بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شِفا کیوں نہیں دیتے
دردِ شبِ ہجراں کی جزا کیوں نہیں دیتے
خونِ دلِ وحشی کا صِلا کیوں نہیں دیتے
مِٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے
ہاں نکتہ ورد لاؤ لب و دل کی گواہی
ہاں نغمہ گرو ساز صدا کیوں نہیں دیتے
پیمانِ جُنوں ہاتھوں کو شرمائے گا کب تک
دل والو! گریباں کا پتا کیوں نہیں دیتے
بربادیِ دل جبر نہیں فیض کسی کا
وہ دشمنِ جاں ہے تو بھُلا کیوں نہیں دیتے
(فیض احمد فیض)