• 23 اپریل, 2024

موجودہ دور میں تربیت اولاد

پودا جب زمین سے اگتا ہے اس کا تنا اور اس کی کونپلیں نہایت نرم ہوتی ہیں اس کو مختلف قسم کے سہارے دے کر جس ڈیزائن میں چاہوتیار کر لو ۔ وہ پودا آپ کے باغ کی بہترین زینت بن جائے گا لیکن اگر اس کی طرف توجہ نہ دی جائے اس کی شاخیں چاروں طرف جس طرح پھیلیں گی وہ کوئی خوشنما منظر نہ ہو گا بلکہ ممکن ہے بعض قریب سے گزرنے والوں کی ٹوپی یا پگڑی گرانے کا سبب بن جائیں ۔

یہی حال ہماری اولاد کا ہے ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے گھر اولاد ہو اور اس کی نسل آگے سے آگے چلتی چلی جائے۔ اسلام نے اس خواہش کو نہیں دبایا لیکن اس کے ساتھ اس کو نیک اسلوب میں ڈھالنے اور اچھے سے اچھے نتائج کے حصول کی طرف توجہ دلائی ہے چنانچہ ہر مرد اور عورت کو یہ دعا سکھائی کہ

رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا

(الفرقان 75)

اے ہمارے رب! ہمیں زندگی کے ایسے ساتھی اور ایسی اولاد عطا فرما جو ہمارے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں تقو یٰکی راہوں پر چلنے والے ہوں اور ہمیں بھی تقو یٰکی اتنی دولت نصیب ہو کہ ہم اپنی متقی اولاد کے امام بن جائیں ۔ (آمین)

پھر یہ بھی ارشاد الٰہی ہے۔ قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا (التحریم 7)

اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ۔

اب ان دونوں مقامات میں اول اچھے جیون ساتھی ملنے کی دعا دوم اولاد اور اہل خانہ کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک کے نصیب ہونے لیکن اس کے لیے اپنے آپ کو تقو یٰ کے اعلی معیار پر قائم کرنے کی ہدایت فرمائی۔

اور پھر دوسری آیت کریمہ میں اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچانے کے لیے کوشش اور دعا کی تلقین فرمائی۔

بعض اوقات بعض والدین بچوں کو ان کے حال پر آزاد چھوڑ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خود ہی بڑا ہو کر ٹھیک ہو جائے گا۔ حالانکہ یہاں تو مضمون اس سے بالکل برعکس ہے اولاد کے اس دنیا میں آنے سے بہت پہلے یہ دعا کرنے کا ارشاد ہے کہ ہمیں نیک اور متقی جیون ساتھی عطا فرما اور پھر اولاد کے اس دنیا میں آنے کے بعد اسے نہلا دھلا کر پہلا کام جو کرنا ہے وہ دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت گویا کہ اس دنیا میں آتے ہی اس بچے کے کان میں سب سے پہلے توحید اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی دعوت کی آواز سنائی دے۔

پھر فرمایا جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو اسے نماز کی ترغیب دو اور دس سال کی عمر کو پہنچ کر بھی اگر وہ نماز کی طرف توجہ نہیں کرتا تو اسے سرزنش کرو۔

یہاں پھر ہمیں وہ پہلی بات کی طرف لوٹنا ہو گا ۔ نماز کی تلقین یا کمزوری کی حالت دیکھ کر سرزنش تو تبھی ہم کر سکیں گے اگر ہم خود نماز کے پابند ہیں اور سات سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہم نے اپنے بچوں کو بھی نماز سکھا دی ہے لیکن اگر ہم اپنی مختلف مصروفیات کے باعث نمازوں کے اوقات میں نماز سے غفلت کرتے ہیں تو یاد رکھیں کہ ہم اپنے بچوں سے بھی نیکی کی توقع نہ رکھیں کیونکہ بچے ہمارے سامنے بول تو نہیں سکتے لیکن وہ ہمیں اور ہمارے کردار کو خوب نوٹ کرتے ہیں اس لیے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے نیک بنیں ، نمازیں اپنے وقت پر ادا کریں تو ہمیں بھی ایسا کرنا ہو گا۔ تا ان کے لیے اچھا نمونہ بنیں ۔ اب دیکھو ماں باپ اگر اولاد کو جھوٹ بولنے اور گال گلوچ کرنے سے منع کرتے ہیں تو بہت اچھی بات ہے کیونکہ یہ بیماری ہمارے معاشرے میں عام ہے اور بچہ بھی کہیں سے یہ سب سیکھ سکتا ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ان بد عادتوں سے بچنے کی تلقین کرتے رہیں لیکن یاد رکھیں ہماری سب پند و نصائح تبھی اچھے پھل لائیں گی اور نیکی کا ماحول پیدا کریں گی جب ہم خود بھی ان بد عادتوں سے بچیں گے لیکن اگر گھر میں بچہ ہر وقت بات بات پر گال گلوچ سنتا ہے اور اپنی والدہ کو والد سے اور والد کو والدہ سے طرح طرح کے جھوٹ بولتے بلکہ اپنی بات پر یقین دلانے کے لیے قسمیں اٹھاتے دیکھتا ہے تو وہ بھی یقینا اس راہ کو اپنائے گا ۔ اس لیے وہ جو دعا میں متقیوں کا امام بننے کی دعا سکھائی ہے اس میں یہی راز ہے کہ ہمیں اپنی اولاد کو تقو یٰ کی راہوں پر چلانے کے لیے خود ان کا امام بننا ہوگا۔

ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ہر بچہ فطرت صحیحہ پر پیدا ہوتا ہے بعد میں اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں۔ اب یہاں کسی بیرونی ماحول کے غلط اثر کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ سب نیکی بدی کو ماں باپ کی طرف منسوب فرمایا ہے کیونکہ ہر بچے کی بنیاد وہاں پر اٹھتی ہے ۔ بیرونی ماحول خواہ یورپ ہو یا ایشیا ہو کوئی بھی ماحول ہو اگر اپنے بچے کو آپ نے ابتدائی طور پر تقو یٰ کی راہوں پر چلا دیا تو پھر آندھیاں چلیں یا طوفان آئیں ان پودوں کی جڑیں مضبوطی سے تقو یٰ کی راہوں پر قائم ہوں گی ہر شر کا مقابلہ کریں گے لیکن اگر گھریلو سطح پر ان کو مضبوط زمین نہ ملی تو پھر ہوا کا جھونکا بھی ان کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے کافی ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے کوئی وصیت کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا تقویٰ اختیار کرو کیونکہ تمام بھلائیوں کی یہ بنیاد ہے۔

(حديقۃ الصالحین مرتبہ حضرت ملک سیف الرحمٰن صفحہ552)

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں
’’جب تقویٰ نہ ہو تو ایسی حالت میں اولاد بھی پلید پیدا ہوتی ہے اولاد کا طیب ہونا تو طیبات کا سلسلہ چاہتا ہے اگر یہ نہ ہو تو پھر اولاد خراب ہوتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ164)

فرمایا: ’’صالح آدمی کا اثر اس کی ذریت پر بھی پڑتا ہے اور وہ بھی اس سے فائدہ اٹھاتی ہے ۔۔۔۔۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے کہا ہے میں بچہ تھا بوڑھا ہوا میں نے کسی خدا پرست کو ذلیل حالت میں نہیں دیکھا اور نہ اس کے لڑکوں کو دیکھا کہ وہ ٹکڑے مانگتے ہوں گویا متقی کی اولاد کا بھی خدا تعالیٰ ذمہ دار ہوتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ117 تا 118)

سیدنا حضرت امیر المؤمنین خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 14 جولائی 2017ء میں فرمایا۔
’’بہت سی عورتیں مرد لکھتے ہیں اور ملیں، ملاقات کریں تب زبانی بھی یہی کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں اولاد ہونے والی ہے اس کے لئے دعا کریں۔ یا یہ کہ ہم اس پیدا ہونے والی اولاد کے لئے کیا دعا کریں۔ یا پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ ہماری اولاد ہے، بچے ہیں اور بچپن سے جوانی کی طرف بڑھ رہے ہیں، اس میں قدم رکھنے و الے ہیں، ان کی تربیت کی فکر رہتی ہے ان کے لئے کیا دعا کریں؟ کس طرح ان کی تربیت کریں کہ ہمارے بچے صحیح راستے پر اور نیکیوں پر قائم رہیں؟

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی اکثریت یہ سوچ رکھتی ہے اور ان کو یہ توجہ ہے یا کم از کم فکر ہے کہ کس طرح اپنے بچوں کی تربیت کرنی ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کا ہم احمدیوں پر بہت بڑا فضل اور احسان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی وجہ سے ہماری سوچیں اس زمانے میں جبکہ دنیا کی خواہشات نے ہر ایک کو گھیرا ہوا ہے، یہ ہیں کہ ہم اپنی اولاد کے لئےصرف دنیا کی فکر نہیں کرتے بلکہ دین کی بہتری کا بھی خیال پیدا ہوتا رہتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ہم مسلمانوں پر احسان فرمایا ہے بشرطیکہ مسلمان اس طرف توجہ دیتے ہوئے اس پر عمل کرنے والے ہوں کہ قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر بچوں کی پیدائش سے پہلے سے لے کر تربیت کے مختلف دَوروں میں سے جب بچہ گزرتا ہے تو اس کے لئے دعائیں بھی سکھائی ہیں اور تربیت کا طریق بھی بتایا ہے اور والدین کی ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ اگر ہم یہ دعائیں کرنے والے اور اس طریق کے مطابق اپنی زندگی گزارنے والے اور اپنے بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دینے والے ہوں تو ایک نیک نسل آگے بھیجنے والے بن سکتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بچوں کی تربیت کوئی آسان کام نہیں اور خاص طور پر اس زمانے میں جب قدم قدم پر شیطان کی پیدا کی ہوئی دلچسپیاں مختلف رنگ میں ہر روز ہمارے سامنے آ رہی ہوں تو یہ بہت مشکل کام ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے جب دعائیں اور طریق بتائے ہیں تو اس لئے کہ اگر ہم چاہیں تو خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی شیطان کے حملوں سے بچا سکتے ہیں لیکن اس کے لئے مسلسل دعاؤں، اللہ تعالیٰ کی مدد اور محنت اور کوشش کی ضرورت ہے۔ ایک مسلسل جہاد کی ضرورت ہے۔ اور حقیقی مومن سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جُڑ کر اپنے آپ کو بھی اور اپنی اولاد کو بھی شیطان کے حملوں سے بچائے نہ کہ مایوس ہو جائے یا تھک جائے اور خوفزدہ ہو کر منفی سوچوں کو اپنے اوپر طاری کر لے۔‘‘

پس مومنوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی اصلاح کی طرف ہمیشہ متوجہ رہیں اور اپنی اولاد کی بھی فکر کرتے رہیں اور ان کی نگرانی کرتے ہوئے زندگی کے ہر معاملے میں ان کی مناسب راہنمائی کریں اور اس رنگ میں ان کی تربیت کریں کہ ان کے اندر اللہ تعالی کی محبت کا جذبہ موجزن ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا ہر چیز ان کی نظروں میں ہیچ ہو جائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہمارے مد نظر رہے کہ اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی اعلی تخفہ نہیں جو باپ اپنی اولاد کو دے سکتا ہے۔

(ترمذی ابواب البر والصلۃ باب فی ادب الولد)

اور پھر یہ بھی یاد رکھیں کہ اولاد کی تربیت کوئی اختیاری کام نہیں بلکہ فرض ہے اور ایسا فرض ہے جس کے بارہ میں ہم اللہ تعالیٰ کے حضور پوچھے جائیں گے ۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک اپنے اہل و عیال پر اس طرح نگران ہے جس طرح ایک چرواہا بھیڑوں کا نگران ہوتا ہے اور ہم میں سے ہر ایک سے اس کی اس ذمہ داری کے بارہ میں خدا کو جواب دینا ہو گا ۔ اسی لیے قرآن شریف میں ہمارے رب نے ہمیں دعا سکھائی کہ ہم خدا کے حضور دعا کرتے رہیں ’’اَصۡلِحۡ لِیۡ فِیۡ ذُرِّیَّتِیۡ‘‘ (الاحقاف: 16) میرے لئے میری ذریت کی بھی اصلاح کر دے۔

حضرت خلیفتہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پر فرمایا تھا ’’یہ زمانہ ایسا نہیں جس میں ہم ذرا بھی غفلت برتیں اور سستی سے کام لیں اس لیے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں کو سنبھال لیں ان کی بہترین رنگ میں تربیت کریں۔‘‘

(مشعل راہ جلد دوم صفحہ5 40)

سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا
’’جماعت اور اسلام کا غلبہ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے۔ اس خدا کی تقدیر ہے جو تمام طاقتوں کا مالک خدا ہے اور وہ ناقابلِ شکست اور غالب ہے۔ اگر کوئی ہم میں سے راستے کی مشکلات دیکھ کر کمزوری دکھاتا ہے، اگر ہماری اولادیں ہمارے ایمان میں کمزوری کا باعث بن جاتی ہیں، اگر ہماری تربیت کا حق ادا کرنے میں کمی ہماری اولادوں کو دین سے دور لے جاتی ہے، اگر کوئی ابتلا ہمیں یا ہماری اولادوں کو ڈانواں ڈول کرنے کا باعث بن جاتا ہے تو اس سے دین کے غلبے کے فیصلے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہاں جو کمزوری دکھاتے ہیں وہ محروم رہ جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ دوسروں کو سامنے لے آتا ہے، اور لوگوں کو سامنے لے آتا ہے، نئی قومیں کھڑی کر دیتا ہے۔ پس اس اہم بات کو، اور یہ بہت ہی اہم بات ہے ہمیں ہمیشہ ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی نسلوں کی تربیت کی فکر کی ضرورت ہے۔ سب سے اہم بات اس سلسلے میں ہمارے اپنے پاک نمونے ہیں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد8 صفحہ507)

(محمد ادریس شاهد۔ فرانس)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 ستمبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ