خلافت وہ شجر سایہ دار ہے جس کی چھاؤں تلے پلنے والے افرادِ جماعت احمدیہ وہ بامراد اور با نصیب لوگ ہیں جو اطاعت خلافت کا درس لئے دینی اور دنیاوی ترقیات کے زینے طے کر رہے ہیں یوں تو خلافت سے وفا کا درس ہمیشہ ہی پیش نظر رہتا ہے یومِ خلافت کے موقع پر منعقدہ جلسے خلیفہٴ وقت کے احسانات کو یاد کرتے ہوئے اپنےجائزے لینے اور تجدیدِ عہدِ وفا کاموقع بہم پہنچاتے ہیں۔
یومِ خلافت کے موقع پر مجلس زولٹاؤ میں منعقدہ نشست میں مربیِ سلسلہ مکرم سلمان احمد ملہی صاحب نے افرادِ جماعت کے خلافت سے عشق و وفا اور خلیفہٴ وقت کے اپنی جماعت سے پیار اور حسن و احسان کے جو واقعات بیان کیے ان میں سے چند ایک ہدیہ قارئین الفضل کرتی ہوں۔
مکرم مربیِ سلسلہ سلمان احمد ملہی صاحب نے بیان کیا کہ جامعہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جب انہوں نے افریقہ کا دورہ کیا تو جا بجا خلافت سے عشق و وفا کی داستانیں دیکھیں جنہیں حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کی مثال کے مصداق پایا۔
ایسی ہی ایک مثال ٹوگو کے دارالحکومت لومے سے 96 کلومیٹر شہر نوچے میں واقع جماعت کے ریجنل ہیڈ کوارٹر سے پندرہ کلومیٹر دور ایک گاؤں میں ملی۔ اس گاؤں میں 2006ء میں جماعت قائم ہوئی۔
یہ گاؤں بجلی پانی اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات سے تاحال محروم ہے۔ سڑکیں کچی اور ذرائع آمد و رفت نہ ہونے کے باعث آج بھی کئی لوگ گاؤں سے شہر جانے کے لیے 15 کلومیٹر کی مسافت پیدل طے کرتے ہیں۔ وہاں کے مقامی مربی سلسلہ مکرم عامر احمد صاحب ایک جھونپڑی میں لے کر گئے۔ جس کے مقیم مومیا سالف صاحب (جو اب بطور صدر جماعت اور نیشنل سیکرٹری اشاعت خدمت کی توفیق پا رہے ہیں) نے مالی طور پر کمزور ہونے اور نامساعد حالات کے باوجود سولر پینل کے ذریعے ایم۔ ٹی۔ اے کا انتظام کر رکھا تھا۔ استفسار پر انہوں نے بتایا کہ کس طرح انہوں نے وسائل کی کمی کے باوجود مشقت اٹھا کر 2017ء میں اس کا انتظام کیا تا کہ خلیفہٴ وقت کو دیکھ اور سن سکیں۔
خلافت سے عقیدت ومحبت کے ان پیمانوں کو ناپنا اتنا آسان نہیں کہ جسمانی خوراک سے محروم وہ روحیں روحانی خوراک کے حصول کے لیے ہر مشکل کوسہہ جانے کو تیار ہیں۔
وہاں کے لوگ جب یہ سنتے تھے کہ وہ خلیفہٴ وقت کے نمائندہ ہیں تو نہایت عقیدت سے ملتے ہوئے ہر فرد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں سلام پہنچا تا۔ حسرت سے اس بات کا اظہار کرتے کہ وہ خلیفہٴ وقت تک پہنچنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ ایک طرف عشق و وفا کی یہ داستانیں تھیں تو دوسری طرف محبتِ خلافت میں ڈوبا آنسوؤں سے تر مکرم مربی صاحب کا وہ گلو گیر لہجہ جو جھنجھوڑتا رہا کہ ہم نعمتوں میں پلنے والے اپنے دعوؤں اور وعدوں میں کس قدر سچے ہیں اور اس عہدِ وفا کو نبھانے میں کہاں کھڑے ہیں۔
خدائے ذوالمنن کا احسان ہے کہ اُس نے ایسا خلیفہ ہمیں عطا فرمایا ہے جو محبت بھری دعاؤں کا کبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے۔ خلیفہٴ وقت کی دعاؤں سے حصہ پانے اور ان کے لطف و احسان سے دامن بھرنے کا ایک واقعہ مربی صاحب نے بیان کیا جو انہیں دورہِ افریقہ کے دوران وہاں کے لوکل مربی صاحب نے گوش گزار کیا تھا۔
واقعہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ مکرم وسیم احمد ظفر (ثانی) ریجنل مشنری پالیمے (ٹوگو) جنوری 2001ء میں حسبِ ارشاد حضرت خلیفة المسیح الربع رحمہ اللہ مغربی افریقہ کے ملک آئیوری کوسٹ اپنے فرائض کی ادائیگی کے سلسلہ میں پہنچے۔ اکتوبر 2002ء میں حکومت کے خلاف بغاوت کے سبب ملک دو حصوں میں منقسم ہو گیا۔ ایک حصہ کا کنٹرول باغیوں نے سنبھال لیا۔ ملک میں کرفیو کے نفاذ اور سیکیورٹی خدشات کے سبب حضرت خلیفة المسیح الربع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے ماتحت مربی صاحب کو فیملی سمیت برکینا فاسو منتقل ہونا پڑا۔
2003ء کے جلسہ سالانہ انگلینڈ (جو کہ خلافتِ خامسہ کا پہلا جلسہ تھا) کے دوران مربی صاحب کے بیٹے عزیزم طلحہ فصیح احمد بعمر اڑھائی سال کو ملیریا بخار ہو گیا۔ (افریقہ میں اگر ملیریا بخار کا علاج جلد نہ شروع کیا جائے تو پہلے ٹائیفائڈ پھر گردن توڑ بخار میں تبدیل ہو جاتا ہے) چونکہ ان دِنوں جلسہ سالانہ کے دوسرے روز کی کارروائی چل رہی تھی جسے براہِ راست سننے کے لیے گھر میں احبابِ جماعت بھی موجود تھے ۔ سوچا کہ مکرم مولانا عطا المجیب راشد صاحب کی تقریر کے بعد دوا لے آئیں گے۔ سو ایسا ہی کیا لیکن قبل اس کے کہ دوا دی جاتی۔ طلحہ فصیح کی آنکھیں اوپر چڑھ گئیں اور جسم تختہ کی مانند اکڑ گیا۔ یہ سب دیکھ کر عزیزم طلحہ کی والدہ رونے لگیں۔ وہاں موجود احبابِ جماعت بھی پریشان ہو گئے۔ مربی صاحب نے نہایت اضطراب کے عالم میں روتے ہوئے محمود ناصر ثاقب صاحب (امیر جماعت احمدیہ برکینا فاسو) کو فون کر کے بتایا کہ عزیزم طلحہ وفات پا گیا ہے۔ انہوں نے تفصیلات پوچھتے ہوئے ایک ہومیو پیتھی میڈیسن عزیزم کے منہ میں ڈالنے کو کہا۔ مربی صاحب نے محترم امیر صاحب سے درخواست کی کہ حضورِ اقدس کی خدمت میں دعا کے لیے فیکس کر دیں۔ (ان کے شہر میں فیکس کی سہولت موجود نہ تھی)
اُس وقت مشن میں کوئی سواری نہ تھی پڑوس میں گاڑی پر آئے مہمانوں سے بچے کو ہسپتال لے جانے کی درخواست کی اور ان کے تعاون سے عزیزم کو سرکاری ہسپتال پہنچایا گیا۔ اسی اثنا میں ہومیوپیتھی دوائی کی چند خوراکوں کے مثبت اثر سے عزیزم کے جسم کے اکڑاو میں بھی کمی آگئی. ہاسپٹل میں ٹیسٹ کے بعد گردن توڑ بخار تشخیص ہوا۔ عزیزم طلحہ ہسپتال میں دس روز زیرِ علاج رہا۔ اس دوران امیر صاحب کی وساطت سے حضورِ اقدس کی خدمت میں درخواستِ دعا کی فیکس بھیجتے رہے۔
دس روز بعد عزیزم طلحہ کو ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا۔ اور مشن ہاؤس واپس آ کر مربی صاحب اپنے روٹین کے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ کہ تین روز بعد امیر صاحب کا فون آیا۔ انہوں نے بتایا کہ مکرم عبدالماجد طاہر صاحب (وکیل التبشیر) کا لندن سے فون آیا ہے اور حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان سے فرمایا ہے کہ برکینا فاسو میں وسیم ظفر صاحب کا بیٹا کافی بیمار تھا۔ ان کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں آئی۔ ابھی فون کر کے بیٹے کی صحت کے بارے میں دریافت کریں۔ اللہ اللہ قربان جائیں پیارے آقا کے اس لطف و احسان پر۔
امیر صاحب نے فرمایا کہ ابھی اپنے ہاتھ سے حضورِ اقدس کی خدمت میں خط لکھ کر بھیجیں تاکہ فوراً فیکس کیا جا سکے۔ سو مربی صاحب نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے فوراً خط لکھ کر ایک خادم کے ہاتھ مکرم امیر صاحب تک پہنچا یا۔
مربی صاحب ایک طرف نہایت پشیمانی کے ساتھ خلیفہٴ وقت کو اطلاع نہ دے سکنے جیسی غفلت پر بے حد افسوس کا اظہار کرتے رہے تو دوسری جانب اس واقعہ کو سرشاری کا ایک لمحہ قرار دیتے رہے جس کی بدولت وہ اپنی خوشی قسمتی پر نازاں تھے۔ کہ اس زمین پر موجود ہمارا واحد روحانی بادشاہ جسکی دعاؤں نے ناصرف ایک مردہ میں زندگی کی روح پھونک دی۔ بلکہ وہ کوئی اطلاع نہ ملنے پر از خود احوال بھی دریافت فرماتا ہے۔
کیا ہے ایسی کوئی مثال جو ہمیں کسی اور رشتہ اور تعلق میں نظر آتی ہو۔ یہ صرف خلیفہٴ وقت کا ہی محسن اور پیارا وجود ہے جو کہیں ہماری غفلت کی حالت میں بھی ہمارے لئے راتوں کو اٹھ کر دعائیں کرتا اور کہیں اپنے خطوط سے ہماری ڈھارس بندھاتا ہے۔ خدا کرے کہ جماعتِ احمدیہ کا ہر مرد و زن ہر پِیر و جواں اخلاص و وفا کے ساتھ خلافت کے ساتھ روحانی رشتہ کو نبھانے کے لئے اس عہد کو حرزِ جاں بنائے۔
تمہیں چھاؤں میں رکھیں گے تمازت ہم سنبھالیں گے
(ثمرہ خالد۔ جرمنی)