• 5 مئی, 2024

دوسروں میں عیب تلاش کرنے کی بجائے خوبصورت پہلو کو دیکھیں

دوسروں میں عیب تلاش کرنے کی بجائے خوبصورت پہلو کو دیکھیں
Beauty Lies In The Eyes Of The Beholder
خوبصورتی، دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے

ضرب المثل یا محاورہ کا استعمال دنیا کی تمام زبانوں میں استعاری معنوں میں ہوتا رہا ہے اور دور جدید میں بھی ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ محاورہ ایک ایسا تخلیقی استعارہ اور مؤثر ذریعہ ابلاغ ہوتا ہے جو اہل زبان کی لغت کا حصّہ ہوتا ہے جو جملوں میں زور اور انداز بیان میں حسن پیدا کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جس کی تفہیم بعض اوقات آسان نہیں ہوتی۔ مگر یہ زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ جیسے اردو زبان میں:مکہ میں رہتے ہیں مگر حج نہیں کیا۔ایک انار سو بیمار۔ اپنی گلی میں کتا بھی شیر ہوتا ہے۔ آسمان پر تھوکا منہ پر گرا۔ آ بیل مجھے مار وغیرہ وغیرہ۔

آزاد دائرۃالمعارف وکی پیڈیا میں لکھا ہے کہ کوئی فقرہ،جملہ،شعر یا مصرعہ جو زندگی کے بارے میں کسی خاص اصول،حقیقت یا رویے کو جامع اور بلیغ طور پر بیان کرے عوام و خواص اسے ترجمانی کے لیے استعمال کرنے لگیں اسے ضرب المثل(محاورہ) کہا جاتا ہے۔

جیسا کہ اوپر لکھ آیا ہوں کہ ایسی ضرب المثل ہر زبان میں موجود ہوتی ہے۔ آج مجھے انگریزی کی ایسی خوبصورت ضرب المثل ( محاورہ) کی طرف اپنے قارئین کی توجہ دلانا ہےجو ایک ایسی حقیقت ہےجو دو اور دو چار کی طرح سچی اور اپنے آپ میں مؤثر ہے اور وہ یہ ہے:

Beauty Lies In The Eyes Of The Beholder

یعنی خوبصورتی، دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے۔

اس Proverb کے اصل مضمون کو آج کے آرٹیکل کا مو ضوع تحریربنانا چاہتا ہوں۔مگر اس سے قبل دنیا کی ظاہری خوبصورتی کے حوالے سے چند سطور تحریر کرنی ضروری سمجھتا ہوں۔ دنیا میں تمام نظر آنے والی خوبصورتیاں دراصل آنکھ کی وجہ سے خوبصورت لگ رہی ہوتی ہیں۔پھولوں کی دنیا دیکھ لیں ان کے رنگا رنگ نظارے آنکھ ہی کی وجہ سے ہی خوبصورت لگتے ہیں۔ جس طرح قوت شامہ ہی خوشبو اور بدبو میں فرق پیدا کرتی ہے۔ گلاب کے پھول کو گلاب کے نام سے پکارنے کا فیصلہ آنکھ ہی دماغ کو پیغام دے کر کرتی ہے۔ اسی طرح قوت بصارت مختلف وادیوں،پہاڑوں،صحراؤں،چٹیل میدانوں اور سبزہ زاروں کے حسن و قبح کا فیصلہ کرتی ہے۔حتٰی کہ قدرت کے یہ حسین نظارے اور خوبصورتیاں بالآخر اس عظیم خوبصورتی کے خالق و مالک تک پہنچا دیتی ہیں جس کے متعلق کہا گیا ہے: اِنَّ اللّٰہَ جَمیْلٌ یُحِبُّ الْجَمَالُ کہ اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔

اب اس محاورے کو روحانی دنیا اور دینی تعلیمات کی روشنی میں اپنے پر لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج کی دنیا میں ہر کوئی ایک دوسرے کی خامیوں اور کمزوریوں کی تلاش میں نظر آتا ہے۔ جس میں تجسّس، عیب جوئی یا دوسروں کو تحقیر آمیز الفاظ میں یاد کرنا شامل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس انسان میں خامیاں دیکھی جا رہی ہیں اس انسان کے اندرخوبیاں بھی تو تھیں جنہیں ان ہی آنکھوں نے نہ دیکھا۔ یہاں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ کسی کی کمزوری اور غلطی کو دیکھنے والی آنکھ ہی قصوروار ہوتی ہے۔یہی وہ مضمون ہے جو حضرت مسیح موعودؑ نے یوں بیان فرمایا ہے کہ اپنی بیبیوں کے اندر ہر وقت عیبوں کی تلاش میں نہ لگے رہو۔ ان کے اندر بے شمار خوبیاں بھی تو ہیں ان کو تلاش کرنے کی کوشش کرو یہی اسلامی تعلیم ہے۔ ہم کسی کی وفات پر اس کی تمام برائیاں اور خامیاں بھلا کر اس کی نیکیوں اور سیرت کے مثبت پہلوؤں کا ذکر کرتے ہیں۔ اس اچھی عادت کو اپنی زندگیوں میں بھی جاری کریں تو معاشرہ حسین سے حسین تر بن سکتا ہے۔ اسی کو پردہ پوشی اور ستاری بھی کہا جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے بہت واضح الفاظ میں تجسّس اور عیب جوئی کی ممانعت اپنی لازوال کتاب قرآن کریم میں کی ہے۔ فرماتا ہے: لَا تَجَسَّسُوۡا (الحجرات: 13) کہ تجسّس نہ کیا کرو۔ سورۃالقلم آیت12 میں عیب جُو کی بات نہ ماننے کا حکم ملتا ہے جب کہ سورۃ الھمزہ آیت 2 میں عیب جُو کی ہلاکت کی دعا کی گئی ہے۔

احادیث میں بھی آنحضورﷺ کے ایسے فرمان ملتے ہیں جن میں میلی آنکھ سے کسی کو دیکھنے اور اس کی آبرو سے کھیلنے سے ممانعت کی گئی ہے۔جیسے ایک موقع پر فرمایا لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَاتَحَسَّسُوْا (مسلم باب التحریم الظن) کہ اپنے بھائی کے خلاف جاسوسی نہ کرو اور دوسروں کے عیبوں کی تلاش نہ کرو۔

حضرت عبداللہ بن عمر بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک مرتبہ منبر پر کھڑے ہو کر با آواز بلند فرمایا کہ اے لوگو! تم میں سے بظاہر بعض مسلمان ہیں لیکن ان کے دلوں میں ایمان ابھی راسخ نہیں ہوا انہیں میں متنبہ کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کو طعن و تشنیع کے ذریعہ تکلیف نہ دیں اور نہ ان کے عیبوں کی کھوج لگاتے پھریں۔ ورنہ یاد رکھیں کہ جو شخص کسی کے عیب کی جستجو میں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے اندر چھپے عیوب کو لوگوں پر ظاہر کر کے اس کو ذلیل و رسوا کر دیتا ہے۔

(حدیقۃالصالحین صفحہ 825)

بلکہ آنحضورﷺ نے اپنے صحابہ اور امتیوں کو ایک بہت پیارے محاورے کا استعمال فرما کر دوسروں کے اندر برائی تلاش کرنے سے منع فرما دیا ہے۔ فرمایا کہ اپنے بھائی کی آنکھ کا تنکا تو انسان کو نظر آتا ہےمگر اپنی آنکھ میں پڑا ہوا شہتیر بھول جاتا ہے۔

(حدیقۃ الصالحین صفحہ 825-826)

حضرت مسیح موعودؑ اس مضمون کو یوں شعر کے رنگ میں فرماتے ہیں:

بدی پر غیر کی ہر دم نظر ہے—مگر اپنی بدی سے بے خبر ہے

اس مضمون کا دوسرا پہلو پردہ پوشی کا ہے جس کے متعلق آنحضورﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص دنیا میں کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا۔ (ترمذی کتاب البروالصلۃ)

پھر فرمایا جس نے کسی کی کمزوری دیکھی اور پردہ پوشی سے کام لیا یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی زندہ در گور لڑکی کو نکالا اور اسے زندگی بخشی۔

حضرت مسیح موعودؑفرماتے ہیں۔ ’’پس غور کرو کہ اس کے کرم اور رحم کی کیسیعظیم الشان صفت ہے‘‘۔ آپؑ اللہ تعالیٰ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’اگر وہ (اللہ تعالیٰ) مؤاخذہ پر آئے تو سب کو تباہ کر دے لیکن اس کا کرم اور رحم بہت ہی وسیع ہے اور اس کے غضب پر سبقت رکھتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد7 صفحہ179 ایڈیشن 1985ء)

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ
’’اگر اس بات کو ہم سمجھ لیں اور اپنے ساتھیوں، اپنے بھائیوں، اپنے سے واسطہ پڑنے والوں کے معاملات میں ہر وقت ٹوہ نہ لگاتے پھریں، تجسس نہ کریں، ان کی کمزوریوں کو تلاش نہ کرتے پھریں تو ایک پیار اور محبت کرنے والا اور پُر امن معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔ ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو پردہ پوشی کی بجائے دوسروں کے عیب ظاہر کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ اور جب ان کے اپنے متعلق کوئی بات کر دے یا کسی ذریعہ سے ان کو یہ پتا چل جائے کہ فلاں شخص نے میرے متعلق اس طرح بات کی تھی تو سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ انتہائی غصہ میں آ کر مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ لیکن جب یہ خود کسی دوسرے کے متعلق کہہ رہے ہوں تو اس وقت کہتے ہیں کہ یہ تو معمولی بات تھی ہم نے تو یونہی کہہ دی۔ ہمیں ہر وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اپنے سامنے رکھنا چاہئے کہ جو اپنے لئے چاہتے ہو وہی اپنے بھائی کے لئے چاہو۔

(صحیح البخاری کتاب الایمان)

پس اگر اپنے لئے پردہ پوشی پسند ہے تو دوسروں کے لئے بھی وہی احساسات ہونے چاہئیں اور یہی وہ سنہری اصول ہے جو معاشرے کے امن کے لئے بھی ضروری ہے۔

پس عیب دیکھ کر بجائے اس عیب کو پھیلانے کے ہر ایک کو استغفار کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے اور اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ ہمارے اندر بھی جو بے شمار عیب ہیں وہ کہیں ظاہر نہ ہو جائیں۔ اگر نیک نیت سے انسان دوسروں کے عیبوں کی پردہ پوشی کرے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والا بنتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر خدا تعالیٰ مؤاخذہ پر آئے حساب کتاب لینے لگے تو سب کو تباہ کر دے۔ پس بڑے خوف کا مقام ہے اور ہر وقت استغفار کرتے رہنے کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔کمزوریوں کے پیچھے پڑنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کو جگہ جگہ بیان کرنا، تجسّس کر کے ان کی کمزوریوں کی تلاش کرنا۔ اگر انسان اس طرح کرے تو ان لوگوں کو بگاڑے گا اور معاشرے کے امن کو بھی خراب کرے گا اور پھر جب یہ باتیں جگہ جگہ لوگوں میں بیان کی جائیں تو پھر ایسے لوگ جن میں یہ برائیاں ہیں ان میں اصلاح کی بجائے ضد پیدا ہو جاتی ہے اور پھر ضد میں آ کر وہ دوسروں کو بھی اپنے جیسا بنانے کی کوشش کرتے ہیں، اپنے حلقے کو وسیع کرتے جاتے ہیں۔ حجاب ختم ہو جاتا ہے۔ اور جب حجاب ختم ہو جائے تو اصلاح کا پہلو بھی ختم ہو جاتا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 31 مارچ 2017ء)

پس اس ضرب المثل کو بنیاد بنا کر اس مضمون کو بیان کر تے ہوئے اپنے قارئین سے درخواست کرنی مقصود ہے کہ اللہ کی طرف سے دیئے گئے تمام اعضاءانسانی کو بر محل استعمال کریں۔ اپنی روز مرہ زندگی میں ہر بات اور ہر انسان میں عیب تلاش کرنے کی بجائے ایک خوبصورت پہلو کو مدّنظر رکھ کر اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک جنت نظیر معاشرے کی مثال پیش کرتے ہوئے اپنے رب کی خوشنودی اور رضا کے وارث ٹھہریں۔ آمین

(ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

مسجد فتح عظیم امریکہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 اکتوبر 2022