• 26 اپریل, 2024

This Week with Huzoor (17 جون 2022ء)

This Week with Huzoor
17 جون 2022ء

گزشتہ اتوار (مورخہ 12 جون 2022ء) آسٹریلیا کے خدام جو وکٹوریا ریجن سے تعلق رکھتے ہیں، انہیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ورچوئل ملاقات کا شرف نصیب ہوا۔ایک منظور شدہ پروگرام کے بعد، جو خدام میلبورن کے بانجول پیلس کانفرس سینٹر میں جمع تھے۔ ان خدام نے مختلف سوالات کے ذریعہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے رہنمائی حاصل کی۔ جس کی تفصیل ذیل میں ہے۔

سوال: (میرا نام جونئیر ہے اور میں نے اپنا مسلمان نام جنید اپنایا ہے) پیارے حضور کئی نو مبائع ایسے ہیں جو مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ جن کا وجود ہزاروں سالوں سے ہے۔ میں سمؤان ثقافت سےتعلق رکھتا ہوں۔ ہمیں اپنے آباؤاجدادکی روایات، طور طریقےاور تہواروں کے متعلق کیا رائے رکھنی چاہئے؟ کیا ہمیں اپنے ماضی اور پچھلی تاریخ کا اعتراف کر کے اسے ماننا چاہئے یا کیا ہمیں اپنے سے پہلوں کی طرز زندگی سے دوری اختیار کر کے ممتاز رہنا چاہئے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’دیکھیں! ہم بنیادی طور پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم اور ملک میں انبیاء بھیجے اور سب ایک ہی تعلیم لے کر آئے۔یعنی یہ کہ بنی نوع انسان اپنے خالق کے آگے جھکیں اور اس کے حقوق ادا کریں۔ان انبیاء نے ہمیں اچھے اخلاق بھی سکھائے۔ یہ بات ہر مذہب میں مشترک طور پر پائی جاتی ہے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اہل کتاب کو فرماتا ہےکہ، اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تو انہیں کہہ دے کہ ان باتوں کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہیں اور ان باتوں میں جو سب سے اہم بات ہے وہ واحد اور قادر مطلق خدا کی عبادت کرنا ہے۔ہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ اگرچہ دنیا میں مختلف قبائل اور قومیں ہیں لیکن ان سب کی تعلیم و تربیت ان کے انبیاء نے کی۔ہر مذہب کی اصل اور بنیادی تعلیم یہی تھی کہ وہ اپنے لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچائیں جو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ یعنی اپنے حقیقی خالق کے آگے جھکیں۔نیز اچھے اخلاق کا مظاہرہ کریں اور ایک دوسرے کی عزت و تکریم کریں۔یہ باتیں مشترک ہیں۔پھر اس کے علاوہ بعض مخصوص روایات ہیں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ تمام سابقہ انبیاء کی اچھی باتیں اس (قرآن) میں جمع کر دی گئی ہیں۔قرآن کریم کی نئی تعلیمات کے علاوہ پرانی تعلیمات بھی موجود ہیں،جو سابقہ انبیاء لائے اور جو انہوں نے مختلف قوموں کو سکھائیں۔اب آپ کا سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنی روایات کی پیروی کریں؟ ایک بنیادی اصول آپ ضرور یاد رکھیں کہ کوئی بھی روایت جو اللہ تعالیٰ کی توحیداور غیر مطلق ہونے کا انکار کرے اسے لازماً چھوڑ دیا جائےاس کے علاوہ کچھ کلچر کی روایات ہوتی ہیں۔جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔وہ آپ کو روزانہ پنجوقتہ نمازوں کی ادائیگی سے نہیں روکتیں، نماز سے نہیں روکتیں، روزہ رکھنے سے، قرآن کریم پڑھنے سے، عمدہ اخلاق دکھانے سے نہیں روکتیں۔پس اگر وہ آپ کو ان باتوں کے کرنے سے نہیں روکتیں تو پھر اپ ان روایات پر عمل کر سکتے ہیں۔اس کے علاوہ اگر کوئی ایسی روایت ہو جو اسلامی تعلیمات سے متصادم ہو تو آپ کو اس سے رکنا ہو گا۔اسلام عالمی مذہب ہے اور دنیا بھر سے لوگوں نے اسلام قبول کیاہے۔اور اب بھی لوگ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ ہر ملک، ہر لوگ اور ہر قبیلہ کی مختلف روایات ہیں۔ وہ اپنی روایات پر عمل کر سکتے ہیں جب تک وہ اسلام کی بنیادی تعلیمات سے متصادم نہ ہوں۔ آپ ایسا کر سکتے ہیں۔ چنانچہ شادی بیاہ کے موقع پر مختلف قبائل کے مختلف رسم و رواج ہیں۔ آپ انہیں اد اکر سکتے ہیں اگر وہ اسلامی تعلیمات سے متصادم نہ ہوں، اگر وہ خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا انکار کرنے والی نہ ہوں تو پھر آپ ایسا کر سکتے ہیں۔ چنانچہ جب بھی آپ کوئی عمل کر رہے ہوں تو اللہ تعالیٰ کا تقدس ہمیشہ قائم رہنا چاہئے ۔یہ بنیادی امر ہے۔‘‘

سوال: ایک خادم نے سوال کیا کہ ’’پیارے حضور !ہم افغانستان سے یہاں آئے ہیں۔ آپ کی نظر میں افغانستان میں احمدیت کا کیا مستقبل ہے؟‘‘

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’آپ آ گئے۔ باقی بھی چھوڑ کر آ رہے ہیں، تومستقبل کیا ہونا ہے؟ جو احمدی تھے وہ چھوڑ کر آگئے۔ حضرت مسیح موعودؑ  نے جو صاحبزادہ عبداللطیف شہیدؓ  کی شہادت پر کہا تھا کہ ’’سر زمین کابل تو خدا کی نظر سے گِر گئی‘‘ تو وہ تو اُس وقت تک گِری رہے گی جب تک وہاں احمدی نہیں پیدا ہوتے۔ جب سارے احمدی وہاں سے چھوڑ کر آجائیں گے تو وہ اور گِر جائے گی۔ ہر قوم کے لیے جہاں ترقی ہوتی ہے وہاں زوال بھی ہوتا ہے۔ جب زوال کی ایک حد تک پہنچ جاتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ ان کی حالتوں کو بدلتا ہے۔ تو ہو سکتا ہے جب یہ لوگ زوال کی انتہا کو پہنچ جائیں، جب سارے احمدی وہاں سے نکل آئیں گے، جب تباہی کی انتہا ہوجائے گی، تو پھر ہو سکتا ہے ان میں سے کوئی ایسا شخص کھڑا ہو جو دوبارہ اس کو سنبھالنے لگے اور پھر مذہبی آزادیاں پیدا ہوں، پھر وہاں احمدیت کا نفوذ ہو، پھر آگے دوبارہ نئے سرے سے مستقبل بہتر ہو سکتا ہے۔ اس وقت تک تو کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا۔ آپ بھی یہاں بیٹھے ہیں۔ آپ دعا کرتے رہا کریں۔ آپ کو ہمدردی ہے نا؟ آپ کا ملک ہے۔‘‘

موصوف نے جواب دیا ’’جی بالکل۔‘‘

حضور انور نے فرمایا ’’بس پھر اس کے لیے آپ سے زیادہ کون دعا کر سکتا ہے؟‘‘

اس کے بعد حضور انور نے استفسار فرمایا کہ ’’آپ ابھی recently آئے ہیں؟‘‘

جس پر خادم نے جواب دیا کہ ’’9-10 مہینے ہوئے ہیں۔‘‘

حضور انور نے فرمایا: ’’وہی جو 14 افراد کی فیملی آئی تھی اس میں آپ شامل تھے؟‘‘

خادم نے جواب دیا: ’’جی حضور!‘‘

سوال: پیارے حضور جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں، تاریخ اسلام میں کچھ ایسے واقعات ہیں، جن کے بعد اسلام کافی تیزی سے دنیا میں پھیلا، جیسا کہ ہجرت نبویﷺ اور فتح مکہ، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ احمدیت کی ترقی کے لیے ایسے واقعات ظہور پذیر ہوں گے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’ہر مذہب میں کوئی نہ کوئی واقعہ ظہور پذیر ہوتا ہے جس کے بعد وہ مذہب پھیلتا ہے۔ عیسائیت بھی جو پھیلی تو وہ بھی اس وقت پھیلی جب رومن بادشاہ نے عیسائیت قبول کر لی۔ اگرچہ اس نے تعلیم بدل دی، بگڑ گئی، لیکن اسی طرح کے واقعات ہوتے ہیں، معجزات ہوں گے، حضرت مسیح موعودؑ سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے، وہ پورے ہوں گے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ ’’میں مثیل مسیح ہوں۔ مسیح کی جو جماعت تھی یاجو دین تھا اس کو پھیلنے میں تین سو سال سے اوپر کا عرصہ لگاتھا تو تمہیں ابھی تین سو سال نہیں گزریں گے جب تم دنیا میں احمدیت کی اکثریت دیکھو گے۔‘‘ تو یقیناَ ایسے واقعات پیدا ہوں گے جس کے بعد پھر ان شاءاللہ تعالیٰ احمدیت کی ترقی ہو گی، اور جہاں جہاں ایسے واقعات ہوتے جاتے ہیں، وہاں بعض دفعہ ایک عارضی breakthrough چھوٹے سے علاقے میں ہوتا ہے، پھر رک جاتا ہے۔ لیکن ایک بڑے پیمانے پر breakthrough ہوگا وہ کسی نہ کسی طرح اس قسم کے واقعات ہوں گے۔ تبھی ہو گا۔ کب ہو گا؟ کس زمانے میں ہو گا؟ اللہ بہتر جانتا ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعودؑ کی جو پیشگوئی ہے اس کے مطابق 300 سال ابھی نہیں گزریں گے کہ اس سے پہلے ہو جائے گا۔ اور 133 سال تو ہو چکے ہیں۔ یہی میں نے کہا نا کہ اگلے بیس، پچیس سال جماعت احمدیہ کے لیے بڑے crucial ہیں۔ پھر اس میں کس حد تک پھیلتا ہے۔ لیکن اس کے بعد جو عرصہ ہو گا وہ پھیلنے کا ہی عرصہ ہو گا۔ ان شاءاللہ۔‘‘

سوال: پیارے حضور میں اپنے غیر احمدی مسلمان دوستوں کو کس طرح بتا سکتا ہوں کہ میں احمدی مسلمان ہوں؟ اور ایسے لوگوں کے ساتھ کس طرح پیش آیا جائے جو جماعت کے لئے منفی جذبات رکھتے ہیں؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ آپ احمدی کیوں ہیں؟ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہم احمدی آنحضورﷺ کی پیشگوئی کے مطابق اور اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق یہ یقین رکھتے ہیں کہ آخری زمانے میں ایک مجدد اسلام کی حقیقی تعلیم کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے آئے گا۔اب سب مسلمان اس پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک مجدد آئے گا اور وہ مہدی اور مسیح کہلائے گا۔ اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ وہ شخص حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کی صورت میں آچکا ہے اور اس پر ہم یقین رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم احمدی ہیں۔ کیونکہ آپؑ اسلام کی حقیقی تعلیم کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے آئے ہیں۔جب آپ کے دوست اور طلباء دیکھیں گے کہ آپ میں ایک نمایاں تبدیلی آئی ہے اور آپ دوسرے مسلمانوں سے مختلف ہیں اور آپ پنج وقتہ نماز ادا کرتے ہیں اورقرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں اس کا مطلب سمجھتے ہیں، آپ اچھے اخلاق کے مالک ہیں اور آپ کسی برائی میں ملوث نہیں ہیں، تب وہ جان جائیں گے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ہم سے مختلف ہیں اور تب وہ آپ کی بات سننے کی کوشش کریں گے۔ اگر وہ مسلمان ہیں تو آپ انہیں بتا سکتے ہیں کہ یہ تبدیلی آپ کے اندر صرف حضرت مسیح موعودؑ پر ایمان لانے کی وجہ سے آئی ہے۔ ہم یہ بات بھی دیکھتے ہیں اور میں اپنی تقاریر میں بھی یہ بتاتا ہوں کہ نو مبائعین کی ایک بڑی تعداد نے اپنا رویہ، اپنا برتاؤ اور طرز زندگی کو مکمل طور پر تبدیل کیا ہے۔اور جب ان کے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں نے یہ دیکھا،تو انہوں نے ان سے پوچھا کہ یہ تبدیلی تم میں کس طرح آئی؟ تب وہ بتاتے تھے، کہ وجہ یہ ہے، کہ میں نے اسلام کی حقیقی تعلیم پہچان لی ہے اور میں اس پر عمل کر رہا ہوں۔ اسی وجہ سے میری طرزِ زندگی مکمل طور پر تبدیل ہو گئی ہے اور میں اب عملی طور پر مسلمان ہوں۔ پس اگر آپ اپنے غیر احمدی دوستوں کے سامنے اپنا نمونہ پیش کریں گے تو وہ جان جائیں گے کہ یہ ایک احمدی مسلمان ہےجس کا اس چھوٹی عمر میں اللہ کے ساتھ ایک قریبی تعلق ہے اور یہ روزانہ پانچ وقت نما زادا کرتا ہے اور قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے اور اپنے قول پر عمل کرتا ہے، تب وہ آپ کی بات سنیں گے۔ اور اس طرح آپ ان کے ذہن میں سے اپنے بارے میں منفی رائے کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ پس آپ کو اپنے اندر تبدیلی لانی ہو گی۔پہلے اپنے آپ کو پہچانیں۔‘‘

سوال: پیارے حضور آج کل رشتوں کے موقعہ پر اسلامی تعلیمات کے بر عکس فریقین کی طرف سے بہت سی ڈیمانڈ رکھی جاتی ہیں۔ جو رشتوں کے تقدس کو پامال کرتی ہیں۔ پیارے حضور ہم اس چیز سے کس طرح بچ سکتے ہیں؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’یہ آج کل کی بات نہیں۔ یہ تو بہت پرانی باتیں ہیں۔حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں بھی اسی طرح تھا۔ ہر زمانے میں وہاں کے لحاظ سے اپنی اپنی ڈیمانڈ ہوتی تھی۔ ایک زمانہ ہوتا تھا کہ لڑکی سے کہا جاتا تھا کہ اتنا جہیز لے کر آؤ، اتنا زیور لے کر آؤ، یا اتنی چیزیں لے کر آؤ، اتنا پیسہ، کیش لے کر آؤ۔ یا لڑکے سے ڈیمانڈ کی جاتی تھی کہ لڑکا کیا کرتا ہے؟ اس کا گھر ہے یا نہیں؟اس کی اچھی جاب ہے یا نہیں؟ اس طرح کی ڈیمانڈ تو آج کل بھی ہیں، پہلے بھی تھیں۔‘‘

حضور نے استفسار فرمایا کہ ’’کس طرح کی ڈیمانڈ رکھی جاتی ہیں؟‘‘

جس پر خادم نے جواب دیا کہ: ’’حضور بعض اوقات اگر آپ ملک سے باہر رشتہ کرتے ہیں، تو لڑکے والوں کی طرف سے یا لڑکی والوں کی طرف سے لڑکے یا لڑکی کواس بات پر force کیا جاتا ہے کہ، جب آپ ادھر آئیں گے آپ کو اس کلچر کے مطابق رہنا پڑے گا بعض اوقات لڑکے جو ہیں اس چیز کو ناپسند کرتے ہیں۔‘‘

حضور نے فرمایا: ’’بات یہ ہے کہ، کہو کہ ہم کلچر کے مطابق رہ لیں گے، لیکن وہ کلچر، جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا وہ کلچر جو اسلامی تعلیم سے clash نہ کرتا ہو۔ اسلام کہتا ہے کہ پانچ نمازیں پڑھو، اور تم کہہ دو کہ کوئی نہیں نماز نہ بھی پڑھی تو کچھ نہیں ہوتا، تو یہ کلچر نہیں ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ روزے رکھو اور تم کہو روزے نہ بھی رکھو تو کچھ نہیں ہوتا، یہ کلچر نہیں ہے ۔قرآن کریم نے عورتوں کو پردے کا حکم دیا ہے کہ حجاب اوڑھو، تو اگر وہ حجاب نہیں لیتی اور بغیر دوپٹہ کے کھلے گلے کے ساتھ بازاروں میں پھرتی ہے، تو یہ کلچر نہیں ہے۔ یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ اس لیے پہلے ہی بتانا ہو گا۔ لڑکیاں جو باہر سے آتی ہیں وہ کہہ کر آئیں کہ جو اسلامی تعلیم ہے اس کے مطابق زندگیاں گزاریں گی اور لڑکوں کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ اس لیے آنحضرتﷺ نے فرمایاکہ جب تم لوگ رشتے کرتے ہو تو دنیا کو دیکھتے ہو، خوبصورتی کو دیکھتے ہو، دولت کو دیکھتے ہو، لیکن رشتہ کرنے کے لیے تم دین کو دیکھو۔ اگر لڑکے میں دین ہو گا تو وہ دین دار لڑکی کو تلاش کرے گا۔ اگر لڑکی دیندار ہو گی تو وہ دیندار لڑکے کو تلاش گی۔ اگر یہ ماحول پیدا ہو جائے تو پھر ہی صحیح اسلامی معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ ان ممالک میں جو so-called ترقی یافتہ ملک ہیں۔ ان میں پردہ نہیں ہوت یا half-sleeved پہن کر لڑکیاں بازاروں میں پھرتی رہیں، دوپٹہ بھی گلے میں نہ ہو، کجا یہ کہ اسکارف۔ تو یہ چیزیں اسلام کی تعلیم کے خلاف ہیں۔ اور پھر جو ایسی لڑ کیاں ہیں۔ وہ جب مسجد میں آتی ہیں تو دوپٹہ اوڑھ کر آ جاتی ہیں۔ چلیں ٹھیک ہے کچھ نہ کچھ تو مسجد کا احترام ہے۔ لیکن پھر ان میں منافقت ہوتی ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ لجنہ ان کی صحیح طرح تربیت کریں، ضرورت ہے کہ والدین ان کی صحیح طرح تربیت کریں، اسلام کی تعلیم کو اگر مانا ہے۔ لڑکا اور لڑکی مسلمان کہلاتے ہیں تو پھر ان کو چاہئے کہ اسلامی تعلیم پر عمل بھی کریں۔ اگر اسلامی تعلیم پر عمل نہیں کر رہے تو پھر وہ مسلمان کہلانے کا بھی حق دار نہیں ہے۔یہ جماعت احمدیہ کی تعلیم نہیں ہے یہ اسلام کی تعلیم ہے۔جماعت احمدیہ کی کوئی تعلیم ایسی نہیں ہے جو قرآن کے خلاف ہو یا قرآن سے زائد ہو۔ جو بھی ہم کہتے ہیں، وہی کہتے ہیں جو قرآن کریم میں لکھا ہو اہے۔ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ بڑے سخت ہیں۔ مسلمان تو یہ کرتے ہیں۔ مسلمان اگر نہ بگڑے ہوتے تو مسیح موعودؑ کے آنے کی ضرورت کیا تھی؟ اس لیے تو آئے، ہم نے اسی لئے تو حضرت مسیح موعودؑ کو مانا ہے اس لیےہم نے مسلمانوں کی بگڑی ہوئی حالت کو ٹھیک کرنا ہے۔ یہ تو گھروں میں لڑکیوں کی تربیت کرتے ہوئے ماں باپ کو بھی خیال رکھنا چاہئے ۔لڑکیوں کو خود دینی تعلیم حاصل کرنی چاہئے تا کہ ان کو پتہ لگے کہ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ لڑکوں کو خود احساس ہونا چاہئے ۔جب تک یہ احساس خود نہیں ہوگا۔کوئی باہر سے آکر تو نہیں ڈالے گا۔عہد کرتے ہیں کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کریں گے۔ اگر صرف عہد کر کے چلے جاتے ہیں تو اس کا کیا فائدہ؟ منافقت ہے۔جب عہد دوہرایا ہے تو پھر اس پر عمل کرو۔ اور جب عمل کرو گے تو پھر نہ یہ رشتوں میں ڈیمانڈز ہوں گی، نہ تقدس کو پامال کیا جائے گا اور نہ کچھ اور بات ہو گی۔‘‘

سوال: حضور نماز کی شرائط میں سے ایک شرط قبلہ رخ کا ہونا ہے۔ لیکن جب ہم کسی سفر میں ہوتے ہیں تو قبلہ رخ کا خیال نہیں رکھتے۔ کیا یہ طریق درست ہے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’دیکھیں جب آپ گاڑی میں بیٹھیں ہوئے ہیں یا جہاز میں بیٹھیں ہوئے ہیں تو کہاں سے قبلہ تلاش کرتے پھریں گے؟ جہاز پر اوپر اُڑ رہے ہیں اور قبلہ نیچے ہے۔‘‘

حضور نے ہاتھ کو نیچے کی طرف اُلٹا کر اشارہ سے مسکراتے ہوئے بتایا کہ ’’کیا اُلٹے لٹک کر نماز پڑھیں گے؟ اگر آپ کو پتہ بھی لگ جائے کہ یہاں قبلہ ہے۔ یا بسوں میں بیٹھے ہوئے آپ ڈرائیور کو کہیں گے کہ دو، تین سیٹیں خالی کرو میں نے (نماز پڑھنی ہے) اور اگلے موڑ پر آ کر بس کا رخ ادھر مڑ گیا (کسی اور طرف) تو کدھر جائیں گے؟ اسلام جو ہے، دینِ یُسر ہے، آسانی کا دین ہے۔ اسلام نے ہر situation کے لیے حل رکھا ہوا ہے۔ اگر تم سفر کر رہے ہو، خطرہ ہے اور سواری سے اتر نہیں سکتے۔ یا تمہارے اختیار میں نہیں ہے یا خطرے کی صورت حال ہےتو سواری میں بیٹھے بیٹھے نماز پڑھ لو۔ جدھر بھی سواری جارہی ہے اس میں تم تصور کر لو کہ تمہاری توجہ کعبہ کی طرف ہے۔ اصل چیز تو دل کا تصور بھی ہے۔ تو وہ کعبہ کی طرف توجہ ہے۔ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں بھی سفر ہوتے تھے۔ اونٹوں پر سفر ہوتے تھےیا گھوڑوں پر سفر ہوتے تھے۔ اور اگر سفر کے دوران ٹھہرنا ممکن نہیں ہوتا تھا تو چلتے چلتے نمازیں پڑھا کرتے تھے۔قبلہ جہاں مرضی ہو۔ تصور یہ ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہمارا قبلہ خانہ کعبہ ہی ہے۔ تو یہ اللہ تعالیٰ نے سفر کے لیے آسانی پیدا کر دی۔ اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ غیر احمدی مولویوں کی طرح نہیں کہ اگر جہاز پر بیٹھے ہو تو دائیاں کندھا مشرق کی طرف کر لو۔ لیکن جب جہاز turn لے گا تو اس وقت کہاں جائے گا مشرق اور مغرب؟ یہ اُوٹ پٹانگ باتیں ہیں۔ اسلام نے آسانی پیدا کی ہے۔ بنیادی چیز عبادت ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میری عبادت کو نہ بھولو۔ وہ تمہیں وقت پر ادا کرنی چاہئے۔ اس کے لیے یہ سہولت دے دی کہ اگر تم سفر میں ہو تو دو نمازیں جمع کر لو، ظہر، عصر اور مغرب، عشاء جمع کر سکتے ہو۔ فجر علیحدہ پڑھنی ہے۔قبلہ کی سہولت دے دی کہ ٹھیک ہے اگر تمہیں قبلہ نظر نہیں آرہا تو جس طرف تمہارا منہ ہے اسی طرف منہ کر لو۔ جو باتیں تمہارے اختیار میں نہیں اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے آسانی پیدا کر دی۔ پس ہمیں تو خوش ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے آسانی دی ہے بجائے اس کے کہ اتنے rigid ہو جائیں کہ (یہ کہیں کہ) کیوں قبلہ رخ نماز نہیں پڑھی؟ تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑھتا۔ دل کا قبلہ ہونا چاہئے، دل کا رخ اللہ تعالیٰ کی طرف ہونا چاہئے اور وہ یہی ہے کہ خانہ کعبہ ہی ہمارا قبلہ ہے۔ جب حالات نارمل ہو جائیں تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کھڑے ہو کر قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھی جائے۔ مجھے بتائیں کہ اگر آپ جہاز پر سفر کر رہے ہیں تو کس طرح قبلہ کا خیال رکھیں گے؟‘‘

جس پر خادم نے جواب دیا کہ ’’حضور! جہاز میں نہیں لیکن اگر گاڑی میں سفر کر رہے ہوں تو رک کے اگر نماز پڑھ لی جائے۔‘‘

جس پر حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ: ’’اگر رک کر نماز پڑھ سکتے ہیں تو پڑھ لیں اچھی بات ہے۔ اگر وقت ایسا ہے اور خطرے والی بھی کوئی بات نہیں تو پھر کسی سروس سٹیشن پر رک جائیں یا کہیں جا کر رک کر نماز پڑھ سکتے ہیں۔لیکن اگر وقت تھوڑا ہے اور پہنچنے کی جلدی بھی ہے اور راستے میں خطرے بھی ہو سکتے ہیں اور بعض اوقات مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں، تو پھر گاڑی میں بیٹھے بیٹھے بھی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ پھر یہی ہے کہ چار آدمی اگر کار میں بیٹھیں ہیں تو ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر جو بیٹھا ہوا ہے، اس بندے کو امام بنا لیں۔ اسے کہیں کہ نماز پڑھا دو۔ وہ بھی جماعت ہو جائے گی۔ آنحضرتﷺ نے اونٹوں پر چلتے ہوئے بھی با جماعت نمازیں پڑھائی ہوئی ہیں۔ تو اسی طرح روایتوں میں آتا ہے کہ اُونٹ پر بیٹھے ہوئے تھے آپ کے ساتھ دائیں، بائیں، پیچھے لائنوں میں لگے ہوئے تھے۔اونٹوں کی، گھوڑوں کی سواریاں چل رہی تھیں اسی طرح آپ نماز پڑھا رہے تھے۔ لیکن اگر حالات ایسے ہیں جہاں آپ رک کر نماز پڑھ سکتے ہیں وہاں ضرور پڑھنی چاہئے۔ آپ کی نیت کیا ہے؟ اگر نیت یہ ہے کہ صرف نمازوں کو ٹالنا ہے تو وہ اور بات ہے۔ اگر نیت یہ ہے کہ ہم نے نماز بھی اد اکرنی ہے اور اللہ کی عبادت بھی کرنی ہے، جوحالات ہیں اس کے مطابق چلتے چلتے نماز پڑھنی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ معاف کرنیوالا ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول کرنیوالا ہے۔‘‘

(ٹرانسکرپشن و کمپوزنگ: ابو اثمار اٹھوال)

پچھلا پڑھیں

مجددین اسلام-تعارف و کارہائے نمایاں (کتاب)

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ