صداقت حضرت مسیح موعودؑ
آپ کے اشعار کی روشنی میں
اس مضمون میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اشعار کہنے کی غرض و غایت اور ان اشعار کو یاد کرنے کی تلقین کا ذکر کرنے کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کے اس بحربیکراں میں سے چند قطرات بطور نمونہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔طوالت مضمون کو دیکھتے ہوئے درثمین میں سے ایسے اشعار کا انتخاب کیا گیا ہے جو حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی صداقت کےلئے ارشادفرمائے ہیں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میری صداقت کا معیار منہاج نبوت ہے۔ یعنی جو آپ کو انبیاء کے نہج پر پرکھے گا اس پر آپ کی صداقت عیاں ہوجائے گی۔ منہاج نبوت کے معیار کی بھی صدہا جزئیات ہیں۔ ذیل میں اکثر ان اشعار کا انتخاب کیا گیا ہے جومنہاج نبوت کے معیار سے تعلق رکھنے والی ہیں۔
اشعار کہنے کی ضرورت
حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’اشعار میں اپنے مضامین کو بیان کرنے کی ہمیں ضرورت اس لئے پیش آئی کہ بعض طبائع اس قسم کی ہوتی ہیں کہ ان کو نثر عبارت میں ہزار پیرائیہ میں کوئی صداقت بتائی جائے وہ نہیں سمجھتے۔ لیکن اسی مفہوم کواگر برجستہ شعر میں منظوم کر کے سنایا جائے تو شعر کی لطافت ان پر بہت کچھ اثر کرجاتی ہے۔ شعر کو سن کر پھڑک اٹھتے ہیں اور حق کو شعر کے ذریعہ فوراً قبول کرلیتے ہیں۔‘‘
(الحکم قادیان 28 اگست 7ستمبر 1938ء صفحہ2)
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے اشعار یاد کرنے کی تحریک وتحریص
حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ۔
’’ایک ایک شعر ،ایک ایک مصرع ایک ایک لفظ سچائی میں ڈوبا ہواہے اور حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کا کلام ہی آپ کی سچائی کی دلیل ہے۔ کوئی سعید فطرت انسان اگر اس کلام کو سنے تو ممکن نہیں ہے کہ وہ اس کلام کے کہنے والے کےحق میں اس سچائی کی گواہی نہ دے۔ حیرت انگیز طور پر پاکیزہ جذبات عشق میں ڈوبا ہوا یہ کلام سن کر روح پر وجد طاری ہوجاتا ہے۔۔۔۔ حضرت مسیح موعودؑ کا کلام یاد کریں اور درویشوں کی طرح گاتے ہوئے قریہ قریہ پھریں اور اس کلام کی منادی کریں اور دنیا کو بتائیں کہ وہ آگیا ہے جس کے آنے سے تمہاری نجات وابستہ ہے‘‘
(روزنامہ الفضل 28 جون 1983)
ضرورت زمانہ
(یعنی وقت خو د کسی مصلح کا متقاضی ہو)
حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ مامورِ زمانہ کی صداقت کے تین معیار ضرورت زمانہ، سابقہ پیشگوئیوں اور تائیدات سماویہ و ارضیہ ہوتے ہیں۔ ذیل میں اس مناسبت سے آپ علیہ السلام کے اشعار درج کئے جاتے ہیں۔ جن سے مسلمانوں کی حسب پیشگوئی ناگفتہ بہ حالت، اسلام کا دشمنوں کے نرغے میں ہونا، پھر اس کے احیاء کے لئے مسیح دوراں کے ظہور کا ذکر ہے۔
’’اِسْمَعُوْا صَوْتَ السَّمَاءِ جَاءَ الْمَسِیْح جَاءَ الْمَسِیْح
نیز بِشنو از زمیں آمد امامِ کامگار‘‘
’’نورِ دل جاتا رہا اک رسم دیں کی رہ گئی
پھر بھی کہتے ہیں کہ کوئی مصلح دیں کیا بکار‘‘
’’ظاہرہیں خود نشاں کہ زماں وہ زماں نہیں
اب قوم میں ہماری وہ تاب وتواں نہیں‘‘
’’مسلمانوں پہ تب ادبار آیا
کہ جب تعلیمِ قرآں کو بھلایا
رسول حق کو مٹی میں سلایا
مسیحا کو فلک پر ہے بٹھایا‘‘
’’دِن چڑھا ہے دُشمنانِ دیں کا ہم پر رات ہے
اے مرے سورج نکل باہر کہ میں ہوں بے قرار‘‘
’’صد ہزاراں آفتیں نازل ہوئیں اسلام پر
ہو گئے شیطاں کے چیلے گردنِ دیں پر سوار‘‘
’’ہر طرف سے پڑ رہے ہیں دینِ احمد پر تبر
کیا نہیں تم دیکھتے قوموں کو اور اُن کے وہ وار‘‘
’’قوم میں فسق و فجور و معصیت کا زور ہے
چھا رہاہے ابر یاس اور رات ہے تاریک و تار‘‘
’’تقویٰ کے جامے جتنے تھے سب چاک ہوگئے
جتنے خیال دل میں تھےناپاک ہوگئے‘‘
’’ہوگیا دیں کفر کے حملوں سے چور
چپ رہے کب تک خداوندِ غیور‘‘
’’وقت تھا وقتِ مسیحا نہ کسی اور کا وقت میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا‘‘
’’کیوں عجب کرتےہوگرمیں آگیا ہوکر مسیح
خود مسیحائی کا دم بھرتی ہے یہ بادِ بہار‘‘
’’وہ آیا منتظر تھے جس کے دن رات
معمہ کھل گیا روشن ہوئی بات‘‘‘
’’مَیں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر
میں وہ ہوں نورِ خداجس سے ہوادن آشکار‘‘
سابقہ انبیاء اور سلف صالحین کی پیشگوئیاں
کوئی بھی نبی اب تک نہیں گزرا ہے جس نے آخری زمانہ میں دجال کے فتنہ سے نہ ڈرایا ہو۔ دجال اور یاجوج ماجوج کے اس فتنہ عظیم کی سرکوبی کے لئے امت مسلمہ میں سے ایک رجل فارس کی پیشگوئی موجود ہے۔آپ فرماتے ہیں کہ۔
’’فرما چکا ہے سید کونین مصطفےٰؐ
عیسیٰ مسیح جنگوں کا کردے گا التوا‘‘
’’پیویں گےایک گھاٹ پہ شیر اور گوسپند
کھیلیں گے بچے سانپوں سے بے خوف و بے گزند‘‘
’’کیوں بھولتے ہوتم یضع الحرب کی خبر
کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھوتو کھول کر‘‘
’’ابنِ مریم ہوں مگر اُترا نہیں مَیں چرخ سے
نیز مہدی ہوں مگر بے تیغ اور بے کار زار‘‘
’’ابن مریم کے ذکر کو چھوڑواس سے بہتر غلامِ احمدؑ ہے‘‘
’’ہر نبیِ وقت نے اِس جنگ کی دی تھی خبر
کر گئے وہ سب دعائیں بادو چشمِ اشکبار‘‘
تائیدات ارضیہ و سماویہ
خداتعالیٰ کے مامور کی صداقت کے اظہار کے لئے ارضی و سماوی تائیدات رونما ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے لئے تبشیری اور انذاری معجزات دکھاتا ہے۔اللہ تعالیٰ پہلے مبشرات دکھاتا ہے جب لوگ ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے تو پھر منذرات کا بھی مامورمن اللہ کی صداقت کے لئے ظہور ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کے لئے کسوف و خسوف کا اقتداری اور تبشیری معجزہ دکھایا جب لوگوں نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا تو پھر اللہ تعالیٰ نے طاعون کا نشان دکھایا۔ اسلئے آپ علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اکثر احمدی ’’طاعونی احمدی‘‘ ہیں یعنی طاعون کو دیکھ کر ایمان لائے تھے۔ ذیل میں اس مناسبت سے چند اشعار پیش ہیں۔
’’دکھائیں آسماں نے ساری آیات
زمیں نے وقت کی دے دی شہادات‘‘
’’ظہور عون و نصرت دمبدم ہے
حسد سے دشمنوں کی پشت خم ہے‘‘
’’آسماں پر دعوت حق کے لئے اک جوش ہے
ہورہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اتار‘‘
’’ہے کوئی کاذب جہاں میں لاؤ لوگو کچھ نظیر
میرے جیسی جس کی تائیدیں ہوئی ہوں بار بار‘‘
’’یارو جو مرد آنے کو تھا وہ تو آچکا
یہ راز تم کو شمس وقمر بھی بتاچکا‘‘
’’تونے طاعوں کو بھی بھیجا میری نُصرت کے لئے
تا وہ پورے ہوں نشاں جو ہیں سچائی کا مدار‘‘
’’دن بُرے آئے اکٹھے ہوگئے قحط و وبا
اب تلک توبہ نہیں اب دیکھئے انجام کار‘‘
’’مَیں بھی ہوں تیرے نشانوں سے جہاں میں اک نشان
جس کو تو نے کردیا ہے قوم و دیں کا افتخار‘‘
’’یہ فتوحاتِ نمایاں یہ تواتر سے نشاں
کیا یہ ممکن ہیں بشر سے کیا یہ مکّاروں کا کار‘‘
’’باغ مُرجھایا ہوا تھا گر گئے تھے سب ثمر
مَیں خدا کا فضل لایا پھر ہوئے پیدا ثمار‘‘
جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو ’’جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء‘‘ کا خطاب دیا یعنی اللہ کا پہلوان نبیوں کے لبادہ میں۔ اس الہام سے قرآن کریم کی یہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی کہ رسولوں کو آخری وقت میں اکٹھا کیا جائے گا۔ آپ علیہ السلام کا دعویٰ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو انبیاء کے صفات و واقعات سے حصہ دیا ہے اس لئے آپ میں تمام انبیاء روحانی اور صفاتی طور پر جمع ہوگئے۔
’’مَیں کبھی آدم کبھی موسٰی کبھی یعقوب ہوں
نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار
اِک شجر ہوں جس کو داؤدی صِفت کے پھل لگے
مَیں ہوا داؤد اور جالوت ہے میرا شکار
روضۂ آدم کہ تھا وہ نامکمل اب تلک
میرے آنے سے ہوا کامل بجملہ برگ و بار‘‘
اعداء کے مقابل کامیابی
مامورمن اللہ کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ وہ باوجود اپنی کسمپرسی اور بے بضاعتی کے اپنے طاقتوراعداء کے بالمقابل فتح و ظفر سے ہمکنار ہوجاتاہے۔ اس ضمن میں آپ علیہ السلام کے چند اشعار درج ذیل ہیں۔
’’صف دشمن کو کیا ہم نے بہ حجت پامال
سیف کا کام قلم سے ہی دکھایا ہم نے‘‘
’’ڈگلس پہ سارا حال بریت کا کھل گیا
عزت کے ساتھ تب میں وہاں سے بری ہوا‘‘
’’قتل کی ٹھانی شریروں نے چلائے تیرِ مکر
بن گئے شیطاں کے چیلے اور نسلِ ہونہار
پھر لگایا ناخنوں تک زور بن کر اِک گروہ
پر نہ آیا کوئی بھی منصوبہ اُن کو ساز وار‘‘
’’گڑھے میں تو نے سب دشمن اتارے
ہمارے کر دیے اونچے مینارے‘‘
مقابل پر مرے یہ لوگ ہارے
کہاں مرتے تھے پر تونے ہی مارے‘‘
جھوٹا مدعی قتل کیا جاتاہے
قرآن کریم نے یہ معیار قائم فرمایا ہے کہ جھوٹا مدعی الہام قتل کیا جاتاہے۔ چنانچہ آپ علیہ السلام اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں کہ
’’تھا برس چالیس کا مَیں اس مسافر خانہ میں
جب کہ مَیں نے وحیِ ربّانی سے پایا افتخار‘‘
’’اِس قدر یہ زندگی کیا افترا میں کٹ گئی
پھر عجب تر یہ کہ نُصرت کے ہوئے جاری بِحار‘‘
’’اِفترا کی ایسی دُم لمبی نہیں ہوتی کبھی
جو ہو مثلِ مُدّتِ فخرالرّسل فخرالخیار
’’یہ اگر انساں کا ہوتا کاروبار اے ناقصاں!
ایسے کاذب کیلئے کافی تھا وہ پروردگار
کچھ نہ تھی حاجت تمہاری نے تمہارے مکر کی
خود مجھے نابود کرتا وہ جہاں کا شہریار
دوش پر میرے وہ چادر ہے کہ دی اُس یار نے
پھر اگر قُدرت ہے اَے مُنکر تو یہ چادر اُتار‘‘
خلوت سے جلوت تک
مامور من اللہ گوشہ نشین اور شہرت وعظمت کے خیالات سے کوسوں دورہوتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان کو کنج زلت سے نکال کر شہرت و عظمت کے بام عروج تک پہنچا دیتا ہے۔ اس اصل کے سلسلے میں چند اشعار درج ذیل ہیں۔
’’اِک زمانہ تھا کہ میرا نام بھی مستور تھا
قادیاں بھی تھی نہاں ایسی کہ گویا زیرِ غار
کوئی بھی واقف نہ تھا مجھ سے نہ میرا مُعتقد
لیکن اب دیکھو کہ چرچا کِس قدر ہے ہر کنار
اُس زمانہ میں خدا نے دی تھی شہرت کی خبر
جو کہ اب پوری ہوئی بعد ازمُرورِ روزگار
کھول کر دیکھو براہیں جو کہ ہے میری کتاب
اِس میں ہے یہ پیشگوئی پڑھ لو اُس کو ایک بار
میں تھا غریب و بے کس و گمنام بے ہنر
کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر
جانتا تھا کون کیا عزت تھی پبلک میں مجھے
کس جماعت کی تھی مجھ سے کچھ ارادت یا پیار
ایسی سُرعت سے یہ شہرت ناگہاں سالوں کے بعد
کیا نہیں ثابت یہ کرتی صِدقِ قولِ کردگار‘‘
دعویٰ سے پہلے پاک زندگی
مامورین کی دعویٰ سے پہلے کی زندگی ان کی صداقت کی سب سےبڑی اور بنیادی دلیل ہوتی ہے۔ اس جہت سے بھی حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت ظاہرہوتی ہے۔ چنانچہ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں.
’’ابتداء سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے
گود میں تیر ی رہا میں مثلِ طفل شیر خوار‘‘
دنیا سے بے رغبتی
مامورین دنیا و مافیھا سے بے رغبت ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ رضوان یار کے متلاشی نظر آ رہے ہوتے ہیں۔ چنانچہ آپ علیہ السلام ہمیں اس میدان میں بھی انبیاء کے منہج پر نظر آتے ہیں۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’اِبتدا سے گوشۂ خلوت رہا مجھ کو پسند
شہرتوں سے مجھ کو نفرت تھی ہر اک عظمت سے عار‘‘
’’یہ سراسر فضل و اِحساں ہے کہ مَیں آیا پسند
ورنہ درگہ میں تری کچھ کم نہ تھے خدمت گزار‘‘
’’تیرے کاموں سے مجھے حیرت ہے اے میرے رب کریم
کس عمل پر مجھ کو دی ہے خلعتِ قرب وجوار
گر کہے کوئی یہ منصب تھا شایانِ قریش
وہ خداسے پوچھ لے میرا نہیں یہ کاروبار‘‘
سورۃ الفاتحہ (ام الکتاب)
سورۃ الفاتحہ میں حضرت مسیح موعودؑ کے آنے کی پیش خبری موجود تھی۔ جس نے دجال کے سب سے بڑے فتنہ کا قلع قمع کرنا تھا۔ پنجوقتہ نمازوں میں اس سورہ کو اسی لئے دہرانے کی تاکید کی گئی ہے۔ مغضوب اورضالین سے یہود ونصاریٰ مراد ہیں۔ اس میں یہ پیشگوئی تھی کہ مسلمان یہود کے نقش قدم پر چل کر اپنے آنے والے مسیح کا انکار کریں گے۔ اس ضمن میں حضور اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں۔
’’یہ میرے ربّ سے میرے لئے اک گواہ ہے
یہ میرے صدقِ دعویٰ پہ مُہرِالٰہ ہے‘‘
’’میرے مسیح ہونے پہ یہ اک دلیل ہے
میرے لئے یہ شاہدِ ربّ جلیل ہے‘‘
’’پھر دوبارہ آگئی اَحبار میں رسمِ یہود
پھر مسیح وقت کے دشمن ہوئے یہ جبہ دار
تھا نوشتوں میں یہی ازابتدا تا انتہا
پھر مٹے کیونکر کہ ہے تقدیر نے نقشِ جدار
میں تو آیا اس جہاں میں ابن مریم کی طرح
مَیں نہیں مامور ازبہر جہاد و کارزار‘‘
احیاء موتیٰ اور قبولیت دعا کا نشان
مامور من اللہ کو قبولیت دعا کا نشان دیا جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی ہزاروں دعاؤں کو قبولیت کا شرف ملا۔ اور آپ کی انفاخ قدسیہ اور پاک تحریرات نے لاکھوں مردوں کو آب حیات کا جام پلا دیا۔ ذیل میں چند ایسے اشعار پیش ہیں جن میں یہ مضمون بیان ہواہے۔
’’جس کی دعا سے آخر لیکھو مرا تھا کٹ کر
ماتم پڑا تھا گھر گھر وہ میرزا یہی ہے‘‘
’’مرہمِ عیسیٰ نے دی تھی محض عیسیٰ کو شفا
میری مرہم سے شفا پائے گا ہر ملک و ہر دیار‘‘
’’شکر للہ میری بھی آہیں نہیں خالی گئیں
کچھ بنیں طاعوں کی صورت کچھ زلازل کے بخار
اِک طرف طاعونِ خونی کھا رہا ہے مُلک کو
ہو رہے ہیں صد ہزاراں آدمی اُس کا شکار
دوسرے منگل کے دن آیا تھا ایسا زلزلہ
جس سے اِک محشر کا عالَم تھا بصد شور و پکار‘‘
وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے
اب مَیں دیتا ہوں اگر کوئی ملے اُمیدوار‘‘
علماء سوء کی تکفیر و تکذیب
مامورمن اللہ دعویٰ سے قبل امیدوں کا مرجع ہوتے ہیں۔ لیکن دعویٰ کے بعد تعریف و توصیف کرنے والے لوگ ہی مخالفت پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ مخالفین کی اسی روش کا سامنا حضرت مسیح موعودؑ کو بھی کرنا پڑا۔ آثار میں بھی وارد ہواتھا کہ علماء سوء حضرت مسیح موعودؑ پر کفر کا فتویٰ لگائیں گے اور آپ علیہ السلام کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھیں گے۔ اس ضمن میں آپ علیہ السلام کے چند اشعار پیش ہیں۔
’’کافر و ملحد دجال ہمیں کہتے ہیں
نام کیا کیا غمِ ملت میں رکھایا ہم نے
تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمدؐ
تیری خاطر سے یہ سب بار اٹھایا ہم نے‘‘
’’غُل مچاتے ہیں کہ یہ کافر ہے اور دجّال ہے
پاک کو ناپاک سمجھے ہو گئے مُردار خوار‘‘
آپ کا دعویٰ مسلمانی
حضرت نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ کلمہ گو کو کافر کہنا خود کافر بننے کے مترادف ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کو کافر و دجال کہنے سے یہ لوگ خود حضرت نبی کریم ﷺ کے اس فرمان کی زد میں آتے ہیں۔
’’مجھ کو کافر کہہ کے اپنے کفر پر کرتے ہیں مہر
یہ تو ہے سب شکل ان کی ہم تو ہیں آئینہ دار‘‘
’’ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں
دل سے ہیں خدام ختم المرسلیں
شرک اور بدعت سے ہم بیزار ہیں
خاکِ راہِ احمدؐ مختار ہیں‘‘
’’جمال و حسنِ قرآں نورجانِ ہر مسلماں ہے
قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے‘‘
’’ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے
کوئی دیں دیںِ محمدؐ سا نہ پایا ہم نے‘‘
اللہ تعالیٰ اور آنحضرتؐ کی کامل پیروی میں نبوت کا انعام
’’سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا
وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے‘‘
’’ہم ہوئے خیر امم تجھ سے ہی اے خیر رسل
تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے‘‘
اظہار غیب
اللہ تعالیٰ انبیاء پر کثرت سے غیب کا اظہار فرماتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کثرت سے مکالمہ و مخاطبہ کا شرف بخشا اور مکالمہ و مخاطبہٴ الٰہیہ کی اسی کثرت کو آپ نے نبوت سے تعبیر فرمایا۔ ’’تذکرہ‘‘ میں ان الہامات و کشوف کا تذکرہ موجودہے۔ پیشگوئی مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے چند اشعار پیش ہیں۔
’’بشارت دی کہ اِک بیٹا ہے تیرا
جو ہو گا ایک دِن محبوب میرا
کروں گا دُور اُس مہ سے اندھیرا
دکھاؤں گا کہ اِک عالَم کو پھیرا
بشارت کیا ہے اِک دل کی غذا دی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ‘‘
آخری کامیابی
’’ہم تو ہر دم چڑھ رہے ہیں اک بلندی کی طرف
وہ بلاتے ہیں کہ ہوجائیں نہاں ہم زیر غار‘‘
ایک طوفان ہے خدا کے قہر کا اب جوش پر
نوح کی کشتی میں جو بیٹھے وہی ہو رستگار
صدق سے میری طرف آؤ اِسی میں خیر ہے
ہیں درندے ہر طرف مَیں عافیت کا ہوں حصار‘‘
’’باغ مُرجھایا ہوا تھا گر گئے تھے سب ثمر
میں خدا کا فضل لایا پھر ہوئے پیدا ثمار‘‘
’’خدا کے پاک بندے دوسروں پرہوتے ہیں غالب
مری خاطر خدا سے یہ علامت آنے والی ہے‘‘
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حضرت مسیح موعودؑ کے منظوم کلام کو ذہن نشین کرنے اور اس کلام کو برموقع ومحل اور برجستہ استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(نیاز احمد نائک۔ استاذجامعہ احمدیہ قادیان)