• 4 مئی, 2024

حکیم ضامن علی جلال لکھنوی

اصناف ادب میں اردو شاعری کی آبیاری اور اس کی ترویج میں دہلی کے بعد لکھنٔو کی زمین کو خاص مقام حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو شعراء کی فہرست میں کئی معروف شعراء کا تعلق لکھنٔو سے تھا۔ اردو شاعری میں غزل کو بعض مخصوص انداز اور روایات دلانے میں بھی شعرائے لکھنٔو کا خاص کردار ہے۔ چنانچہ شیخ امام بخش ناسخ جسے دبستانِ لکھنٔو کا بانی اور لکھنوی رنگِ سخن کا موجد سمجھا جاتا ہے اور خواجہ حید رعلی آتش کا تعلق بھی لکھنٔو سے تھا۔ سلسلۂ ناسخ میں ایک نام حکیم ضامن علی جلال لکھنوی کا ہے جنہیں اصلاحِ زبان میں خاص شہرت حاصل تھی۔

اصلاحِ سخن کے لیے حضرت مصلح موعودؓ  کا
مولانا الطاف حسین حالی کو خط

شاعری کے میدان میں جلال لکھنوی کو حضرت مصلح موعودؓ  کی شاعری پر اصلاح کا بھی اعزاز ملا۔ چنانچہ تاریخ احمدیت میں مذکور ہے کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ  نے شعر و سخن کی دنیا میں قدم رکھا تو آپ نے مولانا الطاف حسین صاحب حالی کو خط لکھا کہ میں شاعری میں آپ کا شاگرد بننا چاہتا ہوں اگر آپ منظور فرمائیں تو آپ کو اپنا کلام اصلاح کے لیے بھیج دیا کروں۔ کچھ دنوں کے بعد مولوی صاحب کا جواب آیا کہ
’’میاں صاحبزادے! اپنی قیمتی عمر کو اس فضول مشغلے میں ضائع نہ کرو یہ عمر تحصیل علم کی ہے۔ پس دل لگا کر علم حاصل کرو۔ جب بڑے ہوگے اور تحصیل علم کر چکو گے اور فراغت بھی میسر ہوگی اس وقت شاعری بھی کر لینا۔‘‘

جلال لکھنوی سے اصلاح سخن

مولانا حالی سے مندرجہ بالا جواب ملنے کے بعد آپ نے کسی اور استاد کی طرف رجوع کرنا چاہا۔ چنانچہ اس دور کے بکثرت اساتذہ میں سے تین حضرات بہت بلند پایہ اور عالمگیر شہرت رکھنے والے تھے۔ منشی مفتی امیر احمد صاحب امیر مینائی لکھنوی، فصیح الملک نواب مرزا خان صاحب داغ دہلوی اور جناب سید ضامن علی صاحب جلال لکھنوی۔ مگر اول الذکر حضرات تو اس وقت وفات پا چکے تھے آخر الذکر ہی باقی تھے آپ نے اصلاح سخن کے لیے انہی کی طرف توجہ فرمائی۔

مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر فاضل انچارج شعبہ زود نویسی ربوہ کا بیان ہے کہ ’’حضور نے ایک مجلس میں ذکر فرمایا کہ بچپن میں جب میں نے شعر کہنے شروع کیے تو مجھے کسی نامور استاد کی تلاش ہوئی جس سے میں اصلاح لے سکوں۔ چنانچہ اس غرض کے لیے میں نے جلال لکھنوی کا انتخاب کیا اور خط و کتابت کے ذریعہ ہی ان سے اصلاح لیتا رہا۔ حضور نے جلال لکھنوی کی بہت تعریف فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ وہ داغ سے بھی اچھے شعر کہتے ہیں۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد4 صفحہ104 حواشی)

ابتدائی تعارف

حکیم سید ضامن علی جلال لکھنوی کا اصل نام ضامن علی جبکہ جلال تخلص تھا۔ 1834ء یا 1835ء کو لکھنٔو میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام حکیم اصغر علی داستان گو تھا۔ ابتداً نواب آصف الدولہ کے مدرسہ میں تعلیم پائی۔ فارسی کی درسی کتابیں مکمل پڑھیں اور عربی میں بھی بقدر ضرورت استعداد پیدا کی۔ عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھتے ہی تھے کہ شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ اوّل امیر علی خان ہلالی کو اپنا کلام دکھاتے رہے۔ چونکہ طبیعت کو شاعری سے خاص لگاؤ تھا چند ہی روز میں کیا سے کیا ہوگئے۔ جب ہلالی نے ان کے کلام اور اپنی اصلاح کا اندازہ کر لیا تو خود انہیں لے جا کر والا جاہ میر علی اوسط رشک کا شاگرد کرادیاجو لکھنو کے ایک معروف شاعر اور ناسخ کے شاگردتھے۔ایک عرصہ تک ان سے اصلاح لیتے رہے۔ جب وہ کربلائے معلّیٰ چلے گئے تو یہ مرزا محمدرضا برق سے اصلاح لینے لگے۔

چونکہ آپ کا آبائی پیشہ طبابت تھا اس لیے اسے نظر انداز نہیں کیا اور کسبِ معاش کے لیے اسی سے وابستہ ہو گئے اور 1857ء میں لکھنٔو میں ہی ایک دواخانہ کھول لیا۔

اسی عرصے میں نواب یوسف علی خاں کو ان کی خبر ہوئی تو انہوں نے آپ کو رامپور بلا لیاجہاں ان کے والد داستان گو کے طور پر مقرر تھے۔نواب یوسف علی خاں کے بعد نواب کلب علی خاں مسند نشین ہوئے تو انہوں نے جلال لکھنوی کی قدر دانی کی اور تنخواہ سو روپیہ ماہوار مقرر کر دی۔ اس زمانے کے کلام کا ایک انتخاب آپ نے امیر مینائی کے ’’تذکرۂ کاملان رامپور‘‘ کے لیے لکھا تھا۔ بیس سال تک دربار رامپور سے تعلق رہا۔

بعدازاں نواب حسین منگرول (کاٹھیاواڑ) کے دربار سے منسلک ہو گئے۔ تھوڑا عرصہ تک وہاں قیام کیا لیکن ناموافقتِ آب وہوا نے صحت پر بہت برا اثر ڈالا جس کی وجہ سے واپس لکھنٔو چلے آئے۔ آخری عمر میں شعرو سخن اور اصلاح سخن کے علاوہ کوئی مشغلہ نہ تھا۔ آپ کا انتقال 20اکتوبر 1909ء میں ہوا اور 76 برس کی عمر پائی۔

جلال لکھنوی کو اپنی زبان،فن اورتحقیق پربڑا ناز تھا۔اور فخریہ اظہار کرتے کہ وہ محاورہ غلط نہیں بولتے۔

ادبی خدمات

آپ کی ادبی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ چنانچہ آپ نے شاعری پردرج ذیل چار اردو دیوان لکھے۔

1۔شاہدِ شوخ طبع
2۔کرشمہ گاہِ سخن
3۔مضمون ہائے دلکش
4۔نظمِ نگاریں

دیگر خدمات

1۔اردو محاورات پرسرمایۂ زبانِ اردو
2۔فنِ تاریخ گوئی پرافادۂ تاریخ
3۔مفرد اور مرکب الفاظ کی تحقیق میں ’’منتخب القواعد‘‘
4۔اردو لغات پر مشتمل ’’تنقیح اللغات‘‘ اور ’’گلشنِ فیض‘‘
5۔فن عروض پر ’’دستور الفصحاء‘‘
6۔تحقیق تذکیر وتانیث پر ’’مفید الشعراء‘‘

کتاب سرمایہ زبان اردو جس میں محاورے اور کنایے اور اصطلاحیں اردو زبان کی بیان کی ہیں۔ رسالہ مفید الشعراء میں اسماء کی تذکیر و تانیث کی بحث ہے۔ جبکہ رسالہ قواعد المنتخب میں بعض مفرد اور مرکب لفظوں کی تحقیق دی گئی ہے۔

شعری نمونے

آپ کی شاعری سے کچھ منتخب کلام پیش ہے۔

غزل

وہ دل نصیب ہوا جس کو داغ بھی نہ ملا
ملا وہ غم کدہ جس میں چراغ بھی نہ ملا
گئی تھی کہہ کے میں لاتی ہوں زلفِ یار کی بُو
پھری تو بادِ صبا کا دماغ بھی نہ ملا
چراغ لے کے ارادہ تھا بخت کو ڈھونڈیں
شبِ فراق تھی کوئی چراغ بھی نہ ملا
جلاؔل باغِ جہاں میں وہ عندلیب ہیں ہم
چمن کو پھول ملے ہم کو داغ بھی نہ ملا

چند منتخب اشعار

تارے کسی افشاں کے تصور میں گنیں گے
لو مشغلہ اک ڈھونڈ لیا رات کے قابل

افشاں جو چنی رات کو اس مہ نے جبیں پر
بُرجوں سے تماشے کو ستارے نکل آئے

عدو کو خوش ہمیں ناشاد رکھنا
ذرا اے چرخ اس کو یاد رکھنا
کیا الفت نے جس کی ہم کو برباد
الٰہی تو اسے آباد رکھنا

آس باقی ابھی او دل کی لگی رہنے دے
قطع امید نہ کر اس سے لگی رہنے دے
نہ نکلا اس کو بھٹکنے دے یونہی اے غم خوار
عشق کی پھانس کلیجے میں چبھی رہنے دے

اک قدم جانا جنہیں دشوار تھا
شوق لے کر سینکڑوں منزل گیا

اک رات دل جلوں کو یہ عیش وصال دے
پھر چاہے آسمان جہنم میں ڈال دے

یاد آ کے تری ہجر میں سمجھائے گی کس کو
دل ہی نہیں سینہ میں تو بہلائے گی کس کو
دم کھنچتا ہے کیوں آج یہ رگ رگ سے ہمارا
کیا جانے ادھر دل کی کشش لائے گی کس کو
اٹھنے ہی نہیں دیتی ہے جب پاس بٹھا کر
پھر شوق کی ہمت کہیں لے جائے گی کس کو
مر جائیں گے بے موت غم ہجر کے مارے
آئے گی تو اب زندہ اجل پائے گی کس کو

(ماخوذ از ’’تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان وہند جلد2‘‘ ناشر پنجاب یونیورسٹی لاہور۔اردوغزل ازڈاکٹر خواجہ محمد زکریا ناشر سنگت پبلشرز لاہور)

(ابو عثمان)

پچھلا پڑھیں

مجددین اسلام-تعارف و کارہائے نمایاں (کتاب)

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ