• 24 اپریل, 2024

اللہ تعالیٰ کی کیا حقیقت ہے؟ اس کا مرتبہ کیا ہے؟

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چند اقتباسات پیش کروں گا جن میں آپ نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی کیا حقیقت ہے؟ اس کا مرتبہ کیا ہے؟ اس کے سب طاقتوں کے مالک اور واحد و یگانہ ہونے کا مقام بیان فرمایا ہے نیز یہ بھی کہ وہی ہے جو تمام مخلوق کا خالق ہے۔ ہر چیز کو فنا ہے اور اس کو فنا نہیں۔ آپ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ اس کائنات کے خدا تک پہنچنے کا ذریعہ اب صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔ جس کا حسن و احسان میں کوئی ثانی نہیں۔ آپ نے بتایا کہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں کو دیکھنے کے لئے اس کی طرف خالص ہو کر جھکنا ضروری ہے۔ اس کے آگے خالص ہو کر جھکنا ضروری ہے۔ اس کی عبادت بجا لانا ضروری ہے۔ پھر جب انسان کی یہ حالت ہوتی ہے تو پھر خدا تعالیٰ دوڑ کر انسان کو گلے لگاتا ہے اور اس پر اپنے فضلوں کی بارش برساتا ہے۔ پس آپ نے بڑے درد سے فرمایا کہ ایسے خدا سے تعلق جوڑو تا کہ اپنی دنیا و آخرت سنوارنے والے بن سکو۔

اللہ تعالیٰ کی کیا حقیقت ہے، وہ خدا جو تمام کائناتوں کا مالک ہے جس کو اسلام نے پیش کیا ہے اس کی کیا حقیقت ہے؟ اس بارے میں ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ
’’خدا آسمان و زمین کا نور ہے۔ یعنی ہر ایک نور جو بلندی اور پستی میں نظر آتا ہے۔ خواہ وہ ارواح میں ہے۔ خواہ اجسام میں اور خواہ ذاتی ہے اور خواہ عرضی اور خواہ ظاہری ہے اور خواہ باطنی اور خواہ ذہنی ہے خواہ خارجی۔ (یعنی ہر قسم کا نور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی وہ نور ہے جو جسموں میں نظر آتا ہے۔ ذاتی خوبیاں ہیں ان میں نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض خاص آدمیوں کو دی گئی خوبیاں ہیں وہ ان میں نظر آتی ہیں، ظاہری خوبیاں ہیں یا چھپی ہوئی خوبیاں ہیں، ذہنی خوبیاں ہیں یا خارجی ہیں۔ انسان کے باہر نظر آرہی ہوتی ہیں۔ کسی چیز کی خوبصورتی جو نظر آ رہی ہوتی ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کے نور کی وجہ سے ہیں)فرمایا:اسی کے فیض کا عطیّہ ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت رب العالمین کا فیضِ عام ہر چیز پر محیط ہورہا ہے اور کوئی اس کے فیض سے خالی نہیں۔‘‘

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1 صفحہ191 حاشیہ نمبر11)

دنیا میں جتنی چیزیں ہیں، جتنی ان کی خوبیاں نظر آتی ہیں، جہاں جہاں خوبصورتی نظر آتی ہے، حسن نظر آتا ہے۔ انسان دیکھتا ہے اس کو فائدے پہنچ رہے ہوتے ہیں۔ ہر قسم کی چیزیں جو ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فیض عام کی وجہ سے ہیں اور اس کے فیض سے کوئی خالی نہیں چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ فرمایا کہ ’’وہی تمام فیوض کا مبدء ہے اور تمام انوار کا علت العلل اور تمام رحمتوں کا سرچشمہ ہے‘‘ (اسی سے تمام فیض پھوٹتے ہیں۔ وہی تمام نوروں کا سبب اور ذریعہ ہے۔ وہی ہے جہاں سے رحمتوں کے چشمے پھوٹتے ہیں) ’’اسی کی ہستیٔ حقیقی تمام عالَم کی قیّوم اور تمام زیر و زبر کی پناہ ہے۔‘‘ (یعنی تمام دنیا کے قائم رکھنے کے لئے اور جو بھی اس میں شکست و ریخت ہو رہی ہے یا جو بھی تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں وہ اسی کی طرف لوٹتی ہیں ) ’’وہی ہے جس نے ہرایک چیز کو ظلمت خانۂ عدم سے باہر نکالا‘‘ (جو اندھیروں میں پڑی ہوئی چیزیں تھیں ان کو باہر نکالا) ’’اور خلعتِ وجود بخشا۔ بجز اس کے کوئی ایسا وجودنہیں ہے کہ جو فی حد ذاتہ واجب اور قدیم ہو۔‘‘ (اس کے علاوہ کوئی ہستی نہیں، کوئی وجود نہیں جو اپنی ذات میں اس بات کا حقدار ٹھہرتا ہو اور ہمیشہ سے ہو) ’’یا اس سے مستفیض نہ ہو بلکہ خاک اور افلاک اور انسان اور حیوان اور حجر اور شجر اور روح اور جسم سب اسی کے فیضان سے وجود پذیر ہیں۔‘‘ (یہ دنیا، ہماری دنیا بھی، آسمان بھی، انسان بھی، حیوان بھی، پتھر بھی، درخت بھی، روح جسم ہر چیز جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فیض سے ہی وجود میں ہے۔)

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ191۔ 192حاشیہ نمبر 11)

(خطبہ جمعہ 18؍ اپریل 2014ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 ستمبر 2020