• 4 مئی, 2024

شکر گزاری کی عادت، بے سکونی اور ڈپریشن سے بچاؤ

حدیقة النساء
شکر گزاری کی عادت، بے سکونی اور ڈپریشن سے بچاؤ

پچھلے مضمون میں خاکسار نے ڈپریشن کے مرض کا ذکر کیا تھا کہ کس طرح لوگ اس مرض کا شکار ہو کر مختلف مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں اور انہی مسائل سے بسا اوقات ان کی جان تک داؤ پر لگ جاتی ہے۔ بے چینی، بے سکونی، غصہ، عدم برداشت، لڑائی جھگڑوں کی سب سے بڑی وجہ اپنے حالات سے سمجھوتہ نہ کرنا، جو ملا ہو اس پر شکر نہ کرنا اور زیادہ کی تمنا رکھنا۔

حضرت محمدﷺ فرماتے ہیں:

مَنْ لَمْ یَشْکُرِ الْقَلِیْلَ لَمْ یَشْکُرِ الْکَثِیْرَ وَمَنْ لَمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللّٰہ

جو تھوڑے پر شکر نہیں کرتا وہ زیادہ پر بھی شکر نہیں کرتا جو بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔

(مسند احمد، کتاب اول مسند الکوفیین، حدیث النعمان بن بشیر)

انسان کی بے سکونی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہوتی ہے جب وہ اس پر قناعت نہیں کرتا جو اس کے پاس ہوتا ہے۔ چھوٹے گھر کے مالک کو بڑا گھر مل جائے تو وہ بجائے اس پر شکر گزار ہونے کے اور بڑا گھر دیکھ کر اس کی حسرت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ چھوٹی گاڑی والے کو بڑی گاڑی چاہئے۔ بڑی گاڑی والے کو اس کا نیا ماڈل۔بے اولاد کو اولاد چاہئے اور اولاد والے کو اگر بیٹی ہے تو بیٹا، بیٹا ہے تو بیٹی، ایک بیٹا ہے تو دو کی جوڑی، ملازمت پیشہ کو کاروبار کرنا ہے اور کاروباری آدمی کو مزید بڑا کاروبار،سانولے رنگ والوں کو گورا رنگ چاہئے اور گورے رنگ والے کریمیں لگا لگا کر سانولے بن رہے ہیں۔ فربہ لوگ وزن کم کرنا چاہتے ہیں کمزور جسامت والے جسم فربہ کرنا چاہتے ہیں۔ کم تعلیم والے اپنی کم علمی کی شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ان کے پاس اعلیٰ تعلیم کے وسائل نہیں تھے، تو پڑھے لکھے یہ شکوہ کرتے کہ ہم نے تو اپنی زندگی کا اچھا وقت پڑھائی میں گزار دیا۔ ان سب کا واحد حل خدائے رحیم نے کتاب رحمان میں بتلا دیا ہے کہ

لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ وَلَئِنۡ کَفَرۡتُمۡ اِنَّ عَذَابِیۡ لَشَدِیۡدٌ ﴿۸﴾

(ابراہیم: 8)

اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں ضرور تمہیں بڑھاؤں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے۔

تو خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ شکر گزار بندوں پر اپنے انعامات کی بارشیں برساتا ہےاور ان کو مزید نوازتا ہے۔ لیکن ناشکری کرنے والوں سے جن نعماء کے وہ شکر گزار ہونے کی بجائے شکوے شکایتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں وہ بھی چھین لیتا ہے تا انہیں یہ احساس ہو کہ ان کو وہ کس قدر نوازے ہوئے تھے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام جب اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گھر گئے ان کی بیوی سے ملاقات ہوئی اور حال دریافت کرنے پر انہوں نے شکوے شکایتیں کیں کہ بہت برا حال ہے آمدن کم ہے گزارا مشکل ہے تو آپ اس بیوی کو اپنے بیٹے یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لیے یہ پیغام دیتے ہوئے آئے کہ اس سے کہنا اپنی چوکھٹ تبدیل کر لے۔ بیٹے کو جب پیغام ملا تو انہوں نے بیوی کو طلاق دے دی۔ اس کی وجہ اس زوجہ کی ناشکری اور دین کی بجائے دنیا کا طلب گار ہونا اور شوہر کا بھرم نہ رکھنا تھا۔ اس کے بعد جب حضرت اسماعیل علیہ السلام نے دوسری شادی کی اور آپ کے بزرگ والد دوبارہ آپ کے گھر تشریف لے کر گئے تو آپ کی دوسری زوجہ محترمہ نے بے حد شکر گزاری کی اللہ کا شکر ادا کیا جس نے ہر نعمت سے نوازا ہوا ہے خاوند کی تعریف کی۔ تو آپ بہت خوش ہوئے اور یہ پیغام دے کر گئے کہ میرے بیٹے سے کہنا اس چوکھٹ کو برقرار رکھے۔

(خاکسار نے مختصراً اپنے الفاظ میں بیان کی ہے۔
اصل حدیث اس حوالے سے پڑھی جا سکتی ہے: مختصر صحيح بخاري: حدیث نمبر1407)

تو شکر گزاری ایک ایسی صفت ہے جو نہ صرف ہمیں خدا کا قرب عطا کرتی ہے اس کی نعمتوں کا وارث بناتی ہے بلکہ ہمارے قریبی لوگ بھی ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتے جو ہر وقت اپنے حالات کا رونا روتے رہتے ہیں۔ عموماً ایسے لوگوں سے لوگ دور ہو جاتے ہیں۔ اور جو ہر حال میں راضی بہ رضا رہتے ہیں ان کی صحبت کو لوگ پسند کرتے ہیں کیونکہ ایسے لوگوں سے بات کر کے اوروں کے اندر بھی مثبت انداز میں سوچنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے تو بس شکر گزار بننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہم سب پر تو خدا تعالیٰ کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ ہمیں حقیقی اسلام یعنی خلافت حقہ کو پہچاننے کی توفیق دی۔ احمدی گھرانوں میں پیدا کیا یا خود اس نعمت کو قبول کرنے والا بنایا۔ الحمد للّٰہ

اکثر اوقات ہم کھانے میں بہت نقص نکال رہے ہوتے ہیں اس بات پر گھروں میں لڑائیاں بھی ہو جاتی ہیں۔ خاتون خانہ محنت اور محبت سے اہل خانہ کے لیے کھانا تیار کرتی ہے اور کسی کمی بیشی کی وجہ سے گھر والے اس کو ناپسند کرتے ہیں تو اسے تکلیف پہنچتی ہے۔ اسی کو مثبت طرح سے سوچ کر دیکھیے۔

اگر کھانے میں نمک کم لگ رہا ہے تو شکر ادا کیجیے مرچیں تیز لگ رہی ہیں تو بھی شکر ادا کیجیے کیونکہ ابھی کووڈ ٹائم میں کتنے ہی لوگوں کو کھانے کا ذائقہ آنا بالکل بند ہو گیا تھا اور ان کے لیے کھانے میں سوائے چبانے کی مشقت کے اور کوئی اشتہا باقی نہیں رہی تھی۔ آپ کے کچن سنک میں گندے برتنوں کا انبار ہے تو مقام شکر ہے میری امی اور خالہ جان بتاتی ہیں کہ ایک بار بہت چھوٹی عمر میں دونوں بہنوں نے اس بات کا شکوہ کیا کہ ہمارے گھر بہت برتن گندے ہوتے ہیں تو میرے نانا جان نے ان کو سمجھایا کہ شکر ادا کرو کہ برتن گندے ہوتے ہیں کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ گھر میں رزق ہے گھر کا چولہا تین وقت جل رہا ہے کھانے پک رہے ہیں گھر والوں کی صحت ہے وہ کھا رہے ہیں ہضم کر رہے ہیں تو ہی برتن گندے ہو رہے ہیں۔ تو اس وقت جب تمام دنیا شدید مہنگائی کی لپیٹ میں ہے لیکن ہمارے گھر کے کچن کا بجٹ اسی طرح ہے تین وقت ہم کھا رہے ہیں تو مقام شکر ہوا ناں۔

اکثر ہم شکوہ کرتے ہیں بچوں کے کپڑے، جوتے ادھر خریدتے ہیں ادھر چھوٹے ہو جاتے ہیں۔ شکوہ مت کیجیے شکر ادا کیجئے کتنے ہی بچے ایسے ہیں جو اپنی عمر کے حساب سے نشوونما نہیں پاتے۔ ان کے قد اور وزن نہیں بڑھ رہے ہوتے اور والدین ڈاکٹروں کے پاس چکر لگا لگا کر ادویات دے دے کر تھک چکے ہیں۔

بچے گھر میں کچرا کر رہے ہیں بھاگ ڈور رہے ہیں شرارتیں کر رہے ہیں، شور مچاتے ہیں۔ مقام شکر ہے کتنے ہی ایسے گھر ہیں جو بچوں کی قلقاریوں کو ترستے ہیں۔ علاج کروا کروا کر کتنی ہی اور بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ لیکن اولاد کی نعمت سے محروم ہیں۔ آج سارا دن کچن میں کھڑی رہی یا گیراج کی صفائی کی بیک یارڈ میں پودے لگائے بچوں کو اسکول کالج ڈراپ کیا، اتنے لوگوں کی دعوت کا اہتمام کیا، جماعتی کام کیا، سوچیے یہ سارے کام کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں صحت دی وسائل دئیے کیا اس کے بغیر ہم یہ سب کام سرانجام دے سکتے تھے؟ نہیں ناں تو پھر دیر کس بات کی پڑھیے الحمد للّٰہ۔

غرض کہ صبح آنکھ کھلنے سے لے کر رات گئے آنکھ بند ہونے تک جائزہ لیجیے کہ کونسا ایسا کام ہے جو کسی مقصد کے بغیر ہو رہا ہے۔ آپ ایک آرام دہ بستر سے بیدار ہوتے ہیں تو اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ پڑھنے کا عمل اسی وقت شروع ہو جاتا ہے اسی لیے تو سو کر اٹھنے والی دعا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ سے شروع ہو رہی ہے کہ سب سے پہلے اس بابرکت ذات کا شکر ادا کیا جائے جس نے نیند یعنی عارضی موت سے ایک نئی زندگی دی۔ پھر تمام اعضاء درست کام کر رہے ہیں جن کی مدد سے اٹھ رہے ہیں منہ ہاتھ دھو رہے ہیں دانت صاف کر رہے ہیں ناشتہ بنا رہے ہیں، کھا رہے ہیں، سانس لے رہے ہیں، بول رہے ہیں، چل پھر رہے ہیں، پیارے پیارے رشتے ہمارے پاس ہیں، سواری ہے جو ہمیں ہماری کام کی جگہ یا اسکول کالج یونیورسٹی پہنچا رہی ہے۔ اچھی ملازمت یا پڑھائی کی جگہ میسر ہے۔ گھریلو خواتین شکر اد کریں کہ گھر میں بیٹھی ہیں باہر جا کر کمانا نہیں پڑ رہا۔ کام کر رہی ہیں تو شکر کا مقام کہ اللہ نے کسی کا محتاج نہیں بنایا اپنا گھر دیا، شوہر کا ساتھ دیا اولاد دی جن کے کام کر رہی ہیں۔ غرض کہ ہر ہر کام پر شکر ادا کیجیے۔ کتنے ہی ایسے کام ہماری زندگی میں ہو رہے ہوتے ہیں جن پر شکر کرنے کا ہمیں خیال تک نہیں آتا ہم ان نعمتوں کو اپنا حق سمجھ کر وصول کر رہے ہوتے ہیں۔

ایک مرتبہ حضرت رابعہ بصری نے کسی شخص کو سر پر پٹی باندھے ہوئے دیکھا تو سبب دریافت کیا۔ اُس نے عرض کیا کہ سر میں بہت درد ہے۔ پوچھا تمہاری عمر کتنی ہے؟ اس نے کہا تیس برس۔ فرمایا: تُو نے تیس سال کے عرصہ میں کبھی صحت مندی کے شکرانے میں پٹی باندھی نہیں اور صرف ایک یوم کے مرض میں شکایت کی پٹی باندھ لی۔

(الفضل 26 مئی 2005)

یہی بات ہے کہ بہت سی نعمتیں جن کا ہمیں اس وقت تک احساس نہیں ہوتا جب تک وہ ہم سے چھن نہ جائیں۔ تو اس وقت کے آنے سے پہلے ہی ان کی قدر کریں ان کا احساس کریں اور شکر ادا کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دعائیہ منظوم کلام میں فرمایا:

کیونکر ہو شکر تیرا، تیرا ہے جو ہے میرا
تونے ہر اک کرم سے گھر بھر دیا ہے میرا

(درثمین)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 2؍جون 2012ء کو جلسہ سالانہ جرمنی میں مستورات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
شیطان ایک انسان کو ورغلا کر دنیا کی چمک دکھا کر اپنی طرف مائل کرتا ہے کہ یہ چیزیں حاصل کرنے کی کوشش کرو اور بعض گھر اس لئے اُجڑ جاتے ہیں کہ مرد اُن کی خواہشات پوری نہیں کر سکتے۔ ڈیمانڈز بہت زیادہ ہو جاتی ہیں۔ یا اگر اُجڑتے نہیں تو بے سکونی کی کیفیت رہتی ہے۔ لیکن جو حقیقت میں اللہ تعالیٰ سے لو لگانے والے ہوں اُن کا کفیل خدا خود ہو جاتا ہے، اُن کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ ایک عقلمند عورت وہی ہے جو یہ سوچے کہ میں نے اپنا گھریلو چین اور سکون کس طرح پانا ہے؟ اپنے گھر کو جنت نظیر کس طرح بنانا ہے؟ اگر دنیا کی طرف نظر رہے تو یہ سکون کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ حقیقی سکون خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ دنیاوی خواہشات تو بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ ایک کے بعد دوسری خواہش آتی چلی جاتی ہے جو بے سکونی پیدا کرتی ہے…

اگر آپ جائزہ لیں تو نظر آئے گا کہ یقینا ًجو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے یہ نیک اعمال کر رہی ہیں اُن کی زندگیوں میں جو سکون اور اطمینان ہے وہ دنیا دار عورتوں کی زندگیوں میں نہیں ہے۔ ایسی عورتوں کے گھروں میں بھی بے سکونی ہے جو دنیا داری والی ہیں۔ لیکن جو دین کو مقدم رکھنے والی ہیں، اُس کی خاطر قربانیاں کرنے والی ہیں، اُنہیں گھروں میں بھی سکون ہے، اور ان کی عائلی زندگی بھی خوش و خرم ہے۔ اُن کے بچے بھی نیکیوں پر قائم ہیں اور جماعت کے ساتھ منسلک ہیں۔ پس اصل جنت یہ سکون ہےجو ان گھروں میں ہے۔‘‘

تو اگر کبھی کسی بھی وجہ سے دل میں بے سکونی یا بے چینی پیدا ہو تو محض ایک دن صبح اٹھنے سے لے کر رات سونے تک ہر ہر کام پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیجیے۔ رات تک آپ کے دل میں ایسا سکون و اطمینان پیدا ہو گا۔ خالق حقیقی سے سچی محبت پیدا ہو گی اور بے جا وسوسے پریشان نہیں کریں گے۔ دوسروں کے محل کی بجائے اپنی جھونپڑی بھی اچھی لگنے لگے گی۔ اللہ کرے کہ ہم سب اس کی نعمتوں اور برکتوں کے شکر گزار بننے والے ہوں اور دنیا کی عارضی لذات کی چاہت اور اس کی ہَلۡ مِنۡ مَّزِیۡدٍ کی خواہش ہمارے دل میں کبھی پیدا نہ ہو۔ آمین یا رب العالمین۔

(صدف علیم صدیقی۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

مجددین اسلام-تعارف و کارہائے نمایاں (کتاب)

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ