• 16 مئی, 2024

مفتی گوجرہ سید محمد طفیل شاہ گیلانی صاحب سے ملاقات

گوجرہ میں ڈیوٹی کے دوران سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی ایک ہدایت میری نظر سے گزری کہ تم لوگ جہاں بھی جاؤ وہاں ہر طبقہ کے لوگوں سے تمہارا ذاتی تعلق ہونا چاہئے۔ سید محمد طفیل شاہ گیلانی صاحب گوجرہ میں معروف عالم دین تھے اور نہایت شریف الطبع انسان تھے۔ ایک دو ملاقاتوں سے ہی ان کے ساتھ بہت اچھا دوستانہ تعلق قائم ہو گیا۔ تعویذ بھی کرتے تھے۔ جب بھی ان سے ملنے جاتا ان کا ڈرائنگ روم اپنی مختلف اغراض سے آنے والوں سے بھرا ہوتا۔ میری آمد پر سب لوگوں کو ایک طرف کرکے میرے اندر آنے اور بیٹھنے کا بہت اچھا انتظام کرتے۔ بہت احترام سے پیش آتے۔ نظارت اصلاح و ارشاد مقامی کے انچارج مکرم سید احمد علی شاہ صاحب دورہ پر گوجرہ تشریف لائے تو ان سے بھی ملاقات کروائی۔ یہ ملاقات بھی بہت خوشگوار رہی۔ فالحمد للّٰہ

مجلس تحفظ ختم نبوت نے ایک بہت بڑے جلسے کا اہتمام کیا۔ اس جلسہ میں مفتی صاحب موصوف کی تقریر بھی تھی اور جہاں تک مجھے یاد ہے ان کی آخری تقریر تھی۔ ان سے قبل تین چار علماء نے بہت دھواں دار تقاریر کیں اور حسب عادت جماعت احمدیہ کے خلاف خوب گند اچھالا۔ جس کا خلاصہ یہی تھا کہ (نعوذ بااللہ) حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑ کوئی نیا دین لے کر آئے تھے۔ چنانچہ انہوں نے قرآن میں خوب رد بدل کیا حتی کہ کلمہ طیبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کو بھی بدل دیا۔

محتر م شاہ صاحب مفتی گوجرہ کی آخری تقریر تھی۔ جلسہ لائبریری گراؤنڈ میں تھا اور ہم بھی جلسہ گاہ کے قریب ہی بیٹھے جلسہ سن رہے تھے۔ مفتی صاحب کو خطاب کی دعوت دی گئی۔ بہت کثرت سے نعروں کی گونج میں اسٹیج پر تشریف لائے۔ اسلام اور قرآن کی عظمت پر چند فقرے بولے۔ وہ بھی معلوم ہوتا ہے حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریرات سے ہی اخذ کئے گئے تھے۔ ہر فقرے پر خوب داد ملی اور جلسہ گاہ نعروں سے گونجتا رہا۔ چند فقرات کے بعد مفتی صاحب یوں گویا ہوئے کہ ہمارے قرآن کو اس قدر عظمت حاصل ہے، اس قدر عظمت حاصل ہے کہ خود ہمارے خدا نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ نعرے۔ خود ہمارے خدا نے ہمارے قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے۔ نعرے اور اب کسی مائی کے لعل کی جرات نہیں کہ کوئی ایک لفظ بھی بدل سکے۔ نعرے۔

دیکھو! مرزا غلام احمد قادیانی ؑ نے نبوت کا اعلان تو کر دیا لیکن یہ جرات نہ ہوئی کہ قرآن کو بدل سکے۔ نعرے۔ آج جاؤ! کسی قادیانی کے گھر جا کر دیکھ لو تمام قادیانی بھی وہی قرآن پڑھنے پر مجبور ہیں جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ نعرے۔ قرآن تو بہت اونچی بات ہے مرزا صاحب کو تو ہمارا چھوٹا سا کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کو بدلنے کی جرات نہ ہوئی۔ نعرے۔ جاؤ! کسی قادیانی سے مل کر پوچھو۔ سب قادیانی یہی کلمہ طیبہ پڑھنے پر مجبور ہیں۔ نعرے۔

ایک روز مجھے خیال آیا کہ ہم بہت سے دوستوں کو ربوہ دکھانے لے گئے ہیں۔ شاہ صاحب کے ساتھ ایک تعلق تو ہے ان کو کبھی دعوت تک نہیں دی۔

حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے انتقال پر چند ماہ گزرے تھے۔ میں مفتی گوجرہ شاہ صاحب کے پاس گیا۔ انہوں نے بہت خوشی سے میرا استقبال کیا اور اپنے پاس بیٹھنے کو کہا۔ وہاں بیٹھتے ہوئے بہت افسوس کے لہجہ میں، میں نے ان سے شکوہ کیا کہ شاہ صاحب! ہماری اس دوستی کا کیا فائدہ؟ وہ اچانک اتنی بڑی بات سن کر بہت پریشان ہوئے اور نہایت دھیمے انداز میں پوچھا کیا ہؤا ہے مربی صاحب! میں نے پھر اسی انداز میں جواب دیا کہ میرے اور آپ کے تعلق کا کیا فائدہ؟ وہ اور پریشان ہوئے اور بہت دھیمے انداز میں پھر پوچھا کہ کیا ہؤا ہے مربی صاحب ! خاکسار نے عرض کی۔ دیکھیں! شاہ صاحب ہمارے خلیفہ اس دنیا سے کوچ کر گئے اور آپ نے جا کر افسوس تک نہیں کیا۔ آپ کے لئے اگر کوئی مشکل تھی تو مجھے کہتےمیں انتظام کر دیتا۔ یہ سن کر شاہ صاحب موصوف کچھ دیر کسی فکر میں ڈوب گئے اور پھر بولے۔ ہاں ہاں مجھ سے غلطی ہوئی ہے اب آپ پروگرام بنا لیں جا کر افسوس کر آتے ہیں۔ چنانچہ ہم نے امیر ضلع ٹوبہ مکرم چوہدری عبد القادر صاحب مرحوم کے ساتھ مل کر پروگرام بنایا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے اجازت لی اور شاہ صاحب کو ربوہ لے گئے۔

وہاں باتیں کیا ہوئیں اور تقریباً ایک گھنٹہ کی ملاقات میں موصوف کا کیا حال تھا یہ تو موصوف خود یا ہم جو اس ملاقات میں حاضر تھےجانتے ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ موصوف کو امام زمانہ کی بیعت کی توفیق نہ ملی۔

(محمد ادریس شاہد۔ فرانس)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 نومبر 2022

اگلا پڑھیں

دنیا سے بے رغبت اور بےنیاز ہو جاؤ