• 4 مئی, 2024

میری پیاری خالہ جی صادقہ

محبت کے بیج
میری پیاری خالہ جی صادقہ

ماں یا ماسی کہنے سے مُنہ میٹھا ہو جاتا ہے اس سے اچھی کوئی مٹھائی نہیں ہوتی۔ اس سے لذیذ کوئی میٹھا نہیں ہے۔ آج میں اپنی ماسی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے اپنی کچھ میٹھی یادیں لکھنے لگی ہوں۔ اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے۔ آمین

میری خالہ جی صادقہ صاحبہ صحابی حضرت میاں فضل محمدؓ  (ہرسیاں والے) کی دوسری بیوی مکرمہ صوباں بیگم کے بطن سے پیدا ہوئیں۔ میری والدہ (مکرمہ حلیمہ) جب چار سال کی تھیں تو ہماری نانی جان حضرت برکت بی بیؓ  وفات پا گئیں۔ ان کی رحلت کے کچھ سال بعد حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ  نے خود تجویز کرکے ایک بیوہ خاتون مکرمہ صوباں بیگم سےجو اپنے تین چھوٹے بچوں کے ساتھ آپؓ  کے گھر میں ہی مقیم تھی ہمارے نانا جی کا نکاح ثانی کرو ادیا۔

اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ان کے بطن سے دو بچے پیدا ہوئے ایک میری خالہ جی محترمہ صادقہ بیگم مرحومہ اور دوسرے میرے سب سے چھوٹے ماموں محترم عبد الحمید مرحوم۔

عام طور پر اس رشتے کو سوتیلا کہا جاتا ہے مگر سچ بتاؤں ہمارے خاندان میں سگے سوتیلے کا کوئی فرق نہیں تھا۔ خالہ جی اور ماموں حمید کبھی الگ نہیں لگے۔ بے مثال پیار اور عزت تھی۔ بڑے چھوٹے سب ایک دوسرے کی محبت کا دم بھرتے تھے۔ ہماری نانی اماں نے بڑے تدبر اور فراست سے سب اولاد کو یکجان رکھا۔ یہ صرف دعویٰ نہیں کچھ حالات و واقعات پیش ہیں۔

میری اُمی جان نے بتایا کہ ’’میں قریباً دس سال کی تھی کہ جب ہماری چھوٹی اماں صوباں بیگم صاحبہ ہمارے گھر دوسری ماں بن کر آئیں ان کے ساتھ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا بھی تھا ایک بیٹی سردار بیگم میری ہم عمر تھی مجھے خوشی ہوئی کہ ایک لڑکی آئی ہے جس کو میں اپنی سہیلی بنا سکتی ہوں اور پھر ایسے ہی ہوا۔ میں اپنی نئی ماں کو بے بے جی کہتی تھی۔ مجھے سگی سوتیلی کا کچھ علم نہیں تھا بس ماں ہے اور ماں کی طرح ہی اُنہوں نے ہمارے ساتھ سلوک رکھا سب سے پہلے اُنہوں نے ہمارے اندر محبت رواداری اور پیار کا بیج بویا۔ اور وہ بیج دن بدن بڑھنے لگا۔ کبھی کبھی مجھے یہ احساس ضرور ہوتا کہ بے بے جی جب بھی مجھے اور میری سہیلی سردار کو کوئی کھانے کی چیز یا جو بھی دیتیں برابر دیتیں لیکن کبھی وہ مجھے زیادہ دیتیں یا پہلے مجھے دیتیں لیکن کبھی سردار کے چہرے پر میں نے شکن نہیں دیکھی نا جانے بے بے جی نے اُس کو کیا سمجھایا ہوا تھا کہ کبھی بھی اُس کو میں نے اپنی ماں سے یہ کہتے نہیں سُنا کہ پہلے میں کیوں نہیں یا زیادہ مجھے کیوں نہیں؟

ہماری بے بے جی نے ہمارے دل جیت لئے ہم سب کو جیت لیا مجھ سے سب بڑے بہن بھائی جو زیادہ تر شادی شدہ تھے بہوئیں اور سب بیٹے ہماری بے بے جی کو ماں ہی مانتے اور محبت اور احترام میں کبھی کمی نہیں آنے دی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ

پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس نئی ماں سے دو بہن بھائی دیے بہن صادقہ جو مجھ سے گیارہ سال چھوٹی تھی اور اس سے چھوٹے بھائی عبد الحمیدجن کو ہم پیار کرتے اور گودوں کھلاتے نہیں تھکتے تھے۔ وقت گزرتا گیا ہم ایک ساتھ پل بڑھ کر بڑے ہوگئے پہلے میری بہن سردار کی شادی ہوگئی وہ اپنے سُسرال چلی گئی۔ پھرمیں بھی اپنے پیا کے گھر رخصت ہو گئی۔ غرض زندگیوں نے رُخ بدل لئے۔

یہ تو بہنوں کا پیار تھا اب میں اپنا اور اپنی خالہ کا پیار بتاتی ہوں۔ اُن کے ساتھ میری یادیں زیادہ تر ربوہ سے شروع ہوئیں کیونکہ ہم ربوہ میں اپنی خالہ جی سے بعد میں آ کر آ باد ہوئے تھے۔ گھر دور نہیں تھے وہ تحریک جدید کے کوارٹر میں رہائش پذیر تھیں ہم ریلوے لائن کے اُس پار جامعہ احمدیہ کے با لکل سامنے دارالبرکات میں رہتے تھے۔ خالہ جی کی شادی ایک واقفِ زندگی مکرم مولوی محمد شریف مرحوم کے ساتھ ہوئی تھی، جن کی آمدن بہت ہی محدود ہوتی ہے واقفِ زندگی کو کوارٹرکے علاوہ جو وظیفہ ملتا ہے اس میں صبر شکر کے ساتھ وقت گزارنا ہوتا ہے۔ میری خالہ جی اپنے خوشحال گھر کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی تھیں۔ فراخی کی عادی تھیں۔ تاہم والدین کی اچھی تربیت کی وجہ سے بغیر شکوہ شکایت کئے اپنے شوہر کے ساتھ خوشی سے زندگی گزارنےکی کوشش کرتی رہیں اور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ اپنے شوہر اور گھر کی مشکلات کو کم کرنے کے لئے گھر بیٹھ کر چھوٹے موٹے کام شروع کر دیئے۔ جن میں سب سے زیادہ جو مجھے یاد ہے اپنی چھوٹی سی بیٹھک میں کھلے کپڑے کے تھان لے کر آتیں اور آس پاس کی عورتیں گھر سے ہی خرید کر لے جاتیں۔ کچھ نہ کچھ ضرورت پوری ہوجاتی۔ ماشاءاللہ سات بچے اور دو خود میاں بیوی نَو بندوں کا کفایت اور سادگی سے گزارا چلانا سلیقے کی بات تھی اس لحاظ سے میری خالہ جی نے بہت ہمت اوربہادری سے مشکل وقت کا مقابلہ کیا۔ اپنے شوہر کی مدد کی اور اپنے بچوں کو بہترین تربیت دی اور اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ خلافت کے ساتھ بے حدگہری وابستگی اور عشق تھا۔ دین کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ مہمان نواز، ہر دلعزیز شخصیت کی مالکہ تھیں۔ خاندان میں ہر شخص خالہ جی سے دلی عقیدت اور پیار کا گہرا رشتہ رکھتا تھا۔ اس لئے گھر میں ہر وقت مہمانوں کی آمدورفت رہتی تھی۔

ہمارے خالو جی اپنے نام کی طرح بے حد شریف اور منکسر المزاج انسان تھے۔ بہت دعا گو عاجز کم گو اور ملنسار انسان تھے۔ سب سے پہلے اُن کی زبانی سنایا ہوا ایک واقعہ لکھ دیتی ہوں۔ وہ کہتے ہیں ’’کہیں بس میں سفرکر رہا تھا اور میں حسبِ عادت دعا اور درود شریف پڑھنے میں مصروف رہا کہ اچانک بس کو بہت بڑا جھٹکا لگا بس ایک طرف کو تقریباً گرِنے کو ہی تھی کہ ڈرائیور نے نہ جانے کیسے بس کوسنبھال لیا بس میں سوار لوگوں نے چیخ و پکار شروع کرد ی کچھ لوگ کہنے لگے بس میں ضرور کوئی اللہ کا نیک بندہ بیٹھا ہے جو آج ہم سب بچ گئے ہیں‘‘۔ کہتے ہیں کہ ’’چونکہ میں تو اپنی دعاؤں میں مصروف تھا اس لئے مجھے اس ہنگامے کا علم ہی نہیں ہوا ہاں بعد میں ضرور سوچا کہ یہ سب درود شریف پڑھنے کا نتیجہ ہو سکتا ہے‘‘۔ خالو جی 1973ء میں حج پر گئے احمدیت کی وجہ سے قید ہوگئے وہاں بھی اپنی دعاؤں کے طفیل تبلیغ کا حق ادا کرنے کے باوجود رہا ہو کر وطن واپس پہنچ گئے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ

ہماری خالہ جی کے اس چھوٹے سے کوارٹر میں اتنی برکت تھی کے ہم خالہ جی کی محبت میں بھاگے جاتے تھے خالہ جی کا گھر اور ہمارا گھر ہم بچوں کے لئے پناہ گاہیں تھیں۔ ہم بہنوں کی آپس میں کوئی بات ہوئی یا اُمی جان سے ڈانٹ پڑی فوراً خالہ جی کے گھر بھاگ کر چلے گئے اور اسی طرح خالہ جی کے بچے بھی کوئی بات ہو فوراً ہمارے گھر اور یہ دونوں ماؤں یعنی خالہ جی اور میری اُمی جان کو علم ہوتا کہ اب کیا ہونے والا ہے کبھی روکا نہیں کہ مت جائیں جانتی تھیں کہ ان کے سکون کی یہی ایک جگہ ہے میری چھوٹی بہنیں عزیز اور بشریٰ مرحومہ۔ خالہ جی کی دونوں بیٹیوں صفیہ مرحومہ اور چھوٹی بیٹی رانی (عائشہ) گو چھوٹی تھی مگر یہ پکی سہلیاں تھیں بہت زیادہ دوستی تھی اور میرا تو خالہ جی کے ساتھ ہی دُکھ سُکھ چلتا تھا بہت دفعہ ایسا ہوتا کہ گھر میں زیادہ کام ہے یا اُن کو کوئی ضرورت ہے تو میں ہمیشہ اُن کا بازو بنتی۔ میں ہی کیا خاندان کے جتنے بھی نوجوان لڑکے یا لڑکیاں سب کی راز دار ہماری خالہ جی ہی تھیں کیونکہ سب کے ہلکے پھلکے بے ضرر مسائل اور الجھنوں کا حل ہماری خالہ جی کے پاس ہی ہوتا تھا۔ رشتے ناطے کرانے میں بھی مدد کرتیں صرف خاندان ہی نہیں باہر کے لوگ بھی ہر مشورے کے لئے ان کے پاس آتے۔ لیکن میں اپنے خاندان کی بات ہی کروں گی۔ میرے بہت سارے کزن خالہ جی کی ہی عمر کے یا کچھ اُن سے چھوٹے تھے اس لئے چوبیس گھنٹے خالہ جی کا دروازہ سب کے لئے کھلا رہتا تھا۔ آپ ہم چاروں بہنوں اور بھائی کے رشتوں میں ہماری اُمی جان کے لئے سہارا اور فرشتہ بنی رہیں۔ میرے جیون ساتھی سامی صاحب (مرحوم) کا انتخاب بھی خالہ جی نے ہی کیا تھا۔ میری اُمی جان کی رازدار اور مددگار خالہ جی صادقہ ہی تھیں۔ پھر ہماری اُمی کی سہیلی اور بہن خالہ جی سردار نے بھی اپنی بیوگی کے بعد ربوہ میں اپنا گھر بنا لیا۔ خالہ جی سردار با لکل ہمارے گھر کے پاس ہی رہتی تھیں اب ان کا یہ معمول تھا کہ دونوں بہنیں صبح ہی صبح سبزی گوشت کے لئے بازار جاتیں واپسی پر ہمارا گھر پہلے آتا تھا یہاں دونوں بیٹھ جاتیں آہستہ آہستہ باتیں کرتیں اور مسکراتی رہتیں۔ دونوں خالہ جی صادقہ کے پاس قریباً روزانہ ہی جاتیں ان تینوں کا بہناپا اور دوستی مثالی تھی۔ کئی دفعہ رات کو خالہ جی سردار کے بچے اور باقی کزن کیرم بورڈ کھیلنے کے لئے اکٹھے ہوتے۔ بہت ہی محبت بھرے دن تھے۔

لاہور میں ہماری بڑی خالہ جی صالحہ (مرحومہ) اپنے بچوں کے ساتھ بہت خوشحال زندگی گزار رہی تھیں لیکن جب بھی ربوہ آتے اور جلسہ سالانہ پر تو خالہ جی صادقہ کے چھوٹے سے کوارٹر میں ہی رہائش رکھتے تھے۔ مالی مشکلات ہونے کے باوجود خالہ جی کا گھر سب کے لئے کھلا تھا اور پیار محبت سب کے لئے برابر تھی۔

پھر کئی عزیزوں کا پاکستان سے باہر جانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پہلے خالہ جی سردار کے بیٹے بشارت جمیل مرحوم امریکہ چلے گئے۔ پھر میرے چھوٹے ماموں عبد الحمید صاحب بھی امریکہ چلے گئے پھر اُن کی فیملی اور آہستہ آہستہ باقی فیملی کے لوگوں نے بھی امریکہ میں ڈیرے ڈال لئے یوں میری خالہ جی صادقہ اور اُن کی پوری فیملی بھی امریکہ کے شہری بن گئے۔ آہستہ آہستہ کشائش آتی گئی دشواریوں اور مشکلوں کے دور ختم ہو گئے بچوں نے ترقیاں کیں ایک بیٹا وسیم احمد ظفر ماشاء اللہ برازیل میں مشنری انچارج کے طور پر کام کر ہا ہے۔ ایک بیٹے کریم شریف صاحب P.H.D. ہیں جو آ جکل باسٹن کالج میں پڑھاتے ہیں اور بطور صدر جماعت خدمات کی توفیق پارہے ہیں۔ اسی طرح دوسرے بچے بھی ماشاء اللہ اچھی پوسٹوں پر کام کر رہے ہیں۔ چھوٹی بیٹی عائشہ (رانی) جو اپنے ماموں زاد عبد السلام سے بیاہی گئی ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ سب صاحب اولاد ہیں خو شحال ہیں اور سب دین کی خدمت سر انجام دیتے ہیں۔

خالہ جی بہت صابرہ و شاکرہ خاتون تھیں۔ اپنی بڑی بیٹی صفیہ کی اچانک وفات کا بہت بڑا صدمہ دیکھا اوربڑے صبر اور ہمت سے برداشت کیا جو سات بچے چھوڑ کر 1996ء میں 51 سال کی عمر میں وفات پاگئی تھی۔

جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ لندن تشریف لائے اور لندن کا جلسہ سالانہ ہی مرکزی جلسے کا رنگ اختیار کرگیا تو امریکہ سے ہمارے خاندان کے لوگ لندن آتے۔ میری اُمی جان کا دو بیڈ روم کا فلیٹ ان کا ٹھکانا ہوتا جس میں تمام مہمان سما جاتے۔ اللہ کا کرم ہے محبتوں میں کبھی کمی نہیں آئی بلکہ بڑھتی ہی رہیں۔

پھر عمریں بڑھتی رہیں اور اللہ کے گھر سے بلاوے آنے شروع ہوگئے۔

خالہ جی صادقہ سے میری آخری ملاقات امریکہ کے جلسہ 2010ء میں ہوئی اس کے بعد جب بھی فون پر بات ہوئی ایک ہی بات کہتیں صفیہ آکر مل جاؤ اور میرا ہر بار یہی جواب ہوتا خالہ جی میں ضرور آؤں گی ان شاء اللہ۔ لیکن نہیں جا سکی۔ اکثر ویڈیو کال سے بات ہوجاتی میں بھی اب لمبے سفروں کے قابل نہیں رہی تھی۔ بس حسرتیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔

ہاں میں یہ ضرور کہہ سکتی ہوں کہ ہماری نانی جان صوباں صاحبہ نے جو محبت کے بیج میری اُمی جان اور اُن کے سب بہن بھائیوں کے دلوں میں بوئے تھے وہ خو بصورت درخت کی مانند بنے اور اُس درخت کو محبتوں اور پیار کے بے شمار خوبصورت پھل اور پھول لگے ہیں۔ کبھی زندگی بھر نہیں لگا کہ ماموں جان حمید اور خالہ جی صادقہ اُمی جان کے دوسری ماں سے بچے تھے۔ ہماری فیملی میں سب نے سب سے زیادہ اِن کو ہی پیار کیا ہے اور اِن سے ہی پیار پایا ہے۔ خالہ جی کی یہ عادت کہ وہ جس بہن بھائی یابھانجی یا جس بھی رشتے کا ذکر کرنا ہوتا ہمیشہ میری بہن کی یہ بات یا میرے بھائی کی وہ بات غرض ہر رشتے کو میری سے ہی شروع کرتیں۔ جس سے پیار میں اور شدت آ جاتی۔ باقی ہمارے ماموں اور خالائیں سب بڑے تھے اُن کی عزت احترام بہت تھا مگر خالہ جی صادقہ اور ماموں حمید کی طرح بے تکلفی نہیں تھی۔

میری خالہ صادقہ صحابی حضرت مسیح موعودؑ کی بیٹی تھیں بڑے بھائی مکرم مولانا ابوالبشارت عبد الغفور بھی صحابی اور مبلغ سلسلہ تھے ایک بھائی مکرم صالح محمد بھی مبلغ سلسلہ تھے ایک بھائی مکرم عبد الرحیم دیانت درویش قادیان تھے۔ ایک واقف زندگی کی بیگم تھیں اور ایک واقف زندگی مکرم وسیم احمد ظفر (صدر ومشنری انچارج برازیل) کی والدہ تھیں۔ انہوں نے واقف زندگی شوہر کے ساتھ ایک واقفہ زندگی کی طرح اپنی زندگی گزاری۔ آپ صوم صلوٰة کی پابند تھیں۔ آپ نے بے شمار بچوں کو قرآن کریم پڑھایا۔ تبلیغ کا بے حد شوق تھا۔ اُن کے بچوں نے بتایا ہے کہ آخری سالوں میں گورنمنٹ کی طرف سے جو عورتیں آپ کی دیکھ بھال کے لئے آ تیں اُن کو تبلیغ کرتی رہتی تھیں۔ کبھی اُن سے کوئی دینی مضمون پڑھواتیں کبھی اُن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دکھاتیں اور بتاتیں کہ دیکھو یہ مسیح موعود ہیں جو آ چکے ہیں۔

بیوگی کے 21 سال اپنے بیٹے نعیم احمد کے ساتھ بہت بہادری اور ہمت و حوصلہ سے گزارے۔ نعیم احمد اور اس کی بیگم فوزیہ اور بیٹی بارعہ احمد، بیٹا فر حان احمد، بیٹی عفیفہ احمد اس ساری فیملی نے جی بھر کے خالہ جی کی خدمت کی اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر سے نوازے۔ سب ہی بیٹے ماں کی خدمت کے لئے حاضر رہتے تھے مگر کریم شریف باسٹن سے اکثر اپنی ماں کی خدمت کے لئے حاضر رہا اور آخری دنوں میں ہر پل ماں کے سرہانے خدمت میں لگا رہا۔ اللہ پاک سب کی خدمت قبول فر مائے۔ آمین

20 جون 2022ء کو میری ماسی 98 سال کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ آپ موصیہ تھیں آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔ میت کے ساتھ اُن کے بیٹے بہو اور پوتے پوتیاں ساتھ پاکستان گئے۔

میں اپنی پیاری خالہ جی کے لئے جتنا بھی لکھوں اُن کی شخصیت، مقام، پیار اور محبت کو اپنے لفظوں سے بیان نہیں کر پاؤں گی۔ خالہ جی کے لئے دو لفظوں کی کہانی ہی کافی ہے کہ ’’میری خالہ جی خوش نصیب ماں تھی جس نے ایسے فرما نبردار اور قابل بچے پیدا کئے اور بہت خوش نصیب بچے ہیں جن کو ایسی خوش نصیب ماں ملی‘‘۔ آپ نے اپنے میکے اور سسرال والوں کے دل جیت کر محبت اور پیار کی لَو جلائی۔ اُن کے بچوں نے اپنی ماں کی خدمت کر کے دنیا میں ہی جنت کما لی۔ اللہ تعالیٰ میری خالہ جی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فر مائے سب آل اولاد پسماندگان کو ان کی خدمت کی جزائے خیر دے اور جو محبتوں کے بیج بڑوں نے بوئے ہیں اُن سے مزید خوشبودار پھل پھول پنپتے رہیں۔

ہمیشہ پیاری یادوں محبتوں کے ساتھ اُن کی یاد دل میں رہے گی۔ اللہ میری ماسی سے راضی ہو اُن کی دعائیں اور پیار قبول فر مائے۔

آمین اللّٰھم آمین

(صفیہ بشیر سامی۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

مجددین اسلام-تعارف و کارہائے نمایاں (کتاب)

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ