حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ:
سچی توبہ اُس وقت ہوتی ہے جب ان تین باتوں کا خیال رکھا جائے۔ پہلی بات یہ کہ اُن تمام خیالات اور تصورات کو دل سے نکال دو جو دل کے فساد کا ذریعہ بن رہے ہیں، جو غلط کاموں کی طرف ابھارتے اور اُکساتے ہیں۔ یعنی جو بھی برائی دل میں ہے یا جس برائی کا خیال آتا ہے اُس سے کراہت کا تصور پیدا کرو۔ تمہیں کراہت آنی چاہئے۔ دوسری بات یہ کہ برائی پر ندامت اور شرم کا اظہار کرو۔ اپنے دل میں اتنی مرتبہ اُسے برا کہو کہ شرمندگی پیدا ہو جائے۔ دوسری بات ندامت اور شرم کا اظہار ہے اور تیسری بات یہ کہ ایک پکا اور مصمم ارادہ کرو کہ یہ برائی میں نے دوبارہ نہیں کرنی۔
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ87-88 ایڈیشن 2003ء)
صبر میں یہی حالت پیدا کی جاتی ہے، تبھی صبر صحیح صبر کہلاتا ہے۔ پس اگر ہم نے اپنی یہ عادت کر لی اور اپنے صبر اور صلوٰۃ کے معیار حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی تو اللہ تعالیٰ کے غیر معمولی تائیدی نشان ظاہر ہوں گے۔ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ تعالیٰ۔ وہ نشانات جن کا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ فرمایا ہے ہم بھی دیکھیں گے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ نہ ہم برائیوں سے بچنے کی کوشش کر رہے ہوں، نہ ہم نیکیوں پر قدم مار رہے ہوں، نہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کی روح کو سمجھ رہے ہوں، نہ ہم اپنے ہر معاملے میں خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کر رہے ہوں، نہ ہم مخلوق کے حق ادا کر رہے ہوں، نہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کی طرف توجہ دے رہے ہوں جس کی برکت سے ہم اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے بن جاتے ہیں، نہ ہم نمازوں کا حق ادا کر رہے ہوں اور پھر بھی ہم یہ توقع رکھیں کہ دنیا کو ہم نے اسلام کے جھنڈے تلے لانا ہے۔ ان مقاصد کو اور اغراض کو پورا کرنا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کی ہیں۔ دنیا اسلام کے جھنڈے تلے آئے گی اور اِنْ شَآءَ اللّٰہُ تعالیٰ ضرور آئے گی لیکن اگر ہم نے اپنے حق ادا نہ کئے اور اپنے صبر اور صلوۃ کو انتہا تک نہ پہنچایا تو پھر ہم اُس فتح کے حصہ دار نہیں ہو سکیں گے۔ پس یہ حق ادا کرنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔ دنیا کو ہم یہی بتاتے ہیں کہ ایک دن ہم نے دنیا پر غالب آنا ہے۔ اس دورے کے دوران بھی نیوزی لینڈ میں ایک جرنلسٹ نے مجھے سوال کیا کہ تم تھوڑے سے ہو، تمہیں یہاں مسجد کی کیا ضرورت ہے؟ پہلے ایک ہال موجود ہے۔ تو میں نے اُسے یہی کہا تھا کہ آج تھوڑے ہیں لیکن اس تعلیم کے ذریعہ جو قرآنِ کریم میں ہمیں ملی، ایک دن اِنْ شَآءَ اللّٰہُ تعالیٰ کثرت میں بدل جائیں گے اور ایک کیا کئی مسجدوں کی ضرورت ہمیں یہاں پڑے گی۔ پس اس کے لئے دنیا میں ہر جگہ کوشش اور اپنی حالتوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
لیکن یہاں میں افسوس سے یہ کہوں گا کہ نمازوں عبادتوں کی طرف، اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کی طرف ہماری، جو توجہ ہونی چاہئے وہ نہیں ہے ہماری۔ مثلاً کل پرسوں کی بات ہے۔ ایک خاتون ملاقات کے دوران آئیں اور بڑے روتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ مسجدیں بناؤ اور مسجدیں آباد کرو۔ مسجدوں کی رونق بڑھاؤ، صلوٰۃ کا حق ادا کرو لیکن جب آپ چلے جاتے ہیں تو مسجد میں حاضری بہت کم ہو جاتی ہے۔ اگر تو یہ حاضری دور سے آنے والوں کی وجہ سے کم ہوتی ہے، جو میرے یہاں ہونے کی وجہ سے مسجد فضل میں آتے ہیں (وہ مسجد فضل کی بات کر رہی تھیں) تو یہ اور بات ہے۔ لیکن پھر دُور سے آنے والے اگر یہاں نہیں آتے تو اپنے سینٹروں میں یا اپنی مساجد میں نماز باجماعت ادا کرنے والے ہونے چاہئیں۔ اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ یہ جو آنے والے ہیں یہ (ادا) کرتے بھی ہوں گے۔ لیکن اگر حاضری کی یہ کمی قریب رہنے والوں کے نہ آنے کی وجہ سے ہے تو پھر بڑی قابلِ فکر ہے اور اس طرف ہمیں توجہ کرنی چاہئے۔ اسی طرح آسٹریلیا کے دورے کے بعد مجھے وہاں سے کسی نے خط لکھا کہ مسجد کی حاضری بہت کم ہو گئی ہے۔ پس چاہے وہ آسٹریلیا ہے یا یوکے ہے یا کوئی اور ملک ہے یاد رکھیں کہ اگر انقلاب لانا ہے، اگر اُس ذمہ داری کو نبھانا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کو پورا کرنے کے لئے ہم پر ہے، اگر بیعت کا حق ادا کرنا ہے تو مسجدوں کی یہ رونقیں عارضی نہیں بلکہ مستقل قائم کرنی ہوں گی۔ اپنی تمام حالتوں میں ایک پاک تبدیلی پیدا کرنی ہو گی۔ اپنی عبادتوں کے معیار بڑھانے ہوں گے۔ نشان تبھی ظاہر ہوں گے جب صبر اور صلوۃ کے حق ادا ہوں گے۔ جب اپنے نفس کو کامل طور پر اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہم فنا کریں گے۔ جب توحید پر قائم ہونے کا حق ادا کریں گے اور جب یہ ہو گا تو اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ کا نظارہ بھی ہم دیکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ خود مدد کے لئے اُترے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنی تمام تر طاقتوں اور حسن کے جلووں سے ہماری مدد کو آئے گا اور دنیا دار ممالک اور دنیاوی طاقتوں کے عوام کے دل اللہ تعالیٰ اس طرف پھیر دے گا۔ ہمارے کاموں میں برکت پڑے گی اور دنیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو پہچان کر آپ کے جھنڈے تلے آئے گی۔ توحید کا قیام ہو گا اور خدا تعالیٰ کی ذات کے انکاری خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم اپنا حق ادا کرکے یہ نظارے دیکھنے والے ہوں۔
(خطبہ جمعہ 22 نومبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)