنی مئی-جون 2015ء اردو ترجمہ از ڈائری مکرم عابد خان)

(مترجم: ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 اگست 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ