دلچسپ و مفید واقعات و حکایات
بیان فرمودہ
حضرت مصلح موعودؓ
قسط 3
احمدی اور غیر احمدی میں فرق
پھریہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی جماعت ہیں اور اللہ تعالیٰ کی جماعتیں فتنہ و فساد کے وقت پیدا ہواکرتی ہیں، جب دُنیا بہت بڑا تغیر اور بہت بڑی تبدیلی چاہتی ہے تب نبی آیا کرتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا ایک واقعہ ہے جس کا ذکر ڈائری میں آتا ہے۔ میں اُس وقت وہاں موجود تھا جب وہ واقعہ ہوا۔ مدرسہ احمدیہ کے متعلق گفتگو ہو رہی تھی کہ اِس کی ضرورت ہے یا نہیں۔ ایک صاحب تحصیلدار تھے۔ اُنہوں نے کہا ہمیں ایسے مدرسہ کی کیا ضرورت ہے ہمارا اور دوسرے مسلمانوں کا اتنا ہی اختلاف ہے کہ ہم کہتے ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے اور وہ کہتے ہیں زندہ ہیں۔ دوسرے مسائل میں کوئی اختلاف نہیں وہ مسائل ہم دوسرے مولویوں سے معلوم کر سکتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ خود مجلس میں تشریف لے آئے اور آپ نے تقریرکی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مَیں یہ بات سن کر حیران ہو گیا کہ ہمارا اور دوسرے لوگوں کا اختلاف صرف حیات و وفات عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ہے؟ اگر یہی اختلاف ہوتا تو اِس کے لئے قطعاً مامور کی ضرورت نہ تھی۔ حضرت عیسیٰ ؑکی وفات ماننے والے تو کئی لوگ تھے۔ سرسید احمد خان بھی حضرت عیسیٰ ؑکی وفات مانتا تھا۔ اسی قسم کے اور بھی لوگ تھے اس کے لئے مامور کے آنے کی ضرورت نہ تھی۔ فرمایا یہ غلط ہے اصل بات یہ ہے ہمارا خدا اور ہے اور ان کا خدا اور۔ ان میں خداتعالیٰ کے متعلق بیسیوں غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ الہام ختم ہو چکا اور خدا اب اپنے کسی بندہ سے نہیں بولتا۔ پھر اُن کا قرآن اور ہے اور ہمارا اور۔ وہ سمجھتے ہیں قرآن کی کئی آیات منسوخ ہیں مگر ہم اس کاایک شوشہ بھی منسوخ نہیں مانتے۔ اُن کی سمجھ میں جوآیت نہ آئی اسے منسوخ قرار دے دیا۔ اِس سے بڑھ کر قرآن پر اور کیا ظلم ہو سکتا ہے۔ پھر وہ مسلمان ہی ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پھوپھی زاد بہن کو ننگے نہاتے دیکھا اور اُس پر عاشق ہو گئے۔ (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ) پس کوئی ایک بات نہیں جس میں اُن سے ہمیں اختلاف ہے بلکہ انہوں نے اسلام کا نقشہ ہی اِس طرح بدل دیا ہے کہ وہ پہچانا نہیں جاتا۔ پھر اُن کے دلوں کا نقشہ بدل گیا ہے۔ اُن کے دلوں سے خداتعالیٰ کی محبت مٹ چکی ہے۔ تو فرمایا اسلام کی ہر چیز کو انہوں نے بدل دیا اِس لئے خداتعالیٰ نے مجھے بھیجا۔
(خطابات شوریٰ جلد1 صفحہ578-579)
مخالفتیں اور ابتلا انعامات دینے کے لئے آتے ہیں
ہمارے خلاف مخالفت کی ایک عام رَو چلی ہوئی ہے۔ اس کے متعلق میں نے مختلف لوگوں سے گفتگو کی۔ اُن کی طرف سے اس قدر اسباب اِس مخالفت کے بیان کئے جاتے ہیں کہ ان میں سے کسی کو بھی حقیقی نہیں کہہ سکتے۔
پچھلے دنوں مَیں لاہور گیا تو پولیس کے ایک بڑے افسر ملنے کے لئے آئے۔ اُن سے میں نے پوچھا کیا آپ کے نزدیک بھی آجکل ہماری مخالفت بڑھ گئی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ میں نے کہا آپ کے نزدیک اس کی کیا وجہ ہے؟ کہنے لگے آپ لوگ چونکہ سیاست میں حصہ لینے لگے ہیں، اس لئے بد دیانت لوگوں کو خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ اب ان کے ہاتھ سے کام نکل جائے گا۔
میرے نزدیک یہ بھی ایک وجہ ہے۔ مگر کئی اور جگہ اِس قسم کے اسباب نہیں مگر وہاں بھی مخالفت زوروں پر ہے۔ دراصل یہ مخالفت کی رَو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے۔ اور اس کی غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم اُس سے مانگیں تاکہ ہمیں دیا جائے۔جس طرح ماں بعض اوقات چاہتی ہے کہ بچہ دودھ مانگے تو اُسے دے اِسی طرح خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم اُس سے مانگیں۔
پس یہ الٰہی فعل بتاتا ہے کہ ہمیں کچھ ملنے والا ہے مگر اِس کے لئے ضرورت ہے کہ ہم مانگیں۔ خداتعالیٰ سے مانگنا کچھ تو دُعا سے ہوتا ہے اور کچھ عمل سے۔ پس اِس وقت ہماری وہی حالت ہے جیسا کہ کتابوں میں آتا ہے کہ
کوئی بزرگ تھے۔ کسی نے اُن کی بہت خدمت کر کے اُنہیں خوش کیا تو وہ کہنے لگے جو کچھ مانگنا چاہتے ہو مانگ لو۔ پس خداتعالیٰ ہمیں کچھ دینا چاہتا ہے اور یہ اُس کی سُنت ہے کہ جس کو وہ دینا چاہتا ہے اُسے ابتلاءمیں ڈالتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو بھی مشکلات پیش آئیں۔ اس وقت آپ کو الہام ہوا۔
؎چل رہی ہے نسیم رحمت
جو دعا کیجئے قبول ہے آج
یہ موقع ہمارے لئے بھی آیا ہواہے۔ اگر ہماری جماعت خداتعالیٰ کی طرف سے ہے اور ہم خوب جانتے ہیں کہ ہم خداتعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ اور قلم برداشتہ لکھ سکتے ہیں کہ خدا کی قسم ہم حق پر ہیں۔ کئی لوگ لکھتے۔ لَعْنَةُ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ کے ماتحت لکھو کہ تم حق پر ہو اور مَیں فورًا لکھ دیتا ہوں۔ پس جب ابتلاء خداتعالیٰ کی طرف سے آئے اور کچھ انعام دینے کے لئے آئے تو زیادہ ہمت، زیادہ قربانی اور زیادہ ایثار کی رُوح پیدا کرنی چاہئے تاکہ انعامات ملیں۔ پس ہمیں خداتعالیٰ کے خاص فضل حاصل کرنے کے لئے عملی قربانی کرنی چاہئے اور دُعاؤں پر بہت زور دینا چاہئے۔
(خطابات شوریٰ جلد1 صفحہ582-583)
مفت خوری
ایک دوست نے کہا گورنمنٹ سے ایڈ کا جو روپیہ مل سکتا ہے اسے کیوں چھوڑیں۔ ان کی یہ بات نیک نیتی پر مبنی تھی اور اس کے مطابق انہوں نے کہا مگر ایک لطیفہ یاد آگیا وہ سنا دیتا ہوں
جب میں حج کو گیا تو ایک عرب کے مفتی صاحب جو اُسی جہاز میں سوار تھے بہت گھبرائے ہوئے تھے کہ محی الدین عرب اُن کو میرے پاس لایا۔ میں نے پوچھا کیا وجہ ہے گھبرانے کی؟ تو انہوں نے کہا یہاں کھانے کا کوئی انتظام نہیں، حالانکہ مجھے بتایا گیا تھا کہ انتظام ہو گا، اب میں کیا کروں؟ میں نے اُن کے متعلق کپتان جہاز سے کہا کہ جب یہ آگئے ہیں تو ان کے کھانے کا کوئی انتظام کرو۔ اُس نے کہا کمپنی کی طرف سے تو کوئی اجازت نہیں۔ البتہ ملاحوں کو کافی کھانا ملتا ہے مَیں اُن سے کہتا ہوں کہ ان کو دے دیا کرو۔ یہ انتظام ہو گیا۔ میں ایک دن مفتی صاحب سے ملنے گیا تو پھر اُن کو گھبرایا ہوا پایا۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کھانے کے ساتھ شراب آتی ہے جو میں ایک یہودی کو دے دیتا تھا مگر آج کوئی نہیں ملا کسے دوں میں نے کہا پھینک دو۔ کہنے لگے پھینکوں کیسے؟ اِس پر پیسے لگے ہوئے ہیں۔
اگر سرکاری سکیم جاری کرنے کی وجہ سے کوئی نقصان ہوتا ہو تو ہم سرکاری ایڈ ترک کر سکتے ہیں لیکن اگر کوئی حرج نہ ہوتاہو، ہمارے مقصد میں فرق نہ پڑے اور اپنے نصاب کے ساتھ سرکاری سکیم رکھ کر مل سکے تو کوئی حرج نہیں۔ مگر ایڈ اس نقطہ نگاہ سے ہو نہ کہ ایڈ کے معنے کے لحاظ سے ہم سکیم میں کوئی اصلاح نہ کریں۔
(خطابات شوریٰ جلد1 صفحہ599)
محبت کے رشتوں میں معمولی ناراضگی بھی اثر رکھتی ہے
میں جب کسی مخلص سے کہتا ہوں کہ ناراض ہوں تو اُس کی کیا حالت ہو گی اور یہ اُس کو ہی سزا نہیں ہوتی اپنے آپ کو بھی ہوتی ہے۔
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تین صحابیوں سے ناراض ہو گئے۔ ان میں سے ایک کہتا ہے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں جاتا اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ۔ کہتا مگر آپ جواب نہ دیتے اور کن اکھیوں سے میری طرف دیکھتے۔ تو وہ سزا اُس صحابی کو ہی نہ تھی بلکہ اس کی اذیّت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی تھی۔
اِسی طرح جن سے میں ناراض ہوتا ہوں اُن کو ہی سزا نہیں ہوتی مجھے بھی ہوتی ہے مگر سلسلہ کے وقار اور ضروریات کے پیش نظر سزا دینی پڑے گی۔ قادیان میں ایسا ہوا ہے کہ ایک مخلص شخص سے میں ناراض ہوا تو غم کی وجہ سے اسے دو ہفتہ کے اندر اندر سِل ہو گئی۔ اس پر مجھے پچھتاوا ہوا۔
ایک دوست نے سُنایا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ایک دفعہ سیر کو جا رہے تھے کہ آپ نے پان مانگا۔ منشی ظفر احمد صاحبؓ نے پان دیا۔ جس میں زردہ پڑا ہوا تھا۔ آپؑ نے کھایا تو قے ہو گئی مگر اس خیال سے کہ دِل شکنی نہ ہو فرمانے لگے معدہ صاف ہو گیا۔ خوب قے آگئی ہے۔ منشی ظفر احمد صاحبؓ جب یہ بات سُناتے ہیں تو اِن کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ تو محبت کے رشتے بالکل اور ہوتے ہیں۔ ان میں معمولی سی سزا بھی بہت اثر رکھتی ہے۔
(خطابات شوریٰ جلد1 صفحہ607)
ہم کاموں میں لوگ مرنا بھی بھول جاتے ہیں
ہمارے ذمہ ایک بہت اہم کام ہے اور وہ دنیا کو خداتعالیٰ کا پیغام پہنچانا ہے۔ خداتعالیٰ نے ہمیں صداقت اور حقانیت دی اور فرمایا جاؤ ساری دُنیا کو پہنچاؤ۔ اہم کاموں میں تو لوگ مرنا بھی بھول جاتے ہیں، پھر کیا ہم زندہ رہنا بھی نہیں بھول سکتے۔کہا جاسکتا ہے کہ کس طرح کوئی مرنا بھول سکتا ہے مگر ایسے لوگ ہوتے ہیں جو واقعی بھول جاتے ہیں۔ظاہری حالات ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں مر جانا چاہئے مگر وہ اس وقت تک نہ مرے جب تک انہوں نے اپنا کام نہ کر لیا۔
تاریخوں میں آتا ہے ایک قلعہ تھا جس پر قبضہ کر لینے پر نپولین کی فتح کا دارومدار تھا۔ ایک نوجوان کے سپرد یہ کام تھا کہ اس کے فتح ہونے کی اطلاع نپولین کو دے۔ عین اُس وقت جب کہ وہ چلنے لگا اُس کے سینہ میں گولی لگی مگر وہ گھوڑا دوڑائے چلا گیا اور جا کر اطلاع دی کہ قلعہ فتح ہو گیا ہے۔ نپولین نے اسے دیکھ کر کہا تمہیں یہ کیا ہوا کیا گولی لگی ہے؟ یہ کہنا تھا کہ وہ اُسی وقت گر کر مر گیا۔ جس جگہ اُسے گولی لگی تھی وہ ایسی نازک تھی کہ اُسے گولی لگنے کے بعد پھر جینا نہیں چاہئے تھا مگر چونکہ اُس میں یہ فوق العادت ارادہ پیدا ہو گیا تھا کہ یہ کام مجھے کرنا ہے اور میں اِسے کر کے چھوڑوں گا۔ اِس وجہ سے موت بھی اُس سے پیچھے ہٹی رہی تا وقتیکہ اُس نے اپنا کام نہ کر لیا۔
کیا جس کام کو ایک شخص اپنے مُلک کی خاطر اور نپولین کی خاطر کر سکتا ہے اور موت کو بھلا کر جو ٹل نہیں سکتی کر سکا، کیا ہم دین کے لئے زندگی کو بھول کر نہیں کر سکتے؟ اس وقت اگر ہمیں موت بھی آجائے تو ہم کہیں گے ذرا پیچھے ہٹ ہمیں ابھی خدا کا کام کرنا ہے اور وہ بھی پیچھے ہٹ جائے گی۔ پس وقت آگیا ہے کہ ہم ہوشیار ہو جائیں۔ اگر ہم اس پیغام کو نہ پہنچائیں گے جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے تو اُس درگاہ میں جس کا مجرم بہت ہی قابلِ رحم حالت میں ہوتا ہے مجرم کی حیثیت سے پیش ہوں گے دوست کی حیثیت سے نہیں۔پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ سُستی ترک کر دیں۔ وہ جو چُست نہیں چُست ہو جائیں، جو ہوشیار نہیں وہ ہوشیار ہو جائیں اور سستیاں چھوڑ دیں اور خداتعالیٰ کا پیغام دنیا کو پہنچانے کے لئے سب کچھ بھول جائیں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ اِس ارادہ اور اِس ایمان کے ساتھ اگر چند ہزار بھی نکلیں گے تو پھر کامیابی میں شبہ نہیں ہو سکتا۔
(خطابات شوریٰ جلد1 صفحہ611-612)
جو شخص مرنے کے لئے تیار ہو جائے اسے کوئی مار نہیں سکتا
خوب اچھی طرح یاد رکھو جو شخص مرنے کے لئے تیار ہو جائے اُسے کوئی نہیں مار سکتا۔ سچے طور پر موت قبول کرنے والی انبیاء کی جماعت ہی ہوتی ہے۔ پھر کوئی ہے جو اُسے مار سکے؟ ہرگز نہیں۔ دائمی زندگی حاصل کرنے کا اصل یہی ہے کہ انسان خداتعالیٰ کے لئے موت قبول کرے اور جب کوئی انسان اس ارادہ سے کھڑا ہوتا ہے تو خداتعالیٰ کے فرشتے اسے زندہ کرنے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ گویا کُشتی شروع ہو جاتی ہے۔ انسان زور لگاتا ہے کہ خداتعالیٰ کی راہ میں موت حاصل ہو لیکن فرشتے زور لگاتے ہیں کہ اسے زندہ رکھا جائے۔ جب خدا کا بندہ کہتا ہے کہ میں خدا کے لئے مرنا چاہتا ہوں تو خداتعالیٰ کے سارے فرشتے کہتے ہیں ہم مرنے نہیں دیں گے اور آخر فرشتے ہی جیتتے ہیں۔ بندہ چاہتا ہے کہ مر جائے۔ وہ اس کے لئے اپنے آپ کو ایسے حالات میں ڈالتا ہے جن کا نتیجہ موت ہوتی ہے مگر وہ مرتا نہیں۔
حنین کے واقعہ کو ہی دیکھ لو۔ جب دشمن حملہ کر کے آگے بڑھا تو اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس صرف بارہ آدمی تھے باقی سب دشمن کی تیر اندازی سے تِتّر بِتّر ہو گئے تھے۔ اُس وقت حضرت عباسؓ نے کہا حضور ذرا پیچھے ہٹ جائیں مگر آپ نے سواری کو ایڑی لگائی اور آگے بڑھتے ہوئے فرمایا۔ اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِب اَنَا ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبُ۔ میں خداتعالیٰ کا سچا نبی ہوں میں پیٹھ کس طرح دکھا سکتا ہوں یہ ایک ایسا کلمہ تھا جو انسانیت کو بھلا کر خداتعالیٰ کے سامنے لانے والا تھا۔ چار ہزار تیر اندازوں کے مقابلہ میں ایک شخص کہتا ہے میں یہاں سے ہٹ نہیں سکتا تو یہ انسان نہیں بلکہ خدا بول رہا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت کہا بھی کہ اَنَا ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبُ۔ میں انسان ہی ہوں۔ پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہاکہ میں خدا کی راہ میں مرنا چاہتا ہوں تو خداتعالیٰ کے فرشتے اُتر آئے اور حنین کی شکست فتح سے بدل گئی اور آپ فاتح بن کر میدان جنگ سے لوٹے۔
اسی طرح اُحد کی جنگ کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ لیا کہ باہر نکل کر مقابلہ کریں یا اندر ہی رہ کر؟ اُس وقت بعض نوجوان چاہتے تھے کہ بہادری دکھائیں اور باہر نکل کر مقابلہ کریں۔ اُنہوں نے اِس کے لئے بہت زور دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات مان لی اور آپ زِرہ پہن کر نکل آئے۔ بعد میں جو لوگ آئے انہوں نے نوجوانوں کو سمجھایا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے تھے کہ اندر رہ کر مقابلہ کریں تو تم نے باہر نکل کر لڑنے پر کیوں زور دیا؟ اِس پر نوجوانوں نے رسول کریم ﷺ سے عرض کی یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! ہم سے غلطی ہوئی ہم اپنی بات واپس لیتے ہیں۔ رسول کریم ﷺنے فرمایا نبی جب ہتھیار پہن لیتا ہے تو پھر نہیں لَوٹتا۔
اس کے بھی یہی معنے ہیں کہ نبی اپنے لئے خداتعالیٰ کی راہ میں موت پسند کرتا ہے۔تو خدا کا وہ مقدس رسول جس کی جان زمین وآسمان سے بھی زیادہ قیمتی تھی، جس کی جان کی خاطر ہزاروں صدیوں کے انسان قربان کئے جا سکتے تھے، جس کی جان کے ایک منٹ کی قیمت تمام کائنات نہیں ہو سکتی، وہ بھی کہتا ہے کہ نبی جب ہتھیار لگا لے تو پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ پھر ہماری کیا حقیقت ہے کہ ہم جب کھڑے ہوں تو کمریں کھولنے کا خیال بھی دل میں لائیں۔ کیا جس کے لئے بیش قیمت ہیرا قربان کیا جا سکتا ہے اُس کے لئے کوئلہ نہیں قربان کیا جا سکتا؟ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلہ میں ہماری جانیں کوئلہ جتنی بھی حیثیت نہیں رکھتیں۔ وہ ہیرا ہو کر تیار تھا کہ خداتعالیٰ کے عشق کی بھٹی میں جل جائے۔ پھر کیا ہم کوئلہ ہو کر نہیں جلیں گے؟ بحال یہ کہ کوئلہ بنایا گیا ہی جلنے کے لئے ہے۔ پس موت کو قبول کرو، تب کام ہو گا۔
(خطابات شوریٰ جلد1 صفحہ612-614)
خدمت اسلام کے لئے ایک عظیم عہد
میری زندگی میں بھی ایسا لمحہ اس وقت آیا جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا انتقال ہوا اُس وقت میری عمر اُنیس سال کی تھی۔ جب میں نے لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ اب کیا ہو گا، ابھی کئی پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں اور ایک شخص تو ایسے موقع پر مرتد بھی ہو گیا۔
اُس وقت خداتعالیٰ نے مجھے توفیق دی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے سرہانے کھڑے ہو کر خداتعالیٰ سے مخاطب ہو کر میں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام تیری طرف سے آئے، اب میں تیرے ہی سامنے تیرے ہی تقدس کی قسم کھا کر اقرار کرتا ہوں کہ اگر سارے کے سارے لوگ بھی مرتد ہو جائیں تو مَیں تیری راہ میں اپنی جان لڑا دوں گا۔
یہ وہ پہلے الفاظ اور پہلا کام تھا جو مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی وفات کے بعد کیا۔میں نے خداتعالیٰ کی توفیق سے بڑے بڑے کام کئے ہیں مگر میں اِس کام کو سب سے بڑا سمجھتا ہوں۔
جب کے بدر کے لئے رسول کریم ﷺ گئے تو آپ ﷺنے پوری طرح اعلان نہ کیا تھا کہ جنگ ہو گی یا نہیں اور مجھے یہ معلوم نہیں کہ اس بات کا یقینی علم آپ کو کہاں ہوا۔ اُس وقت جو صحابہ آئے وہ پوری طرح تیار نہ تھے۔ تب رسول کریم ﷺ نے اُن سے کہا کہ خداتعالیٰ نے بتایا ہے جنگ ہو گی، دشمن آرہا ہے اب بتاؤکیا رائے ہے؟ اُس وقت کئی ایک صحابہ اُٹھے اور انہوں نے کہا رائے کیا ہم جنگ کے لئے تیار ہیں۔ مگر یہ کہنے والے مہاجرین تھے، انصار نہ تھے۔ جب وہ بول چکے تو رسول کریم ﷺ نے پھر فرمایا دوستو مشورہ دو۔ یہ تین دفعہ آپ ﷺنے کہا۔ اِس پر ایک انصاری کھڑے ہوئے اور کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! کیا آپ ﷺکی مراد ہم سے ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ جب رسول کریم ﷺ مدینہ تشریف لائے اور انصار سے معاہدہ ہوا تو اس کی ایک شرط یہ تھی کہ اگر کفار مدینہ پر چڑھ کر رسول کریم ﷺپر حملہ کریں گے تو ہم لڑیں گے باہر جا کر لڑنے کے ذمہ وار نہیں۔ یہ لڑائی چونکہ باہر تھی اِس لئے رسول کریم ﷺ انصار سے پوچھتے تھے۔
اُس وقت ایک انصاری کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! وہ معاہدہ اُس وقت ہوا تھا جب کہ ہم پر حق پوری طرح نہ کُھلا تھا۔ اب جب کہ ہمیں آپ ﷺکے ذریعہ ایمان نصیب ہوا ہے تو ہم سے یہ سوال ہی کیا ہے کہ لڑو گے یا نہیں۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہ! یہ سامنے سمندر ہے۔ آپ ﷺاشارہ فرمائیں کہ اِس میں گھوڑے ڈال دو ہم آپ سے کچھ پوچھے بغیر فوراً ڈال دیں گے۔ جب جنگ ہو گی توہم آپ کے دائیں اور بائیں، آگے اور پیچھے لڑیں گے اور کوئی آپ تک نہ پہنچ سکے گا جب تک ہماری لاشوں پر سے گزرتا ہوا نہ آئے گا۔
یہ بات اُس انصاری نے کہہ دی اور رسول کریم ﷺنے سن لی۔ ایک صحابی نے جو تیرہ یا سترہ غزوات میں شامل ہوئے ایک دفعہ ایک موقع پر آہ بھر کر کہا کاش! میں اِن غزوات میں شریک نہ ہوتا اور اِن کا ثواب مجھے حاصل نہ ہوتا مگر یہ فقرہ میرے منہ سے نکلا ہوتا۔
مجھے بھی اِس صحابی کی طرح فخر حاصل ہے جب میں اپنی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں اور اِس فقرہ اور معاہدہ پر نظر ڈالتا ہوں تو سمجھتا ہوں وہ بہترین موقع تھا جو خداتعالیٰ نے مجھے دیا۔
ایسا ہی معاہدہ کامیاب کر سکتا ہے۔ جب تک ہر ایک احمدی اپنی آنکھوں کے سامنے رسول کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعودؑ کی مقدس لاشوں کو رکھ کر یہ معاہدہ نہیں کرتا کہ میں اپنا سب کچھ اسلام کے لئے قربان کر دوں گا کامیاب نہیں ہو سکتا۔
(خطابات شوریٰ جلد1 صفحہ615-616)
فتح کی موت
وہ مقام حاصل کرو کہ تمہاری موت فتح کی موت ہو جیسا کہ ایک عرب شاعر نے کہا ہے
یَا ذَالَّذِیْ وَلَدَتْکَ اُمُّکَ بَاکِیًا
وَالنَّاسُ حَوْلَکَ یَضْحَکُوْنَ سُرُوْرًا
اِحْرِصْ عَلیٰ عَمَلٍ تَکُوْنَ بِہ مَتَیٰ
یَبْکُوْنَ حَوْلَکَ ضَاحِکاً مَسْرُوْراً
اے انسان! تُو ایسا تھا کہ جب تُو پیدا ہوا، تو رو رہا تھا اور لوگ ہنس رہے تھے۔کہ بیٹا پیدا ہوا۔ اب تُو ایسے عمل کر اور تُو ایسا مقام حاصل کر لے کہ جب تُو فوت ہو تو لوگ رو رہے ہوں کہ وہ تیرے فوائد سے محروم ہو گئے اور تُو ہنس رہا ہو کہ تُو نے اپنا کام ختم کر لیا۔
(خطابات شوریٰ جلد1 صفحہ619)
خدمت دین کے لئے خدا کی آواز پر لبیک کہو
دُنیا کی کوئی طاقت ہمیں اپنے مقصد و مدعا میں ناکام نہیں کر سکتی۔ اگر ہم میں سے چند بھی باقی رہ جائیں گے تو وہ ناکام نہیں ہوں گے بلکہ اگر ایک بھی نہیں رہے گا توبھی اسلام کا جھنڈا سرنِگوں نہیں ہو سکتا۔
حنین کی جنگ میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکیلے رہ گئے تو آپ نے حضرت عباسؓ سے فرمایا آواز دو کہ اے انصار! اللہ کا رسول تمہیں بُلاتا ہے۔
جب میں یہ واقعہ پڑھتا ہوں تو رسولِ کریم ﷺ سے لے کر اِس وقت تک کی تیرہ صدیاں سمٹ کر وہ نظارہ میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور دُوری کا سوال اُڑ جاتا ہے۔ اِس وقت میں سمجھتا ہوں رسول کریم ﷺ کی آواز مجھے سنائی دے رہی ہے اور میں لبیک کہتا ہوا حاضر ہو رہا ہوں۔ پھر غور کرو جن کے کانوں میں رسول کریم ﷺکی طرف سے عباسؓ کی آواز کاغذ اور سیاہی کے ذریعہ نہیں پہنچی بلکہ آواز اُن کے کانوں میں براہ راست پہنچی اُن کی کیا کیفیت ہوتی ہو گی۔
وہ کہتے ہیں ہمیں ایسا معلوم ہوا کہ صُورِ اسرافیل پُھونکا گیا ہے۔ اُس وقت اُن کے گھوڑے اور اونٹ بھاگے جا رہے تھے۔ اِس حالت میں اُن کا لوٹنا کتنا مشکل تھا مگر جب حضرت عباسؓ نے یہ آواز بلند کی کہ خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے تو اُنہوں نے اپنی سواریوں کو موڑنے کی کوشش کی۔ جب وہ زور لگاتے تو سواریوں کے منہ مُڑ کر پیٹھ کو جا لگتے مگر جب چھوڑتے تو پھر آگے کو بھاگ پڑتیں اِس وجہ سے اُنہوں نے اپنی سواریوں کی گردنیں کاٹ دیں اور سواریاں چھوڑ کر رسول کریم ﷺکے گرد لَبَّیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ لَبَّیْکَ کہتے ہوئے جمع ہو گئے۔
میں جب کاغذوں میں یہ واقعہ پڑھتا ہوں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ تیرہ صدیاں مِٹ گئی ہیں اور حضرت عباسؓ کی آواز میرے کانوں میں آرہی ہے۔ اُس وقت میں چاہتا ہوں کہ اُڑ کر پہنچ جاؤں۔
مگر اِس وقت جب کہ خدا کے مسیح کی آواز ہمارے کانوں میں پہنچ رہی ہے کہ اے خدا کے بندو! تمہارا خدا تمہیں بلاتا ہے تو اِس وقت عین میدانِ جنگ میں انصار نے جو قربانی کی اور لبیک کہتے ہوئے جا پہنچے اس سے بڑھ کر قربانی کرنا جوا پنا فرض نہیں سمجھتا اسے مومن کہلانے کا کوئی حق نہیں ہے۔
پس اگر کوئی اِس آواز پر لبیک نہیں کہتا تو آواز پہنچانے والا کہہ دے کہ میں نے اپنے آپ کو پیش کر دیا ہے، دوسروں کا مَیں ذمہ وار نہیں۔ اِس نیت اور اِس ارادہ سے جو نمائندے کھڑے ہوں گے وہ ضرور اپنی اپنی جماعتوں کو بیدار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اُن میں خدا داخل ہو جائے گا، اُن میں خدا کا ظہور ہو گا۔اس کے لئے صرف پختہ ایمان، پختہ اخلاص،اور پختہ ارادہ کی ضرورت ہے۔
(خطابات شوریٰ جلد1 صفحہ620-621)
عشق میں رشک، پیاروں سے بھی ہوتا ہے
ہمیں خداتعالیٰ نے دُنیا کی اصلاح کے لئے چنا ہے اور ہم خداتعالیٰ کی چنندہ جماعت ہیں۔ ہمیں دُنیا سے ممتاز اور علیحدہ رنگ میں رنگین ہونا چاہئے۔ صحابہ ہمارے لئے ادب کی جگہ ہیں مگر عشق میں رشک پیاروں سے بھی ہوتا ہے۔ پس ہمارا مقابلہ اُن سے ہے جنہوں نے رسولِ کریم ﷺ کے دوش بدوش جنگیں کیں اور اپنی جانیں قربان کیں۔ ہم ان کی بے حد عزت اور توقیر کرتے ہیں لیکن کوئی وجہ نہیں کہ ان کی قربانیوں پر رشک نہ کریں اور ان سے بڑھنے کی کوشش نہ کریں۔
میں ایک مثال بیان کرتا ہوں۔ رسول کریم ﷺ ایک دفعہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ ﷺکا طریق یہ تھا کہ اگر کوئی چیز اہل مجلس کو دیتے تو دائیں طرف والے کو دیتے۔ اُس وقت آپ کے لئے دودھ لایا گیا۔ آپ نے اس وقت حضرت ابوبکرؓ کی طرف دیکھا جو بائیں طرف بیٹھے تھے اور دائیں طرف ایک بچہ بیٹھا تھا آپ نے شاید اس خیال سے کہ حضرت ابوبکرؓ بوڑھے ہیں اور دیر سے بیٹھے ہیں، اِنہیں بھوک لگی ہو گی بچے سے کہا اگر اجازت دو تو میں یہ دودھ ابوبکرؓ کو دے دوں بچہ نے کہا کیا یہ دودھ لینے کا میرا حق ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا ہاں۔ اس نے کہا پھر میں یہ نہیں کر سکتا کہ یہ حضرت کا تبرک ابوبکرؓ کو دے دوں، میں اِس برکت کو نہیں چھوڑ سکتا۔
پس ہم صحابہ کرام کو ادب اور احترام کا مقام دے سکتے ہیں اور ان کے لئے جان بھی دے سکتے ہیں مگر جب قربانی کا موقع آئے تو ہم کہیں گے کہ ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ جب تک ہم میں سے ہر ایک کے دل میں یہ جذبہ نہ پیدا ہو ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے اپنی ذمہ واری کو پوری طرح محسوس کر لیا۔
(خطابات شوریٰ جلد1 صفحہ640-641)
(محمد انور شہزاد)