• 19 اپریل, 2024

گفتگو کا سلیقہ

انسان کے اخلاق کی پرورش میں اس کا طرزِ کلام بہت اہمیت رکھتاہے۔ انسانی سوچ کا انسانی خیالات پر گہرا اثر ہوتا ہے جس قدر پاکیزہ سوچ ہوگی اُسی قدر پاکیزہ کلام زبان سے ادا ہوگا۔ مثبت سوچ سے مثبت رویے جنم لیتے ہیں جبکہ منفی سوچ سے منفی رجحانات پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے اپنی سوچ کو ہمیشہ مثبت رکھنا چاہئے ورنہ منفی سوچیں انسان کے دل ودماغ میں جگہ بنالیتی ہیں اور بالآخر وہ مردم بیزار ہوجاتا ہے۔ اگرکوئی انسان اپنی زبان سے ہمیشہ سخت اور ناپسندیدہ الفاظ ادا کرتا رہے تو ایک وقت آئے گا کہ اُس کی بات سننے والا کوئی نہ ہوگا اور لوگ اس سے متنفر ہوکر دور ہوجائیں گے۔ اگر ہم اپنے ارد گرد بسنے والوں سے ہنستے مسکراتے چہروں کے ساتھ ہم کلام ہوں،نرم لہجے میں گفتگو کریں، پاکیزہ طرز کلام اپنائیں اور ترش روئی کو چھوڑ دیں تو ہر کوئی ہماری طرف متوجہ ہوگا، ہماری بات کو اہمیت دے گا اور اُسے غور اور توجہ سے سنے گا۔

گفتگو، بات چیت کی ایک قسم ہے جو دویا زائد افراد یا دوٹیموں کے درمیان ہوتی ہے۔ گفتگو انسانی افکار، خیالات اور اعتقادات کو دوسروں تک پہنچانے کا آسان اور اہم ترین ذریعہ ہے۔ گفتگو کے دوران دو فریقین کے درمیان باتوں کا تبادلہ برابری کی بنیاد پر ہوتا ہے۔جس میں کسی کو دوسرے پرفوقیت یا برتری حاصل نہیں ہوتی بلکہ وہ باہم ایک خوشگوار ماحول میں تبادلہ خیالات کرتے ہیں۔ یعنی وہ کسی خطیب یا مقرر کے طور پر گفتگو میں شامل نہیں ہوتے بلکہ ہر شخص دوسرے کے خیالات سے استفادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ گفتگو کا فن ہر زمانے میں تعلقاتِ عامہ کا اہم جزو رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک شخص ارسطو کے پاس آیا اور کافی دیر خاموش بیٹھا رہا۔ ارسطو نے اس سے کہا کہ تُو میرے ساتھ کچھ گفتگو کر، تاکہ میں تجھے جان سکوں۔ اسی حقیقت کو ایک فارسی شعر میں یوں بیان کیا گیا ہے۔

؎ تا مرد نہ گُفتہ باشد عیب و ہنرش نہفتہ باشد

یعنی جب تک انسان گفتگو نہیں کرتا اُس کے عیب اور خوبیاں چُھپی رہتی ہیں گویا گفتگو کسی بھی انسان کے تعارف اور اس کی شخصیت کو جاننے کا بہت بڑا ذریعہ ہے جس سے اُس انسان کے کردار اور اخلاق کو شناخت کرنے میں مدد ملتی ہے۔پس یہ حسن اخلاق یا حسن گفتار ہی ہے جو انسان کو لوگوں میں ہر دلعزیز اور مقبول بنا دیتاہے اور وہ میدانِ عمل میں لوگوں کا منظور نظر بن جاتا ہے جبکہ ایک بداخلاق اور بد تہذیب انسان دوسروں کی نگاہ میں حقیر اور ذلیل ہوجاتا ہے۔ اس لیے گفتگو کرتے وقت فریقین کو اپنی زبان پر کنٹرول رکھنا چاہئے تاکہ ان کی گفتگو سے اخوت و محبت اور بھائی چارے میں اضافہ ہو اور گفتگو کے اختتام پر آپسی تعلقات مزید مضبوط ہوجائیں۔مشہور ضرب المثل ہے کہ ’پہلے تولو پھر بولو‘۔یہ بات مومن کی شان کے منافی ہے کہ وہ لغو اور بیہودہ گفتگو کرے اور بد اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسروں کے دلوں کو ٹھیس پہنچائے۔ایک مومن کی زندگی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کے خوشنودی کا حصول ہے جس کے لیے پاکیزگی کا اختیار کرنالازمی امر ہے۔پس اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بلندیوں کی طرف محو پرواز ہونے کے لیے اپنی زبان کو سدھارنا اور اُس کو حسن کلام کے زیور سے آراستہ کرنا ازبس ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۲﴾ الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ ۙ﴿۳﴾ وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ ﴿ۙ۴﴾

(المؤمنون: 2 تا 4)

’’یقیناً مومن کامیاب ہوگئے۔ وہ جو اپنی نمازوں میں عاجزی کرنے والے ہیں اور جو لغو باتوں سے اعراض کرنے والے ہیں۔‘‘

قرآن شریف نے جنتیوں اور دوزخیوں کے درمیان ہونے والا ایک نصیحت آموز مکالمہ بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ: ’’ہر جان جو کسب کرتی ہے اسی کی رہین ہوتی ہے۔ سوائے دائیں طرف والوں کے۔ جو جنتوں میں ہوں گے۔ ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوں گے۔ مجرموں کے بارہ میں۔ تمہیں کس چیز نے جہنّم میں داخل کیا؟ وہ کہیں گے ہم نمازیوں میں سے نہیں تھے۔ اور ہم مسکینوں کو کھانا نہیں کھلایا کرتے تھے۔ اور ہم لغو باتوں میں مشغول رہنے والوں کے ساتھ مشغول ہوجایا کرتے تھے۔ اور ہم جزا سزا کے دن کا انکار کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ موت نے ہمیں آلیا۔‘‘ (المدّثر: 48-39) قرآن کریم کی ان آیات سے واضح ہے کہ جنت کے حصول کے لیے جہاں عبادات کا قیام اہم کردار ادا کرتا ہے وہیں انسانوں کی خدمت اور انہیں تکلیفوں سے بچانا بھی بہت ضروری ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

کسی شخص کے بہترین مسلمان ہونے کا تقاضا ہے کہ لغو باتوں کو چھوڑ دے۔

(جامع ترمذی، ابواب الزھد، بَابُ مَاجَآءَ فِی مَنْ تَکَلَّمَ بِالْکَلِمَۃِ لِیُضْحِکَ النَّاسَ)

عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مَاالنَّجَاۃُ قَالَ اَمْلِکْ عَلَیْکَ لِسَانَکَ وَلْیَسَعْکَ بَیْتُکَ وَابْکِ عَلٰی خَطِیْٓئَتِکَ

(جامع ترمذی، ابواب الزھد، بَابُ مَاجَآءَ فِی حِفْظِ اللِّسَانِ)

ترجمہ: حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ! نجات کیا ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اپنی زبان قابو میں رکھو، اپنے گھر میں رہو اور اپنی غلطیوں پر رویا کرو۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کی زبان سے نکلنے والی مختلف بولیوں کواپنی قدرت کا نشان قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے:

وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖ خَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافُ اَلۡسِنَتِکُمۡ وَ اَلۡوَانِکُمۡ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلۡعٰلِمِیۡنَ ﴿۲۳﴾

(الرّوم: 23)

’’اور اس کے نشانات میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش ہے اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کے اختلاف بھی۔ یقینا اس میں عالموں کے لیے بہت سے نشانات ہیں۔‘‘ اگرچہ ہر انسان کا لہجہ، تلفظ اور طرزِ گفتگو دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ اُن کے رنگ اور بولیاں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن سب کی گفتگو کے اعضاء ایک جیسے ہوتے ہیں۔ سب کے منہ اور زبان کی ساخت ایک جیسی ہے۔ اس لیے کسی انسان کو یہ حق نہیں پہنچتاکہ وہ دوسرے انسانوں کو حقیر یا کم تر جانے اور اُن کی تحقیر کرے۔ان کا تمسخر اڑائے، انہیں شرمندہ کرے یا اُن کی کسی جسمانی کمزوری کو بنیاد بنا کر اُنہیں دکھ اور تکلیف میں مبتلا کرے۔ قرآن کریم نے ہر حال میں نرم اور پاک گفتگو کی طرف متوجہ فرمایا ہے:

وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا۔

(البقرہ: 84)

’’اور لوگوں سے نیک بات کہا کرو۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے جب اپنے دو انبیاء کو فرعون کی طرف دعوت حق کے لیے بھیجا تو انہیں یہی نصیحت فرمائی کہ اُس سے نرم بات کہنا چنانچہ فرمایا:

اِذۡہَبَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ اِنَّہٗ طَغٰی۔ فَقُوۡلَا لَہٗ قَوۡلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوۡ یَخۡشٰی۔

(طٰہٰ: 45-44)

’’تم دنوں فرعون کی طرف جاؤ۔ یقینا اس نے سرکشی کی ہے۔ پس اس سے نرم بات کہو۔ ہوسکتا ہے وہ نصیحت پکڑے یا ڈر جائے۔‘‘

قرآن شریف کے ایک اور مقام پر اچھے کلمے اور اچھی گفتگو کو ایک مثال کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ ﴿ۙ۲۵﴾ تُؤۡتِیۡۤ اُکُلَہَا کُلَّ حِیۡنٍۭ بِاِذۡنِ رَبِّہَا ؕ وَ یَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡاَمۡثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ ﴿۲۶﴾

(ابراہیم: 26-25)

’’کیا تو نے غور نہیں کیا کہ کس طرح اللہ نے مثال بیان کی ہے ایک کلمہ ٔطیّبہ کی ایک شجرۂ طیّبہ سے۔ اس کی جڑ مضبوطی سے پیوستہ ہے اور اس کی چوٹی آسمان میں ہے۔ وہ ہر گھڑی اپنے ربّ کے حکم سے اپنا پھل دیتا ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔‘‘

پس اچھا طرز کلام دلوں کو فتح کرتا ہے جس سے دل دلوں کے قریب ہوتے ہیں اور اس کے معاشرے پر مثبت اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ اس ذریعہ سے محبت کی کھیتیاں اُگتی ہیں اور نفرت کی دیواریں گرجاتی ہیں۔معاشرے میں پر امن فضا پیدا ہوتی ہے۔ جب تحمل اور بردباری فروغ پاتی ہے تو ہر کسی کو بات کہنے کا موقع ملتا ہے۔ جس سے باہمی تعلقات مضبوط ہوتے ہیں اور ایک پرسکون ماحول جنم لیتا ہے۔ پس اچھے روّیوں کے پھل نہایت شیریں اور دیرپا ہیں۔ پنجابی زبان کا مقولہ ہے: زبان شیریں ملک گیری یعنی اگر زبان میٹھی ہو تو انسان لوگوں کے دلوں پر حکومت کرسکتا ہے۔ سندھی زبان کی ایک کہاوت ہے جس ترجمہ یہ ہے کہ زبان ہے تو چھوٹی سی چیز مگر بگڑے تو بِس (زہر) کی گانٹھ بن جاتی ہے۔ پس کوئی بھی بات کہنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لینا چاہئے کہ جو بات کہی جارہی ہے وہ کسی کی دل آزاری کا باعث تو نہیں ہوگی۔ کہتے ہیں کہ کمان سے نکلا تیر اور زبان سے نکلے الفاظ کبھی واپس نہیں لوٹتے۔ زبان اگرچہ ایک چھوٹی سی اور خفیف وزن چیز ہے مگر اس کو قابو میں رکھنے کا فن ہر کوئی نہیں جانتا۔ بعض لوگ اپنی زبان کے غلط استعمال سے دلوں پر ایسے زخم لگا دیتے ہیں جو کبھی مندمل نہیں ہوتے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ تلوار کا لگا گھاؤ جلد مندمل ہو جاتا ہے جبکہ زبان کے لگے گھاؤ کو مندمل ہوتے ہوتے بہت وقت لگ جاتا ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے؎

چھری کا تیر کا تلوار کا تو گھاؤ بھرا
لگا جو زخم زباں کا رہا ہمیشہ ہرا

(اسماعیل میرٹھی)

حقیقت یہ ہے کہ جو انسان اپنی زبان کو قابو میں رکھنے کا فن جان لیتاہے لوگ اس کی قدر کرتے ہیں اور وہ ہر جگہ عزت پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:

قَوۡلٌ مَّعۡرُوۡفٌ وَّ مَغۡفِرَۃٌ خَیۡرٌ مِّنۡ صَدَقَۃٍ یَّتۡبَعُہَاۤ اَذًی۔

(البقرہ: 264)

’’اچھی بات کہنا اور معاف کردینا زیادہ بہتر ہے ایسے صدقہ سے کہ کوئی آزار اُس کے پیچھے آرہا ہو۔‘‘

رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے:
اچھی بات کہنا خاموشی سے بہتر ہے اور خاموش رہنا بری بات کہنے سے بہتر ہے۔

(شعب الایمان جلد4 صفحہ256۔ حدیث نمبر 4993)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فرمان کس قدربرحق ہے۔ جس میں آپ ؑ نے فرمایا ہے:
’’تقویٰ تمام جوارح انسانی اور عقائد، زبان، اخلاق وغیرہ سے متعلق ہے نازک ترین معاملہ زبان سے ہے۔ بسا اوقات تقویٰ کو دُور کرکے ایک بات کہتا ہے اور دل میں خوش ہوجاتا ہے کہ مَیں نے یُوں کہا اور ایسا کہا، حالانکہ وہ بات بُری ہوتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ280۔ نظارت نشرو اشاعت قادیان۔2003ء)

انسان کے کردار کی تعمیر میں اس کی گفتگو بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ زبان ہی ہے جس کے ذریعہ معاملات کو خوش اسلوبی سے حل بھی کیا جاسکتا ہے اور بگاڑا بھی جاسکتا ہے۔ اگر انسان اپنی زبان کو کنڑول کرنے کا ملکہ حاصل کرلے اور اپنی گفتگو کو اچھے پیرائے میں بیان کرنا سیکھ لے تو وہ بہت ساری الجھنوں اور پریشانیوں سے بچ سکتا ہے۔ گفتگو کے دوران اچھے الفاظ کا چناؤ جہاں انسان کے مقام ومرتبہ کو بلند کرتے ہیں وہیں غیر مناسب الفاظ کے استعمال سے اس کی عزت گھٹ جاتی ہے اور وہ لوگوں کی نگاہ سے گر جاتا ہے۔عربی زبان کا ایک مشہور محاورہ ہے:

اَللِّسَانُ مَرْکُوْبٌ ذَلُوْلٌ۔

زبان سدھائی ہوئی سواری ہے یعنی زبان کو استعمال کرنا ہر انسان کے اپنے اختیار میں ہے وہ جس طرح چاہے اُسے استعمال کرسکتا ہے۔ عربی کا ہی ایک اور محاورہ ہے:

لِیْنُ الْکَلَامِ قَیْدُ الْقُلُوْبِ۔

نرم کلامی دلوں کی بیڑی ہے یعنی نرم اور اچھی زبان کے استعمال سے دلوں کو فتح کیا جاسکتا ہے۔

پس زبان کو درست رکھنا انسان کے اپنے اختیار میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کی گئی اس نعمت سے صحیح رنگ میں فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے کسی لفظ اور فقرے سے کسی کی دل آزاری نہ ہو اور ہمارے الفاظ سے کسی کی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہنچے۔ ہماری گفتگو خوشامد اور خود ستائی سے ہٹ کر ہمیشہ کلمۂ خیر پر مشتمل ہونی چاہئے کیونکہ ہماری زبان سے جو لفظ ادا ہوتے ہیں اُنہیں لکھنے اور شمار کرنے والے بہت مستعد اور چوکس ہیں:

مَا یَلۡفِظُ مِنۡ قَوۡلٍ اِلَّا لَدَیۡہِ رَقِیۡبٌ عَتِیۡدٌ ﴿۱۹﴾

(قٓ: 19)

’’وہ کوئی بات نہیں کہتا مگر اس کے پاس ہی (اس کا) ہمہ وقت مستعد نگران ہوتا ہے۔‘‘

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کون سا مسلمان بہتر ہے؟ آپؐ نے فرمایا: وہ جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔

(صحیح مسلم، کتاب الایمان: بَابُ بَیَانِ تَفَاضُلِ الْاِسْلَامِ وَ أَیُّ أُمُوْرِہِ أَفْضَلُ)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے شرائط بیعت میں چوتھی شرط یہ بیان فرمائی ہے:
چہارم یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا۔ نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے۔

(اشتہار تکمیل تبلیغ 12/جنوری 1889ء)

ہمارے لفظوں میں بہت طاقت ہے جو انسانوں کو جوڑنے اور توڑنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اب یہ ہر انسان پر منحصر ہے کہ وہ کس قسم کا طرز عمل اختیار کرتا ہے۔ ہر عقل مند اور صاحب بصیرت انسان کی یہی کوشش ہونی چاہئے کہ حسن اخلاق اور اچھی زبان کے استعمال سے لوگوں کے دل جیتے جائیں اور عارضی خوشی کی خاطر کسی پر طنز کے تیر چلانے سے پرہیز کیا جائے۔ اگر کوئی اچھی بات نہ سوجھے تو بہتر ہے کہ اپنی زبان کو دہن کے اندر آرام کا موقع دیا جائے جس میں کسی قسم کے نقصان کا احتمال نہیں بلکہ سراسر فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے اعمال کو حسن اخلاق کے زیور سے مزّین فرمادے۔ آمین

(ظہیر احمد طاہر ۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 ستمبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ